کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
آج کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن ِ پاک کی تفہیم
سورة القیامہ : 75 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے، 40 آیات اور 2 رکوع ہیں،
نزول کے اعتبار سے 31 ویں سورت ہے،
انتیسویں پارہ کے سترھویں ، اٹھارہویں رکوع پر مشتمل ہے۔
پہلی ہی آیت کا لفظ ”القیامة“ نام قرار پایا اور یہی عنوان بھی ہے،
سورت میں آخرت کے منکروں کے شبہات واعتراضات کا جواب ہے۔
اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ، وحی کے نزول کے وقت آپ اسے یاد کرنے کی کوشش نہ کریں، اس کا محفوظ کرنا اور پڑھنا (آپ کیلئے ) ہمارا ذمہ ہے۔ اس لئے جب وحی پوری ہو جائے اس وقت آپ پڑھیں۔ قرآن کی باریکیاں سمجھانا بھی ہمارا ذمہ ہے۔
سورة الدہر : 76 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے31 آیات اور 2 رکوع ہیں۔
نزول کے اعتبار سے نمبر 98 ہے
انتیسویں پارہ کے انیسویں، بیسویں، رکوع پر مشتمل ہے۔
سورت کا نام ”الدھر“ بھی ہے اور ”الانسان“ بھی اور یہ دونوں نام پہلی ہی آیت سے ماخوذ ہیں،
جمہور مفسرین نے اس کو مکی سورت قرار دیا ہے،
بعض مدنی کہتے ہیں اور کچھ نے کہا ہے کہ سورت تو مکی ہے مگر آیت 8 ، 9 اور 10 (یعنی تین آیات) مدنی ہیں۔
اس سورت میں انسان کو دنیا کی حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے۔
اور نیک لوگ جنت میں ایک ایسے چشمے میں سے پیئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہو گی اور وہ اسے محلوں میں بہا کر لے جائیں گے۔ ایسے نیک بندے اللہ کیلئے دیتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی شدت پھیلی ہوئی ہو گی۔ وہ لوگ اللہ کی محبت میں مسکین ، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور ان لوگوں سے بدلہ یا شکریہ نہیں چاہتے۔ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ پر قرآن بتدریج نازل کرتے ہیں، آپ صبح وشام دن رات اور تہجد میں اسے یاد کرتے رہیں۔ کفار تو صرف دنیا کے حریص ہیں،
سورة المرسلٰت : 77 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے 50 آیات اور 2 رکوع ہیں۔
نزول کے اعتبار سے نمبر 33 ہے
انتیسویں پارہ کے 21 اور 22 رکوع پر مشتمل ہے۔
نام پہلی ہی آیت کا لفظ ”المرسلات“ قرار پایا،
یہ مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔
اس سے پہلے کی دو اور بعد کی دو سورتیں ایک ہی دور کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہیں۔
سورت میں قیامت، آخرت کے اثبات اور نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے۔
ارشاد ہوا ”قسم ہے ان ہواﺅں کی جو لگاتار بھیجی جاتی ہیں، پھر زور سے جھونکے دیتی ہیں، پھر ان رحمت والی ہواﺅں کی قسم جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں، پھر ان ملائکہ کی جماعتوں کی قسم جو حق وناحق کو جدا کرنے والی اور اللہ کی یاد کا القا کرنے والی ہیں کہ بیشک قیامت اور وعدہ کا دن ضرور آئے گا۔ اس وقت تارے محو کر دیئے جائیں گے، آسمان میں رخنے پڑ جائیں گے، پہاڑ غبار ہو کر اڑ جائیں گے، امتوں پر گواہی دینے کیلئے رسولوں کا وقت آئے گا کہ وہ فیصلے کا دن ہو گا اور اس دن جھٹلانے والوں کیلئے خرابی ہے۔
سورة النباء: 78 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے۔
40 ، آیات اور 2 ، رکوع ہیں۔
ترتیب نزول کے مطابق نمبر 80 ہے۔
تیسواں پارہ اس سے شروع ہوتا ہے۔
نام دوسری آیت کے فقرے”عن النباء العظیم“ سے لیا گیا ہے۔
یہ صرف نام ہی نہیں بلکہ مضمون کا عنوان بھی ہے۔
اس کا مضمون بھی وہی ہے جو ”سورة المرسلات“ کا ہے۔
یعنی قیامت اور آخر ت کا اثبات اور ان کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرنا“
فرمایا ”کفار مکہ نے قرآن پر شک کیا اور آپس میں پوچھ گچھ کرتے ہیں لیکن انہیں جلد پتہ چل جائے گا۔ کیا ہم نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا نہیں بنایا؟ پہاڑوں کو زمین کے تھامنے کیلئے میخیں نہیں بنایا؟ رات کو پردہ پوش اور دن کو روزگار کیلئے نہیں بنایا؟ ہم نے ایک نہایت چمکتا چراغ بھی دیا، پھر بدلیوں سے زور کا پانی اتارا تاکہ غلہ اور سبزہ اور گھنے باغ تیار ہوں۔ پھر فیصلے کا دن جب آئے گا تو صور پھونکا جائے گا اور تم سب فوج در فوج جمع ہو گے۔ آسمان کھول دیا جائے گا۔ پہاڑ چلائے جائیں گے اور جہنم سرکشوں کا ٹھکانا ہو گا جہاں ان کیلئے کوئی ٹھنڈک یا پینے کا پانی نہیں ہو گا مگر کھولتا ہوا پانی ملے گا اور پیپ۔ یہ سب ان کے جھٹلانے کا نتیجہ ہو گا۔ البتہ ڈرنے والوں کیلئے کامیابی ہو گی۔ قسم قسم کے پھل اور انگور ملیں گے۔ ہر طرح کی راحت کا سامان ہو گا۔ وہاں کوئی لغو بات نہ ہو گی۔ قیامت کے دن تمام کائنات کے رب کے سامنے کسی کو بات کرنے کا اختیار نہ ہو گا۔ جبریل علیہ السلام بھی اور فرشتے بھی کھڑے ہوں گے، بغیر اذن کے کوئی بھی نہ بول سکے گا۔ عذاب سے بچنے کیلئے اللہ ہی کی طرف رجوع ہونا چاہئے اور قیامت کے دن آدمی وہی دیکھے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور اس دن کے عذاب کو دیکھ کر کافر کہے گا کہ کاش میں کسی طرح مٹی ہو جاتا۔“
سورةالنازعات: 79 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے، 46 آیات اور 2 رکوع ہیں۔
ترتیب نزول کے مطابق نمبر 81 ہے۔
تیسویں پارہ کا تیسرا، چوتھا رکوع اسی پر ہے۔
سورت کا نام پہلے ہی لفظ ”والنازعات“ قرار پایا۔
یہ سورہ نبا کے بعد نازل ہوئی۔
اس کا موضوع ”قیامت اور موت کے بعد کی زندگی“ ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کو طویٰ کے جنگل میں اللہ کا حکم ہوا تھا کہ فرعون کے پاس جائیں کہ وہ سرکش ہے۔ اسے اپنے رب کی طرف بلائیں۔ موسیٰ ؑنے اللہ کی بڑی نشانی بھی (اپنے معجزوں سے) دکھائی لیکن اس نے نافرمانی کی اور اپنے لوگوں سے کہنے لگا کہ میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں۔ پھر تو اللہ نے دنیا اور آخرت دونوں کے عذاب میں اسے پکڑا۔ اللہ سے ڈرنے والے ہی اس واقعے سے نصیحت حاصل کر سکتے ہیں۔انسان کی تخلیق سے زیادہ بڑی تخلیق آسمان کی ہے کہ اس کی چھت بلند کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ قیامت کے وقت کو معلوم کرنا چاہتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیں کہ اس سوال سے تم لوگوں کو کیا حاصل؟۔ وہ دن جب آئیگا تو وہ لوگ دنیا کی زندگی کو ایک شام یا ایک دن کا وقت سمجھیں گے“۔
سورة عبس: 80 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے۔
42 آیات اور ایک رکوع ہے۔
نزول کے اعتبار سے نمبر 24 ہے۔
تیسویں پارہ کا پانچواں رکوع یہی سورت ہے۔
پہلے ہی لفظ ”عبس“ کو نام قرار دیا گیا ہے۔
مکہ کے بڑے سرداروں کی موجودگی میں ’ابن ام مکتوم‘ (جو نابینا صحابی تھے) کی آمد کو اس سورت کا شان نزول بتایا گیا ہے۔
سورت میں سرداران کفار کے تکبر، ہٹ دھرمی اور صداقت سے بے رخی پر عتاب ہے۔
فرمایا ”اے میرے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کے پاس جو نابینا حاضر ہوا ہے وہ خلوص سے دین کو معلوم کرنا چاہتا ہے۔آپ اس سے منہ نہ پھیریں اور جو لوگ اپنے مال و دولت کی وجہ سے دین کو اہمیت نہیں دیتے ان کے لئے آپ توجہ نہ دیں۔ آپ تو صرف سمجھا دیں۔تو جو چاہے دین کو حاصل کرے۔
رانا شفیق پسروری : 20 جولائی 2014
جاری ھے