• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آج کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن ِ پاک کی تفہیم

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
آج کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن ِ پاک کی تفہیم​

سورة القیامہ : 75 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے، 40 آیات اور 2 رکوع ہیں،
نزول کے اعتبار سے 31 ویں سورت ہے،
انتیسویں پارہ کے سترھویں ، اٹھارہویں رکوع پر مشتمل ہے۔
پہلی ہی آیت کا لفظ ”القیامة“ نام قرار پایا اور یہی عنوان بھی ہے،
سورت میں آخرت کے منکروں کے شبہات واعتراضات کا جواب ہے۔


اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ، وحی کے نزول کے وقت آپ اسے یاد کرنے کی کوشش نہ کریں، اس کا محفوظ کرنا اور پڑھنا (آپ کیلئے ) ہمارا ذمہ ہے۔ اس لئے جب وحی پوری ہو جائے اس وقت آپ پڑھیں۔ قرآن کی باریکیاں سمجھانا بھی ہمارا ذمہ ہے۔

سورة الدہر : 76 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے31 آیات اور 2 رکوع ہیں۔
نزول کے اعتبار سے نمبر 98 ہے
انتیسویں پارہ کے انیسویں، بیسویں، رکوع پر مشتمل ہے۔
سورت کا نام ”الدھر“ بھی ہے اور ”الانسان“ بھی اور یہ دونوں نام پہلی ہی آیت سے ماخوذ ہیں،
جمہور مفسرین نے اس کو مکی سورت قرار دیا ہے،
بعض مدنی کہتے ہیں اور کچھ نے کہا ہے کہ سورت تو مکی ہے مگر آیت 8 ، 9 اور 10 (یعنی تین آیات) مدنی ہیں۔
اس سورت میں انسان کو دنیا کی حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے۔


اور نیک لوگ جنت میں ایک ایسے چشمے میں سے پیئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہو گی اور وہ اسے محلوں میں بہا کر لے جائیں گے۔ ایسے نیک بندے اللہ کیلئے دیتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی شدت پھیلی ہوئی ہو گی۔ وہ لوگ اللہ کی محبت میں مسکین ، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور ان لوگوں سے بدلہ یا شکریہ نہیں چاہتے۔ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ پر قرآن بتدریج نازل کرتے ہیں، آپ صبح وشام دن رات اور تہجد میں اسے یاد کرتے رہیں۔ کفار تو صرف دنیا کے حریص ہیں،

سورة المرسلٰت : 77 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے 50 آیات اور 2 رکوع ہیں۔
نزول کے اعتبار سے نمبر 33 ہے
انتیسویں پارہ کے 21 اور 22 رکوع پر مشتمل ہے۔
نام پہلی ہی آیت کا لفظ ”المرسلات“ قرار پایا،
یہ مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔
اس سے پہلے کی دو اور بعد کی دو سورتیں ایک ہی دور کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہیں۔
سورت میں قیامت، آخرت کے اثبات اور نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے۔


ارشاد ہوا ”قسم ہے ان ہواﺅں کی جو لگاتار بھیجی جاتی ہیں، پھر زور سے جھونکے دیتی ہیں، پھر ان رحمت والی ہواﺅں کی قسم جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں، پھر ان ملائکہ کی جماعتوں کی قسم جو حق وناحق کو جدا کرنے والی اور اللہ کی یاد کا القا کرنے والی ہیں کہ بیشک قیامت اور وعدہ کا دن ضرور آئے گا۔ اس وقت تارے محو کر دیئے جائیں گے، آسمان میں رخنے پڑ جائیں گے، پہاڑ غبار ہو کر اڑ جائیں گے، امتوں پر گواہی دینے کیلئے رسولوں کا وقت آئے گا کہ وہ فیصلے کا دن ہو گا اور اس دن جھٹلانے والوں کیلئے خرابی ہے۔

سورة النباء: 78 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے۔
40 ، آیات اور 2 ، رکوع ہیں۔
ترتیب نزول کے مطابق نمبر 80 ہے۔
تیسواں پارہ اس سے شروع ہوتا ہے۔
نام دوسری آیت کے فقرے”عن النباء العظیم“ سے لیا گیا ہے۔
یہ صرف نام ہی نہیں بلکہ مضمون کا عنوان بھی ہے۔
اس کا مضمون بھی وہی ہے جو ”سورة المرسلات“ کا ہے۔
یعنی قیامت اور آخر ت کا اثبات اور ان کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرنا“


فرمایا ”کفار مکہ نے قرآن پر شک کیا اور آپس میں پوچھ گچھ کرتے ہیں لیکن انہیں جلد پتہ چل جائے گا۔ کیا ہم نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا نہیں بنایا؟ پہاڑوں کو زمین کے تھامنے کیلئے میخیں نہیں بنایا؟ رات کو پردہ پوش اور دن کو روزگار کیلئے نہیں بنایا؟ ہم نے ایک نہایت چمکتا چراغ بھی دیا، پھر بدلیوں سے زور کا پانی اتارا تاکہ غلہ اور سبزہ اور گھنے باغ تیار ہوں۔ پھر فیصلے کا دن جب آئے گا تو صور پھونکا جائے گا اور تم سب فوج در فوج جمع ہو گے۔ آسمان کھول دیا جائے گا۔ پہاڑ چلائے جائیں گے اور جہنم سرکشوں کا ٹھکانا ہو گا جہاں ان کیلئے کوئی ٹھنڈک یا پینے کا پانی نہیں ہو گا مگر کھولتا ہوا پانی ملے گا اور پیپ۔ یہ سب ان کے جھٹلانے کا نتیجہ ہو گا۔ البتہ ڈرنے والوں کیلئے کامیابی ہو گی۔ قسم قسم کے پھل اور انگور ملیں گے۔ ہر طرح کی راحت کا سامان ہو گا۔ وہاں کوئی لغو بات نہ ہو گی۔ قیامت کے دن تمام کائنات کے رب کے سامنے کسی کو بات کرنے کا اختیار نہ ہو گا۔ جبریل علیہ السلام بھی اور فرشتے بھی کھڑے ہوں گے، بغیر اذن کے کوئی بھی نہ بول سکے گا۔ عذاب سے بچنے کیلئے اللہ ہی کی طرف رجوع ہونا چاہئے اور قیامت کے دن آدمی وہی دیکھے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور اس دن کے عذاب کو دیکھ کر کافر کہے گا کہ کاش میں کسی طرح مٹی ہو جاتا۔“

سورةالنازعات: 79 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے، 46 آیات اور 2 رکوع ہیں۔
ترتیب نزول کے مطابق نمبر 81 ہے۔
تیسویں پارہ کا تیسرا، چوتھا رکوع اسی پر ہے۔
سورت کا نام پہلے ہی لفظ ”والنازعات“ قرار پایا۔
یہ سورہ نبا کے بعد نازل ہوئی۔
اس کا موضوع ”قیامت اور موت کے بعد کی زندگی“ ہے۔

موسیٰ علیہ السلام کو طویٰ کے جنگل میں اللہ کا حکم ہوا تھا کہ فرعون کے پاس جائیں کہ وہ سرکش ہے۔ اسے اپنے رب کی طرف بلائیں۔ موسیٰ ؑنے اللہ کی بڑی نشانی بھی (اپنے معجزوں سے) دکھائی لیکن اس نے نافرمانی کی اور اپنے لوگوں سے کہنے لگا کہ میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں۔ پھر تو اللہ نے دنیا اور آخرت دونوں کے عذاب میں اسے پکڑا۔ اللہ سے ڈرنے والے ہی اس واقعے سے نصیحت حاصل کر سکتے ہیں۔انسان کی تخلیق سے زیادہ بڑی تخلیق آسمان کی ہے کہ اس کی چھت بلند کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ قیامت کے وقت کو معلوم کرنا چاہتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیں کہ اس سوال سے تم لوگوں کو کیا حاصل؟۔ وہ دن جب آئیگا تو وہ لوگ دنیا کی زندگی کو ایک شام یا ایک دن کا وقت سمجھیں گے“۔

سورة عبس: 80 ویں سورت
یہ مکی سورت ہے۔
42 آیات اور ایک رکوع ہے۔
نزول کے اعتبار سے نمبر 24 ہے۔
تیسویں پارہ کا پانچواں رکوع یہی سورت ہے۔
پہلے ہی لفظ ”عبس“ کو نام قرار دیا گیا ہے۔
مکہ کے بڑے سرداروں کی موجودگی میں ’ابن ام مکتوم(جو نابینا صحابی تھے) کی آمد کو اس سورت کا شان نزول بتایا گیا ہے۔
سورت میں سرداران کفار کے تکبر، ہٹ دھرمی اور صداقت سے بے رخی پر عتاب ہے۔


فرمایا ”اے میرے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کے پاس جو نابینا حاضر ہوا ہے وہ خلوص سے دین کو معلوم کرنا چاہتا ہے۔آپ اس سے منہ نہ پھیریں اور جو لوگ اپنے مال و دولت کی وجہ سے دین کو اہمیت نہیں دیتے ان کے لئے آپ توجہ نہ دیں۔ آپ تو صرف سمجھا دیں۔تو جو چاہے دین کو حاصل کرے۔

رانا شفیق پسروری : 20 جولائی 2014

جاری ھے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سورة الانبیاء........21 ویں سورت

سورت انبیاء مکی ہے
112 آیات اور 7 رکوع ہیں
یہ سورت سترہویں پارہ کے آغاز سے شروع ہوتی ہے
اس کا نام ہی الانبیاء ہے،
اس میں تقریباً سولہ عظیم پیغمبروں کا تذکرہ ہے۔
تفصیل سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا بیان فرمایا گیا ہے حضرت یونس، حضرت ایوب علیہما السلام کی دعاﺅں اور مناجات کا بھی ذکر ہے۔
اس سورت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاک نبیوں اور رسولوں نے راہ حق میں نہایت جرآت، دلیری اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، توحید، رسالت، آخرت کے احکام کو لوگوں پر واضح کیا ایسے میں دنیاوی مصائب یا امراض نے پریشان کیا تو ان کے ثبات و استقلال میں کچھ بھی کمی واقع نہ ہوئی اور یہ صرف اپنے رب ہی سے رجوع کرتے رہے۔

وہ رسول ﷺ کو جادو گر سمجھتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ وہ خواب کی باتیں یا من گھڑت باتیں بتاتے ہیں یا وہ شاعر ہیں، پہلے بھی انبیاء علیہم السلام تشریف لائے تھے اور ان کے ساتھ بھی لوگوں نے یہی معاملہ کیا تھا، پھر وہ لوگ ہلاک کئے گئے۔ وہ لوگ اس بات پر بھی اعتراض کرتے تھے کہ یہ نبی، بشر ہیں۔ کھانا بھی کھاتے ہیں اور دنیا میں ہمیشہ نہیں رہتے۔ جب منکرین کی بستیاں تباہ کر دی گئیں تو انہیں نادم ہونا پڑا، لیکن اب کوئی فائدہ نہ تھا۔ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو تورات دی گئی جو پرہیز گاروں کو نصیحت تھی۔ وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور قیامت کا خوف بھی کرتے ہیں اب ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ہے کہ انہیں ابتدائی عمر ہی سے ہدایت حاصل تھی وہ اپنے والد اور اپنی قوم کو مورتیوں کی پوجا سے بچانا چاہتے تھے۔ اور وہ کوئی کھیل کی بات نہیں بتا رہے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان کے بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا، ایک بڑا بت چھوڑ دیا۔ ان لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا آپ نے ایسا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انہی بتوں سے پوچھو۔ آخر آپ ہی کو ان کافروں نے بت شکن سمجھا۔ آپ نے فرمایا کہ تم ایسوں کو کیوں پوجتے ہو جو بے بس ہیں اور کوئی نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ نمرود اور اس کی قوم نے آپ کو آگ میں پھینک دیا اللہ نے حکم دیا اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کے لئے سلامتی بن جا۔ ابراہیم علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کو نجات بخشی۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کو اسحٰق علیہ السلام جیسا فرزند اور یعقوب علیہ السلام جیسا پوتا دیا اور وہ سب امام تھے۔ لوط علیہ السلام کو حکومت اور علم دیا گیا اور اس قوم سے نجات دلائی گئی جو گندے کام کرتی تھی۔ نوح علیہ السلام اور ان کے گھر والے بھی سخت کرب سے محفوظ رکھے گئے اور دوسرے نافرمانوں کو غرق کر دیا گیا، داﺅد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے واقعات سے ہدایت حاصل کرو۔ سلیمان علیہ السلام کو بھی حکومت اور علم عطا کیا گیا۔ داﺅد علیہ السلام کے ساتھ پتھر اور پرندے بھی اللہ کی تسبیح کرتے تھے، داﺅد علیہ السلام کو زرہ بنانا سکھایا گیا۔ سلیمان علیہ السلام کیلئے تیز ہوا مسخر کر دی گئی۔ جن بھی آپ کے مطیع تھے اور آپ کے حکم سے باہر نہیں تھے۔ ایوب علیہ السلام کو یاد کرو، ہم نے ان کی تکلیف دور کر دی اور ان کے گھر والے اور ساتھی ہماری رحمت سے مستفید ہوئے۔ اسماعیل علیہ السلام اور ادریس علیہ السلام اور ذوالکفل علیہ السلام بھی صبر والوں میں سے تھے۔ یونس علیہ السلام کو بھی یاد کرو جب وہ قوم کی نافرمانی سے ناراض ہوئے اور جب وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے تو ہم کو یاد کیا اور ہم نے ان کو غم سے نجات دی۔ زکریا علیہ السلام نے اولاد کی خواہش کی تو یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اور وہ خشوع وخضوع والے تھے۔ حضرت مریم کی پاکبازی تھی کہ ہم نے ان کو اور ان کے بیٹے کو سارے جہاں کے لئے ایک نشانی بنا دیا۔ ان تمام انبیاء علیہم السلام نے ایک ہی دین کی تبلیغ فرمائی ہے اور میں ہی تمہارا رب ہوں۔ لوگوں نے دین میں اختلاف پیدا کرکے ٹکڑے کر لئے لیکن سب کو ہماری طرف آنا ہے اور قیامت کے قریب یا جوج و ماجوج ہر بلندی سے اتریں گے اور قیامت کے روز کافروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور اس وقت ان کو اپنی غفلت کا احساس ہوگا۔

سورة الحج.... 22 ویں سورت

سورہ حج مدنی ہے،
78 آیات اور 10 رکوع ہیں۔
سترھویں پارہ کے ساتویں رکوع سے آخر تک ہے۔
سورت کا نام تیسرے رکوع کی آیت ”واذن للناس بالحج“ سے لیا گیا ہے۔
یہ اعلان حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا۔
اس سورت میں قیامت کی ہولناکیوں، توحید والوں کی نجات، اور اہل شرک کی سزا کا بیان ہے۔
مسجد حرام (بیت اللہ) کی مرکزیت اور تقدس کا ذکر بھی ہے اور حضرت ابراہیم ؑ کے حوالے سے مناسک حج کا تذکرہ بھی۔


”ارشاد ہے کہ اپنے رب سے ڈرو۔ قیامت آ کر رہے گی۔ وہ بڑی سخت ہو گی۔ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے کو بھول جائے گی، اسقاط ہو جائیں گے، عذاب الٰہی سے لوگوں کے ہوش جاتے رہیں گے۔ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ سے نہیں ڈرتے اور شیطان کے پیرو ہیں۔ لوگ دیکھیں وہ کس طرح پیدا ہوئے اور کس طرح پلے اور بڑھے، کس طرح جیئے بوڑھے ہوئے یا پہلے ہی مر گئے۔ اللہ کس طرح مرجھائی ہوئی کھیتی کو سرسبز کرتا ہے، جوڑے بناتا ہے، زندہ کرتا ہے، مارتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ یہ سب اسے پہچاننے کے لئے نشانیاں ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کو حرم کا صحیح ٹھکانا بتا دیا گیا اور انہوں نے اس کی تعمیر کی تاکہ قریب اور دور کے لوگ وہاں طواف، اعتکاف اور رکوع و سجود کریں۔ قربانی، احرام کے آداب وغیرہ پورے کریں، بتوں سے دور ہوں، جھوٹ سے بچیں، ایک اللہ کے ہو جائیں اور اللہ کے شعائر کی تعظیم کریں تاکہ دل کا تقویٰ حاصل ہو سکے۔ اور ہر امت میں قربانی تھی جو اللہ کے نام پر کی جاتی تھی۔ اور تواضع والوں کے لئے بشارت ہے کہ جب اللہ کا ذکر ان کے سامنے ہوتا ہے تو ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں، جو افتاد پڑے اسے برداشت کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے (اللہ کے لئے) خرچ کرتے ہیں۔ اور قربانی بھی شعائر اللہ میں سے ہے جس میں تمہارے لئے خیر ہے۔ اور اللہ کو ہرگز ان کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تمہاری پرہیز گاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔ بیشک اللہ ٹال دیتا ہے مسلمانوں کی بلائیں اور دغا باز ناشکرے کافر کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اللہ اجازت دیتا ہے جنگ کرنے کی ان مسلمانوں کو جن سے کفار لڑتے ہیں اور اللہ ان کو ضرور مدد دینے پر قادر ہے۔ وہ لوگ تو صرف اس لئے نکالے گئے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر ان مسلمانوں کو مدافعت کی صلاحیت نہ دی جاتی تو اللہ کا نام لینا مشکل تھا۔ اللہ بیشک اس کی مدد فرمائے گا جو دین کی مدد کرے گا۔

سورة المومنون.... 23 ویں سورت

سورة مومنون مکی ہے،
118 آیات اور 6 رکوع ہیں۔
اٹھارھواں پارہ اسی سورہ مبارکہ سے شروع ہوتا ہے۔
سورت میں مومنوں کی صفات اور ان کی کامیابی کا بیان ہے۔
سورت کا آغاز ہی مومنوں کی کامیابی کے اعلان سے ہوتا ہے۔ اس کی ابتدائی آیات کی تلاوت کرنے والے کے لئے کامیابی کی بشارت دی گئی ہے۔ کسی بھی معاشرے کی تطہیر اور افراد کی تعمیر سیرت کے لئے سورہ مومنون میں بیان کردہ صفات بہترین ہیں۔ سورة مبارکہ میں انبیاء کے واقعات بیان کر کے بھی اہل ایمان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔


نوح علیہ السلام کو بھی اللہ پاک نے رسول بنا کر بھیجا۔ لیکن ان کی قوم کے سرداروں نے اعتراض کیا کہ یہ تو انسان ہیں، رسول نہیں ہو سکتے۔ نوح علیہ السلام نے بہت سمجھایا لیکن وہ لوگ ایمان نہ لائے۔ پھر اللہ نے ان کے لئے کشتی بنوائی جس میں ہر جاندار کا ایک ایک جوڑا بٹھایا گیا۔ نوح علیہ السلام (اور انکی اہلیہ) اور وہ جو ایمان لائے تھے وہ بھی بٹھائے گئے۔ باقی غرق کر دیئے گئے۔ پھر اور قومیں آئیں اور ان کے پاس بھی اللہ کے رسول آئے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام تشریف لائے۔ فرعون اور اس کے سرداروں نے بھی تکبر کیا اور یہی کہا کہ یہ دونوں ہماری طرح انسان ہیں، پھر وہ سب ہلاک کئے گئے۔ عیسیٰ علیہ السلام کو بھی ایک نشانی بنا کر بھیجا تھا۔ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی اچھائی سے دوسروں کی برائی کو دور کریں اور خود اللہ کی محافظت چاہیں۔ جب صور پھونکا جائے گا تو نہ کوئی رشتہ کام آئے گا اور نہ کوئی کسی کی بات پوچھے گا، لیکن جن کے اعمال اچھے ہیں اور تول میں زیادہ ہیں وہی بامراد ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہی دعا کریں کہ اے اللہ، بخش دے، رحم فرما دے، اور تو ہی سب سے برتر رحم کرنے والا ہے۔

سورة النور.... 24 ویں سورت

سورة نور مدنی ہے۔
64 آیات اور 9 رکوع ہیں۔
اٹھارھویں پارہ کے ساتویں رکوع سے سولہویں تک جاتی ہے۔
اس سورت کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے نور کا بیان ہے۔
یہ آیت سورت کے پانچویں رکوع میں ہے،
اور اس کا نام ہی ”آیت نور“ ہے۔
اسی سورت میں مشہور واقعہ ”افک“ کا بھی تذکرہ ہے۔ کہ جب مدینہ کے منافقوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا پر بہتان باندھا تھا تو اللہ تعالیٰ نے قرآنی آیات کے ذریعہ اعلان برآت کیا اور بہتان لگانے والوں کو دنیا و آخرت میں ملعون قرار دیا۔ اس سورت میں اسلامی معاشرت کے اصول اور تہذیب و تمدن کے احکامات بیان کئے گئے ہیں۔ خصوصاً حجاب کا حکم، گھروں میں داخل ہونے کے آداب، صراحت سے مذکور ہیں۔


جو شخص کسی پارسا مرد یا عورت پر بدکاری کی تہمت لگائے اور چار گواہ نہ لا سکے تو اسے اسی کوڑے لگائے جائیں۔ اور قیامت میں زبانیں، ہاتھ اور پاﺅں سبھی گواہی دیں گے اور اس دن اللہ ان کی سزا پوری پوری دے گا۔ اے ایمان والو! بغیر اجازت کے دوسرے کے گھروں میں نہ جاﺅ اور بغیر سلام کئے ہوئے بھی نہ جاﺅ۔ بلکہ مکان میں اجازت دینے والا نہ ہو تب بھی مالکوں کی اجازت کے بغیر نہ جاﺅ اور اگر تم کو واپس چلے جانے کو کہا جائے تو واپس چلے آﺅ۔ مسلمان مردوں کو چاہئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرم کی چیزوں کی حفاظت کریں اور انہی باتوں کا مسلمان عورتیں بھی خیال رکھیں اور اپنا بناﺅ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں۔ مگر اپنے شوہر یا باپ پر یا شوہر کے باپ یا اس کے یا اپنے بیٹے یا بھائی، بھتیجے یا بھانجے پر۔ اور یہ روشن آیتیں اور عبرت آموز واقعات ڈرنے والوں کے لئے نصیحت ہیں۔ اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا اور نور سے وہ گھر روشن ہوتا ہے جس میں صبح و شام اللہ کا ذکر ہو۔ اور جسے اللہ نور نہ دے تو وہ تہ بہ تہ تاریکیوں میں رہتا ہے۔ اور کائنات کی تمام چیزیں اپنے اپنے طریقے پر اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اسی طرح بادل، بارش، رات دن، مختلف چوپائے وغیرہ۔ کسی کے گھر جاﺅ تو سب سے پہلے سلام کرو اور جب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر ہو تو ان کو عام لوگوں کی طرح نہ بلاﺅ اور بغیر اجازت کے باہر نہ نکلو۔

ترتیب : رانا شفیق پسروری
 
Top