• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آسان دین ۔ حافظ زبیر صاحب کی تحریر

شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
36
آسان دین
---------
دوست کا سوال ہے کہ اگر غامدی صاحب دین میں آسانی کا فتوی دیں تو وہ تو جدیدیت پسند کہلائیں اور آپ آسانی کا فتوی دے کر بھی روایت پسند رہیں، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی؟ جواب: صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «يسِّروا ولا تعسِّروا، وبشِّروا ولا تنفِّروا»۔ لوگوں کے لیے دین کے معاملے میں آسانیاں پیدا کرو اور سختی مت کرو۔ اور لوگوں کو جنت اور معافی کی خوشخبریاں دو اور انہیں دین سے متنفر مت کرو۔

تو دین میں آسانی پیدا کرنے کے دو مفاہیم ہیں؛ ایک یہ کہ جن چیزوں میں خود دین نے رخصت اور سہولت دے دی ہے تو ان میں اپنے مزاج اور رواج کی سختی کی وجہ سے خواہ مخواہ کی سختی پیدا نہ کر لو۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم کی روایت ہے کہ ازواج مطہرات اپنے سر کے بال اتنے چھوٹے کروا لیتی تھیں کہ وہ ان کے کندھوں تک آ جاتے تھے۔ تو اب اگر کوئی خاتون اپنے بال چھوٹے کروانا چاہے تو ایسے متشدد مذہبی لوگ آپ کو مل جائیں گے جو اسے مردوں سے مشابہت کی وجہ سے ناجائز کہیں گے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ سب خواتین اپنے بال چھوٹے کروا لیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جب احادیث میں رخصت ہے تو اگر کوئی کروانا چاہے تو اس پر طعن نہ کریں۔

تو ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو روایت کو بالکل ہی نہیں مانتے جیسا کہ لبرلز اور دوسری طرف وہ مذہبی طبقہ ہے کہ جس نے دین کا ایک امیج اپنے مزاج اور رواج سے بنا رکھا ہے اور اگر صریح روایت بھی ان کے مزاج اور رواج کے دین کے خلاف آ جائے تو وہ اس روایت کی تاویلیں شروع کر دیں گے لیکن اپنا مزاج اور رواج دین کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اس طرح یہ لوگوں کو اللہ کے دین کی نازل کردہ رخصتوں اور آسانیوں سے فائدہ اٹھانے نہیں دیتے۔ ان کا دین روایات کا دین نہیں ہے بلکہ ان کے مزاج اور رواج کا دین ہے۔

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سفر میں دیکھا کہ اس پر ہجوم ہے اور لوگوں نے سایہ کیا ہوا ہے۔ آپ نے پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے تو لوگوں نے کہا کہ اس نے روزہ رکھا ہوا ہے تو آپ نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔ یعنی دین تمہیں کوئی پچھاڑنے تھوڑا آیا ہے، وہ تو تمہیں کھڑا کرنے آیا ہے۔ اب ایسا بھی دین پر کیا عمل کہ دین تمہیں زمین پر ہی گرا دے۔

صحیح مسلم کی روایت کے مطابق فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں نکلے اور روزے سے تھے۔ رستے میں آپ کو کہا گیا کہ کچھ لوگوں پر روزہ بھاری ہو گیا ہے۔ عصر کا وقت تھا، آپ نے پانی کا پیالہ منگوایا اور سب کے سامنے پانی پی لیا۔ اس کے بعد آپ کو کہا گیا کہ کچھ لوگ آپ کے افطار کرنے کے بعد بھی روزے سے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہی میرے نافرمان ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یوں سخت مزاج کو ختم کرنے کی تربیت فرمائی ہے اور یہاں سخت مزاجی تقوی کا اعلی معیار بنا ہوا ہے۔

تو پہلی بات تو یہ ہے کہ روایات میں جہاں واضح طور دین میں آسانی موجود ہے تو لوگوں کو وہ آسانیاں دیں اور خواہ مخواہ کی تاویلیں کر کے سختی پیدا نہ کریں کیونکہ یہ رویہ بھی روایت کا انکار کرنے کے مترداف ہے۔ دوسرا یہ کہ منہاج میں آسانی پیدا کریں۔ ایک شرعی حکم ہے اور ایک اس شرعی حکم کے نفاذ کا طریقہ کار کہ جسے منہاج کہتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ ترجمہ: ہم نے تم میں سے ہر قوم کے لیے ایک شریعت مقرر کی ہے یعنی ضابطہ حیات (code of life) اور دوسرا منہاج یعنی شریعت کو جاری وساری کرنے کا طریق کار (way of life)۔

تو اگر ایک جگہ شرعی حکم میں سختی ہے اور اس سختی سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو اس حکم کے نفاذ میں نرمی پیدا کر دیں۔ یہ بھی سنت سے ثابت ہے۔ دیور سے پردہ کرنا چاہیے، شریعت کا حکم یہی ہے۔ لیکن اگر بیوی پردہ نہیں کر رہی اور معاملہ طلاق تک آ پہنچا ہے اور خاوند مفتی صاحب سے یہ فتوی پوچھتا ہے کہ میری بیوی میرے بھائی سے پردہ نہیں کرتی ہے تو کیا میں اسے طلاق دے دوں؟ تو اب مفتی صاحب اس کو جواب میں یہ کہیں کہ اسے پردہ تو کرنا چاہیے اور تم حکمت سے اسے سمجھاتے بھی رہو لیکن طلاق نہ دو تو یہ منہاج میں نرمی پیدا کرنا ہے۔ یعنی آپ شرعی حکم کا اسٹیٹس برقرار رکھتے ہوئے اس کے نفاذ میں کچھ نرمی پیدا کر دیتے ہیں تا کہ لوگ دین سے متنفر نہ ہوں۔

سنن ابو داود کی ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میری بیوی کو اگر کوئی اجنبی آدمی ہاتھ لگائے تو وہ اس کا ہاتھ جھٹکتی نہیں ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اسے طلاق دے دو۔ صحابی نے کہا کہ مجھے اس سے اتنا تعلق ہے کہ میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر اس سے استفادہ کرتے رہو۔ تو اب یہاں شریعت نہیں بدلی۔ شریعت کا حکم وہی رہا ہے کہ وہ ایک فحش کام اور گناہ کبیرہ ہے اور رہے گا اور اس کی بیوی گناہ گار ہے۔ بس اتنا کہا ہے کہ چاہے تو طلاق دے دو اور یہ بہتر رویہ ہے لیکن اگر اس کے بغیر نہیں رہ سکتے تو چاہے تو اس کو زوجیت میں رکھے رکھو۔ شریعت تمہارے مسائل حل کرنے آئی ہے نہ کہ پیدا کرنے، یہ اہم بات ہے۔ [جاری]


Sent from my A1601 using Tapatalk
 
شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
36
آسان دین
---------
دوست کا سوال ہے کہ اگر غامدی صاحب دین میں آسانی کا فتوی دیں تو وہ تو جدیدیت پسند کہلائیں اور آپ آسانی کا فتوی دے کر بھی روایت پسند رہیں، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی؟ جواب: صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «يسِّروا ولا تعسِّروا، وبشِّروا ولا تنفِّروا»۔ لوگوں کے لیے دین کے معاملے میں آسانیاں پیدا کرو اور سختی مت کرو۔ اور لوگوں کو جنت اور معافی کی خوشخبریاں دو اور انہیں دین سے متنفر مت کرو۔

تو دین میں آسانی پیدا کرنے کے دو مفاہیم ہیں؛ ایک یہ کہ جن چیزوں میں خود دین نے رخصت اور سہولت دے دی ہے تو ان میں اپنے مزاج اور رواج کی سختی کی وجہ سے خواہ مخواہ کی سختی پیدا نہ کر لو۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم کی روایت ہے کہ ازواج مطہرات اپنے سر کے بال اتنے چھوٹے کروا لیتی تھیں کہ وہ ان کے کندھوں تک آ جاتے تھے۔ تو اب اگر کوئی خاتون اپنے بال چھوٹے کروانا چاہے تو ایسے متشدد مذہبی لوگ آپ کو مل جائیں گے جو اسے مردوں سے مشابہت کی وجہ سے ناجائز کہیں گے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ سب خواتین اپنے بال چھوٹے کروا لیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جب احادیث میں رخصت ہے تو اگر کوئی کروانا چاہے تو اس پر طعن نہ کریں۔

تو ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو روایت کو بالکل ہی نہیں مانتے جیسا کہ لبرلز اور دوسری طرف وہ مذہبی طبقہ ہے کہ جس نے دین کا ایک امیج اپنے مزاج اور رواج سے بنا رکھا ہے اور اگر صریح روایت بھی ان کے مزاج اور رواج کے دین کے خلاف آ جائے تو وہ اس روایت کی تاویلیں شروع کر دیں گے لیکن اپنا مزاج اور رواج دین کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اس طرح یہ لوگوں کو اللہ کے دین کی نازل کردہ رخصتوں اور آسانیوں سے فائدہ اٹھانے نہیں دیتے۔ ان کا دین روایات کا دین نہیں ہے بلکہ ان کے مزاج اور رواج کا دین ہے۔

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سفر میں دیکھا کہ اس پر ہجوم ہے اور لوگوں نے سایہ کیا ہوا ہے۔ آپ نے پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے تو لوگوں نے کہا کہ اس نے روزہ رکھا ہوا ہے تو آپ نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔ یعنی دین تمہیں کوئی پچھاڑنے تھوڑا آیا ہے، وہ تو تمہیں کھڑا کرنے آیا ہے۔ اب ایسا بھی دین پر کیا عمل کہ دین تمہیں زمین پر ہی گرا دے۔

صحیح مسلم کی روایت کے مطابق فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں نکلے اور روزے سے تھے۔ رستے میں آپ کو کہا گیا کہ کچھ لوگوں پر روزہ بھاری ہو گیا ہے۔ عصر کا وقت تھا، آپ نے پانی کا پیالہ منگوایا اور سب کے سامنے پانی پی لیا۔ اس کے بعد آپ کو کہا گیا کہ کچھ لوگ آپ کے افطار کرنے کے بعد بھی روزے سے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہی میرے نافرمان ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یوں سخت مزاج کو ختم کرنے کی تربیت فرمائی ہے اور یہاں سخت مزاجی تقوی کا اعلی معیار بنا ہوا ہے۔

تو پہلی بات تو یہ ہے کہ روایات میں جہاں واضح طور دین میں آسانی موجود ہے تو لوگوں کو وہ آسانیاں دیں اور خواہ مخواہ کی تاویلیں کر کے سختی پیدا نہ کریں کیونکہ یہ رویہ بھی روایت کا انکار کرنے کے مترداف ہے۔ دوسرا یہ کہ منہاج میں آسانی پیدا کریں۔ ایک شرعی حکم ہے اور ایک اس شرعی حکم کے نفاذ کا طریقہ کار کہ جسے منہاج کہتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ ترجمہ: ہم نے تم میں سے ہر قوم کے لیے ایک شریعت مقرر کی ہے یعنی ضابطہ حیات (code of life) اور دوسرا منہاج یعنی شریعت کو جاری وساری کرنے کا طریق کار (way of life)۔

تو اگر ایک جگہ شرعی حکم میں سختی ہے اور اس سختی سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو اس حکم کے نفاذ میں نرمی پیدا کر دیں۔ یہ بھی سنت سے ثابت ہے۔ دیور سے پردہ کرنا چاہیے، شریعت کا حکم یہی ہے۔ لیکن اگر بیوی پردہ نہیں کر رہی اور معاملہ طلاق تک آ پہنچا ہے اور خاوند مفتی صاحب سے یہ فتوی پوچھتا ہے کہ میری بیوی میرے بھائی سے پردہ نہیں کرتی ہے تو کیا میں اسے طلاق دے دوں؟ تو اب مفتی صاحب اس کو جواب میں یہ کہیں کہ اسے پردہ تو کرنا چاہیے اور تم حکمت سے اسے سمجھاتے بھی رہو لیکن طلاق نہ دو تو یہ منہاج میں نرمی پیدا کرنا ہے۔ یعنی آپ شرعی حکم کا اسٹیٹس برقرار رکھتے ہوئے اس کے نفاذ میں کچھ نرمی پیدا کر دیتے ہیں تا کہ لوگ دین سے متنفر نہ ہوں۔

سنن ابو داود کی ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میری بیوی کو اگر کوئی اجنبی آدمی ہاتھ لگائے تو وہ اس کا ہاتھ جھٹکتی نہیں ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اسے طلاق دے دو۔ صحابی نے کہا کہ مجھے اس سے اتنا تعلق ہے کہ میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر اس سے استفادہ کرتے رہو۔ تو اب یہاں شریعت نہیں بدلی۔ شریعت کا حکم وہی رہا ہے کہ وہ ایک فحش کام اور گناہ کبیرہ ہے اور رہے گا اور اس کی بیوی گناہ گار ہے۔ بس اتنا کہا ہے کہ چاہے تو طلاق دے دو اور یہ بہتر رویہ ہے لیکن اگر اس کے بغیر نہیں رہ سکتے تو چاہے تو اس کو زوجیت میں رکھے رکھو۔ شریعت تمہارے مسائل حل کرنے آئی ہے نہ کہ پیدا کرنے، یہ اہم بات ہے۔ [جاری]


Sent from my A1601 using Tapatalk
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ


کیا زبیر صاحب کے باتیں حقیقت پر مبنی ہے؟

کیا زبیر صاحب کے علم سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟

برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں


@خضر حیات

Sent from my A1601 using Tapatalk
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا زبیر صاحب کے باتیں حقیقت پر مبنی ہے؟
دین کی آسانی اور مشکل والی ان کی یہ بات ڈرامے دیکھنے کے جواز سے چلی تھی، اس موضوع سے متعلق ان کی سب تحریریں میرے علم کے مطابق درست نہیں ہیں۔ اس موضوع پر وہ مزید بھی لکھ رہے ہیں، سب تحریریں یہاں نقل کردیں، تاکہ ساتھ ان پر تبصرہ بھی ہوجائے۔
کیا زبیر صاحب کے علم سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟
جی ، ضرور ۔ کئی ایک موضوعات پر انہوں نے بہت اچھا لکھا ہے۔
لیکن حالیہ موضوع میں انہوں نے پہلے خلاف شریعت ایک رائے قائم کی ہے، جب اس پر رد عمل ہوا تو ڈاکٹر صاحب اس غلط موقف کے لیے تاصیل یعنی اصول سازی کرنا شروع ہوگئے ہیں۔
تو ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو روایت کو بالکل ہی نہیں مانتے جیسا کہ لبرلز اور دوسری طرف وہ مذہبی طبقہ ہے کہ جس نے دین کا ایک امیج اپنے مزاج اور رواج سے بنا رکھا ہے اور اگر صریح روایت بھی ان کے مزاج اور رواج کے دین کے خلاف آ جائے تو وہ اس روایت کی تاویلیں شروع کر دیں گے لیکن اپنا مزاج اور رواج دین کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
ہمارا کہنا یہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں جو موجود ہے ، اس پر عمل کرنا ہی اعتدال ہے، اگر کوئی صریح نص کا انکار یا تاویل کرکے مسئلہ میں کوئی رائے اختیار کرتا ہے ، توا سکا موقف غلط ہے، چاہے وہ نرمی کی بات کر رہا ہو ، یا سختی کی۔
اگر لوگوں نے واقعتا صریح روایات اور نصوص کو اپنے مزاج کی سختی یا تشدد کی بنا پر رد کیا ہوتا ، یا تاویل کی ہوتی، تو ڈاکٹر صاحب کو جوابا وہ روایات پیش کردینا کافی تھا ، ’ دین کا مزاج‘ اور ’ منہاج‘ جیسی اصطلاحات کا سہارا لینے کی قطعا حاجت نہیں تھی۔
 
شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
36
آسان دین [قسط دوم]
-------------------
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ دین، آسان دین ہے اور جس نے بھی اس دین میں سختی پیدا کرنے کی کوشش کی تو وہ مغلوب ہو جائے گا یعنی اپنے اس سخت دین پر عمل نہیں کر پائے گا۔ تو ہم یہ بات کر رہے تھے کہ کچھ آسانیوں کا تعلق شریعت سے ہے اور کچھ کا منہاج سے ہے، اس فرق کا لحاظ نہ رکھنے کی وجہ سے دین میں غیر ضروری احتیاط پسندی کے نام پر مذہبی تشدد نے جنم لیا۔

سنن ابو داود کی روایت کے مطابق صفوان بن معطل کی اہلیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے شوہر کی شکایت لگائی کہ وہ فجر کی نماز قضاء کر دیتے ہیں تو صفوان پاس ہی تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا یہ ٹھیک کہہ رہی ہیں؟ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ایسا ہی ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں لہذا صبح وقت پر جاگنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جب جاگا کرو تو اسی وقت فجر کی نماز پڑھ لیا کرو۔ تو یہ منہاج کی نرمی ہے کہ ایک شخص کے حالات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سختی نہیں فرمائی بلکہ اس سے دین پر جس قدر عمل ہو سکتا تھا، اسے قبول فرمایا۔

تو برصغیر اور سعودی عرب کی مذہبی ذہنیت ایسی روایات کو بیان بھی نہیں کرے گی بلکہ چھپائے گی کہ ان کا خیال ہے کہ اس سے بدعملی پیدا ہو گی، لوگ فجر پڑھنا چھوڑ دیں گے۔ یہاں ہمیں ان سے اختلاف ہے کہ یہ اہل روایت کا سابقہ لاحقہ لگا کر بھی اپنے آپ کو مکمل طور روایت کے حوالے نہ کر سکے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے دین کی حفاظت کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حساس بننے کی کوشش کی ہے اور اسی حساسیت نے ان میں عدم توازن پیدا کر دیا ہے۔ بھئی آسان سی بات ہے کہ اس رخصت کا تعلق شریعت سے نہیں ہے کہ اس کے بیان سے شریعت خطرے میں پڑ جائے گی بلکہ اس کا تعلق منہاج سے ہے کہ شریعت کے نفاذ میں نرمی پیدا کرو تا کہ لوگ شریعت میں کسی نہ کسی درجے میں عمل کرتے رہیں اور اس سے زندہ تعلق محسوس کرتے رہیں۔

تو ڈرامے سے متعلق جو پوسٹیں ہم نے لگائی تھیں تو ان کا تعلق بھی منہاج کی نرمی سے تھا نہ کہ ڈرامے کو شرعی جواز بخشنا تھا۔ ان پوسٹوں کا خلاصہ یہ تھا کہ 1۔ خود ڈرامہ نہ دیکھیں، 2۔ ڈرامہ دیکھنے کی ترغیب نہ دیں۔ 3۔ اگر بیوی ڈرامہ دیکھتی ہے تو اسے حکمت سے سمجھا سکتے ہیں۔ 4۔ اگر نہیں رکتی تو سختی نہ کریں، اس سختی سے اس کی اصلاح نہ ہو گی بلکہ وہ اور زیادہ بگڑ جائے گی۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ سختی سے بیوی کی اصلاح ہو سکتی ہے تو کر لیں، مجھے اس سے کیا اختلاف ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ جہاں اس قسم کے مسائل میں سختی ہوئی، وہاں ردعمل میں دین سے اور تنفر پیدا ہوا ہے۔ میرے نزدیک اصل کام جو کرنے کا ہے وہ یہ ہے کہ دین کا تصور نہ بگڑنے دیں۔ بس اتنا کافی ہے۔ جہاں تک عمل کروانے کی بات ہے تو اس میں حکمت کا لحاظ ضروری ہے۔

اس میں کوِئی شک نہیں کہ برصغیر اور سعودی عرب کے علماء کے فتاوی میں سختی پائی جاتی ہے۔ اور جس بات پر ان دونوں کا اتفاق ہو جائے تو اس میں نرمی کی بات کرنا تو بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ مثال کے طور پر شلوار کو ٹخنوں سے اوپر رکھنے کا معاملہ ہی لے لیں۔ جمہور حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کا موقف یہ ہے کہ اگر تکبر کے ساتھ شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھے تو حرام ہے اور اگر تکبر نہ ہو تو پھر حرام نہیں کہہ سکتے بلکہ مکروہ یعنی ناپسندیدہ ہے۔ امام شافعی، امام احمد، امام ابن تیمیہ، امام ابن عبد البر، امام نووی اور امام شوکانی رحمہم اللہ وغیرہ نے صراحت کی ہے کہ اگر تکبر نہ ہو تو شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانا حرام نہیں ہے بلکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مطلق روایات کو مقید پر محمول کیا جائے گا۔ ابن مفلح الحنبلی نے لکھا ہے کہ صاحب محیط کے بیان کے مطابق امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اپنی چادر ٹخنوں سے نیچے لٹکا لیا کرتے تھے تو کسی نے پوچھا کہ ہمیں تو اس سے منع کیا گیا ہے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ تکبر سے نہیں ہے۔

لیکن متاخرین میں شیخ بن باز، شیخ محمد بن صالح العثیمین، علامہ البانی، شیخ صالح الفوزان وغیرہ نے شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کو مطلقا حرام کہا ہے اور یہی قول تقریبا حنفی اور اہل حدیث علماء میں جڑ پکڑ گیا۔ اب اس کے خلاف رائے لا کر تو دیکھیں، چاہے متقدمین فقہاء سے ہی کیوں نہ لے آئیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ان متاخرین علماء نے یہ رائے کیوں پیش کی ہے، یہ بھی علماء ہیں، انہیں بھی اپنی رائے پیش کرنے کا حق ہے۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ متاخرین حنفی اور سلفی علماء کا فتوی اگر متفق ہو جائے تو گویا وہ دین کا ایسا ورژن بن جاتا ہے کہ جس کے مقابلے میں صریح روایت بھی لے آئیں یا فقہائے متقدمین کی آراء بھی بیان کر دیں تو بھی لوگ آپ کو غامدی اور سرسید کے طعنے دینے سے باز نہیں آئیں گے حالانکہ وہ خود اپنے مزاج کی سختی یا احتیاطی مزاج کی وجہ سے دین میں سخت رائے اختیار کر رہے ہوں گے۔

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا کہ مجھے معلوم نہیں تھا اور میں نے قربانی کرنے سے پہلے ہی سر منڈوا لیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ کوئی حرج نہیں ہے اور اب جا کر ذبح کر لو۔ ایک اور شخص آیا اور کہا کہ مجھے معلوم نہیں تھا اور میں نے رمی الجمار یعنی کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر دی تو آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں، اب جا کر قربانی کر لو۔ حدیث میں ہے کہ آپ سے لوگوں حج کے افعال کو آگے پیچھے کرنے کے بارے میں جس قدر بھی سوال کیے تو آپ نے یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی لاعلمی کی وجہ سے ان کو رعایت دی اور ان کے لیے آسانی پیدا فرمائی۔ یہ سب احادیث کس لیے ہیں؟

ابھی میرے ذہن میں بیسیوں روایات آ رہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے کیسے آسانیاں پیدا فرمائی ہیں بلکہ قرآن مجید کی سختی کو اپنے حکم سے نرمی میں بدلا ہے۔ قرآن مجید میں جب بیویوں کو مارنے کی اجازت نازل ہوئی تو سنن ابو داود کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ بیویوں پر ہاتھ نہ اٹھاؤ۔ تو کچھ عرصے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے کہ ہماری بیویاں ہم پر چڑھنا شروع ہو گئی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حکم واپس لے لیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد انصار کی بہت سی عورتیں ازواج مطہرات کے پاس اپنے شوہروں کی سختی کی شکایت لے کر آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اپنی بیویوں پر سختی کر رہے ہیں، وہ اچھے لوگ نہیں ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مارنے سے منع فرما کر قرآن مجید کی مخالفت نہیں کی تھی بلکہ قرآن مجید کا حکم آخری درجے کا ایک استثنائی حکم تھا جس پر عمل سے دین کے سخت ہونے کا تاثر جا رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سختی کے تاثر کو ختم کرنے کے لیے بیویوں کو مارنے سے منع فرما دیا تھا تا کہ عورتیں دین سے متنفر نہ ہوں۔ دوسری شادی کے بارے میں جو پوسٹیں کی تھیں، ان کا خلاصہ بھی یہی تھا کہ جس قسم کے مردوں کے حالات اور اخلاق ہیں، ایسے حالات میں دوسری شادی کو رواج دینا عورتوں کو دین سے متنفر کرنے کا سبب بن رہا ہے لہذا ایک آپشنل حکم پر اتنا زور نہ دو کہ اسے تحریک ہی بنا دو۔

سن ابو داود کی روایت کے مطابق ایک بوڑھے شخص نے کسی لونڈی سے زنا کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اس پر حد لگائیں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ وہ بہت بوڑھا ہے تو آپ نے فرمایا کہ کھجور کی ایک ٹہنی لے لو کہ جس میں سو شاخیں ہو اور اسے وہ ٹہنی ایک بار مار دو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا جیسے گناہ کی حد کے قیام میں بھی ایک شخص کے حالات کا لحاظ کیا اور اس کے لیے نرمی پیدا کی۔ سنن ابو داود ہی کی روایت کے مطابق ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ نے زنا کا اقرار کیا اور جب ان کو زنا کی حد میں رجم کیا جانے لگا تو وہ بھاگے ہیں تو صحابہ نے پیچھا کر کے ان کو پتھر مارے اور انہیں رجم کر دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کے بھاگنے کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ تم نے ماعز کو چھوڑ کیوں نہ دیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نرم دلی پیدا کرو گے تو تمہیں اس دین کو لوگوں کے حلق میں انڈیلنے کی ضرورت نہیں محسوس ہو گی بلکہ وہ اسے دل وجان سے قبول کریں گے۔ [جاری]

Sent from my A1601 using Tapatalk
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ڈاکٹر صاحب کی پہلی تحریر تھی ، ’مذہب کے نام پر بیوی بچوں پر بے جا سختی‘ اس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ :
’اگر آپ کی بیوی نماز روزہ صدقہ خیرات کر رہی ہے، اور ساتھ میں گھر کے کام کاج یا ملازمت بھی کر رہی ہے اور دن میں ایک آدھ گھنٹہ ڈرامہ دیکھ لے تو کیا حرج ہے؟‘ اور جواز کے طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حبشیوں کا کھیل دیکھنا پیش کیا ہے۔ گویا عورت کا غیر محرم کو دیکھنا جائز ہے ، تو ڈرامے دیکھنے بھی جائز ہیں۔
پھر اگلی تحریر کا عنوان یوں قائم کیا: ’ ڈرامہ دیکھنا‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ گانے بجانے جن کی بنا پر تم ڈرامے حرام قرار دے رہے ہو ، وہ تو تمہارے موبائل کی رنگ ٹونز میں بھی ہوتے ہیں اور اس طرح کے دلائل ، خلاصہ یہ تھا کہ ڈرامہ دیکھنا جائز ہے۔
اگلی تحریر کا عنوان تھا ’داعی اور مفتی کے فتاوی کا فرق‘ اس میں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ میں نہ ڈرامے کو جائز کہہ رہا ہوں نہ اس کی ترغیب دے رہا ہوں، ہاں البتہ جو لوگ معاشرتی برائیوں میں پھنسے ہوئے ہیں، اور جن میاں بیوی نے لومیرج کر رکھی ہے، اور اچانک دونوں میں سے ایک نیک ہو کر دوسرے کا ڈرامہ بھی چھڑوانا چاہتا ہے ، وہ ایسا نہ کرے ، کیونکہ اس طرح لوگ دین سے متنفر ہوجاتے ہیں۔
اس سے اگلی تحریر تھی ’عورت کا غیر محرم مرد کو دیکھنا‘۔ علما پر طنز کرتے ہوئے وہ اس کے آخر میں عجیب و غریب موقف اختیار کر چکے تھے، کہ اگر عورت کا مرد کو دیکھنا ہی درست نہ ہوتا تو صحابیات تو کبھی صحابیات بن ہی نہ سکتی تھیں۔
ان تحریروں میں تساہل کے ساتھ تضاد و اضطراب جو میرے جیسے لوگوں نے محسوس کیا، شاید ڈاکٹر صاحب کو بھی اس پیچیدگی کا ادراک ہوا ہوگا، شاید اسی لیے اب وہ ’ آسان دین‘ کے عنوان سے اک نیا سلسلہ شروع کر چکے ہیں۔ جس کی دو قسطیں آگئی ہیں، مزید دیکھیں ، کتنی آتی ہیں۔ ان تحریروں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ہمارا دین (ڈراموں والا، شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھنے والا) بالکل آسان دین ہے، مخصوص علما و مفتیان دین کو سخت دکھانے کے چکر میں ان آسانیوں کو لوگوں سے چھپا کر رکھتے ہیں ۔
’ آسان دین‘ کے اس سلسلے میں انہوں نے حکمت عملی ، مصلحت ، داعی اور مفتی کے فرق سے آگر بڑھ کر دین کا اصل منہاج اور مزاج ہی یہ بتایا ہے کہ ’ آسانیاں پیدا کرو ، مشکلات نہیں ، لوگوں کے مسائل حل کرو، مسائل پیدا نہ کرو ‘۔ ایک طرف ڈاکٹر صاحب دین میں موجود اعتدال اور تیسیر کے ساتھ لوگوں کے مسائل حل فرما رہے ہیں ، دوسری طرف کئی لوگ ابھی بھی ٹکٹکی باندھے انتظار فرما رہے ہیں۔ صدق دل سے دعا گو ہوں گے کہ رمضان میں پیش آنے والے سب مسائل اس سے پہلے پہلے ہی حل ہوجائیں۔
جو لوگ ڈاکٹر صاحب کو غامدی طرز کا دانشور سمجھنے لگے ہیں، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے ، ڈاکٹر صاحب آج سے کئی سال قبل غامدی وغیرہ کا بذات خود رد فرما چکے ہیں، اگر کوئی اس سوئے ظن پر مصر ہے تو اس سے گزارش ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے رد کے لیے ایک عشرہ قبل کی انہیں کی تحریریں پڑھ لیں، جو انہوں نے تجدد و متجددین کے نقد میں تحریر فرمائی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی تحریروں سے ہم سیکھتے رہتے ہیں، ’ آسان دین‘ کے عنوان سے ان سے جو کچھ حاصل ہوگا، اسے یہ سلسلہ مکمل ہونے کے بعد عرض کرنے کی کوشش کروں گا، صرف ایک گزارش کرنا چاہتاہوں، تشدد ، تساہل، سختی نرمی ان سب چیزوں کا کسی حد تک اعتبار ہے، لیکن حقیقت میں تشدد و تساہل کے یہ احکامات و الزامات ’نسبتا‘ ہوتے ہیں۔ ایک آدھی داڑھی رکھنے والے شخص کے نزدیک مکمل داڑھی رکھنے والا متشدد ہے، جبکہ داڑھی مونڈھ ان دونوں کو ہی متشدد سمجھتا ہے۔ کسی کے نزدیک ایک گھنٹہ ڈرامے کی اجازت پر تلملانا تشدد ہے، لیکن کئی لوگ خود اسے بھی متشدد سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ اللہ کے پورے دین سے صرف ایک گھنٹے کی اور صرف ڈرامے کی اجازت دے رہا ہے۔
اس لیے نرمی سختی ، تشدد و تساہل کی بجائے دین سے تمسک ہونا چاہیے، ویسے لفظ ’ تمسک‘ میں بھی ’ شد اور تشدد‘ دونوں باعث پریشانی ہوسکتے ہیں۔
اللہ ہمیں ’دین حنیف‘ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔​
 
شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
36
آسان دین [قسط سوم]
--------------------
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی رحمت کے سبب سے صحابہ کے حق میں بہت نرم ہیں اور اگر آپ سخت دل اور تند خو ہوتے تو لوگ آپ کے ارد گرد سے چھٹ جاتے۔ تو یہی نرمی ہے جو انسانوں کو داعی سے جوڑ کر رکھتی ہے اور داعی سے اس تعلق کی بنیاد پر وہ دین پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالی نرم ہے اور ہر معاملے میں نرمی کو پسند فرماتے ہیں۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ جس سے نرمی چھین لی گئی اس میں کوئی خیر باقی نہیں ہے۔

جس عالم دین نے سوسائٹی میں نکل کر کبھی دو چار لوگوں کو دین کی دعوت نہ دی ہو، وہ میری یہ تحریریں کبھی نہیں سمجھ سکتا۔ ہاں، تبلیغ والوں کو یہ باتیں اپنے دل کی باتیں محسوس ہوں گی جنہوں نے لوگوں کی اصلاح کے لیے ان کے پیچھے دھکے کھائے ہوں۔ بھئی، آپ سوسائٹی میں نکل کر کوئی دعوت کا کام تو کریں، آپ کو ان باتوں کی قدر محسوس ہو۔ آپ کی صورت حال جب یہ ہو کہ مسجد سے نکلیں تو دس بارہ طالب علم آگے پیچھے ہوں، کلاس میں داخل ہوں تو پانچ سات آگے پیچھے ہوں تو کیسے یہ باتیں سمجھ میں آئیں گی، کبھی نہیں آئیں گی۔ پھر دینداروں میں دعوت اور تبلیغ بھی کوئی دعوت تبلیغ ہے، بے دینوں میں جا کر کام کریں تو معلوم ہو۔

جنید جمشید نے میوزک کو خیر آباد کہا تو ایک چینل پر انٹرویو دے رہے تھے کہ انٹرویو لینے والے نے پوچھا کہ میوزک کو آپ نے خیر آباد کہا، وہی آپ کا ذریعہ آمدن تھا، آپ کے بقول حالات ایسے ہو گئے کہ جیب میں سو روپیہ بھی نہیں ہوتا تھا تو میوزک کے بارے آپ کی رائے کیا ہے؟ کیا یہ حرام ہے؟ تو جنید جمشید نے کہا کہ اس سوسائٹی میں یہ جملہ سننے کی سکت نہیں رہی ہے کہ میوزک حرام ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنید جمشید میوزک کو حرام نہیں سمجھتے تھے، جس معاشرے میں جا کر وہ لوگوں کی اصلاح کا کام کرتے تھے، وہاں یہ جملہ بولنا اپنی بات کو ضائع کر دینے کے مترادف تھا۔ انہوں نے خود میوزک چھوڑ دیا، ان کی وجہ سے سینکڑوں نے میوزک چھوڑا لیکن جو مفتی صاحب ان کی اس بات کو پکڑ کر فتوی لگائیں گے، ان کا سوسائٹی اور نوجوان نسل کی اصلاح میں کیا کام ہے؟ یہ سمجھنے کی بات ہے۔ غامدی صاحب اور ہم میں فرق کیا ہے، اس پر میں تفصیل سے آگے لکھوں گا لیکن یہاں ایک جملہ کہہ دینا کافی سمجھتا ہوں کہ ہماری نرمی سے لوگ دین کی طرف راغب ہوتے ہیں، اور ان کی نرمی سے دین سے دور ہیں۔

اور آپ کے فقہاء کے شذوذات کیا ہیں؟ ان شذوذات سے وہ تو غامدی نہیں بنے۔ امام ابن حزم اگر یہ کہتے ہیں کہ موسیقی جائز ہے تو وہ پھر بھی رحمہ اللہ ہیں۔ امام شوکافی اگر یہ کہتے ہیں کہ مشت زنی جائز ہے، تو وہ پھر بھی رحمہ اللہ ہیں۔ حنفی اگر یہ فتوی دیتے ہیں کہ لڑکی گھر سے بھاگ کر نکاح کر لے تو جائز ہے تو انہیں تو کوئی غامدی نہیں کہتا کہ یہی فتوی غامدی صاحب بھی دیتے ہیں۔ شوافع اگر یہ کہتے ہیں کہ مشت سے کم داڑھی کاٹنا بھی جائز ہے تو انہیں بھی کوئی غامدی نہیں کہتا حالانکہ یہ فتوی غامدی صاحب کے فتوی کے قریب ہے۔ اگر اہل حدیث یہ کہتے ہیں کہ تصوف متوازی دین ہے اور یہی بات غامدی صاحب بھی کہتے ہیں تو کوئی اہل حدیثوں کو یہ نہیں کہتا کہ تم غامدی ہو۔

تو غامدی تمہارے سر پر کیوں اتنا سوار ہے کہ تمہارے خیال میں اس کی مخالفت ہی اصل دین ہے۔ تو تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ غامدی صاحب پانچ نمازوں کے بھی قائل ہیں۔ اگر تم پانچ نمازوں کو مانتے ہو تو غامدی تو تم بن گئے۔ تم لوگوں نے کیا تماشا لگا رکھا ہے! ہم نے جب غامدی صاحب کے بیانیے پر نقد کی تھی تو اس نقد میں بھی اسلوب بیان یہی رکھا ہے کہ ان کی یہ بات غلط ہے اور یہ درست ہے اور اس سے ہمیں اتفاق ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود غامدی صاحب کے داماد نے مجھ سے یہ بیان کیا کہ ہم نے آپ کی نقد کی فوٹو کاپیاں کروا کے اپنے حلقے میں بانٹی ہیں۔ تو یہ ہماری نقد کا اثر ہے، تمہارا اثر کیا ہے کہ جس پر تم نقد کرتے ہو، تم اسے گالیاں دو اور وہ تمہیں دے۔ مولانا وحید الدین خان صاحب پر ہم نے نقد لکھی تو ان کے قریبی علماء نے سراہا جیسا کہ مولانا ذکوان ندوی صاحب نے۔ تو جس پر ہم نے نقد کی، اس نے اپنے مخالفین کو کہا کہ مجھ پر نقد پڑھنی ہے تو حافظ زبیر کی پڑھ لو۔ ادھر ادھر جانے کی ضرورت نہیں۔ تو ہمیں بھی تو یہ موقع دو کہ ہم بھی کسی کو کہہ سکیں کہ بھئی ہم پر اگر کسی کی نقد پڑھنی ہو تو فلاں کی پڑھ لو۔ غامدی غامدی کہنے سے کیا ہو گا، یا سرسید سے متاثر ہونے کے طعنے دینے سے کیا فرق پڑے گا۔ جہاں دلیل نہیں سوجھتی وہاں غصہ بڑھ جاتا ہے لہذا غصہ نہیں کرنا غور وفکر کر کے علمی جواب دینا ہے، میں اپنی وال سے پبلش کر دوں گا۔

مجھے ایک مرتبہ کلاس میں ایک شیعہ بچے نے سوال پوچھ لیا کہ آپ کی شلوار ہمیشہ ٹخنوں سے اوپر کیوں ہوتی ہے؟ میں نے کہا کہ یہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ آج فیشن کی وجہ سے لڑکیاں اپنے ٹخنے ننگے رکھتی ہیں تو میں اگر کسی چیز کو سنت سمجھ کر کر رہا ہوں تو کیا حرج ہے؟ وہ کلاس میں کھڑا ہوا، اپنی پینٹ ٹخنوں سے اوپر کی اور کلاس کو گواہ بنا کر کہا کہ اب یہ نیچے نہیں جائے گی۔ تو یہ ریسپانس محض وعظ سے نہیں داعی اور مدعو کے مجموعی تعلق سے جنریٹ ہوتا ہے، یہ سمجھنے کی بات ہے۔ تو ایک تو لوگوں کو دین کی طرف لانے اور راغب کرنے کے لیے نرمی کی ضرورت ہے۔ ہم نرمی دین سے دور کرنے کے لیے نہیں کر رہے بلکہ دین پر لانے کے لیے کر رہے ہیں۔ اور دین سے تعلق پیدا کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ لوگ دین سے متنفر نہ ہوں تو یہ بھی تو دین سے تعلق پیدا کرنا ہی تو ہے۔ اور دین میں سختی لوگوں کو دین سے متنفر کر دیتی ہے۔ البتہ اپنے دین کے معاملے میں ضرور اپنے پر سختی کریں، کس نے منع کیا ہے۔

حنفی اور حنبلی علماء کا فتوی یہی ہے کہ عورت اپنے محرم کے بغیر حج اور عمرہ نہیں کر سکتی ہے لیکن مجھ سے جب کوئی خاتون سوال پوچھتی ہیں کہ وہ بوڑھی ہیں اور پچاس سے اوپر کی عمر میں ہیں اور محرم کا بندوبست نہیں ہو رہا تو میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ اگر تین سے پانچ عورتوں کا گروپ جا رہا ہے تو ان کے ساتھ جانے میں حرج نہیں ہے۔ یہ بھی تو دیکھیں کہ ہمارے ہاں لوگوں کو مکے اور مدینے سے کتنی عقیدت ہے، خدا کے گھر کو دیکھنا ان کے لیے جنت کو دیکھنے سے کم نعمت نہیں ہے۔ وہ ساری عمر ان لمحات کے انتظار میں رہتے ہیں اور پائی پائی جمع کرتے ہیں لیکن مفتی صاحب یہ کہہ کر کہ محرم کے بغیر سفر کی اجازت نہیں ہے لہذا آپ نہیں جا سکتے، انہیں کس قدر ڈی مورلائز کر دیتے ہیں۔ اسے ایک مفتی کی بجائے داعی کی نظر سے بھی دیکھیں کہ اس عمر میں حج اور عمرہ محض ایک فرض کی ادائیگی نہیں ہوتی بلکہ پوری زندگی کو تبدیل کر دینے والا واقعہ اور حادثہ ہوتا ہے۔

صحیح ہے کہ روایات میں محرم کے بغیر سفر سے منع کیا گیا ہے لیکن صحیح روایت میں یہ بھی تو ہے کہ ایک عورت صنعاء سے مکہ کا اکیلے سفر کرے گی اور اسے خدا کے علاوہ کسی کا ڈر اور خوف نہ ہو گا۔ تو اگر رستے پرامن ہیں اور عورتوں کی جماعت موجود ہے تو کوئی بوڑھی خاتون ان کے ساتھ جا کر حج اور عمرہ کی خواہش پوری کر لیں تو کیا حرج ہے؟ اگر فقہاء میں سے حنفیہ اور حنابلہ نے اس سے منع کیا ہے تو شوافع اور مالکیہ نے بھی تو اجازت دی ہے۔ لیکن ہم فقہاء کے اقوال میں سے پِک اینڈ چُوز کی بات نہیں کر رہے، ہم تو روایت سے جڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ روایت سے جڑ جائیں تو دین کی آسانیاں اور سہولتیں از خود حاصل ہو جاتی ہیں۔ تو ہماری سختی نے صرف حرام امور کی فہرستوں میں اضافہ نہیں کیا بلکہ نیکی کرنے کے دروازے بھی بند کیے ہیں۔

اب دینی گھرانوں کی شادیوں میں اتنا گانے کی اجازت بھی کہاں ہے جتنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں کو دی تھی؟ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انصار کی ایک دولہن تیار کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی لہو ولعب کا سامان ہے کہ انصار کو لہو ولعب پسند ہے۔ اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں لہو ولعب کی شرح یوں بیان ہوئی ہے کہ کوئی بچی یہ گانا گائے کہ ہم تمہارے گھر آئے، ہم تمہارے گھر آئے۔۔۔ تمہاری عمر بھی لمبی ہو، ہماری عمر بھی لمبی ہو۔

سنن ترمذی کی روایت میں یہی ہے کہ حلال اور حرام کے مابین فرق دف اور آواز کا ہے یعنی شادی والا گھر شادی والا گھر معلوم ہونا چاہیے، کوئی لائٹنگ کر لیں، دف بچا لیں، بچیاں جمع ہو کر اپنے ہاتھوں پر مہندی لگا لیں، دولہا دولہن کی تعریف میں کچھ گا لیں۔ اب ہر جگہ انہوں نے احیتاط کے نام پر دین کو مشکل بنا رکھا ہے کہ اگر لوگوں کو اتنے کی اجازت دے دی تو اتنی وہ خود نکال لیں گے۔ تو بھئی لوگوں میں شعور پیدا کریں۔ علم تو نام ہی خیر اور شر میں تمیز کا ہے۔ اب تمیز پیدا کرنے میں محنت لگتی ہے لہذا آپ کو آسان لگتا ہے کہ سب ہی کو شر بنا دیں تو یہ تو درست رویہ نہیں ہے۔ آپ کہیں کہ شادی بیاہ کے موقع پر میوزک اور ڈانس پارٹی درست نہیں ہے لیکن صرف یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا جب تک یہ نہیں کہیں گے کہ دف بجانے اور بچیوں کے کچھ گا لینے میں حرج نہیں ہے۔ بھلے خود سے نہ کریں، خود سے آدم بیزار بن جائیں، جنگلوں میں نکل جائیں، جو مرضی کریں لیکن لوگوں کے لیے رخصتیں ضرور بیان کریں۔ [جاری]

Sent from my A1601 using Tapatalk
 
شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
36
آسان دین [قسط چہارم]
----------------------
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اسلام کیا ہے؟ تو آپ نے جواب میں کہا کہ نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کا اہتمام کرو۔ تو وہ شخص آپ کی یہ بات سن کر مجلس سے یہ کہتے ہوئے اٹھا ہے کہ اللہ کی قسم، اس میں نہ تو کمی کروں گا اور نہ اس سے زیادہ کروں گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی نے جنتی دیکھنا ہو تو اس شخص کو دیکھ لے۔ تو ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ارکان اسلام کے علاوہ کوئی نیکی نہیں کرنی ہے۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اشخاص سے ان کے حالات کے مطابق انہیں کم سے کم دین تجویز کیا ہے کہ لوگوں کو دس فی صد دین پر لانا بھی کوئی کام ہے، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔

سنن ترمذی کی روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ دین اسلام کے احکامات بہت زیادہ ہیں، مجھے تو آپ کوئی ایک چیز تجویز کر دیں کہ جسے میں اچھی طرح پکڑ لوں یعنی اس کا میں اہتمام کر لوں گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ پھر اپنی زبان کو ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رکھنا ہے۔ تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوت اور اصلاح کا منہج ہے۔ آج تم سے کوئی آ کر ایسا سوال کرے گا تو تم تو پہلے اسے یہ کہو گے کہ کیا کافر بننا چاہتے ہو جو دین کے ایک حکم کی بات کر رہے ہو؟

مجھے وہ حکایت یاد آ رہی ہے کہ ایک مفتی سے کسی شخص نے پوچھا کہ میں بغیر وضو کے نماز پڑھ لیتا ہوں، اس نے کہا کہ بالکل بھی پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہی سوال اس نے کسی صوفی سے آ کر پوچھا تو اس نے کہا کہ پڑھ لیا کرو۔ صوفی کے مریدوں نے کہا کہ کیا نماز ہو جاتی ہے جو آپ نے اسے یہ کہا ہے؟ صوفی نے جواب دیا کہ نماز تو نہیں ہوتی لیکن مجھے اللہ سے امید ہے کہ اللہ اس کے اس عمل کی وجہ سے اسے وضو کی بھی توفیق دے دے گا لہذا میں نے اسے اس سے روکا نہیں ہے۔ یہ حکمت ہمیں اپنی دعوت اور تبلیغ میں ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اب متشدد مذہبی ذہن اس حکایت میں موجود حکمت پر تو کچھ نہیں توجہ کرے گا لیکن فورا اس پر پوسٹ لگا دے گا کہ دیکھو حافظ زبیر صوفیوں سے رہنمائی لینے کا قائل ہو گیا ہے۔

اب یہاں ان کی منطق بھی عجیب ہے۔ یونیورسٹی میں اگر بے حیائی اور فحاشی بڑھ گئی ہے تو اس کی وجہ کو۔ایجوکیشن ہے لہذا کو۔ایجوکیشن ہی نہیں ہونی چاہیے۔ بھئی تمہارا یہ فتوی صحیح ہونے کے باوجود بے کار ہے کہ کو۔ایجوکیشن ایک حقیقت ہے، وہ جاری رہے گی، باقی میں بھی کہتا ہوں کہ نہیں ہونی چاہیے لیکن "نہیں ہونی چاہیے" کے فتوی سے مسئلہ حل نہیں ہوا، وہ اپنی جگہ موجود ہے۔ جس ماحول میں 80 فی صد بچے اور بچیاں آپس میں انوالو ہوں، وہاں آپ پردہ کرنے کی بات کریں گے تو گناہ اور بڑھ جائے گا کہ پردے میں گناہ میں آسانی رہتی ہے لہذا وہاں اصل فوکس زنا سے ممانعت کو کرنا چاہیے۔ اب یہ بات بھی انہیں سمجھ نہیں آتی اور یہ کہتے ہیں کہ پھر کیا ہم نہی عن المنکر چھوڑ دیں؟

تو بھئی کس نے کہا ہے کہ آپ نہی عن المنکر چھوڑ دیں۔ ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے نہی عن المنکر کرنے سے اگر بڑا منکر پیدا ہو رہا ہو تو پھر یہ نہی عن المنکر چھوڑ دو۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا گزر تاتاریوں کے ایک ایسے گروہ سے ہوا کہ جو اسلام قبول کر چکا تھا اور شراب کے نشے میں غرق تھا۔ آپ کے شاگردوں میں سے بعض نے انہیں نہی عن المنکر کرنا چاہا تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا کہ کوئی ضرورت نہیں۔ ان وحشیوں کو نشے میں مست رہنے دو۔ اگر یہ ہوش میں آئیں گے تو مسلمانوں کی بستیاں اجاڑ دیں گے۔

دین میں سخت رویہ اختیار کرنے سے اخلاقی کرپشن بھی بڑھ جاتی ہے، اگر یقین نہ آئے تو سخت فتوے دینے والوں کی چار ماہ کی سرچ ہسٹری نکال لیں۔ پہلے تو وہ صرف خدا کے پاس تھی، اب تو گوگل اور فیس بک والوں کے پاس بھی ہے۔ اب تو یہاں عجیب ماحول ہے کہ جو جس قدر سختی اختیار کرے، وہ اتنا بڑا امام بن جاتا ہے حالانکہ اللہ عزوجل نے موسی علیہ السلام کو فرعون کے لیے کہا تھا: فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ۔ کہ اس سے نرم بات کرنا، شاید اس نرمی کی وجہ سے وہ کوئی نصیحت پکڑ لے۔ تو یہ سارے مسلمان معاشرے کیا فرعون سے بھی گئے گزرے ہیں؟ یہ منہاج کی نرمی ہے۔ اصول فقہ میں بھی مصلحت مرسلہ، سد الذرائع، استحسان اور عرف کے اصول در اصل منہاج کے اصول ہیں۔ کبھی اس نظر سے بھی اصول فقہ کا مطالعہ کر لو۔

صحیح روایت کے مطابق ایک بدو نے مسجد نبوی میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ صحابہ اس کو مارنے کے دوڑے تو آپ نے ان اٹھنے والوں سے کہا کہ اس کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دو اور اسے اپنے پاس بلایا اور سمجھایا کہ مسجد میں یہ کام نہیں کرنا اور وہ زندگی بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ممنون رہا۔ اور وہ تو مسجد نبوی تھی، یہاں عام مسجد میں کوئی اس سے دس گنا کم حرکت تو کر کے دیکھے، نمازی اس کا بھرکس نہ نکال دیں۔ اور تو اور آپ مسجد میں اپنے بچہ ہی لے آئیں تو نمازیوں کا رد عمل دیکھنے والا ہوتا ہے۔ سختی جب مزاج کا حصہ بن جاتی ہے تو دوسرے مسلک تک محدود نہیں رہتی بلکہ اپنے مسلک کے لوگوں کا بھی اس شدت اور سختی سے رد کر رہے ہوتے ہیں کہ جیسے کوئی جہاد فرما رہے ہوں۔ ہر مسلک کی ذیلی سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کی باہمی چپقلش کی داستان کا مطالعہ یہاں فیس بک پر فرما لیں تو کافی ہے۔

میں رفع الیدین کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں اور یہی بات درست سمجھتا ہوں کہ رفع الیدین کرنا چاہیے لیکن بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ کسی حنفی مسجد میں امام مسجد موجود نہیں ہے، بعض نمازیوں نے مجھے نماز کے لیے آگے کر دیا تو اب میں نے ان کا لحاظ کیا اور حنفی طریقے سے نماز پڑھا دی۔ یہ منہاج کی نرمی ہے۔ اب اہل حدیثوں کے بولنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ بہرحال غالبا 1999ء کی بات ہے کہ میری اس عادت کا علم ہمارے اہل حدیث بھائیوں کو ہوا تو مقامی اہل حدیث مسجد کے خطیب صاحب نے مجھ پر جمعہ لگا دیا کہ حافظ زبیر بدعتی ہو گیا ہے۔ خیر میں تو جمعہ میں نہیں تھا لیکن بڑے بھائی صاحب اس جمعہ میں موجود تھے اور وہ دیوبندی ہیں تو انہوں نے مجھے کہا کہ میں تو اتفاق سے اہل حدیث کی مسجد میں جمعہ پڑھنے گیا تھا اور وہاں خطیب صاحب تمہارے فضائل بیان فرما رہے تھے، تم کن لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے ہو؟ آئندہ تم نے وہاں جمعہ پڑھنے نہیں جانا ہے۔ میں نے کہا کہ میں آئندہ بھی وہاں جمعہ پڑھنے جایا کروں گا، مجھے ان کے موقف سے اتفاق ہوا ہے، اخلاق اور رویوں سے نہیں لہذا مجھے ایسی تنقیدوں سے فرق نہیں پڑتا۔ بعد میں اسی مسجد میں اہل حدیث نمازیوں کے مابین لڑائی ہوئی، ایک مسجد سے دو مسجدیں بن گئیں۔ میں نے ان لوگوں میں صلح کروائی جو میرے پیچھے نماز نہ ہونے یا میرے بدعتی ہونے کے فتوے دیا کرتے تھے۔ اب بھی اس مسجد میں نماز پڑھنے جاتا ہوں تو لوگ آگے کرنا بھی چاہیں تو آگے نہیں ہوتا لیکن ان کے پیچھے نماز ضرور پڑھ لیتا ہوں۔

اور یہ بھی میرے ساتھ ہوتا ہے کہ لوگ مجھے دیکھ کر اہل حدیث ہو جاتے ہیں حالانکہ میں اختلافی مسائل پر بالکل بھی جمعوں، خطبات اور دروس میں گفتگو نہیں کرتا۔ ایک نمازی جو دو سال سے میرے پیچھے جمعہ پڑھ رہے تھے، میرے پاس آئے اور مجھے کہنے لگے کہ مجھے یہ رفع الیدین کا طریقہ سکھا دیں۔ میں نے کہا کہ خیریت ہے؟ کہنے لگے کہ آپ نماز میں رفع الیدین کرتے ہیں، میں نے بھی کرنا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کا مسلک کیا ہے؟ کہنے لگے، مسلک جو بھی ہے، نماز میں نے ویسے پڑھنی ہے جیسے آپ پڑھتے ہیں۔ ایک اور نمازی نے ایک مرتبہ بتلایا کہ میں عرصہ سے آپ کے پیچھے جمعہ پڑھ رہا ہوں، آپ سے محبت اور تعلق پیدا ہوا لہذا میں نے خود بھی اور اپنے گھر میں ویسے ہی نماز پڑھنی شروع کر دی جیسے آپ پڑھتے ہیں۔ اور میں نے خود ہی انٹرنیٹ پر ریسرچ کی تھی کہ ایسے نماز کون پڑھتا ہوں تو مجھے معلوم ہوا کہ اہل حدیث پڑھتے ہیں، اب میں اور میرا پورا گھرانہ اہل حدیث ہیں حالانکہ اس نے میری زبان سے شاید چار سالوں میں اہل حدیث کا لفظ بھی نہ سنا ہو گا۔ اب حنفیوں کے بولنے کی باری ہے۔

سنن النسائی کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دین میں غلو سے بچو کہ تم سے پہلی قومیں دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہو گئیں۔ غلو آپ کے دین کو کس طرح تباہ کرتا ہے، اس کا اندازہ بعض معاصر جہادی تحریکوں کے مطالعہ سے ہو سکتا ہے۔ ابھی دو چار دن پہلے ہی صومالیہ میں القاعدہ کی جہادی شاخ "الشباب" نے ایک طرف ایک خاتون پر رجم کی حد جاری فرمائی کہ ان کے بقول اس خاتون نے نو مردوں سے شادی کی تھی اور کسی سے بھی طلاق نہ لی تھی اور دوسری طرف ان مجاہدین کی اپنی صورت حال یہ ہے کہ عیسائی اور مسلمان عورتیں لونڈیاں بنا کر رکھی ہیں اور ایک عورت کے ساتھ ایک ہی رات میں تین تین مجاہد مستفید ہوتے ہیں کہ وہ ان کی اجتماعی لونڈی ہے۔

دین میں سختی سے بدترین اخلاقی کرپشن جنم لیتی ہے۔ عجیب زمانہ آ گیا ہے کہ اب دین میں اس سختی سے امامت ملتی ہے۔ آپ سخت سے سخت فتوے دینا شروع کر دیں، لوگ آپ کو امام کہنا شروع کر دیں گے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ متشددین ہلاک ہو جائیں۔ مذہبی متشددین کی چار ماہ کی انٹرنیٹ کی سرچ ہسٹری نکال کر دیکھ لیں، تو ایک بڑی تعداد بلیو پرنٹ بھی دیکھ رہی ہو گی۔ پہلے تو خدا کو صرف اس کرپشن کا علم تھا اور اب تو گوگل اور فیس بک کو بھی ہے اور وہ ایسے مذہبی تماشوں کی سرچ ہسٹری کی بنا پر ان کی ایمانی اور اخلاقی حالت کے بیان میں آرٹیکلز پبلش کرتے جا رہے ہیں کہ ایسا ایسا سخت موقف رکھنے والے اتنے فی صد ان ان ویب سائیٹس کو وزٹ کرتے ہیں۔ [جاری]

Sent from my A1601 using Tapatalk
 
شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
36
آسان دین [قسط سوم]
--------------------
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی رحمت کے سبب سے صحابہ کے حق میں بہت نرم ہیں اور اگر آپ سخت دل اور تند خو ہوتے تو لوگ آپ کے ارد گرد سے چھٹ جاتے۔ تو یہی نرمی ہے جو انسانوں کو داعی سے جوڑ کر رکھتی ہے اور داعی سے اس تعلق کی بنیاد پر وہ دین پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالی نرم ہے اور ہر معاملے میں نرمی کو پسند فرماتے ہیں۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ جس سے نرمی چھین لی گئی اس میں کوئی خیر باقی نہیں ہے۔

جس عالم دین نے سوسائٹی میں نکل کر کبھی دو چار لوگوں کو دین کی دعوت نہ دی ہو، وہ میری یہ تحریریں کبھی نہیں سمجھ سکتا۔ ہاں، تبلیغ والوں کو یہ باتیں اپنے دل کی باتیں محسوس ہوں گی جنہوں نے لوگوں کی اصلاح کے لیے ان کے پیچھے دھکے کھائے ہوں۔ بھئی، آپ سوسائٹی میں نکل کر کوئی دعوت کا کام تو کریں، آپ کو ان باتوں کی قدر محسوس ہو۔ آپ کی صورت حال جب یہ ہو کہ مسجد سے نکلیں تو دس بارہ طالب علم آگے پیچھے ہوں، کلاس میں داخل ہوں تو پانچ سات آگے پیچھے ہوں تو کیسے یہ باتیں سمجھ میں آئیں گی، کبھی نہیں آئیں گی۔ پھر دینداروں میں دعوت اور تبلیغ بھی کوئی دعوت تبلیغ ہے، بے دینوں میں جا کر کام کریں تو معلوم ہو۔

جنید جمشید نے میوزک کو خیر آباد کہا تو ایک چینل پر انٹرویو دے رہے تھے کہ انٹرویو لینے والے نے پوچھا کہ میوزک کو آپ نے خیر آباد کہا، وہی آپ کا ذریعہ آمدن تھا، آپ کے بقول حالات ایسے ہو گئے کہ جیب میں سو روپیہ بھی نہیں ہوتا تھا تو میوزک کے بارے آپ کی رائے کیا ہے؟ کیا یہ حرام ہے؟ تو جنید جمشید نے کہا کہ اس سوسائٹی میں یہ جملہ سننے کی سکت نہیں رہی ہے کہ میوزک حرام ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنید جمشید میوزک کو حرام نہیں سمجھتے تھے، جس معاشرے میں جا کر وہ لوگوں کی اصلاح کا کام کرتے تھے، وہاں یہ جملہ بولنا اپنی بات کو ضائع کر دینے کے مترادف تھا۔ انہوں نے خود میوزک چھوڑ دیا، ان کی وجہ سے سینکڑوں نے میوزک چھوڑا لیکن جو مفتی صاحب ان کی اس بات کو پکڑ کر فتوی لگائیں گے، ان کا سوسائٹی اور نوجوان نسل کی اصلاح میں کیا کام ہے؟ یہ سمجھنے کی بات ہے۔ غامدی صاحب اور ہم میں فرق کیا ہے، اس پر میں تفصیل سے آگے لکھوں گا لیکن یہاں ایک جملہ کہہ دینا کافی سمجھتا ہوں کہ ہماری نرمی سے لوگ دین کی طرف راغب ہوتے ہیں، اور ان کی نرمی سے دین سے دور ہیں۔

اور آپ کے فقہاء کے شذوذات کیا ہیں؟ ان شذوذات سے وہ تو غامدی نہیں بنے۔ امام ابن حزم اگر یہ کہتے ہیں کہ موسیقی جائز ہے تو وہ پھر بھی رحمہ اللہ ہیں۔ امام شوکافی اگر یہ کہتے ہیں کہ مشت زنی جائز ہے، تو وہ پھر بھی رحمہ اللہ ہیں۔ حنفی اگر یہ فتوی دیتے ہیں کہ لڑکی گھر سے بھاگ کر نکاح کر لے تو جائز ہے تو انہیں تو کوئی غامدی نہیں کہتا کہ یہی فتوی غامدی صاحب بھی دیتے ہیں۔ شوافع اگر یہ کہتے ہیں کہ مشت سے کم داڑھی کاٹنا بھی جائز ہے تو انہیں بھی کوئی غامدی نہیں کہتا حالانکہ یہ فتوی غامدی صاحب کے فتوی کے قریب ہے۔ اگر اہل حدیث یہ کہتے ہیں کہ تصوف متوازی دین ہے اور یہی بات غامدی صاحب بھی کہتے ہیں تو کوئی اہل حدیثوں کو یہ نہیں کہتا کہ تم غامدی ہو۔

تو غامدی تمہارے سر پر کیوں اتنا سوار ہے کہ تمہارے خیال میں اس کی مخالفت ہی اصل دین ہے۔ تو تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ غامدی صاحب پانچ نمازوں کے بھی قائل ہیں۔ اگر تم پانچ نمازوں کو مانتے ہو تو غامدی تو تم بن گئے۔ تم لوگوں نے کیا تماشا لگا رکھا ہے! ہم نے جب غامدی صاحب کے بیانیے پر نقد کی تھی تو اس نقد میں بھی اسلوب بیان یہی رکھا ہے کہ ان کی یہ بات غلط ہے اور یہ درست ہے اور اس سے ہمیں اتفاق ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود غامدی صاحب کے داماد نے مجھ سے یہ بیان کیا کہ ہم نے آپ کی نقد کی فوٹو کاپیاں کروا کے اپنے حلقے میں بانٹی ہیں۔ تو یہ ہماری نقد کا اثر ہے، تمہارا اثر کیا ہے کہ جس پر تم نقد کرتے ہو، تم اسے گالیاں دو اور وہ تمہیں دے۔ مولانا وحید الدین خان صاحب پر ہم نے نقد لکھی تو ان کے قریبی علماء نے سراہا جیسا کہ مولانا ذکوان ندوی صاحب نے۔ تو جس پر ہم نے نقد کی، اس نے اپنے مخالفین کو کہا کہ مجھ پر نقد پڑھنی ہے تو حافظ زبیر کی پڑھ لو۔ ادھر ادھر جانے کی ضرورت نہیں۔ تو ہمیں بھی تو یہ موقع دو کہ ہم بھی کسی کو کہہ سکیں کہ بھئی ہم پر اگر کسی کی نقد پڑھنی ہو تو فلاں کی پڑھ لو۔ غامدی غامدی کہنے سے کیا ہو گا، یا سرسید سے متاثر ہونے کے طعنے دینے سے کیا فرق پڑے گا۔ جہاں دلیل نہیں سوجھتی وہاں غصہ بڑھ جاتا ہے لہذا غصہ نہیں کرنا غور وفکر کر کے علمی جواب دینا ہے، میں اپنی وال سے پبلش کر دوں گا۔

مجھے ایک مرتبہ کلاس میں ایک شیعہ بچے نے سوال پوچھ لیا کہ آپ کی شلوار ہمیشہ ٹخنوں سے اوپر کیوں ہوتی ہے؟ میں نے کہا کہ یہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ آج فیشن کی وجہ سے لڑکیاں اپنے ٹخنے ننگے رکھتی ہیں تو میں اگر کسی چیز کو سنت سمجھ کر کر رہا ہوں تو کیا حرج ہے؟ وہ کلاس میں کھڑا ہوا، اپنی پینٹ ٹخنوں سے اوپر کی اور کلاس کو گواہ بنا کر کہا کہ اب یہ نیچے نہیں جائے گی۔ تو یہ ریسپانس محض وعظ سے نہیں داعی اور مدعو کے مجموعی تعلق سے جنریٹ ہوتا ہے، یہ سمجھنے کی بات ہے۔ تو ایک تو لوگوں کو دین کی طرف لانے اور راغب کرنے کے لیے نرمی کی ضرورت ہے۔ ہم نرمی دین سے دور کرنے کے لیے نہیں کر رہے بلکہ دین پر لانے کے لیے کر رہے ہیں۔ اور دین سے تعلق پیدا کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ لوگ دین سے متنفر نہ ہوں تو یہ بھی تو دین سے تعلق پیدا کرنا ہی تو ہے۔ اور دین میں سختی لوگوں کو دین سے متنفر کر دیتی ہے۔ البتہ اپنے دین کے معاملے میں ضرور اپنے پر سختی کریں، کس نے منع کیا ہے۔

حنفی اور حنبلی علماء کا فتوی یہی ہے کہ عورت اپنے محرم کے بغیر حج اور عمرہ نہیں کر سکتی ہے لیکن مجھ سے جب کوئی خاتون سوال پوچھتی ہیں کہ وہ بوڑھی ہیں اور پچاس سے اوپر کی عمر میں ہیں اور محرم کا بندوبست نہیں ہو رہا تو میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ اگر تین سے پانچ عورتوں کا گروپ جا رہا ہے تو ان کے ساتھ جانے میں حرج نہیں ہے۔ یہ بھی تو دیکھیں کہ ہمارے ہاں لوگوں کو مکے اور مدینے سے کتنی عقیدت ہے، خدا کے گھر کو دیکھنا ان کے لیے جنت کو دیکھنے سے کم نعمت نہیں ہے۔ وہ ساری عمر ان لمحات کے انتظار میں رہتے ہیں اور پائی پائی جمع کرتے ہیں لیکن مفتی صاحب یہ کہہ کر کہ محرم کے بغیر سفر کی اجازت نہیں ہے لہذا آپ نہیں جا سکتے، انہیں کس قدر ڈی مورلائز کر دیتے ہیں۔ اسے ایک مفتی کی بجائے داعی کی نظر سے بھی دیکھیں کہ اس عمر میں حج اور عمرہ محض ایک فرض کی ادائیگی نہیں ہوتی بلکہ پوری زندگی کو تبدیل کر دینے والا واقعہ اور حادثہ ہوتا ہے۔

صحیح ہے کہ روایات میں محرم کے بغیر سفر سے منع کیا گیا ہے لیکن صحیح روایت میں یہ بھی تو ہے کہ ایک عورت صنعاء سے مکہ کا اکیلے سفر کرے گی اور اسے خدا کے علاوہ کسی کا ڈر اور خوف نہ ہو گا۔ تو اگر رستے پرامن ہیں اور عورتوں کی جماعت موجود ہے تو کوئی بوڑھی خاتون ان کے ساتھ جا کر حج اور عمرہ کی خواہش پوری کر لیں تو کیا حرج ہے؟ اگر فقہاء میں سے حنفیہ اور حنابلہ نے اس سے منع کیا ہے تو شوافع اور مالکیہ نے بھی تو اجازت دی ہے۔ لیکن ہم فقہاء کے اقوال میں سے پِک اینڈ چُوز کی بات نہیں کر رہے، ہم تو روایت سے جڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ روایت سے جڑ جائیں تو دین کی آسانیاں اور سہولتیں از خود حاصل ہو جاتی ہیں۔ تو ہماری سختی نے صرف حرام امور کی فہرستوں میں اضافہ نہیں کیا بلکہ نیکی کرنے کے دروازے بھی بند کیے ہیں۔

اب دینی گھرانوں کی شادیوں میں اتنا گانے کی اجازت بھی کہاں ہے جتنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں کو دی تھی؟ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انصار کی ایک دولہن تیار کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی لہو ولعب کا سامان ہے کہ انصار کو لہو ولعب پسند ہے۔ اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں لہو ولعب کی شرح یوں بیان ہوئی ہے کہ کوئی بچی یہ گانا گائے کہ ہم تمہارے گھر آئے، ہم تمہارے گھر آئے۔۔۔ تمہاری عمر بھی لمبی ہو، ہماری عمر بھی لمبی ہو۔

سنن ترمذی کی روایت میں یہی ہے کہ حلال اور حرام کے مابین فرق دف اور آواز کا ہے یعنی شادی والا گھر شادی والا گھر معلوم ہونا چاہیے، کوئی لائٹنگ کر لیں، دف بچا لیں، بچیاں جمع ہو کر اپنے ہاتھوں پر مہندی لگا لیں، دولہا دولہن کی تعریف میں کچھ گا لیں۔ اب ہر جگہ انہوں نے احیتاط کے نام پر دین کو مشکل بنا رکھا ہے کہ اگر لوگوں کو اتنے کی اجازت دے دی تو اتنی وہ خود نکال لیں گے۔ تو بھئی لوگوں میں شعور پیدا کریں۔ علم تو نام ہی خیر اور شر میں تمیز کا ہے۔ اب تمیز پیدا کرنے میں محنت لگتی ہے لہذا آپ کو آسان لگتا ہے کہ سب ہی کو شر بنا دیں تو یہ تو درست رویہ نہیں ہے۔ آپ کہیں کہ شادی بیاہ کے موقع پر میوزک اور ڈانس پارٹی درست نہیں ہے لیکن صرف یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا جب تک یہ نہیں کہیں گے کہ دف بجانے اور بچیوں کے کچھ گا لینے میں حرج نہیں ہے۔ بھلے خود سے نہ کریں، خود سے آدم بیزار بن جائیں، جنگلوں میں نکل جائیں، جو مرضی کریں لیکن لوگوں کے لیے رخصتیں ضرور بیان کریں۔ [جاری]

Sent from my A1601 using Tapatalk
@خضر حیات

Sent from my A1601 using Tapatalk
 

غرباء

رکن
شمولیت
جولائی 11، 2019
پیغامات
86
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
62
*خاص اُنکے لئے جو بولتے ہے دین آسان ہے*⬇

*دین میں آسانی وہ ہے جو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کریں اور پریشانی بھی وہی ہے جسے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پریشانی قرار دیں ۔۔۔*
باقی ہمارے آج کے دین میں آسانی کے معیارات محض من مانی ہے اور کچھ نہیں ۔۔۔

ہر کوئی اپنے لئے گنجائش نکالنا چاہتا ہے ۔۔۔ ہر کسی کو آسانی چاہیے ۔۔۔

آج کہتے ہیں ' داڑھی اسلام میں ہے، اسلام داڑھی میں نہیں ' ۔۔۔

کل روزے کے بارے میں یہ فرمائیں گے ۔۔۔ پھر نماز کے بارے میں یہ فرمائیں گے ۔۔۔

ارے ہاں نا بھائی ؟ عقل نی ہے تمہارے پاس ؟ ۔۔۔ نماز پڑھنے سے بس خود کو فائدہ ہوتا ہے ۔۔۔ جبکہ غریبوں کے مدد کرنے سے دوسروں کا ۔۔۔ دل کو سکون تب ہی ملتا ہے ۔۔۔

*خامووووش!!*

یہ ہیں سیکولر حضرات کے وہ ہتھکنڈے جس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دلوں سے ایمان رفع کیا جاتا ہے ۔۔۔ ایسی باتوں سے ہی مسلمانوں کے دلوں سے دین کے شعائر کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے ۔۔۔ پھر پردہ بھی دل کا ہوتا ہے ۔۔۔ داڑھی بھی بس ' سنت ہی تو ہے ' ۔۔۔

ان کو پتا ہے یہ لوگ اللہ کے معبود ہونے کا انکار نہیں کروا سکتے ہم سے ۔۔۔ اسلئے اللہ کے احکامات کا انکار کرواتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ دل ایمان سے خالی ہوتا چلا جاتا ہے ۔۔۔

پھر کلمہ گو تو ڈیڑھ ارب مل جائیں گے ۔۔۔ لیکن ایمان والے نہیں ۔۔۔

*اپنا ایمان بچانا ہے تو دین کے شعائر کو حقیر سمجھنا چھوڑ دیں ۔۔۔ ایمانی کمزوری کی بنا پر عمل نہیں کرر پارہے ۔۔۔ کوئی بات نہیں اللہ مدد کریں گے ۔۔۔مگر خود بی اپنا ایمان مضبوط کریں ہر اس بات پر عمل کر کے جس کا حکم خود اللہ اور اسکے رسول نے دیا۔ لیکن دل اور زبان سے کسی بھی شعائر کو کم تر نہ کریں ۔۔۔*
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
دین ''آسان'' تو ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اس ''آسانی'' سے شریعی احکامات سے ''آزادی'' کشید کرنے کو کیا کہتے ہیں!
 
Top