• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آج کچھ درد میرے دل میں سوا ھوتا ھے !

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ھوتا ھے !

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانے کا واقعہ ھے کہ ایک بچہ کھیلتے کھیلتے ایک غار کے منہ کے پاس چلا گیا ،، اس غار کے دوسری طرف کا منہ کھلا تھا جہاں ایک گہری کھائی تھی اور اس میں گر کر بچنا ایک معجزہ ھی تھا !
بچے کے والدین اور دیگر لوگوں نے اتنا شارپ ری ایکشن دیا ،، اتنا ڈانٹا اس بچے کو کہ بچہ مزید غار کے اندر چلا گیا ،، وہ جتنا ڈانٹتے بچہ اُتنا ھی آگے کھسکتا جاتا ، یہاں تک کہ بچے اور غار کے کھلے دھانے کے درمیان ،، بہت کم فاصلہ رہ گیا کہ خوش قسمتی سے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا گزر اس طرف سے ھوا ، آپ نے جھانک کر بچے کو دیکھا ،،پھر شور مچاتے لوگوں کو ڈانٹ کر چپ کرا دیا اور فرمایا کہ تم لوگ اس بچے کو مار کر ھی رھو گے ؟
اس جیسا ، اس کا ھم عمر بچہ لاؤ ،، ایک بچہ لایا گیا جسے آپ نے غار کے منہ کے آگے بٹھا دیا اور چند چیزیں اس کے آگے کھیلنے کے لئے رکھ دیں ،، اور لوگوں کو حکم دیا کہ جاؤ چھٹی کرو ، اپنے اپنے گھروں کو جاؤ اور جمگھٹا ختم کرو ، ماحول کو نارمل کر دو ،، غار میں پھنسا بچہ دلچسپی کے ساتھ اپنے ھم عمر بچے کو کھیلتے ھوئے دیکھتا رھا ،پھر اس نے واپس کھسکنا شروع کیا اور غار سے نکل کر اس بچے کے ساتھ بیٹھ کر کھیلنے لگا ،، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب اسے پکڑ لو !
آج کا نوجوان غار میں پھنسا معصوم بچہ ھے ، جسے ھمارے علماء دوستوں کا شور و غوغا اور فتوی بازی کا طوفان مزید اس کونے کی طرف دھکیل رھا ھے جس کے سامنے الحاد کی گہری کھائی ھے ، ضرورت اس امر کی ھے کہ علماء اپنا جبہ دستار ، اور کُلہ شریف اتار کر اپنے مقام سے نیچے آئیں اور اس نوجوان کی سطح پہ آ کر اس کی دین اور دین داروں کے ساتھ دلچسپی بحال کریں تا کہ وہ ان کو خدا سمجھ کر ڈرے نہ بلکہ اپنے جیسا سمجھ کر ان کے قریب آئے ! اس وقت نوجوان الگ Kingdom میں ھیں اور علماء الگ Kingdom کے باسی ھیں دونوں کی دنیائیں ھی نہیں بلکہ احساسات و جذبات سب کچھ 180 ڈگری ایک دوسرے کے خلاف ھیں ! میں دو سال سے اس بیماری کا نام ڈھونڈ رھا تھا ، شکر ھے آج ایک ساتھی نے اس کا نام افشاء کر دیا ،،
ان کے بقول علماء شعائر اللہ میں سے ھیں اور ان سے مذاق ، شعائراللہ سے مذاق ھے ،،
شعائراللہ میں کوئی شعائراللہ سوء اور شعائراللہ حق کی تقسیم نہیں ھوتی ،، شعائراللہ پہ بُت بھی رکھے ھوں تو شعائراللہ سوء نہیں ھوتا ،، چاھے وہ صفا مروہ ھو یا بیت اللہ ھو ،، مگر علماء میں علماء حق بھی ھیں اور علمائے سوُء بھی ھیں جن کو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا کہ اس آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ھوں گے ، کتاب اللہ کو اس طرح منہ میں گھمائیں گے جس طرح بیل گھاس گھماتا ھے اور قرآن سے اس طرح کھائیں گے جس طرح بھوکا بیل کھاتا ھے !
علماء شعائراللہ نہیں عام انسانوں کی طرح کے انسان ھیں اور عام انسانوں کی طرح گنہگار بھی ھیں ،، بلکہ ان کے گناہ کی Intensity بہت زیادہ ھے کیونکہ ان کا جھوٹ مسجد میں بولا جاتا ھے ، ان کی غیبت مسجد میں منبر کے اوپر ھوتی ھے ، ان کی گالی مسجد میں ھوتی ھے ، ان کا حسد مسجد کے اندر حسد ھوتا ھے یہانتک کہ دیگر کارنامے بھی اللہ کے گھر میں ھوتے ھیں ،، بہتر ھے کہ وہ دیانت کے ساتھ اپنے مقام کا تعین کریں ، اور حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی بننے کی بجائے عام لوگوں میں آ بیٹھیں تا کہ نوجوان ان کے ساتھ اسی بے تکلفی کے ساتھ بات کر سکیں جس بے تکلفی کے ساتھ وہ کالج میں اپنے پروفیسر سے بات کرتے ھیں اور انہیں کفر کے فتوے کا ڈر نہیں ھوتا !!
میں جب بھی قلم اٹھاتا ھوں تو موضوع علمائے سوء ھی ھوتے ھیں علمائے حق تو خواہ مخواہ چور کی داڑھی میں تنکا والا معاملہ کرتے ھیں، یوں اپنے آپ کو علمائے سوء کے ساتھ نتھی کر لیتے ھیں !
اذان چینل نوجوانوں اور علماء کے درمیان مکالمہ کرانا چاھتا تھا بہت سوچ بچار اور مشوروں کے بعد مشہورِ زمانہ عالم جو دین کی ھر شاخ کو پڑھنے کے بعد قانون کی تعلیم بھی لے رھے ھیں اور شاید ایل ایل بی مکمل کر چکے ھیں ،، انگلش میں بھی ماسٹر کیا ھوا ھے ،،، ھائے رھے مصیبت ان کے اندر کا شعائراللہ ابھی تک اسی طرح قائم و دائم ھے ،، اسٹوڈنٹس نے سوال جواب اور کراس کویسچنز جو کئے تو ان کے اندر کا شعائراللہ اچھل کر باھر نکل آیا ،، وہ کہہ آئے ھیں کہ دوبارہ اس اور اس جیسی کسی مجلس میں نہیں آئیں گے کیونکہ ان کی یہاں " Due Respect" نہیں کی گئ ،، اب آپ ان صاحب کی لیمنیشن کروا لیں ،پلاسٹک کور چڑھا لیں تا کہ ان کا شعیرہ ،، یا شیرہ کہیں ڈُھل نہ جائے ،، جب علماء اتنے حساس ھونگے ، اپنے گرد "Electromagnetic "دائرہ بنا کر بیٹھیں گے تو نوجوان کہاں جائے گا ؟
کیا بات کہی تھی بصیر بھائی نے !
حدیں وہ کھینچ رکھی ھیں اھلِ حرم نے !
کہ بن مجرم بنے پیغام بھی پہنچا نہیں سکتے !
یعنی اھل حرم کے در پہ آنا ھے تو اھلِ کلیسا کی طرح" Confession Box " پہ آؤ آنکھیں نیچی کر کے آؤ کہ " مولوی صاحب بیوی کو طلاق دے بیٹھا ھوں،، تیسری رکعت میں وضو ٹوٹ گیا تھا ،، آدھی التحیات نہیں بیٹھا ،، یعنی کوئی جرم کیئے بغیر تمہارا اور مولوی کا مکالمہ یا انٹر ایکشن ممکن نہیں ھے !
میں تو اس کوشش میں ھوں کہ احترام کی اس مصنوعی دیوار کو دیوارِ برلن کی طرح توڑ کر پھینک دوں ،، میں اپنی آپ بیتیاں شیئر کرتا ھوں،، لطیفے اور شعر و شاعری بھی شیئر کرتا ھوں ، تاکہ لوگ مجھے اپنے جیسا سمجھیں ،، میرے قریب آئیں اپنے دل و دماغ کھولیں ،، وساوس کی پوٹلیاں میرے ساتھ شیئر کریں اور مجھے اپنے جیسا گنہگار سمجھ کر ان گناھوں سے نکلنے کا طریقہ سیکھیں ،،، دوسری جانب میری وال پر موجود " علماء کرام یعنی شعائر اللہ " کو رہ رہ کر دورے پڑتے ھیں اور کچیچیاں چڑھتی ھیں ،، کہ اس نے ھماری ناک کٹا دی ھے ،،
(قاری حنیف ڈار، فیس بک)
https://www.facebook.com/QariHanif/posts/10153311735656155
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
قاری حنیف ڈار صاحب ! صاحب قلم آدمی ہیں ، بات کو جس طرف چاہیں ، جیسے چاہیں ، ایک کہاوت ، دو لطیفے سنا کر لے جاتے ہیں ، ان کی فیس بک پروفائل سے محسوس ہوتا ہے ، کہ کافی رنگیں مزاج آدمی ہیں ، اور چاہتے ہیں کہ سارے علماء بھی ایسے ہی ہو جائیں ۔ شروع شروع میں جب ان کی وال چاکنگ دیکھی جس میں امت کے اجماعی مسائل سے تمسخر ، احادیث کے بارے میں شکوک و شبہات ، علماء کے فتاوی کو لطائف و کثائف میں اڑتا دیکھ کر بہت غصہ آیا ، لیکن پھر دیکھا کہ ’’ رد الحاد ‘‘ اور بعض اصلاحی موضوعات پر ان کی تحریریں بہت مفید اور کاٹ دار ہیں ، اس لیے دل سے دعا بھی نکلی کہ اللہ ان کا ذہن اور قلم اس مفید میدان کی طرف پھیر دے ۔
کئی علماء و مصلحین کے اندر واقعتا سختی و خشکی پائی جاتی ہے ، جس سے عام آدمی بعض دفعہ چاہتے ہوئے بھی کوئی دینی مسئلہ نہیں پوچھ پاتا ، اس کو ختم ہونا چاہیے اور اس کی اصلاح ہونی چاہیے ۔ لیکن جس سطح تک قاری صاحب لانا چاہتے ہیں نہ تو کسی حقیقی عالم دین کی شایان شان ہے ، اور نہ ہی یہ نبوی منصب اس بات کی اجازت دیتا ہے ۔
مزید محترم @طاہر اسلام عسکری صاحب سے گزارش ہے کہ ایک ’’ عالم دین ‘‘ ہونے کی حیثیت سے کچھ تبصرہ فرمائیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
"قاری حنیف ڈار "
تحریر : فردوس جمال
ہمارے ایک دوست کا خیال هے کہ قاری حنیف ڈار سے اسلام کو سخت خطره لاحق هے ، امت جاگ کیوں نہیں رہی هے .؟! دبے لفظوں میں ان کا هم سے شکواہ هے کہ هم قاری ڈار کے معاملے میں قلم کو تلوار کیوں نہیں کرتے هیں ، مگر ہمارے دوست کو شاید نہیں معلوم کہ ہمارا شمار "متاثرینِ ڈار" میں ہوتا هے ،ههههه ڈار کا اسلوب بیان قابل تعریف ، جدید زهن کے شبہات کا ازالہ خوب ، اس کے باوجود نظریات ڈار سے ہمیں اختلاف رہتا هے ، ڈار صاحب چند باتوں کی طرف توجہ دیں تو بڑے کام کے آدمی هیں ،ڈار صاحب کی پہلی بڑی کمزوری یہ هے کہ حدیثوں کو ذکر کرنے سے نئ نویلی دلہن کی طرح شرما جاتے هیں ، حالانکہ بہت سارے واقعات حدیثوں سے نچوڑتے هیں لیکن مجال هے جو کہیں حوالہ دے ، شاید یہی وجہ اور ڈار کی روش هے کہ کچهه لوگ ڈار صاحب کو منکرین حدیث میں گنتے هیں ، ڈار صاحب کا جب جی چاہے ، جیسے چاہے مذهبی شخصیات کی کلاس لیتے هیں ، اور اکثر اوقات بجا لیتے هیں ، لیکن کبهی اپنے مرشد جاوید احمد غامدی صاحب کے بارے ایک لفظ نہیں سن سکتے هیں ، ڈار صاحب سے جو اختلاف کرے ان کی بهی شامت آجاتی هے ، پہلے تو خوب اس کی بجاتے هیں پهر فرینڈ لسٹ سے اس شخص کا خروج نہائی لگاتے هیں ، ڈار صاحب مذکورہ پہلوؤں کی اصلاح کردیں ، دلیل و برهان سے بات کرنے والے کے موقف کو تسلیم کریں ، اپنی چند متنازعہ پوسٹوں سے رجوع کریں تو کیا عجب کہ ڈار بارے کہا جائے :
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجهے هم ولی سمجهتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
مگر صد حیف کہ ڈار صاحب امت میں مروجہ فرقوں سے بیزاری کا درس تو دیتے هیں اور اسلام کے صافی و شافی چشمے کی طرف تشنگان دین کو بلاتے بهی هیں لیکن خود بار بار اپنی دستار خامدی صاحب کے "میخانے "میں بهول جاتے هیں اور وہی سے لڑکهڑاتے ہوئے نکلے پائے جاتے هیں .!!!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
"قاری حنیف ڈار "
تحریر : فردوس جمال
ہمارے ایک دوست کا خیال هے کہ قاری حنیف ڈار سے اسلام کو سخت خطره لاحق هے ، امت جاگ کیوں نہیں رہی هے .؟! دبے لفظوں میں ان کا هم سے شکواہ هے کہ هم قاری ڈار کے معاملے میں قلم کو تلوار کیوں نہیں کرتے هیں ، مگر ہمارے دوست کو شاید نہیں معلوم کہ ہمارا شمار "متاثرینِ ڈار" میں ہوتا هے ،ههههه ڈار کا اسلوب بیان قابل تعریف ، جدید زهن کے شبہات کا ازالہ خوب ، اس کے باوجود نظریات ڈار سے ہمیں اختلاف رہتا هے ، ڈار صاحب چند باتوں کی طرف توجہ دیں تو بڑے کام کے آدمی هیں ،ڈار صاحب کی پہلی بڑی کمزوری یہ هے کہ حدیثوں کو ذکر کرنے سے نئ نویلی دلہن کی طرح شرما جاتے هیں ، حالانکہ بہت سارے واقعات حدیثوں سے نچوڑتے هیں لیکن مجال هے جو کہیں حوالہ دے ، شاید یہی وجہ اور ڈار کی روش هے کہ کچهه لوگ ڈار صاحب کو منکرین حدیث میں گنتے هیں ، ڈار صاحب کا جب جی چاہے ، جیسے چاہے مذهبی شخصیات کی کلاس لیتے هیں ، اور اکثر اوقات بجا لیتے هیں ، لیکن کبهی اپنے مرشد جاوید احمد غامدی صاحب کے بارے ایک لفظ نہیں سن سکتے هیں ، ڈار صاحب سے جو اختلاف کرے ان کی بهی شامت آجاتی هے ، پہلے تو خوب اس کی بجاتے هیں پهر فرینڈ لسٹ سے اس شخص کا خروج نہائی لگاتے هیں ، ڈار صاحب مذکورہ پہلوؤں کی اصلاح کردیں ، دلیل و برهان سے بات کرنے والے کے موقف کو تسلیم کریں ، اپنی چند متنازعہ پوسٹوں سے رجوع کریں تو کیا عجب کہ ڈار بارے کہا جائے :
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجهے هم ولی سمجهتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
مگر صد حیف کہ ڈار صاحب امت میں مروجہ فرقوں سے بیزاری کا درس تو دیتے هیں اور اسلام کے صافی و شافی چشمے کی طرف تشنگان دین کو بلاتے بهی هیں لیکن خود بار بار اپنی دستار خامدی صاحب کے "میخانے "میں بهول جاتے هیں اور وہی سے لڑکهڑاتے ہوئے نکلے پائے جاتے هیں .!!!
اسے تو فیس بک پر ہونا چاہئے، قاری صاحب کو ٹیگنگ کے ساتھ، اگرپہلے ہی ایسا نہ ہو تو :)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اسے تو فیس بک پر ہونا چاہئے، قاری صاحب کو ٹیگنگ کے ساتھ، اگرپہلے ہی ایسا نہ ہو تو :)
شاید انہوں نے کیا ہو ۔
لیکن قاری صاحب ! ایسے گستاخوں کو ’’ بلاک ‘‘ کرنے میں معروف ہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
قاری حنیف ڈار صاحب کی خدمت میں

رعایت اللہ فاروقی
قرآنِ مجید نازل ہونا شروع ہوا تو لسانِ نبوت اور عمل نبی ﷺ اس کی شارح بنی۔ ضرورت سوال کو جنم دیتی ہے۔ صحابہ کرام کے ذہن میں سوالات جنم لیتے تو وہ دربارِ رسالت میں پیش ہو کر اپنا سوال پیش کرتے یوں تشریح کا باب مزید وسیع ہوجاتا۔ نیا وقت اور نئے حالات نئے سوالات جنم دیتے ہیں چنانچہ جب وہ دور آیا جب آنحضرت ﷺ دنیا سے رخصت ہوچکے تھے تو تشریح کا یہی کام اہلِ علم صحابہ کرام نے آگے بڑھایا۔ چاروں خلفائے راشدین کے علاوہ حضرت عبداللہ ابنِ عباس، حضرت عبداللہ ابن عمر، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت ابو ہریرہ، حضرت سلمان فارسی، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت انس اور اور حضرت عبداللہ ابن زبیر رضوان اللہ علیھم اجمعین وہ ممتاز ترین نام ہیں جو یہ خدمات انجام دیتے رہے۔ شارحین دین میں کوئی نیا اضافہ نہیں کرنے لگے بلکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسلسل صحبت سے قرآن مجید و ارشادات نبوی کی صورت جو کچھ سیکھا تھا اسی کی روشنی میں پیدا ہونے والے نئے سوالات کے جوابات پیش کرتے۔ ان کے ہر جواب کا پیچھے جا کر قرآن و حدیث سے کوئی نہ کوئی تسلسل ضرور قائم ہوتا۔ زمانہ مزید آگے بڑھا تو تابعین کا دور شرع ہوا۔ اب تابعین میں موجود اہلِ علم یہی خدمات انجام دینے لگے۔ حضرت عطاء بن ابی رباح، حضرت عامر بن عبداللہ تمیمی، حضرت عروہ بن زبیر، حضرت ربیع بن خثیم، حضرت اِیاس بن معاویہ مزنی، حضرت حسن بصری، حضرت قاضی شریح، حضرت محمد بن سیرین رحمھم اللہ اس فہرست کے محض چند ابتدائی نام ہیں۔ ان حضرات کے مقام و مرتبے کا اندازہ اس سے لگایئے کہ ان میں سے پہلی شخصیت یعنی حضرت عطاء بن ابی رباح مسجد حرام میں حضرت عبداللہ ابن عباس کے انتقال کے بعد مفتی کے منصب پر ان کے جانشین بنے تھے اور بیس برس تک یہ خدمات انجام دے کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر ان کے دور میں حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو حجاج کرام کے ہجوم نے انہیں مسائل پوچھنے کی غرض سے گھیر لیا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر نے اس ہجوم سے کہا “حیرت ہے آپ لوگوں نے مجھے گھیر رکھا ہے حالانکہ آپ کے پاس عطاء بن ابی رباح جیسا صاحب علم موجود ہے” اسی طرح ان چند مذکورہ ناموں میں سے آخری یعنی محمد بن سیرین کی اہمیت اس سے سمجھ لیجئے کہ جلیل القدر صحابی حضرت انس بن مالک نے مرض الموت میں وصیت فرمائی کہ مجھے غسل محمد بن سیرین دینگے اور جنازہ بھی وہی پڑھائینگے۔ حضرت انس انتقال فرما گئے تو اس وصیت پر عمل کے محمد بن سیرین کو جیل سے رہا کرنا پڑا۔ تابعین تشریحات میں قرآن و حدیث کی جانب ہی رجوع کرتے مگر انہیں ایک اضافی سہولت یہ میسر آگئی تھی یہ اہلِ علم صحابہ کرام کے علمی کام سے بھی استفادہ کرتے۔
زمانہ مزید آگے بڑھا تو اب علم اس دور میں داخل ہوا جہاں تحریری کام کا باقاعدہ اور منظم بندو بست شروع ہوا۔ یہ ائمہ اربعہ کا طویل دور ہے جنہیں ہم امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام مالک رحمہ اللہ کے نام سے جانتے ہیں۔ ان چاروں میں سے خود امام ابو حنیفہ بھی تابعی ہیں۔ اب بیانی علمی کام بھی ہوتا اور اسے ضبط تحریر بھی کیا جاتا۔ اسی دور میں احادیث کے مجموعے تیار کرنے کا کام بھی ایک باقاعدہ منظم صورت اختیار کر گیا۔ چنانچہ احمد بن حنبل اور امام مالک اس حوالے سے بھی مستقل شناخت رکھتے ہیں۔ ان حضرات کو تشریحات کے سلسلے میں ایک تیسری سہولت بھی میسر آ گئی تھی۔ یہ قرآن و حدیث، اہل علم صحابہ کرام کے ساتھ ساتھ تابعین علمائے کرام کے علمی کام سے بھی ستفادہ کرتے۔ یہ اپنے عہد میں پیدا ہونے والے جدید سوالات کے جدید جوابات ہی دیتے لیکن ان کے جوابات دور رسالت سے اپنا علمی تسلسل رکھتے تھے۔ چانچہ قیاس کی اہمیت اسی حوالے سے تھی۔ اس کے بعد زمانے بدلتے گئے اور علمی میدان میں نئے افراد آتے چلے گئے۔ ان میں سے مختلف ادوار کے محض چند علمائے امت یہ ہیں۔ محمد ابن الحسن الشیبانی۔ ابن عبدالبر المالکی۔ احمد بن محمد القدوری۔ محمد بن احمد السرخسی۔ ابوالقاسم حسن بن محمد اصفہانی۔محمد ابن محمد البابرتی۔ ابوبکر بن مسعود الکاسانی۔ ابولعباس احمد ابن تیمیہ۔ محمد بن ابی بکر ابن القیم۔ ابراہیم بن موسیٰ الشاطبی۔ زین العابدین ابن نجیم۔ علاؤالدین حصکفی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ابن عابدین الشامی۔ اس فہرست میں صرف فقہاء کو شامل کیا گیا ہے وہ بھی محض چند، ان میں سے بعض کا تفسیر اور حدیث کے حوالے سے بھی کام ہے لیکن مرکزی کام ان کا فقہ ہے۔ تفسیر اور حدیث کے میدان امامت کے مقام پر فائز اہل علم ان کے علاوہ ہیں۔ یہ تمام حضرات اور وہ تمام جن کا ذکر طوالت کے باعث نہیں ہوا اپنے اپنے زمانے کے اٹھائے گئے سوالات کے چیلنجز سے نمٹتے رہے یوں علم نئی ترقیاں کرتا رہا۔ ان تمام کا کام پچھلے تمام علمی کام سے تسلسل سے جڑا رہا۔
اگر آپ ایک لمحے کو فرض کر لیں کہ بیچ کی کسی ایک صدی میں تمام کے تمام علماء دین قتل کردئے جاتے اور ان کا کام جلا کر راکھ کر دیا جاتا تو کیا بعد کے زمانے تک دین پہنچنے کا کوئی امکان رہ جاتا ؟ آپ اپنی مسجد کے امام سے سوال کیجئے جس سے آپ دین سیکھتے ہیں کہ اس نے دین کس سے سیکھا تو وہ آپ کو اپنے اساتذہ کے نام گنوائے گا۔ پھر یہی سوال ان اساتذہ سے کیا جائے تو وہ اپنے اساتذہ کے نام گنوائینگے۔ یوں آپ رکے بغیر ہر شاگر کے استاذ پھر اس کے استاذ اور پھر اس کے استاذ کا نقش پا تلاش کرتے چلتے جائیں بالآخر آپ سرور کونین ﷺ کے دربار تک پہنچ جائینگے۔ آپ کی مسجد کے امام سے لے کر دور رسالت تک یہ پوری چین دین اسلام کی “سند” کہلاتی ہے۔ اگر ایک شخص اسلام کو مشکوک کرنا چاہے تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ اس پوری چین کو مشکوک کردیا جائے۔ اب یہاں قابل غور بات یہ ہے مذکورہ شخصیات ایسے ادوار کی ہیں جہاں برق رفتار سے برق رفتار سواری بھی گھوڑا تھا اسلامی سلطنت مدینہ سے شروع ہوکر رشیا کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ پیغام رسانی کی بھی واحد صورت یہی تھی کسی کو گھوڑے پر روانہ کیا جائے۔ ایسے میں ہفتوں اور مہینوں کے سفر کا حاصل ایک دن کی ملاقات ہوتی جو ایک عالم دین کسی دوسرے عالم سے کرتا۔ مواصلاتی ذرائع کے لحاظ سے اس کم ترقی یافتہ دور میں درست اطلاعات تک رسائی آج کے مقابلے میں ہزاروں گنا کم تھی۔ ایسے میں یقینا علمی کام میں بہت سی کمزوریاں بھی رہ گئیں۔ لیکن ان لوگوں کی دین کے معاملے میں دیانت کا یہ عالم تھا کہ کوئی معتصم باللہ کے کوڑے کھا کر بیہوش ہورہا ہے مگر موقف نہیں بدل رہا، کوئی حجاج بن یوسف سے سرِ بازار گردن کٹوا رہا ہے مگر سچ کہنے سے نہیں ہچکچا رہا، کوئی اپنا جنازہ جیل سے اٹھوا دیتا ہے مگر سرکاری عہدہ قبول نہیں کرتا۔ کوئی اپنی تمام انگلیاں کٹوا دیتا ہے مگر کہتا وہی ہے جو اس کے نزدیک حق تھا تو کیسے مان لیا جائے کہ انہوں نے روایات کے سلسلے میں کوئی خیانت کی ہوگی اور جان بوجھ کر دین کی سند کو مجروح کیا ہوگا۔
جن اہل علم کی یہاں بات ہورہی ہے وہ ایک کلک کے ذریعے ہزاروں میل دور پڑی کتاب تک ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں رسائی نہیں رکھتے تھے۔ امام احمد بن حنبل اپنے اساتذہ کے ساتھ وٹس ایپ کے ذریعے تبادلہ خیال نہیں کرتے تھے۔ امام بخاری کسی سرچ انجن کی مدد سے راویوں کے ڈیٹے تک رسائی نہیں رکھتے تھے۔ وہ کسی حدیث کو اپنے مجموعے میں شامل کرنے سے قبل فیس بک پر نہیں چڑھاتے تھے کہ لمحوں میں دنیا بھر کے محدثین اس کی سند اور اس میں شامل راویوں پر اپنی رائے دے پاتے اور کسی نشاندہی کی صورت میں وہ روایت پر نظر ثانی فرمالیتے۔ جس درجے کی معلوماتی سہولیات اس زمانے میں موجود تھیں انہی سے انہوں نے کام لینا تھا اور اس میں کیا شک کہ سہولتیں بہت ہی محدود تھیں۔ کتاب جیسی چیز بھی اتنی کم ترقی یافتہ تھی کہ وہ قلمی نسخوں کے سبب محض درجنوں کی تعداد میں ہوتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بیسویں صدی کا ترقی یافتہ دور آیا کتابیں دھڑا دھڑ چھپ کر ہزاروں اور لاکھوں کا عدد عبور کرنے لگیں اور اطلاعات تک رسائی برقی صورت میں ہونے لگی تو اسی دور محمد ناصر الدین الالبانی آئے کہ نہیں ؟ ایک ایسا شخص جس نے اپنی ساری عمر ذخیرہ حدیث کا از سرِ نو جائزہ لینے کے لئے وقف کردی۔ اور شخص کی خدمات کا ہی نتیجہ ہے کہ بے شمار ایسی احادیث جو صدیوں سے “صحیح” سمجھی جاتی تھیں ان پر کراس لگ گیا اور اب اسی حدیث کو صحیح مانا جاتا ہے جسے البانی نے صحیح قرار دیا ہو۔ البانی کو کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ اے بیسویں صدی کے ملا ! تم کون ہوتے ہو ان احادیث کو موضوع یا ضعیف قرار دینے والے جنہیں بارہ اور تیرہ سو سال تک صحیح سمجھا جاتا رہا۔ کیا تم ہمارے اکابر سے زیادہ جانتے ہو ؟ نہیں ! البانی کو کسی نے بھی یہ نہیں کہا بلکہ انہیں سند حدیث پر اتھارٹی تسلیم کر لیا گیا اور اب ہر ذی شعور عالم یہ دیکھتا ہے کہ کسی روایت کے بارے میں البانی کیا فرما گئے ہیں ؟۔ جانتے ہیں البانی کو یہ مقام کیوں حاصل ہوا ؟ اس لئے کہ انہوں نے محدثین کی کردار کشی نہیں کی۔ انہوں نے امام بخاری پر جگتیں نہیں کسیں۔ ان کے لہجے میں تحقیر خدا بن کر نہیں بولتا تھا۔ وہ متنازع ایشوز کو اچھال کر مداری بننے کا شوق نہیں رکھتے تھے۔ اپنی حکمت عملی کا جائزہ لیجئے، اگر آپ کو متقدمین کے کسی کام میں کوئی جھول نظر آتا ہے تو یہ آپ کا حق ہے کہ اس پر علمی رائے دیں اور دنیا کو اس جانب متوجہ کریں۔ البانی کسی کے مامے لگتے تھے اور نہ ہی آپ سے کسی کو دشمنی ہے۔ اگر دنیا البانی کا موقف قبول کر سکتی ہے تو آپ کا بھی کرے گی۔ بس آپ کی بات میں عالمانہ شان نظر آنی چاہئے۔ لیکن اگر آپ کا مقصد علمی خدمت کے بجائے دین کی سند کو مشکوک کرنا ہے تو لگے رہئے منا بھائی تاریخ نے بہت سا تعفن دفن کر رکھا ہے یہ بھی کر لے گی۔ آپ انصاف سے بتایئے جو لب و لہجہ آپ متقدمین کے لئے اختیار کرتے ہیں اس کا دسواں حصہ بھی میں آپ کے نام نہاد مفرور امام کے لئے اختیار کر لوں آپ ہضم کر لینگے ؟ جو آپ سے ہزار ہزار سال قبل گزر گئے اپنی پوسٹ کو ان کی نیتوں کا تھرما میٹر مت بنائیں۔ اگر نیتوں پر حملوں کا جواز ہوتا تو رینٹ کارپوریشن کی 2001ء کی رپوٹ جاوید احمد غامدی اور پورے المورد پر پر سوالیہ نشان لگانے کے لئے کافی ہے۔ لیکن تشتت و افتراق کے اس دور میں کیا یہ درست حکمت عملی ہوگی ؟ یہ حکمت عملی آپ کی درست بات کو بھی مشکوک بنادیتی ہے۔ آپ کی شہرت عالم کے بجائے ایک بڑبولے کی بنتی جا رہی ہے وہ بڑ بولا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بعد صرف جاوید احمد غامدی کو درست سمجھتا ہے۔ اور جس کا مشن دین کی سند کو مشکوک کرنے کے سوا کچھ نہیں ورنہ راویانِ حدیث کا آپ سے ہزارہا گنا زیادہ تحقیقی جائزہ تو البانی نے لیا اور بڑے بڑے معتبر راویوں پر انہوں نے کراس لگادیا لیکن کسی نے اُف بھی نہ کی۔ آپ سلطان راہی نہیں البانی بن جائیں کوئی اور پیئے نہ پیئے میں آپ کے پاؤں دھو کر پیونگا۔
 
Top