محمد ہارون
رکن
- شمولیت
- جون 01، 2017
- پیغامات
- 26
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 36
آسان دین
---------
دوست کا سوال ہے کہ اگر غامدی صاحب دین میں آسانی کا فتوی دیں تو وہ تو جدیدیت پسند کہلائیں اور آپ آسانی کا فتوی دے کر بھی روایت پسند رہیں، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی؟ جواب: صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «يسِّروا ولا تعسِّروا، وبشِّروا ولا تنفِّروا»۔ لوگوں کے لیے دین کے معاملے میں آسانیاں پیدا کرو اور سختی مت کرو۔ اور لوگوں کو جنت اور معافی کی خوشخبریاں دو اور انہیں دین سے متنفر مت کرو۔
تو دین میں آسانی پیدا کرنے کے دو مفاہیم ہیں؛ ایک یہ کہ جن چیزوں میں خود دین نے رخصت اور سہولت دے دی ہے تو ان میں اپنے مزاج اور رواج کی سختی کی وجہ سے خواہ مخواہ کی سختی پیدا نہ کر لو۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم کی روایت ہے کہ ازواج مطہرات اپنے سر کے بال اتنے چھوٹے کروا لیتی تھیں کہ وہ ان کے کندھوں تک آ جاتے تھے۔ تو اب اگر کوئی خاتون اپنے بال چھوٹے کروانا چاہے تو ایسے متشدد مذہبی لوگ آپ کو مل جائیں گے جو اسے مردوں سے مشابہت کی وجہ سے ناجائز کہیں گے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ سب خواتین اپنے بال چھوٹے کروا لیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جب احادیث میں رخصت ہے تو اگر کوئی کروانا چاہے تو اس پر طعن نہ کریں۔
تو ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو روایت کو بالکل ہی نہیں مانتے جیسا کہ لبرلز اور دوسری طرف وہ مذہبی طبقہ ہے کہ جس نے دین کا ایک امیج اپنے مزاج اور رواج سے بنا رکھا ہے اور اگر صریح روایت بھی ان کے مزاج اور رواج کے دین کے خلاف آ جائے تو وہ اس روایت کی تاویلیں شروع کر دیں گے لیکن اپنا مزاج اور رواج دین کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اس طرح یہ لوگوں کو اللہ کے دین کی نازل کردہ رخصتوں اور آسانیوں سے فائدہ اٹھانے نہیں دیتے۔ ان کا دین روایات کا دین نہیں ہے بلکہ ان کے مزاج اور رواج کا دین ہے۔
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سفر میں دیکھا کہ اس پر ہجوم ہے اور لوگوں نے سایہ کیا ہوا ہے۔ آپ نے پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے تو لوگوں نے کہا کہ اس نے روزہ رکھا ہوا ہے تو آپ نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔ یعنی دین تمہیں کوئی پچھاڑنے تھوڑا آیا ہے، وہ تو تمہیں کھڑا کرنے آیا ہے۔ اب ایسا بھی دین پر کیا عمل کہ دین تمہیں زمین پر ہی گرا دے۔
صحیح مسلم کی روایت کے مطابق فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں نکلے اور روزے سے تھے۔ رستے میں آپ کو کہا گیا کہ کچھ لوگوں پر روزہ بھاری ہو گیا ہے۔ عصر کا وقت تھا، آپ نے پانی کا پیالہ منگوایا اور سب کے سامنے پانی پی لیا۔ اس کے بعد آپ کو کہا گیا کہ کچھ لوگ آپ کے افطار کرنے کے بعد بھی روزے سے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہی میرے نافرمان ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یوں سخت مزاج کو ختم کرنے کی تربیت فرمائی ہے اور یہاں سخت مزاجی تقوی کا اعلی معیار بنا ہوا ہے۔
تو پہلی بات تو یہ ہے کہ روایات میں جہاں واضح طور دین میں آسانی موجود ہے تو لوگوں کو وہ آسانیاں دیں اور خواہ مخواہ کی تاویلیں کر کے سختی پیدا نہ کریں کیونکہ یہ رویہ بھی روایت کا انکار کرنے کے مترداف ہے۔ دوسرا یہ کہ منہاج میں آسانی پیدا کریں۔ ایک شرعی حکم ہے اور ایک اس شرعی حکم کے نفاذ کا طریقہ کار کہ جسے منہاج کہتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ ترجمہ: ہم نے تم میں سے ہر قوم کے لیے ایک شریعت مقرر کی ہے یعنی ضابطہ حیات (code of life) اور دوسرا منہاج یعنی شریعت کو جاری وساری کرنے کا طریق کار (way of life)۔
تو اگر ایک جگہ شرعی حکم میں سختی ہے اور اس سختی سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو اس حکم کے نفاذ میں نرمی پیدا کر دیں۔ یہ بھی سنت سے ثابت ہے۔ دیور سے پردہ کرنا چاہیے، شریعت کا حکم یہی ہے۔ لیکن اگر بیوی پردہ نہیں کر رہی اور معاملہ طلاق تک آ پہنچا ہے اور خاوند مفتی صاحب سے یہ فتوی پوچھتا ہے کہ میری بیوی میرے بھائی سے پردہ نہیں کرتی ہے تو کیا میں اسے طلاق دے دوں؟ تو اب مفتی صاحب اس کو جواب میں یہ کہیں کہ اسے پردہ تو کرنا چاہیے اور تم حکمت سے اسے سمجھاتے بھی رہو لیکن طلاق نہ دو تو یہ منہاج میں نرمی پیدا کرنا ہے۔ یعنی آپ شرعی حکم کا اسٹیٹس برقرار رکھتے ہوئے اس کے نفاذ میں کچھ نرمی پیدا کر دیتے ہیں تا کہ لوگ دین سے متنفر نہ ہوں۔
سنن ابو داود کی ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میری بیوی کو اگر کوئی اجنبی آدمی ہاتھ لگائے تو وہ اس کا ہاتھ جھٹکتی نہیں ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اسے طلاق دے دو۔ صحابی نے کہا کہ مجھے اس سے اتنا تعلق ہے کہ میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر اس سے استفادہ کرتے رہو۔ تو اب یہاں شریعت نہیں بدلی۔ شریعت کا حکم وہی رہا ہے کہ وہ ایک فحش کام اور گناہ کبیرہ ہے اور رہے گا اور اس کی بیوی گناہ گار ہے۔ بس اتنا کہا ہے کہ چاہے تو طلاق دے دو اور یہ بہتر رویہ ہے لیکن اگر اس کے بغیر نہیں رہ سکتے تو چاہے تو اس کو زوجیت میں رکھے رکھو۔ شریعت تمہارے مسائل حل کرنے آئی ہے نہ کہ پیدا کرنے، یہ اہم بات ہے۔ [جاری]
Sent from my A1601 using Tapatalk
---------
دوست کا سوال ہے کہ اگر غامدی صاحب دین میں آسانی کا فتوی دیں تو وہ تو جدیدیت پسند کہلائیں اور آپ آسانی کا فتوی دے کر بھی روایت پسند رہیں، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی؟ جواب: صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «يسِّروا ولا تعسِّروا، وبشِّروا ولا تنفِّروا»۔ لوگوں کے لیے دین کے معاملے میں آسانیاں پیدا کرو اور سختی مت کرو۔ اور لوگوں کو جنت اور معافی کی خوشخبریاں دو اور انہیں دین سے متنفر مت کرو۔
تو دین میں آسانی پیدا کرنے کے دو مفاہیم ہیں؛ ایک یہ کہ جن چیزوں میں خود دین نے رخصت اور سہولت دے دی ہے تو ان میں اپنے مزاج اور رواج کی سختی کی وجہ سے خواہ مخواہ کی سختی پیدا نہ کر لو۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم کی روایت ہے کہ ازواج مطہرات اپنے سر کے بال اتنے چھوٹے کروا لیتی تھیں کہ وہ ان کے کندھوں تک آ جاتے تھے۔ تو اب اگر کوئی خاتون اپنے بال چھوٹے کروانا چاہے تو ایسے متشدد مذہبی لوگ آپ کو مل جائیں گے جو اسے مردوں سے مشابہت کی وجہ سے ناجائز کہیں گے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ سب خواتین اپنے بال چھوٹے کروا لیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جب احادیث میں رخصت ہے تو اگر کوئی کروانا چاہے تو اس پر طعن نہ کریں۔
تو ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو روایت کو بالکل ہی نہیں مانتے جیسا کہ لبرلز اور دوسری طرف وہ مذہبی طبقہ ہے کہ جس نے دین کا ایک امیج اپنے مزاج اور رواج سے بنا رکھا ہے اور اگر صریح روایت بھی ان کے مزاج اور رواج کے دین کے خلاف آ جائے تو وہ اس روایت کی تاویلیں شروع کر دیں گے لیکن اپنا مزاج اور رواج دین کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اس طرح یہ لوگوں کو اللہ کے دین کی نازل کردہ رخصتوں اور آسانیوں سے فائدہ اٹھانے نہیں دیتے۔ ان کا دین روایات کا دین نہیں ہے بلکہ ان کے مزاج اور رواج کا دین ہے۔
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سفر میں دیکھا کہ اس پر ہجوم ہے اور لوگوں نے سایہ کیا ہوا ہے۔ آپ نے پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے تو لوگوں نے کہا کہ اس نے روزہ رکھا ہوا ہے تو آپ نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔ یعنی دین تمہیں کوئی پچھاڑنے تھوڑا آیا ہے، وہ تو تمہیں کھڑا کرنے آیا ہے۔ اب ایسا بھی دین پر کیا عمل کہ دین تمہیں زمین پر ہی گرا دے۔
صحیح مسلم کی روایت کے مطابق فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں نکلے اور روزے سے تھے۔ رستے میں آپ کو کہا گیا کہ کچھ لوگوں پر روزہ بھاری ہو گیا ہے۔ عصر کا وقت تھا، آپ نے پانی کا پیالہ منگوایا اور سب کے سامنے پانی پی لیا۔ اس کے بعد آپ کو کہا گیا کہ کچھ لوگ آپ کے افطار کرنے کے بعد بھی روزے سے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہی میرے نافرمان ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یوں سخت مزاج کو ختم کرنے کی تربیت فرمائی ہے اور یہاں سخت مزاجی تقوی کا اعلی معیار بنا ہوا ہے۔
تو پہلی بات تو یہ ہے کہ روایات میں جہاں واضح طور دین میں آسانی موجود ہے تو لوگوں کو وہ آسانیاں دیں اور خواہ مخواہ کی تاویلیں کر کے سختی پیدا نہ کریں کیونکہ یہ رویہ بھی روایت کا انکار کرنے کے مترداف ہے۔ دوسرا یہ کہ منہاج میں آسانی پیدا کریں۔ ایک شرعی حکم ہے اور ایک اس شرعی حکم کے نفاذ کا طریقہ کار کہ جسے منہاج کہتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ ترجمہ: ہم نے تم میں سے ہر قوم کے لیے ایک شریعت مقرر کی ہے یعنی ضابطہ حیات (code of life) اور دوسرا منہاج یعنی شریعت کو جاری وساری کرنے کا طریق کار (way of life)۔
تو اگر ایک جگہ شرعی حکم میں سختی ہے اور اس سختی سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو اس حکم کے نفاذ میں نرمی پیدا کر دیں۔ یہ بھی سنت سے ثابت ہے۔ دیور سے پردہ کرنا چاہیے، شریعت کا حکم یہی ہے۔ لیکن اگر بیوی پردہ نہیں کر رہی اور معاملہ طلاق تک آ پہنچا ہے اور خاوند مفتی صاحب سے یہ فتوی پوچھتا ہے کہ میری بیوی میرے بھائی سے پردہ نہیں کرتی ہے تو کیا میں اسے طلاق دے دوں؟ تو اب مفتی صاحب اس کو جواب میں یہ کہیں کہ اسے پردہ تو کرنا چاہیے اور تم حکمت سے اسے سمجھاتے بھی رہو لیکن طلاق نہ دو تو یہ منہاج میں نرمی پیدا کرنا ہے۔ یعنی آپ شرعی حکم کا اسٹیٹس برقرار رکھتے ہوئے اس کے نفاذ میں کچھ نرمی پیدا کر دیتے ہیں تا کہ لوگ دین سے متنفر نہ ہوں۔
سنن ابو داود کی ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میری بیوی کو اگر کوئی اجنبی آدمی ہاتھ لگائے تو وہ اس کا ہاتھ جھٹکتی نہیں ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اسے طلاق دے دو۔ صحابی نے کہا کہ مجھے اس سے اتنا تعلق ہے کہ میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر اس سے استفادہ کرتے رہو۔ تو اب یہاں شریعت نہیں بدلی۔ شریعت کا حکم وہی رہا ہے کہ وہ ایک فحش کام اور گناہ کبیرہ ہے اور رہے گا اور اس کی بیوی گناہ گار ہے۔ بس اتنا کہا ہے کہ چاہے تو طلاق دے دو اور یہ بہتر رویہ ہے لیکن اگر اس کے بغیر نہیں رہ سکتے تو چاہے تو اس کو زوجیت میں رکھے رکھو۔ شریعت تمہارے مسائل حل کرنے آئی ہے نہ کہ پیدا کرنے، یہ اہم بات ہے۔ [جاری]
Sent from my A1601 using Tapatalk