کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
آئینِ پاکستان
کالم: چودھری رفاقت علی
29 جولائی 2015
آرٹیکل 2۔ اسلام ریاست کا مذہب ہوگا۔ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہو گا
’’اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام کو مملکت کے سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہو گی اور اس کے لئے کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا اور اس مقصد کے حصول کے لئے، وہ تمام قوانین اسلام کے ڈھانچے میں ڈھالے جائیں گے، جو اسلامی قوانین سے متصادم ہوں گے، تاکہ صحیح معنوں میں اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دیا جا سکے۔ شریعت کورٹ، اسلامی نظریاتی کونسل کو خصوصی طور پر یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ تمام قوانین کا جائزہ لے اور اگر کوئی قانون، ان کی نظر میں اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اس کی تنسیخ کے لئے سفارش کی جائے، تاکہ پارلیمنٹ اس کی تنسیخ کے لئے، قانون وضع کرے‘‘
۔۔۔ آیئے اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس آرٹیکل 2۔ کی اس وقت کیا پوزیشن ہے؟
کہاں تک اس پر عمل درآمد ہوا؟
اور کیا کچھ کرنا باقی ہے؟
۔۔۔ یہ طے ہو گیا کہ اسلام کو مملکت کے سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہو گی اور اس کے لئے کوئی بھی قانون، قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عملی طور پر ایسے ہی ہوا ہے۔ اور کیا مثبت پیش رفت ہوئی ہے؟
مانا کہ کوئی بھی قانون، قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا، لیکن کیا اس بات کی ضرورت اور اہمیت محسوس نہیں کی گئی کہ یہ قانون قرآن و سنت کے مطابق ہی ہو گا اور کیا واقعی تمام آئین کے آرٹیکل کی اس شق 2 پر عمل ہوا ہے یا نہیں
۔۔۔ اگر نہیں ہوا تو اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے گا۔ پارلیمنٹ کو یا عدلیہ کو؟
چونکہ قانون تو پارلیمنٹ نے ہی بنانا ہے اور اس کی تشریح کا کام عدلیہ نے کرنا ہے۔ کیا اگر پارلیمنٹ قرآن و سنت کے مطابق سرے سے قانون ہی نہیں بناتی تو پھر عدلیہ۔ اس کی تشریح کیسے کرے گی؟
اس کی وضاحت بھی پارلیمنٹ ہی کو کرنی چاہیے۔ بالفاظِ دیگر کیا ایسی صورت حال میں، عدلیہ اس بات پر کہ
۔۔۔ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے مطابق قانون بنانے کے لئے
۔۔۔ اس کا بل ہی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کرتی تو اس صورت میں عدلیہ کا کیا کردار ہوگا؟
ذرا سوچئے؟
کیا عدلیہ سوموٹو Suo Motu نوٹس لے کر ، پارلیمنٹ کو پورے آئین کو اسلامی بنانے
۔۔۔ گویا قرآن و سنت میں ڈھالنے کا حکم دے سکتی ہے؟
اگر حکم دے سکتی ہے تو ابھی تک ایسے کیوں نہیں ہوا؟
اس پر بھی ذرا سوچئے؟
اعلیٰ عدلیہ کا سوموٹو Suo Motu نوٹس لینا تو کئی ایک غیر معمولی باتوں پر ہی ہوتا ہے۔ کیا آئین کو قرآن و سنت کا جامہ پہنانے سے زیادہ کوئی اور بھی غیر معمولی کام ہو سکتا ہے؟ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لئے، وہ تمام قوانین، اسلام کے سانچے میں ڈھالے جائیں گے جو اسلامی قوانین سے متصادم ہوں گے، تاکہ صحیح معنوں میں اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دیا جا سکے، جس کے لئے شریعت کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل کو خصوصی طور پر، یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ تمام قوانین کا جائزہ لے اور اگر کوئی قانون، ان کی نظر میں ، اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اس کی تنسیخ کے لئے سفارش کی جائے، تاکہ پارلیمنٹ اس کی تنسیخ کے لئے قانون وضع کرے۔ آیئے ذرا اس کا معروضی طور پر جائزہ لیتے ہیں ۔
کیا اس مقصد کے حصول کے لئے وہ تمام قوانین اسلام کے سانچے میں ڈھالے جا چکے ہیں، جو اسلامی قوانین سے متصادم ہیں۔ یہ کام شریعت کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے خصوصی طور پر سپرد کیا گیا کہ وہ تمام قوانین کا جائزہ لے جو اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہ رکھتے ہوں، تاکہ اس کی تنسیخ کے لئے، پارلیمنٹ کو سفارش کی جا سکے اور قانون (اسلامی) وضع کیا جا سکے۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شریعت کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل جس میں جید علماء اور بڑے بڑے قانون دان موجود ہیں۔ ان کی حیثیت صرف اس بات کی ہے کہ وہ کسی غیر اسلامی قانون کو، اسلامی قانون بنانے کی صرف سفارش ہی کر سکتے ہیں۔ انہیں اسلامی قانون بنانے کا اختیار ہی نہیں۔ یہ بات انتہائی قابل غور ہے کہ ایک باڈی جو جید علماء اور بڑے بڑے قانون دانوں پر مشتمل ہو وہ تو صرف غیر اسلامی قانون کو، اسلامی قانون بنانے کی سفارش ہی کر سکے اور ایسی پارلیمنٹ جس میں اکثریت ، برائے نام پڑھے لکھے، پارلیمنٹیرین کی ہو۔۔۔ وہ زیادہ بااختیار ہوں اور علماء کی تحریر کو قانون کا جامہ پہنانے کے لئے اپنی فہم و فراست اور عقل سے کام لیتے ہوئے اس غیر اسلامی قانون کو چاہے تو اسلامی قانون وضع کرے۔ چاہے تو اسے مسترد کر دے۔
میری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ ایک عالم کی فضیلت کے بارے میں جو نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ
’’العلماء ورثہ الانبیاء ‘‘
(علماء النبیاء کے وارث ہیں)۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ انبیا کی وراثت کیا ہوا کرتی ہے۔۔۔
وہ علم ہی تو ہے درھم و دینار تو نہیں۔ ایسی صورت حال میں کیا ہی اچھا ہوتا کہ شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قانون کا درجہ ہی دے دیا جائے۔۔۔
چونکہ قانون وضع کرنے کا فورم پارلیمنٹ ہی ہے۔ اس میں شرعی قانون کے بل کو رسمی طور پر ٹیبل کیا جائے اور بغیر کسی مزید بحث و تمحیص کے اسے اسلامی قانون کا درجہ دیا جائے، کیونکہ عالم تو وہی ہوگا، جس کے پاس قرآن و سنت کا علم ہوگا۔ دوسرے شخص کو جس کے پاس قرآن و سنت کاعلم نہیں۔ اسے ہم عالم کیسے مان لیں؟
مزید برآں قرآن و سنۃ کا علم تو آپؐ سے چلتے چلتے، صحابہ کرامؓ سے ہوتا ہوا تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کی نظروں کو ٹھنڈا کرتے ہوئے یہاں آج ہمارے علماء کرام کے پاس پہنچا ہے۔ علماء کرام اور ان کے علم کی قدردانی اور قدرشناسی کا اظہار، اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ان کی بات کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ ، اسلامی قانون وضع کرے۔ گو یہ تمام کام پارلیمنٹ کے ذریعہ ہی ہوں گے۔ آئین پاکستان اس بات کا متقاضی ہے، لیکن اس بات کو اس میں شامل کیا جا سکتا ہے کہ شریعت کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل کی عرق ریزی کے بعد۔۔۔ غیر اسلامی قانون کو اسلامی قانون بنانے میں کوئی حجت باقی نہیں رہنی چاہیے۔
قانون کا وضع کرنا اور قانون کی تنسیخ کرنا، پارلیمنٹ کا ہی کام ہے، لیکن شریعت کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل کی نہ صرف سفارشات، بلکہ ان کو حتمی اسلامی قانون کا درجہ دینے کے لئے ۔۔۔ پارلیمنٹ میں رسمی طور پر پیش کر کے اسلامی قوانین وضع کئے جائیں۔ ہم سب مسلمان ہیں۔ ہمیں اپنے حقیقی مسلمان ہونے کا عملی اور حقیقی ثبوت دینا ہوگا۔ اس وقت پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے ہوئے تقریباً 68 برس ہو چکے ہیں اور جس آئین کی ہم بات کر رہے ہیں۔ اس کو معرضِ وجود میں آئے ہوئے بھی 42 برس بیت چکے ہیں۔ خود ہی انصاف کیجئے کہ اور کتنے برس قوم کو انتظار کرنا پڑے گا؟ کہ اسلامی آئین، جس کی بنیاد قرآن و سنت پر ہو،وجود میں آئے: شرعی قوانین کی اپنی برکات ہیں، جو لوگ عقل رکھتے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ جس ہستی نے یہ قانون ہمیں دیا ہے، وہ تمام کائنات کا مالک ہے، خالق ہے، رازق ہے، علیم ہے، خبیر ہے، علیم بذاتِ الصدور ہے۔۔۔ وہ باتیں جو ہمارے سینوں کے اندر چھپی ہوتی ہیں اور ان کو ہم اپنی زبان پر نہیں لاتے، اس سے بھی وقف ہے۔
آئین کو بنانے والا بھی وہ ہے اور اس کی زندگی سنوارنے کے لئے اس کے لئے قانون بنانے والا بھی وہ ہے۔ جس کا نام اللہ تعالیٰ، جس نے اپنے رسولؐ کے ذریعے سے شریعت محمدیؐ پوری امت کے قیامت تک کے آنے والے انسانوں کو عطا فرمائی۔ ہمیں تو اللہ رب العزت اور رسول اکرم ﷺ کا دن رات شکر ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے ہماری زندگی کو گزارنے اور سنوارنے کے لئے۔۔۔ پیارا نظامِ زندگی عطا فرمایا۔۔۔ آج اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں میں اضافہ فرمائیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لئین شکر تم لا زیرنکم
(شکر ادا کریں گے تو نعمتیں بڑھیں گی)
اس کے ساتھ ہی ارشاد فرمایا:
لئین کفر تم انی عذاب کشیدید
(جو کفرانِ نعمت کرے گا تو تحقیق میرا عذاب بڑا سخت ہے)
یہاں پر انسان کو متنبہ بھی کر دیا گیا۔ ہم نے ہر حال میں اللہ رب العزت کا شکر بجا لانا ہے اور اس کا شکر ادا کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اس کے حکم پر من و عن عمل کیا جائے۔ آیئے آج فیصلہ کریں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننا ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں کفرانِ نعمت سے محفوظ فرمائے۔ آمین!
ح