محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
۔
آخری الوداع
الوداع ۔۔ یہ لفظ سنتے ہی انسان اداس اور غمگین ہو جاتا ہے۔
یہ الوداع زندگی میں صرف ایک بار نہیں آتی بلکہ بار بار آتی ہے۔
انسان کی شروعات بھی الوداع سے ہوتی ہے اور اختتام بھی الوداع سے۔
یہ الوداع کسی کی آنکھوں میں خوشی کی آنسو لاتی ہے تو کسی تو غم کی آنسو رلاتی ہے۔
بچہ اپنی ماں کی بطن کو الوداع کہہ کر دنیا میں آتے ہی روتا ہے اور دنیا والوں کو ہنساتا ہے۔
اور ساری زندگی یہ رونے اور ہنسنے کا الوداعی کھیل جاری ہتا ہے۔ انسان اپنی ہر سانس کو الوداع کہہ رہا ہوتا ہے لیکن اسے اس کا شعور نہیں ہوتا۔
پرائمیری تعلیم کے اختتام پر الوداع‘ سیکنڈری تعلیم کے اختتام پر الوداع اور پھر کالج و یونیورسیٹی سے الوداع۔ ان تعلیمی اداروں میں جاکر انسان دنیا کی بقیہ زندگی کیلئے اپنا کیریئر بناتا ہے اورپھر انہیں الوداع کہہ کر دنیا کی عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے۔ انہیں الوداع کہنا آسان نہیں ہوتا اور نہ ہی اس الوداع کا درد بھولا جا سکتا ہے۔ لیکن ہر الوداع میں خوشیاں بھی سمائی ہوتی ہیں اور حقیقی خوشی صرف انہیں ملتی ہے جو وقت ضائع کئے بغیر محنت کرکے اپناکیریئر بناکر یہاں سے نکلتے ہیں۔ جو اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے اور لہو و لعب میں وقت ضائع کرکے اپنا کیریئر نہیں بنا پاتے‘ وہ دنیا کی عملی زندگی میں پریشان رہتے ہیں۔
اس دنیا کی پریشانی تو عارضی ہے۔ لیکن اگر ہم اس دنیا میں آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کیلئے اپنا کیریئر نہیں بنا سکے اور آخرت کے بارے میں غفلت میں پڑے رہے تو اس دنیا سے آخری الوداع کے ساتھ ہی دکھ درد اور عذاب کا جو لا امتناہی سلسلہ شروع ہوگا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس آخری الوداع کا نام ہے موت جس سے کوئی بچ نہیں سکتا :
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۔۔ ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔۔ (آل عمران: ١٨٥)(الأنبياء: ٣٥)(العنكبوت: ٥٧)
اور یہ آخری الوداع ‘ ہائے یہ آخری الوداع ۔۔۔ اس کا تصور ہی انسان کو سب سے زیادہ اداس‘ سب سے زیادہ غمگین اور سب سے زیادہ رنجیدہ کر ینے والا ہے‘ سوائے اس کے جو اپنی آخرت کیلئے اپنا کیریئر بنا لے اور اس آخری الوداع کیلئے ہر وقت تیار رہے کیونکہ اس آخری الوداع کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ اس کی تقریب کب اور کہاں ہونے والی ہے؟
إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿٣٤﴾ سورة لقمان
’’ بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش برساتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے۔ کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا؟ اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے‘‘۔
لہذ آخرت کی دائمی زندگی کیلئے کیریئر بنانے کا کس کو کتنا وقت ملے گا اور کب کسے دنیا کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہنا پڑے گا‘ اس کا علم کسی کو نہیں ۔ جو وقت میسر ہے اسے غنیمت سمجھتے ہوئے آخرت کیلئے اپنا کیریئر بنایا جائے ۔ نبی کرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں لوگوں کی اکثریت خسارے میں ہے، (وہ دو نعمتیں) صحت اور فراغت ہے‘‘۔ (صحیح بخاری: ۶۴۱۲)
بے شک جو انسان ان دو نعمتوں کے خسارے میں پڑ جائے گا ‘ وہ آخرت کیلئے وہ اپنا کیریئر بہتر نہیں بنا پائے گا اور دنیا میں جس طرح روتا ہوا آیا تھا ‘ اسی طرح دنیا سے روتا ہوا چلا جائے گا اور پھر ہمیشہ روتا ہی رہے گا۔
لہذا آخرت کیلئے ہمیں اپنا کیریئراتنا شاندار بنانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ آخری الوداع کے وقت دنیا والوں کو روتا چھوڑ کر ہم ہنستے ہوئے جائیں اور پھر اللہ کی جنت میں ہمیشہ خوش رہیں۔ اس کے لئے دین کو سیکھنا‘ سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ بغیر دین کے علم کے نہ ہی انسان اللہ کو پہچان سکتا ہے اور نہ ہی دل میں محبت الٰہی اور خشیت الٰہی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی انسان نبی کریم ﷺ کو اپنے والدین‘ بیوی بچے اور تمام انسانوں سے محبوب رکھ سکتا ہے۔ جب دل میں محبت الٰہی اور خشیت الٰہی پیدا ہو گی اور نبی کریم ﷺ سے وہ محبت پیدا ہوگا جو مومن کہلانے کیلئے مطلوب ہے تب أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ کا پیکر بننا ممکن ہوگا اور ہمارا کیریئر آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کیلئے سنور جائے گا۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اس دنیا کی زندگی میں اپنی آخرت کیلئے اپناکیریئربنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔
آخری الوداع
الوداع ۔۔ یہ لفظ سنتے ہی انسان اداس اور غمگین ہو جاتا ہے۔
یہ الوداع زندگی میں صرف ایک بار نہیں آتی بلکہ بار بار آتی ہے۔
انسان کی شروعات بھی الوداع سے ہوتی ہے اور اختتام بھی الوداع سے۔
یہ الوداع کسی کی آنکھوں میں خوشی کی آنسو لاتی ہے تو کسی تو غم کی آنسو رلاتی ہے۔
بچہ اپنی ماں کی بطن کو الوداع کہہ کر دنیا میں آتے ہی روتا ہے اور دنیا والوں کو ہنساتا ہے۔
اور ساری زندگی یہ رونے اور ہنسنے کا الوداعی کھیل جاری ہتا ہے۔ انسان اپنی ہر سانس کو الوداع کہہ رہا ہوتا ہے لیکن اسے اس کا شعور نہیں ہوتا۔
پرائمیری تعلیم کے اختتام پر الوداع‘ سیکنڈری تعلیم کے اختتام پر الوداع اور پھر کالج و یونیورسیٹی سے الوداع۔ ان تعلیمی اداروں میں جاکر انسان دنیا کی بقیہ زندگی کیلئے اپنا کیریئر بناتا ہے اورپھر انہیں الوداع کہہ کر دنیا کی عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے۔ انہیں الوداع کہنا آسان نہیں ہوتا اور نہ ہی اس الوداع کا درد بھولا جا سکتا ہے۔ لیکن ہر الوداع میں خوشیاں بھی سمائی ہوتی ہیں اور حقیقی خوشی صرف انہیں ملتی ہے جو وقت ضائع کئے بغیر محنت کرکے اپناکیریئر بناکر یہاں سے نکلتے ہیں۔ جو اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے اور لہو و لعب میں وقت ضائع کرکے اپنا کیریئر نہیں بنا پاتے‘ وہ دنیا کی عملی زندگی میں پریشان رہتے ہیں۔
اس دنیا کی پریشانی تو عارضی ہے۔ لیکن اگر ہم اس دنیا میں آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کیلئے اپنا کیریئر نہیں بنا سکے اور آخرت کے بارے میں غفلت میں پڑے رہے تو اس دنیا سے آخری الوداع کے ساتھ ہی دکھ درد اور عذاب کا جو لا امتناہی سلسلہ شروع ہوگا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس آخری الوداع کا نام ہے موت جس سے کوئی بچ نہیں سکتا :
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۔۔ ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔۔ (آل عمران: ١٨٥)(الأنبياء: ٣٥)(العنكبوت: ٥٧)
اور یہ آخری الوداع ‘ ہائے یہ آخری الوداع ۔۔۔ اس کا تصور ہی انسان کو سب سے زیادہ اداس‘ سب سے زیادہ غمگین اور سب سے زیادہ رنجیدہ کر ینے والا ہے‘ سوائے اس کے جو اپنی آخرت کیلئے اپنا کیریئر بنا لے اور اس آخری الوداع کیلئے ہر وقت تیار رہے کیونکہ اس آخری الوداع کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ اس کی تقریب کب اور کہاں ہونے والی ہے؟
إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿٣٤﴾ سورة لقمان
’’ بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش برساتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے۔ کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا؟ اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے‘‘۔
لہذ آخرت کی دائمی زندگی کیلئے کیریئر بنانے کا کس کو کتنا وقت ملے گا اور کب کسے دنیا کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہنا پڑے گا‘ اس کا علم کسی کو نہیں ۔ جو وقت میسر ہے اسے غنیمت سمجھتے ہوئے آخرت کیلئے اپنا کیریئر بنایا جائے ۔ نبی کرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں لوگوں کی اکثریت خسارے میں ہے، (وہ دو نعمتیں) صحت اور فراغت ہے‘‘۔ (صحیح بخاری: ۶۴۱۲)
بے شک جو انسان ان دو نعمتوں کے خسارے میں پڑ جائے گا ‘ وہ آخرت کیلئے وہ اپنا کیریئر بہتر نہیں بنا پائے گا اور دنیا میں جس طرح روتا ہوا آیا تھا ‘ اسی طرح دنیا سے روتا ہوا چلا جائے گا اور پھر ہمیشہ روتا ہی رہے گا۔
لہذا آخرت کیلئے ہمیں اپنا کیریئراتنا شاندار بنانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ آخری الوداع کے وقت دنیا والوں کو روتا چھوڑ کر ہم ہنستے ہوئے جائیں اور پھر اللہ کی جنت میں ہمیشہ خوش رہیں۔ اس کے لئے دین کو سیکھنا‘ سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ بغیر دین کے علم کے نہ ہی انسان اللہ کو پہچان سکتا ہے اور نہ ہی دل میں محبت الٰہی اور خشیت الٰہی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی انسان نبی کریم ﷺ کو اپنے والدین‘ بیوی بچے اور تمام انسانوں سے محبوب رکھ سکتا ہے۔ جب دل میں محبت الٰہی اور خشیت الٰہی پیدا ہو گی اور نبی کریم ﷺ سے وہ محبت پیدا ہوگا جو مومن کہلانے کیلئے مطلوب ہے تب أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ کا پیکر بننا ممکن ہوگا اور ہمارا کیریئر آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کیلئے سنور جائے گا۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اس دنیا کی زندگی میں اپنی آخرت کیلئے اپناکیریئربنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔