محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
آج بہانے نہ بناؤ
ابھی گرمی کا موسم چل رہا ہے۔
آج سخت گرمی ہے اور لو بھی چل رہی ہے۔
اس گرمی اور لو سے بچنے کیلئے ہر شخص پوری تدبیر کرتا ہے۔
سر ٹوپی، عمامہ یا رومال سے ڈھانک کر پورے بندوبست کے ساتھ باہر نکلتا ہے۔
ایسی گرمیوں میں گاڑیوں، بسوں اور ٹرینوں میں ایئر کنڈیشن چلا کر سفر کیا جاتا ہے۔
گھر میں گرمی سے بچنے کیلئے ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق پنکھے، ایئر کولر، ایئر کنڈیشن وغیرہ سے ٹھنڈی ہواؤں کی حصول کا انتطام کرتا ہے۔ موسمی پھل فروٹ کھاتا ہے اور ٹھنڈے پانی اور مشروبات سے پیاس بجھاتا ہے۔
دنیا کی اس وقتی گرمی سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال بچانے کیلئے ہم ہر طرح کی انتظام کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمیشہ کی جس گرمی سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو بچانے کا ہمارے خالق نے ہمیں حکم دیا ہے اس کے بارے میں نہیں سوچتے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (6) سورة التحريم
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں‘‘۔(6) سورة التحريم
اب ذرا سوچئے! جس کا ایدھن پتھر ہوں گے اس آگ کی گرمی کی شدت کیسی ہوگی؟
ارشادِ باری تعالٰی نے ہے:
۔ ۔ ۔ وَقَالُوا لَا تَنفِرُوا فِي الْحَرِّ ۗ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ (81) سورۃ توبہ
’’اور (دوسروں کو بھی) کہنے لگے کہ تم گرمی میں مت نکلو، کہہ دیجئے کہ جہنم کی آگ اس سے بھی زیادہ گرم ہے (سو تعجب ہے کہ اس گرمی سے تو بچتے ہو اور جہنم میں جانے کا خود سامان کر رہے ہو کہ کفر و مخالفت کو نہیں چھوڑتے) کیا خوب ہوتا اگر وہ سمجھتے‘‘۔(81) سورۃ توبہ
پھر جہنم کی اس آگ کی ہلاکت خیزی کا ذکر کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”تمہاری (دنیا کی) آگ جہنم کی آگ کے مقابلے میں (اپنی گرمی اور ہلاکت خیزی میں) سترواں (70/1) حصہ ہے“۔
کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! (کفار اور گنہگاروں کے عذاب کے لیے) یہ ہماری دنیا کی آگ بھی بہت تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا کی آگ کے مقابلے میں جہنم کی آگ انہتر (69) گنا بڑھ کر ہے‘‘۔ (صحيح البخاري: 3265)
دنیا کی اس چند ماہ کی معمولی دھوپ اور گرمی انسان سے برداشت نہیں ہوتی لیکن یومِ آخرت کی گرمی اور دوزخ کی آگ کی وہ پرواہ نہیں کرتا۔آج کتنے لوگ ہیں جو رشوت، کرپشن اور حرام کی کمائی سے تمام دنیاوی تر راحت کا سامان کئے ہوئے ہیں۔ ان کے مکانات حرام کی کمائی سے بنی ہوئی ہیں اور ان میں پنکھے، ایئر کولر، ایئر کنڈیشن وغیرہ سے نکلنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں سب حرام کی کمائی سے لگی ہوئی ہیں۔ ایسے لوگ کرپشن، رشوت اور حرام کی کمائی سے اس دنیا کی گرمی سے تو بچ سکتے ہیں لیکن کیا قیامت کے دن کی گرمی اور جہنم کی آگ سے بھی بچ سکیں گے؟
آج جب ان حرام کمانے والوں سے کہا جاتا ہے کہ دوسروں کے حقوق غصب نہ کرو، رشوت نہ لو، کرپشن نہ کرو، حرام کمانا چھوڑ دو کیونکہ یہ سب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کے کام ہیں جو کہ کفر ہیں۔ تو ان کے پاس اپنی حرام کمائی کے جواز میں بہت سارے بہانے ہوتے ہیں۔ اسی طرح قیامت کے دن جب انہیں جہنم میں ڈالنے کا فیصلہ سنایا جائے گا تب بھی یہ لوگ بہت سارے بہانے بنا کر اس سے بچنا چاہیں گے، لیکن اس وقت فرمایا جائے گا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (7) سورة التحريم
’’اے لوگو! جو کفر ( رشوت خوری، کرپشن، شدید گناہ، بڑا جرم) کرتے ہو، آج بہانے نہ بناؤ، تمہیں صرف تمہارے کرتوت کا بدلہ دیا جارہا ہے‘‘۔(7) سورة التحريم
کاش لوگ آج اس گرمی میں قیامت کے دن کی گرمی اور جہنم کی آگ کا کچھ اندازہ کرتے تو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کو شش کرتے، رشوت، کرپشن اور حرام خوری سے باز آجاتے اور اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی چھوڑ دیتے لیکن افسوس کہ لوگ ایسا نہیں کرتے اور بہانے بناتے ہیں۔
کاش لوگ سمجھتے کہ ان کا یہ بہانا بنانا انہیں جلد ہی جہنم میں لے جائے گا۔
للہ تعالٰی ہمیں اس روش سے محفوظ رکھے، ہر حرام کام سے اور ہر طرح کی حرام کمائی سے بچائے رکھے، دنیا و آخرت کی سردی گرمی سے اپنی پناہ میں رکھے، جہنم کی آگ سے بچائے اور جنت کا وارث بنائے۔ آمین
تحریر: #محمد_اجمل_خان
۔
ابھی گرمی کا موسم چل رہا ہے۔
آج سخت گرمی ہے اور لو بھی چل رہی ہے۔
اس گرمی اور لو سے بچنے کیلئے ہر شخص پوری تدبیر کرتا ہے۔
سر ٹوپی، عمامہ یا رومال سے ڈھانک کر پورے بندوبست کے ساتھ باہر نکلتا ہے۔
ایسی گرمیوں میں گاڑیوں، بسوں اور ٹرینوں میں ایئر کنڈیشن چلا کر سفر کیا جاتا ہے۔
گھر میں گرمی سے بچنے کیلئے ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق پنکھے، ایئر کولر، ایئر کنڈیشن وغیرہ سے ٹھنڈی ہواؤں کی حصول کا انتطام کرتا ہے۔ موسمی پھل فروٹ کھاتا ہے اور ٹھنڈے پانی اور مشروبات سے پیاس بجھاتا ہے۔
دنیا کی اس وقتی گرمی سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال بچانے کیلئے ہم ہر طرح کی انتظام کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمیشہ کی جس گرمی سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو بچانے کا ہمارے خالق نے ہمیں حکم دیا ہے اس کے بارے میں نہیں سوچتے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (6) سورة التحريم
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں‘‘۔(6) سورة التحريم
اب ذرا سوچئے! جس کا ایدھن پتھر ہوں گے اس آگ کی گرمی کی شدت کیسی ہوگی؟
ارشادِ باری تعالٰی نے ہے:
۔ ۔ ۔ وَقَالُوا لَا تَنفِرُوا فِي الْحَرِّ ۗ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ (81) سورۃ توبہ
’’اور (دوسروں کو بھی) کہنے لگے کہ تم گرمی میں مت نکلو، کہہ دیجئے کہ جہنم کی آگ اس سے بھی زیادہ گرم ہے (سو تعجب ہے کہ اس گرمی سے تو بچتے ہو اور جہنم میں جانے کا خود سامان کر رہے ہو کہ کفر و مخالفت کو نہیں چھوڑتے) کیا خوب ہوتا اگر وہ سمجھتے‘‘۔(81) سورۃ توبہ
پھر جہنم کی اس آگ کی ہلاکت خیزی کا ذکر کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”تمہاری (دنیا کی) آگ جہنم کی آگ کے مقابلے میں (اپنی گرمی اور ہلاکت خیزی میں) سترواں (70/1) حصہ ہے“۔
کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! (کفار اور گنہگاروں کے عذاب کے لیے) یہ ہماری دنیا کی آگ بھی بہت تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا کی آگ کے مقابلے میں جہنم کی آگ انہتر (69) گنا بڑھ کر ہے‘‘۔ (صحيح البخاري: 3265)
دنیا کی اس چند ماہ کی معمولی دھوپ اور گرمی انسان سے برداشت نہیں ہوتی لیکن یومِ آخرت کی گرمی اور دوزخ کی آگ کی وہ پرواہ نہیں کرتا۔آج کتنے لوگ ہیں جو رشوت، کرپشن اور حرام کی کمائی سے تمام دنیاوی تر راحت کا سامان کئے ہوئے ہیں۔ ان کے مکانات حرام کی کمائی سے بنی ہوئی ہیں اور ان میں پنکھے، ایئر کولر، ایئر کنڈیشن وغیرہ سے نکلنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں سب حرام کی کمائی سے لگی ہوئی ہیں۔ ایسے لوگ کرپشن، رشوت اور حرام کی کمائی سے اس دنیا کی گرمی سے تو بچ سکتے ہیں لیکن کیا قیامت کے دن کی گرمی اور جہنم کی آگ سے بھی بچ سکیں گے؟
آج جب ان حرام کمانے والوں سے کہا جاتا ہے کہ دوسروں کے حقوق غصب نہ کرو، رشوت نہ لو، کرپشن نہ کرو، حرام کمانا چھوڑ دو کیونکہ یہ سب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کے کام ہیں جو کہ کفر ہیں۔ تو ان کے پاس اپنی حرام کمائی کے جواز میں بہت سارے بہانے ہوتے ہیں۔ اسی طرح قیامت کے دن جب انہیں جہنم میں ڈالنے کا فیصلہ سنایا جائے گا تب بھی یہ لوگ بہت سارے بہانے بنا کر اس سے بچنا چاہیں گے، لیکن اس وقت فرمایا جائے گا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (7) سورة التحريم
’’اے لوگو! جو کفر ( رشوت خوری، کرپشن، شدید گناہ، بڑا جرم) کرتے ہو، آج بہانے نہ بناؤ، تمہیں صرف تمہارے کرتوت کا بدلہ دیا جارہا ہے‘‘۔(7) سورة التحريم
کاش لوگ آج اس گرمی میں قیامت کے دن کی گرمی اور جہنم کی آگ کا کچھ اندازہ کرتے تو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کو شش کرتے، رشوت، کرپشن اور حرام خوری سے باز آجاتے اور اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی چھوڑ دیتے لیکن افسوس کہ لوگ ایسا نہیں کرتے اور بہانے بناتے ہیں۔
کاش لوگ سمجھتے کہ ان کا یہ بہانا بنانا انہیں جلد ہی جہنم میں لے جائے گا۔
للہ تعالٰی ہمیں اس روش سے محفوظ رکھے، ہر حرام کام سے اور ہر طرح کی حرام کمائی سے بچائے رکھے، دنیا و آخرت کی سردی گرمی سے اپنی پناہ میں رکھے، جہنم کی آگ سے بچائے اور جنت کا وارث بنائے۔ آمین
تحریر: #محمد_اجمل_خان
۔