- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,598
- پوائنٹ
- 791
عن عمر (رضي الله عنه )
ذكر عنده أبو بكر فبكى وقال: وددت أن عملي كله مثل عمله يوما واحدا من أيامه وليلة واحدة من لياليه أما ليلته فليلة سار مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الغار فلما انتهينا إليه قال: والله لا تدخله حتى أدخل قبلك فإن كان فيه شيء أصابني دونك فدخل فكسحه ووجد في جانبه ثقبا فشق إزاره وسدها به وبقي منها اثنان فألقمها رجليه ثم قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم ادخل
فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم
ووضع رأسه في حجره ونام فلدغ أبو بكر في رجله من الجحر ولم يتحرك مخافة أن ينتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم فسقطت دموعه على وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ما لك يا أبا بكر؟» قال: لدغت فداك أبي وأمي فتفل رسول الله صلى الله عليه وسلم فذهب ما يجده ثم انتقض عليه وكان سبب موته وأما يومه فلما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ارتدت العرب وقالوا: لا نؤدي زكاة. فقال: لو منعوني عقالا لجاهدتهم عليه. فقلت: يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم تألف الناس وارفق بهم. فقال لي: أجبار في الجاهلية وخوار في الإسلام؟ إنه قد انقطع الوحي وتم الدين أينقص وأنا حي؟ . رواه رزين
مشکاۃ المصابیح باب مناقب ابو بکر رضی اللہ عنہ
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے سامنے حضرت ابوبکر صدیق کا ذکر چھڑ گیا تو وہ
(ان کی پاکیزہ وبلند قدر زندگی کو یاد کر کے ) رونے لگے اور پھر بولے : مجھ کو آرزو ہے کہ کاش میری پوری زندگی کے اعمال (قدروقیمت کے اعتبار سے ) حضرت ابوبکر کے صرف اس ایک دن کے عمل کے برابر ہوجاتے جو (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانہ حیات کے ) دنوں میں سے ایک دن تھا ۔ یا اس ایک رات کے عمل کے برابر ہوجاتے جو (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانہ حیات کی ) راتوں میں سے ایک رات تھی یہ ان کی اس رات کا ذکر ہے جس میں وہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ سفر ہجرت پر روانہ ہوئے اور غار ثور ان کی پہلی منزل بنا تھا ، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) اور حضرت ابوبکر اس غار میں پر پہنچے ( اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے غار میں داخل ہونا چاہا ) تو حضرت ابوبکر نے کہا : اللہ کے واسطے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس غار میں ابھی داخل نہ ہوں پہلے میں اندر جاتا ہوں تاکہ اگر اس میں کوئی موذی چیز (جیسے سانپ بچھو وغیرہ ) ہو اور وہ ضرر پہنچائے تو مجھ کو ضرر پہنچائے نہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ۔ اور یہ (کہہ کر ) حضرت ابوبکر (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے غار میں داخل ہوگئے اور اس کو جھاڑ جھٹک کر صاف کیا ۔ انہوں نے غار کے ایک کونے میں کئی سوراخ بھی دیکھے تھے ان میں سے بیشتر سوراخوں کو انہوں نے اپنے تہبند سے چیتھڑے پھاڑ کر بند کردیا اور جو دو سوراخ (اس وجہ سے ) باقی رہ گئے تھے (ان کو بند کرنے کے لئے تہبند کے چیتھڑوں میں سے کچھ نہیں بچا تھا ) ان کے منہ میں وہ اپنے دونوں پاؤں (کی ایڑیاں ) اڑا کر بیٹھ گئے (تاکہ کسی زہر یلے اور موذی جانور کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہ رہے ) پھر انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عرض کیا کہ اب اندر تشریف لے آئیے !چنانچہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) غار میں داخل ہوئے اور اپنا سر مبارک حضرت ابوبکر کی گود میں رکھ کر سوگئے ، اسی دوران ایک سوراخ کے اندر سے سانپ نے حضرت ابوبکر کے پاؤں کو کاٹ لیا لیکن (وہ اسی طرح بیٹھے رہے اور ) اس ڈر سے اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کی کہ کہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) جاگ نہ جائیں ۔ آخر (شدت تکلیف سے ) ان کی آنکھوں سے بےاختیار آنسونکل گئے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چہرہ مبارک پر گرے (جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آنکھ کھل گئی ) آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے (ان آنکھوں میں آنسو دیکھے تو ) پوچھا : ابوبکر ! یہ تمہیں کیا ہوا ؟ انہوں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے (کسی زہریلے جانور یعنی سانپ نے ) کاٹ لیا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے (یہ سن کر ) اپنا مبارک لعاب دہن (ان کے پاؤں میں کاٹی ہوئی جگہ پر) ٹپکا دیا اور (تکلیف واذیت کی ) جو کیفیت ان کو محسوس ہورہی وہ فورا جاتی رہی ۔ اسی سانپ کا وہ زہر تھا جو حضرت ابوبکر پر دوبارہ اثر انداز ہوا اور اسی کے سبب ان کی موت واقع ہوئی اور ان کا وہ دن (کہ جس کے بارے میں میری آرزو ہے کہ کاش میرے زندگی بھر کے اعمال ان کے صرف اس دن کے عمل کے برابر قرارپائیں ) وہ دن تھا جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس دنیا سے رحلت فرمائی تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قصہ کی تحقیق
رواها البيهقي في " دلائل النبوة " ( 2 / 476 – 477 ) من طريق عبد الرحمن بن إبراهيم الراسبي ، قال : حدثني فرات بن السائب ، عن ميمون بن مهران ، عن ضبة بن محصن العبري ، به .‘‘وهذا القصة موضوعة ؛ عبد الرحمن بن إبراهيم الراسبي ضعفه الدارقطني وأبو نعيم ،
اس قصہ کو امام بیہقی ؒنے ۔۔دلائل النبوۃ ۔۔میں مذکورہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے ؛اور یہ قصہ موضوع ( جھوٹا ، من گھڑت )ہے ، سند میں موجود عبد الرحمن بن ابراہیم کو امام دارقطنی اور ابو نعیم نے ضعیف قرار دیا ہے، اور امام الذہبی ؒ ’’ میزان الاعتدال ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
وقال الذهبي في " الميزان " ( 2 / 454 ) : " وأتى عن فرات بن السائب ، عن ميمون بن مهران ، عن ضبة بن محصن العبري ، عن أبي موسى بقصة الغار ، وهو شبه وضع الطرقية " ، وأقره ابن حجر في " اللسان " ( 4 / 397 ) .
و فرات بن السائب ، وقال ابن معين : " ليس بشيء " ، وقال البخاري : " منكر الحديث "، وقال أبو حاتم : " ضعيف الحديث ، منكر الحديث " ، وتركه النسائي والدارقطني ( الميزان 4 / 503 – 504 واللسان 6 / 9 – 10 ) .
وروى الحاكم في " المستدرك " ( 3 / 6 ) من طريق عفان بن مسلم ، ثنا السري بن يحيى ، ثنا محمد بن سيرين ، عن عمر ، به ، وليس فيه ذكر الثعبان .
قال الحاكم : " هذا حديث صحيح الإسناد على شرط الشيخين ، لولا إرسال فيه " ، ووافقه الذهبي .
قلت : لم يخرج مسلم للسري بن يحيى ، وهذا مرسل كما قالا .
وقد وهم السخاوي في " فتح المغيث " ( 4 / 118 ) في عزوه للبيهقي في " الدلائل " من هذا الطريق .
ذكر عنده أبو بكر فبكى وقال: وددت أن عملي كله مثل عمله يوما واحدا من أيامه وليلة واحدة من لياليه أما ليلته فليلة سار مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الغار فلما انتهينا إليه قال: والله لا تدخله حتى أدخل قبلك فإن كان فيه شيء أصابني دونك فدخل فكسحه ووجد في جانبه ثقبا فشق إزاره وسدها به وبقي منها اثنان فألقمها رجليه ثم قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم ادخل
فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم
ووضع رأسه في حجره ونام فلدغ أبو بكر في رجله من الجحر ولم يتحرك مخافة أن ينتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم فسقطت دموعه على وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ما لك يا أبا بكر؟» قال: لدغت فداك أبي وأمي فتفل رسول الله صلى الله عليه وسلم فذهب ما يجده ثم انتقض عليه وكان سبب موته وأما يومه فلما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ارتدت العرب وقالوا: لا نؤدي زكاة. فقال: لو منعوني عقالا لجاهدتهم عليه. فقلت: يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم تألف الناس وارفق بهم. فقال لي: أجبار في الجاهلية وخوار في الإسلام؟ إنه قد انقطع الوحي وتم الدين أينقص وأنا حي؟ . رواه رزين
مشکاۃ المصابیح باب مناقب ابو بکر رضی اللہ عنہ
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے سامنے حضرت ابوبکر صدیق کا ذکر چھڑ گیا تو وہ
(ان کی پاکیزہ وبلند قدر زندگی کو یاد کر کے ) رونے لگے اور پھر بولے : مجھ کو آرزو ہے کہ کاش میری پوری زندگی کے اعمال (قدروقیمت کے اعتبار سے ) حضرت ابوبکر کے صرف اس ایک دن کے عمل کے برابر ہوجاتے جو (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانہ حیات کے ) دنوں میں سے ایک دن تھا ۔ یا اس ایک رات کے عمل کے برابر ہوجاتے جو (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانہ حیات کی ) راتوں میں سے ایک رات تھی یہ ان کی اس رات کا ذکر ہے جس میں وہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ سفر ہجرت پر روانہ ہوئے اور غار ثور ان کی پہلی منزل بنا تھا ، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) اور حضرت ابوبکر اس غار میں پر پہنچے ( اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے غار میں داخل ہونا چاہا ) تو حضرت ابوبکر نے کہا : اللہ کے واسطے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس غار میں ابھی داخل نہ ہوں پہلے میں اندر جاتا ہوں تاکہ اگر اس میں کوئی موذی چیز (جیسے سانپ بچھو وغیرہ ) ہو اور وہ ضرر پہنچائے تو مجھ کو ضرر پہنچائے نہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ۔ اور یہ (کہہ کر ) حضرت ابوبکر (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے غار میں داخل ہوگئے اور اس کو جھاڑ جھٹک کر صاف کیا ۔ انہوں نے غار کے ایک کونے میں کئی سوراخ بھی دیکھے تھے ان میں سے بیشتر سوراخوں کو انہوں نے اپنے تہبند سے چیتھڑے پھاڑ کر بند کردیا اور جو دو سوراخ (اس وجہ سے ) باقی رہ گئے تھے (ان کو بند کرنے کے لئے تہبند کے چیتھڑوں میں سے کچھ نہیں بچا تھا ) ان کے منہ میں وہ اپنے دونوں پاؤں (کی ایڑیاں ) اڑا کر بیٹھ گئے (تاکہ کسی زہر یلے اور موذی جانور کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہ رہے ) پھر انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عرض کیا کہ اب اندر تشریف لے آئیے !چنانچہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) غار میں داخل ہوئے اور اپنا سر مبارک حضرت ابوبکر کی گود میں رکھ کر سوگئے ، اسی دوران ایک سوراخ کے اندر سے سانپ نے حضرت ابوبکر کے پاؤں کو کاٹ لیا لیکن (وہ اسی طرح بیٹھے رہے اور ) اس ڈر سے اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کی کہ کہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) جاگ نہ جائیں ۔ آخر (شدت تکلیف سے ) ان کی آنکھوں سے بےاختیار آنسونکل گئے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چہرہ مبارک پر گرے (جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آنکھ کھل گئی ) آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے (ان آنکھوں میں آنسو دیکھے تو ) پوچھا : ابوبکر ! یہ تمہیں کیا ہوا ؟ انہوں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے (کسی زہریلے جانور یعنی سانپ نے ) کاٹ لیا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے (یہ سن کر ) اپنا مبارک لعاب دہن (ان کے پاؤں میں کاٹی ہوئی جگہ پر) ٹپکا دیا اور (تکلیف واذیت کی ) جو کیفیت ان کو محسوس ہورہی وہ فورا جاتی رہی ۔ اسی سانپ کا وہ زہر تھا جو حضرت ابوبکر پر دوبارہ اثر انداز ہوا اور اسی کے سبب ان کی موت واقع ہوئی اور ان کا وہ دن (کہ جس کے بارے میں میری آرزو ہے کہ کاش میرے زندگی بھر کے اعمال ان کے صرف اس دن کے عمل کے برابر قرارپائیں ) وہ دن تھا جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس دنیا سے رحلت فرمائی تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قصہ کی تحقیق
رواها البيهقي في " دلائل النبوة " ( 2 / 476 – 477 ) من طريق عبد الرحمن بن إبراهيم الراسبي ، قال : حدثني فرات بن السائب ، عن ميمون بن مهران ، عن ضبة بن محصن العبري ، به .‘‘وهذا القصة موضوعة ؛ عبد الرحمن بن إبراهيم الراسبي ضعفه الدارقطني وأبو نعيم ،
اس قصہ کو امام بیہقی ؒنے ۔۔دلائل النبوۃ ۔۔میں مذکورہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے ؛اور یہ قصہ موضوع ( جھوٹا ، من گھڑت )ہے ، سند میں موجود عبد الرحمن بن ابراہیم کو امام دارقطنی اور ابو نعیم نے ضعیف قرار دیا ہے، اور امام الذہبی ؒ ’’ میزان الاعتدال ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
وقال الذهبي في " الميزان " ( 2 / 454 ) : " وأتى عن فرات بن السائب ، عن ميمون بن مهران ، عن ضبة بن محصن العبري ، عن أبي موسى بقصة الغار ، وهو شبه وضع الطرقية " ، وأقره ابن حجر في " اللسان " ( 4 / 397 ) .
و فرات بن السائب ، وقال ابن معين : " ليس بشيء " ، وقال البخاري : " منكر الحديث "، وقال أبو حاتم : " ضعيف الحديث ، منكر الحديث " ، وتركه النسائي والدارقطني ( الميزان 4 / 503 – 504 واللسان 6 / 9 – 10 ) .
وروى الحاكم في " المستدرك " ( 3 / 6 ) من طريق عفان بن مسلم ، ثنا السري بن يحيى ، ثنا محمد بن سيرين ، عن عمر ، به ، وليس فيه ذكر الثعبان .
قال الحاكم : " هذا حديث صحيح الإسناد على شرط الشيخين ، لولا إرسال فيه " ، ووافقه الذهبي .
قلت : لم يخرج مسلم للسري بن يحيى ، وهذا مرسل كما قالا .
وقد وهم السخاوي في " فتح المغيث " ( 4 / 118 ) في عزوه للبيهقي في " الدلائل " من هذا الطريق .