السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاته
ایک بہن نے پوچھا ہے کہ وہ اہل حدیث ہونے سے قبل یہ دعا پڑھا کرتی تھیں کیا یہ دعا صحیح حدیث سے ثابت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ دعاء درج ذیل حدیث میں منقول ہے ، تخریج و تحقیق کے ساتھ پیش ہے ؛
أخبرنا ابن منيع قال: حدثنا هدبة بن خالد قال: حدثنا الأغلب بن تميم قال: حدثنا الحجاج بن فرافصة عن طلق بن حبيب قال: جاء رجل إلى أبي الدرداء - رضي الله عنه - فقال: يا أبا الدرداء قد احترق بيتك، قال: ما احترق الله عَزَّ وَجَلَّ - لم يكن ليفعل ذلك؛ لكلمات سمعتهن من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من قالها (3) أول نهاره؛ لم تصبه مصيبة حتى يمسي، ومن قالها آخر النهار لم تصبه مصيبة حتى يصبح: "اللهمّ أنت ربي لا إله إلا أنت، عليك توكلت، وأنت رب العرش العظيم، ما شاء الله كان وما لم يشأ لم يكن، لا حول ولا قوّة إلا بالله العلي العظيم، أعلم أنّ الله على كل شيء قدير، وأنّ الله قد أحاط بكلّ شيء علمًا، اللهمّ إنّي أعوذ بك من شرّ نفسي، ومن شرّ كلّ دابة أنت آخذ بناصيتها، إنّ ربّي على صراط مستقيم".
ترجمہ :
ایک شخص سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: ابو درداء تمہارا گھر خاکستر ہو گیا ہے!
تو ابودرداء رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "میرا گھر نہیں جلا، اللہ تعالی میرے گھر کو نہیں جلائے گا؛ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دعا سنی ہے، جو شخص اس دعا کو دن کی ابتدا میں پڑے تو اسے شام تک کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی، اور جو اسے شام کو پڑھے تو اسے صبح تک کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی: "
آگے وہی دعاء نقل کی )
اسے
علامہ أبو بكر أحمد بن محمَّد بن إسحاق۔ المعروف "ابن السُّنِّيِّ" رحمہ اللہ نے اپنی کتاب " عمل اليوم والليلة " :(57) میں،اور امام طبرانی نے " الدعاء " : (343) میں اور امام بیہقی نے :" دلائل النبوة " (7/121) میں اغلب بن تمیم ، حجاج بن فرافصۃ، طلق بن حبیب کی سند سے بیان کیا ہے۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ حدیث ثابت نہیں ہے؛ اس کی سند میں "اغلب "نامی راوی ہے ، جس کے بارے میں :
یحیی بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ليس بشيء "[اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے]
امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: " منكر الحديث "[وہ منکر الحدیث ہے، یعنی سخت ضعیف ہے]" انتہی
" العلل المتناهية " (2/352)
نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے " نتائج الأفكار " (2/401) میں ضعیف قرار دیا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس کی سند سخت ضعیف ہے، اس کی سند میں راوی "اغلب" کے بارے میں امام بخاری وغیرہ کہتے ہیں: " منكر الحديث "[وہ منکر الحدیث ہے] جبکہ حجاج بن فرافصہ بھی کمزور راوی ہے " انتہی
" السلسلة الضعيفة " (6420)
واللہ اعلم۔۔۔
مزید تحقیق کیلئے شیخ البانی ؒ کے شاگرد شیخ ابو اسامہ سلیم الہلالی کی تخریج "عجالة الراغب المتمني " ملاحظہ فرمائیں