قران پاک میں ہے کہ تم اس قران کے بعد کون سی حدیث کا انتظار کر رہے ہو جس پر تم نے ایمان لانا ہے (المرسلات 50) گویا قران کو ہی حدیث کہا جا رہا ہے اور اس کے بعد کسی اور حدیث کی نفی کی جا رہی ہے۔
جہاں تک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اطاعت کا تعلق ہے تو اس کے لیے اللہ تعالی نے اسوہ حسنہ کا لفظ استعمال کیا ہے نہ کہ حدیثوں کا (الاحزاب21) اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی سنت پر چلنے کا حکم دیا ہے نہ کہ اپنی حدیثوں پر (ابوداود 4612)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور اپ کی سنت کا ہمیں کیسے پتہ چلے گا؟ تو اول تو یہ صرف فروعی مسائل میں منحصر نہیں بلکہ اصلاح نفس وقلب وباطن کا نام بھی یے اور فکر آخرت اور فکر دیں و تبدیلی یقین و مقصد بھی ہے تو اس کے لیے قران نے ہمیں یہ کہا ہے کہ تم اس کی پیروی کرو جو ہماری طرف متوجہ ہے (لقمان15) یعنی اللہ والوں کے پیچھے چلو وہ تمہیں نبی کی صحیح صحیح سنت سے جوڑ دیں گے اور اسی طرح قران پاک نے کہا کہ تم انعام یافتہ لوگوں کی پیروی کرو (فاتحہ6) یعنی جو اللہ تعالی کے محبوب بندے ہیں وہ تمہیں نبی پاک ﷺ کے صحہح صحیح اسوہ حسنہ پر چلا دینگے
اور جہاں تک اجتہادی مسائل کا تعلق ہے تو قران پاک میں اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ ہم نے ان میں سے امام بنائے جو کہ ان کی ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے ہیں (الم سجدہ 24) یعنی یہ امام مجتہد ہمیں عقائد و مسائل میں سنت کا صحیح پتہ دیں گے اسی طرح سے اللہ جل شانہ نے قران پاک میں فرمایا کہ تم سارے کے سارے دین کا تفصیلی علم سیکھنے کے لیے مت نکل کھڑے ہو بلکہ ایک بڑے علاقعے کے لوگوں میں سے ایک جماعت نکلے اور وہ دین میں تفقہ یعنی اچھی طرح اور گہری سمجھ بوجھ حاصل کریں اور واپس آکر باقی سب لوگوں کو اللہ کی فرمانبرداری پر ابھاریں اور نافرمانی سے ڈرائیں (توبہ 122) یعنی گویا ان تمام ایات کے اندر ہمیں اہل اللہ، علمائے فقہ، آئمہ مجتہدین اور اولیاء کی اتباع کا حکم دیا جا رہا ہے جن سے ہمیں نصوص کے ساتھ اجتہادی عقائد ومسائل کا علم بھی ملیگا اور اپنی اصلاح نفس و قلب و باطن بھی ہوگی یقین و فکر و مقصد کی اصلاح بھی ہوگی اور اس سب کے مجموعے کا نام سنت اور اسوہ حسنہ ہے
اسی طرح سے نبی پاک ﷺ وسلم نے بھی فرمایا کہ میرے بعد میرے خلفاء راشدین کی اتباع کرنا (ابوداود 4607) اور ایک جگہ فرمایا کہ نجات یافتہ طبقہ وہ ہے جو میرے صحابہ کی جماعت کے ساتھ ہوگا (ابن ماجہ 3992) اور دوسری روایت میں ہے کہ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوگا (ترمذی 2641) پھر خیرالقرون کے تابعین و تبع تابعین علماء کی تعریف کی اور ان کو بہترین زمانے قرار دیا (بخاری 6695)
ان تمام رواہتوں میں ہمیں یعنی عوام الناس کو خلفا، صحابہ، خیرالقرون کے علما کے حوالے کیا جا رہا ہے نا کہ عوام خود حدیثوں کو پڑھ پڑھ کر صرف اختلافی عقائد و مسائل اخذ کرے اور اپنی اصلاح نفس و باطن اور یقین و فکر آخرت و مقصد دعوت کو سیکھنے سے غافل رہے
البتہ اتنی پہچان ضروری ہے کہ جن علما و اہل اللہ کی اتباع کررہے ہیں وہ متبع سنت ہوں باشرح ہوں فرقہ پرست و قبر پرست نا ہوں اولیا سے مانگنے کی بجائے ان کے راستے ہر چل کر اللہ سے لینا سکھانے والے ہوں جادو ٹونے اور حاجت روائی و مشکل کشائی کیلئے استعمال نا کئے جاتے ہوں صرف اصلاح نفس و باطن کرتے ہوں فرقوں کی طرف بلانے والے نہ ہوں بلکہ اللہ سے جوڑنے والے ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل سنت زندگی سے جوڑنے والے ہوں اتنا دیکھنا عام ادمی کے ذمے ہے
جہاں تک تعلق ہے لفظ اہل حدیث کا تو یہ محدثین کے لیے بولا گیا جیسے مفسرین کے لیے اہل تفسیر اور مورخین کے لیے اہل تاریخ بولا جاتا ہے محدثین وہ ہیں جنہوں نے حدیثوں کو جمع کیا جو کہ علم کا ایک شعبہ ہے نہ کہ کوئی فقہی واصلاحی سلسلہ اور یہ حدیثوں کا علم اہل اللہ اولیاء اللہ اور علمائے حق کا خاصہ ہے کہ وہ اسلاف کے تواتر عملی کے ساتھ ساتھ انہیں پڑھ کر عام لوگوں کی راہنمائی کریں سنت زندگی و فکر و مقصد سے متعارف کروا کر اللہ سے جوڑنے کا کام کریں نہ کہ لوگ خود حدیثوں سے دین کو اخذ کریں اور اہل اللہ سے بیزار ہو جائیں یا بغیر اہل اللہ کی پہچان کے ہر ایک کے پیچھے لگ جائیں یہ دونوں چیزیں غلط ہیں
جن ائمہ نے یہ کہا ہے کہ جب حدیث صحیح ہوگی تو یہ ہمارا مذہب ہے تو یہاں حدیث سے مراد بھی سنت ہے کیونکہ خالی سند کا صحیح ہونا کافی نہیں بہت سی صحیح احادیث ہیں لیکن منسوخ و متروک ہیں ۔ صحیح حدیث کا سند کے ساتھ ساتھ معنی کے اعتبار سے صریح ہونا یعنی ذومعنی و مبہم نہ ہونا اور غیر معارض ہونا اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بہا ہونا ضروری ہے اور ایک بھی شرط مفقود ہے تو یہ صحیح نہیں، نص نہیں اجتہادی امر ہے جس میں مجتہد کی تقلید واجب ہے اور ذاتی فہم و ناقصین کی اقتدا حرام ہے خواہ انہوں نے اپنے اوپر قرآن حدیث کے خوشنما لیبل لگائے ہوں اور یہ ساری چیزیں علمائے مجتہدین اور علمائے فقہ ہی جان سکتے ہیں عام علما بھی صرف وعظ و نصیحت کا کام کریں نماز جمعہ نکاح، جنازے اور بچے پڑھائیں خود فقیہ اور مجتہد نا بنیں اور عقائد و مسائل میں ان مجتہد و فقیہ علما کی پیروی کریں چہ جائیکہ عوام الناس حدیثیں پڑھ پڑھ کے جہالت پھیلائیں
اہل حدیث بطور فرقہ یا فقہی سلسلہ دور انگریز تک امت میں کبھی بھی رائج نہیں رہا صرف محدثین کو اہل حدیث کہا جاتا تھا جو کہ اہل قرآن اہل تفسیر اور اہل تاریخ کی طرح علم کا ایک شعبہ تھا ۔ محدثین یا اہلحدیث کے ہاں حدیثوں کو باقاعدہ جمع کرنے کا کام بھی دو صدیوں بعد ہوا ہے جو امام بخاری ؒ سے شروع ہوا جنکی پیدائش 194ھ ہے فقہ اس سے پہلے فقہ مرتب ہوئی ہے جو امام ابوحنیفہ ؒ سے شروع پوئی جو 80ھ میں پیدا ہوئے
حدیث بنیادی طور پر مجتہد و فقیہ علماء کا سورس ہے نا کہ عوام الناس کا اور عام علما اور عوام الناس کا اگر سورس ہے تو صرف وعظ و نصیحت کی حد تک جنکا تعلق فضائل سے پے
حدیث اصل میں دور نبوی ﷺ اور خیرالقرون کے اندر ہونے والے اقوال، افعال اور واقعات کا مجموعہ ہے جن کا تعلق نبی پاک ﷺ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین سے ہے ان می ناسخ منسوخ، عام خاص معمول بہا اور بحالت عذر بطور رخصت چیزیں مکس ہیں ان سے سنت واسوہ اخذ کرنا اور ان کو روحانی اصلاح و باطنی اصلاح کے لیے استعمال کرنا یہ بنیادی طور پر علماء کرام، اہل اللہ اور اولیاء کرام کا کام ہے عوام الناس کا کام ان اہل اللہ، اولیاء اور علماء کی اتباع کرنا ہے اس پہچان کے ساتھ کے وہ فرقہ پرستی نا پھیلاتے ہوئے فروعات میں نا جھگڑتے ہوں شرک کا کاروبار نہ کرتے ہوں
بغیر پہچان کے پر ایک کے پیچھے لگ جانا بریلویت ہے اور عوام الناس کو حدیثوں کا ماہر بنانا اور اولیاء واہل اللہ سے غافل ودور کرنا یہ غیر مقلدیت ہے
برصغیر میں اس وقت جتنے بھی فرقہ واریت ہے اس کا اغاز حدیثوں کے اردو ترجمے سے ہوا جو کہ ایک تقیہ باز شیعہ علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی نے اہل حدیث فرقے میں گھس کے کیا جس کے بعد ایک ہوا چل پڑی کہ ہر ادمی اٹھ کر یہ کہنے لگا کہ حدیثوں میں یہ لکھا ہے اور وہ لکھا ہے جبکہ اس کو حدیثوں کی پوری سمجھ اور فہم حاصل نہیں تھا اسکے دماغ کی رسائی صرف چند اختلافی حدیثوں تک ہوتی ہے۔ اج کل کے دور میں ایسی ایپ بنا دی گئی ہیں کہ جن کے ذریعے سے ہر ادمی ان کو پڑھ پڑھ کر مسائل میں گھستا ہے اور فرقہ واریت پھیلاتا ہے جن میں سے ایک بڑی مثال اج کل مرزا محمد علی انجینیئر بھی ہے جو حدیثوں کو صرف اس لئے استعمال کرتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو مطعون کیا جا سکے صحابہ کی قدر کو کم کیا جاسکے ان کے باہمی اختلافات اور بشری کمزوریوں کو خوب اچھالا جائے اہل بیت اور علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کیا جائے اور لوگوں کو فروعی وتاریخی مسائل میں مبتلا کر کے فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکایا جائے۔
ترجمہ شدہ حدیثوں کو جب عام انسان تفصیلا شروع سے آخر تک پڑھتا ہے تو اسکے ذہن میں کئی خلجان پیدا ہوتے ہیں کئی احادیث میں باہم تعارض ہوتا ہے جس میں تطبیق و ترجیح کے اصول وہ نہیں جانتا بعض اسکو جدید دور کے اخلاقی تقاضوں کے خلاف لگتی ہیں بعض اسکی سمجھ سے اوپر ہوتی ہیں بعض میں اسکو مقدس ہستیوں کا قد بہت چھوٹا لگتا ہے اور وہ خلجان میں مبتلا ہو کر اسے چوں چوں کا مربہ سمجھتا ہے اور بعض لوگ ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے اختلافات سے تنگ آکر بالآخر حدیث سے ہاتھ دھو بیٹھتے یے منکر حدیث بن جاتے ہیں جیسا کہ غلام احمد پرویز اور اسکے متبع طبقے کے ساتھ ہوا۔ واللہ اعلم
جہاں تک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اطاعت کا تعلق ہے تو اس کے لیے اللہ تعالی نے اسوہ حسنہ کا لفظ استعمال کیا ہے نہ کہ حدیثوں کا (الاحزاب21) اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی سنت پر چلنے کا حکم دیا ہے نہ کہ اپنی حدیثوں پر (ابوداود 4612)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور اپ کی سنت کا ہمیں کیسے پتہ چلے گا؟ تو اول تو یہ صرف فروعی مسائل میں منحصر نہیں بلکہ اصلاح نفس وقلب وباطن کا نام بھی یے اور فکر آخرت اور فکر دیں و تبدیلی یقین و مقصد بھی ہے تو اس کے لیے قران نے ہمیں یہ کہا ہے کہ تم اس کی پیروی کرو جو ہماری طرف متوجہ ہے (لقمان15) یعنی اللہ والوں کے پیچھے چلو وہ تمہیں نبی کی صحیح صحیح سنت سے جوڑ دیں گے اور اسی طرح قران پاک نے کہا کہ تم انعام یافتہ لوگوں کی پیروی کرو (فاتحہ6) یعنی جو اللہ تعالی کے محبوب بندے ہیں وہ تمہیں نبی پاک ﷺ کے صحہح صحیح اسوہ حسنہ پر چلا دینگے
اور جہاں تک اجتہادی مسائل کا تعلق ہے تو قران پاک میں اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ ہم نے ان میں سے امام بنائے جو کہ ان کی ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے ہیں (الم سجدہ 24) یعنی یہ امام مجتہد ہمیں عقائد و مسائل میں سنت کا صحیح پتہ دیں گے اسی طرح سے اللہ جل شانہ نے قران پاک میں فرمایا کہ تم سارے کے سارے دین کا تفصیلی علم سیکھنے کے لیے مت نکل کھڑے ہو بلکہ ایک بڑے علاقعے کے لوگوں میں سے ایک جماعت نکلے اور وہ دین میں تفقہ یعنی اچھی طرح اور گہری سمجھ بوجھ حاصل کریں اور واپس آکر باقی سب لوگوں کو اللہ کی فرمانبرداری پر ابھاریں اور نافرمانی سے ڈرائیں (توبہ 122) یعنی گویا ان تمام ایات کے اندر ہمیں اہل اللہ، علمائے فقہ، آئمہ مجتہدین اور اولیاء کی اتباع کا حکم دیا جا رہا ہے جن سے ہمیں نصوص کے ساتھ اجتہادی عقائد ومسائل کا علم بھی ملیگا اور اپنی اصلاح نفس و قلب و باطن بھی ہوگی یقین و فکر و مقصد کی اصلاح بھی ہوگی اور اس سب کے مجموعے کا نام سنت اور اسوہ حسنہ ہے
اسی طرح سے نبی پاک ﷺ وسلم نے بھی فرمایا کہ میرے بعد میرے خلفاء راشدین کی اتباع کرنا (ابوداود 4607) اور ایک جگہ فرمایا کہ نجات یافتہ طبقہ وہ ہے جو میرے صحابہ کی جماعت کے ساتھ ہوگا (ابن ماجہ 3992) اور دوسری روایت میں ہے کہ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوگا (ترمذی 2641) پھر خیرالقرون کے تابعین و تبع تابعین علماء کی تعریف کی اور ان کو بہترین زمانے قرار دیا (بخاری 6695)
ان تمام رواہتوں میں ہمیں یعنی عوام الناس کو خلفا، صحابہ، خیرالقرون کے علما کے حوالے کیا جا رہا ہے نا کہ عوام خود حدیثوں کو پڑھ پڑھ کر صرف اختلافی عقائد و مسائل اخذ کرے اور اپنی اصلاح نفس و باطن اور یقین و فکر آخرت و مقصد دعوت کو سیکھنے سے غافل رہے
البتہ اتنی پہچان ضروری ہے کہ جن علما و اہل اللہ کی اتباع کررہے ہیں وہ متبع سنت ہوں باشرح ہوں فرقہ پرست و قبر پرست نا ہوں اولیا سے مانگنے کی بجائے ان کے راستے ہر چل کر اللہ سے لینا سکھانے والے ہوں جادو ٹونے اور حاجت روائی و مشکل کشائی کیلئے استعمال نا کئے جاتے ہوں صرف اصلاح نفس و باطن کرتے ہوں فرقوں کی طرف بلانے والے نہ ہوں بلکہ اللہ سے جوڑنے والے ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل سنت زندگی سے جوڑنے والے ہوں اتنا دیکھنا عام ادمی کے ذمے ہے
جہاں تک تعلق ہے لفظ اہل حدیث کا تو یہ محدثین کے لیے بولا گیا جیسے مفسرین کے لیے اہل تفسیر اور مورخین کے لیے اہل تاریخ بولا جاتا ہے محدثین وہ ہیں جنہوں نے حدیثوں کو جمع کیا جو کہ علم کا ایک شعبہ ہے نہ کہ کوئی فقہی واصلاحی سلسلہ اور یہ حدیثوں کا علم اہل اللہ اولیاء اللہ اور علمائے حق کا خاصہ ہے کہ وہ اسلاف کے تواتر عملی کے ساتھ ساتھ انہیں پڑھ کر عام لوگوں کی راہنمائی کریں سنت زندگی و فکر و مقصد سے متعارف کروا کر اللہ سے جوڑنے کا کام کریں نہ کہ لوگ خود حدیثوں سے دین کو اخذ کریں اور اہل اللہ سے بیزار ہو جائیں یا بغیر اہل اللہ کی پہچان کے ہر ایک کے پیچھے لگ جائیں یہ دونوں چیزیں غلط ہیں
جن ائمہ نے یہ کہا ہے کہ جب حدیث صحیح ہوگی تو یہ ہمارا مذہب ہے تو یہاں حدیث سے مراد بھی سنت ہے کیونکہ خالی سند کا صحیح ہونا کافی نہیں بہت سی صحیح احادیث ہیں لیکن منسوخ و متروک ہیں ۔ صحیح حدیث کا سند کے ساتھ ساتھ معنی کے اعتبار سے صریح ہونا یعنی ذومعنی و مبہم نہ ہونا اور غیر معارض ہونا اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بہا ہونا ضروری ہے اور ایک بھی شرط مفقود ہے تو یہ صحیح نہیں، نص نہیں اجتہادی امر ہے جس میں مجتہد کی تقلید واجب ہے اور ذاتی فہم و ناقصین کی اقتدا حرام ہے خواہ انہوں نے اپنے اوپر قرآن حدیث کے خوشنما لیبل لگائے ہوں اور یہ ساری چیزیں علمائے مجتہدین اور علمائے فقہ ہی جان سکتے ہیں عام علما بھی صرف وعظ و نصیحت کا کام کریں نماز جمعہ نکاح، جنازے اور بچے پڑھائیں خود فقیہ اور مجتہد نا بنیں اور عقائد و مسائل میں ان مجتہد و فقیہ علما کی پیروی کریں چہ جائیکہ عوام الناس حدیثیں پڑھ پڑھ کے جہالت پھیلائیں
اہل حدیث بطور فرقہ یا فقہی سلسلہ دور انگریز تک امت میں کبھی بھی رائج نہیں رہا صرف محدثین کو اہل حدیث کہا جاتا تھا جو کہ اہل قرآن اہل تفسیر اور اہل تاریخ کی طرح علم کا ایک شعبہ تھا ۔ محدثین یا اہلحدیث کے ہاں حدیثوں کو باقاعدہ جمع کرنے کا کام بھی دو صدیوں بعد ہوا ہے جو امام بخاری ؒ سے شروع ہوا جنکی پیدائش 194ھ ہے فقہ اس سے پہلے فقہ مرتب ہوئی ہے جو امام ابوحنیفہ ؒ سے شروع پوئی جو 80ھ میں پیدا ہوئے
حدیث بنیادی طور پر مجتہد و فقیہ علماء کا سورس ہے نا کہ عوام الناس کا اور عام علما اور عوام الناس کا اگر سورس ہے تو صرف وعظ و نصیحت کی حد تک جنکا تعلق فضائل سے پے
حدیث اصل میں دور نبوی ﷺ اور خیرالقرون کے اندر ہونے والے اقوال، افعال اور واقعات کا مجموعہ ہے جن کا تعلق نبی پاک ﷺ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین سے ہے ان می ناسخ منسوخ، عام خاص معمول بہا اور بحالت عذر بطور رخصت چیزیں مکس ہیں ان سے سنت واسوہ اخذ کرنا اور ان کو روحانی اصلاح و باطنی اصلاح کے لیے استعمال کرنا یہ بنیادی طور پر علماء کرام، اہل اللہ اور اولیاء کرام کا کام ہے عوام الناس کا کام ان اہل اللہ، اولیاء اور علماء کی اتباع کرنا ہے اس پہچان کے ساتھ کے وہ فرقہ پرستی نا پھیلاتے ہوئے فروعات میں نا جھگڑتے ہوں شرک کا کاروبار نہ کرتے ہوں
بغیر پہچان کے پر ایک کے پیچھے لگ جانا بریلویت ہے اور عوام الناس کو حدیثوں کا ماہر بنانا اور اولیاء واہل اللہ سے غافل ودور کرنا یہ غیر مقلدیت ہے
برصغیر میں اس وقت جتنے بھی فرقہ واریت ہے اس کا اغاز حدیثوں کے اردو ترجمے سے ہوا جو کہ ایک تقیہ باز شیعہ علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی نے اہل حدیث فرقے میں گھس کے کیا جس کے بعد ایک ہوا چل پڑی کہ ہر ادمی اٹھ کر یہ کہنے لگا کہ حدیثوں میں یہ لکھا ہے اور وہ لکھا ہے جبکہ اس کو حدیثوں کی پوری سمجھ اور فہم حاصل نہیں تھا اسکے دماغ کی رسائی صرف چند اختلافی حدیثوں تک ہوتی ہے۔ اج کل کے دور میں ایسی ایپ بنا دی گئی ہیں کہ جن کے ذریعے سے ہر ادمی ان کو پڑھ پڑھ کر مسائل میں گھستا ہے اور فرقہ واریت پھیلاتا ہے جن میں سے ایک بڑی مثال اج کل مرزا محمد علی انجینیئر بھی ہے جو حدیثوں کو صرف اس لئے استعمال کرتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو مطعون کیا جا سکے صحابہ کی قدر کو کم کیا جاسکے ان کے باہمی اختلافات اور بشری کمزوریوں کو خوب اچھالا جائے اہل بیت اور علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کیا جائے اور لوگوں کو فروعی وتاریخی مسائل میں مبتلا کر کے فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکایا جائے۔
ترجمہ شدہ حدیثوں کو جب عام انسان تفصیلا شروع سے آخر تک پڑھتا ہے تو اسکے ذہن میں کئی خلجان پیدا ہوتے ہیں کئی احادیث میں باہم تعارض ہوتا ہے جس میں تطبیق و ترجیح کے اصول وہ نہیں جانتا بعض اسکو جدید دور کے اخلاقی تقاضوں کے خلاف لگتی ہیں بعض اسکی سمجھ سے اوپر ہوتی ہیں بعض میں اسکو مقدس ہستیوں کا قد بہت چھوٹا لگتا ہے اور وہ خلجان میں مبتلا ہو کر اسے چوں چوں کا مربہ سمجھتا ہے اور بعض لوگ ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے اختلافات سے تنگ آکر بالآخر حدیث سے ہاتھ دھو بیٹھتے یے منکر حدیث بن جاتے ہیں جیسا کہ غلام احمد پرویز اور اسکے متبع طبقے کے ساتھ ہوا۔ واللہ اعلم