• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آف شور کمپنیاں

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
آف شور کمپنیاں
کالم: جاوید چوہدری
منگل 5 اپريل 2016

دنیا میں دو امریکا ہیں، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا،
یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا (یو ایس اے) شمالی امریکا میں ہے
جب کہ جنوبی امریکا چھوٹے بڑے 14 ممالک پر مشتمل خشکی کا ایک بڑا ٹکڑا ہے۔

ان دونوں امریکاؤں کے دونوں طرف دو بڑے سمندر ہیں،
پیسفک اوشین (بحرالکاہل) اور اٹلانٹک اوشین (بحراوقیانوس)

ان دونوں امریکاؤں کو خشکی کی ایک لمبی پٹی آپس میں ملاتی ہے، اس پٹی پر 6 چھوٹے چھوٹے ملک واقع ہیں،
یہ 6 ملک ایک طرف سے میکسیکو سے ملتے ہیں،
میکسیکو شمالی امریکا کا پہلا ملک اور امریکا کا ہمسایہ ہے،

یہ 6 ملک دوسری طرف سے کولمبیا سے ملتے ہیں اور یہ جنوبی امریکا کا پہلا ملک ہے،

پانامہ دونوں امریکاؤں کو آپس میں ملانے والی اس پٹی پر آباد ہے،

امریکا کے دو بڑے شہر سان فرانسسکو اور نیویارک الگ الگ سمندروں کے کناروں پر واقع ہیں۔

نیویارک اٹلانٹک اوشین پر ہے اور سان فرانسسکو اور لاس اینجلس پیسفک اوشین میں۔

ان دونوں کے درمیان 6 ملکوں کی یہ بڑی پٹی آتی ہے،

پچھلی صدی کے شروع تک سان فرانسسکو سے بحری جہاز چلتے تھے اور پورے جنوبی امریکا کے گرد 22 ہزار کلو میٹر کا سفر طے کر کے نیو یارک پہنچتے تھے اور اس میں عموماً 15 دن لگ جاتے تھے۔

امریکا نے پچھلی صدی کے شروع میں یہ فاصلہ کم کرنے کا فیصلہ کیا، پانامہ دونوں امریکاؤں کے درمیان واحد ایسا ملک تھا جہاں دونوں سمندروں کا درمیانی فاصلہ کم ہو جاتا ہے، امریکا نے اس قدرتی تحفے کا فائدہ اٹھایا اور 1904ء میں پانامہ میں 77 کلو میٹر لمبی نہر کھود دی، یہ نہر پانامہ نہر کہلاتی ہے اور اس نے دونوں سمندروں کو آپس میں جوڑ دیا، یہ نہر سو سال سے پانامہ کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اس سے سالانہ نو لاکھ بحری جہاز گزرتے ہیں اور پانامہ اس سے اربوں ڈالر کماتا ہے۔

پانامہ کی نہر نے جہاں نیویارک اور سان فرانسسکو کا فاصلہ 22 ہزار کلو میٹر سے کم کر کے ساڑھے نو ہزار کر دیا وہاں یہ نہر ملک کیلیے کمرشل ازم کا نیا ریلا بھی لائی، پانامہ کی زیادہ تر تجارتی کمپنیاں شروع میں بحری جہازوں سے وابستہ ہو گئیں لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد کاروبار کے نئے ذرائع سامنے آنے لگے، عرب ملکوں نے تیل کی تجارت میں چھلانگ لگا دی، وسائل سے مالامال ملکوں میں آمریت نے پنجے گاڑھ دیے۔

سوویت یونین اور امریکا کے درمیان کولڈ وار شروع ہوئی اور دنیا میں ہتھیاروں کی تجارت ہونے لگی، ویتنام اور افغانستان کی جنگوں نے منشیات کو انڈسٹری بنا دیا اور ایشین ٹائیگرز نے سر اٹھایا اور دنیا میں کرپشن اور رشوت کا بازار گرم ہو گیا، ساٹھ سے اسی کی دہائی کے درمیان دنیا کے 37 ممالک میں فوجی انقلاب اور باوردی حکومتیں آئیں، ان حکومتوں نے لوٹ مار شروع کر دی اور نوے کی دہائی میں دنیا میں کارپوریٹ انقلاب آ گیا، ہزاروں لاکھوں کمپنیاں بنیں اور ان کمپنیوں نے ٹیکس چوری شروع کر دی۔

یہ نئے ٹرینڈز پانامہ سمیت دنیا کے غریب اور چھوٹے ملکوں کیلیے نعمت ثابت ہوئے اور یہ سرمایہ کاری اور ٹیکس فری جیسے خوبصورت لفظوں کے ذریعے دنیا بھر کے اسمگلروں، مافیاز، آمروں، ٹیکس چوروں، اسلحہ فروشوں اور شاہی خاندانوں کی ’’لانڈری‘‘ بن گئے، آپ اگر نقشہ دیکھیں تو آپ دیکھیں گے، پانامہ کی سرحدیں کولمبیا سے ملتی ہیں اور کولمبیا منشیات فروشوں اور مافیا لارڈز کی جنت ہے، پانامہ کے دو وکیلوں جارجن موزیک (Jurgen Mossak) اور رومن فانسیکا نے دنیا کی ان تبدیلیوں پر نظر رکھی ہوئی تھی۔

انھوں نے صورتحال کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور پانامہ میں 1977ء میں ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کے نام سے لاء فرم بنا لی، یہ فرم شروع میں کولمبیا کے منشیات فروشوں اور مافیا لارڈز کیلیے ’’آف شور کمپنیاں‘‘ بناتی تھی، پانامہ نے ان دنوں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کیلیے ’’ٹیکس فری‘‘ اصلاحات متعارف کرائی تھیں، دنیا کا کوئی بھی امیر شخص پانامہ میں کمپنی بنا سکتا تھا، بینک اکاؤنٹ کھول سکتا تھا اور اس اکاؤنٹ میں جتنی چاہے رقم جمع کر سکتا تھا، حکومت اس سے ’’سورس‘‘ نہیں پوچھتی تھی، موزیک فانسیکا اینڈ کو نے کلائنٹس کیلیے پانامہ کے ہزاروں شہریوں کے شناختی کارڈ جمع کیے، بینکوں کو ساتھ ملایا اور دھڑا دھڑ آف شور کمپنیاں بنانے لگی۔

لاء فرم کے کلائنٹس ان کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں اپنی ’’بلیک منی‘‘ ڈالتے تھے اور پھر اس رقم سے یورپ، مشرق بعید اور امریکا میں جائیدادیں بھی خریدتے تھے، کاروبار بھی کرتے تھے، فیکٹریاں بھی لگاتے تھے اور عیاشی بھی کرتے تھے، یہ لوگ رشوت اور کک بیکس بھی ان اکاؤنٹس کے ذریعے لیتے ہیں، رشوت دینے والی پارٹیاں ان آف شور کمپنیوں کے نام پر تجارتی سامان خریدتیں، یہ سامان دوسرے ملکوں میں بیچ دیا جاتا اور رقم کمپنی کے اکاؤنٹ میں آ جاتی، یہ لوگ مختلف ملکوں کی ٹیکس رعایتوں، اسٹاک ایکسچینجز اور اسٹے بازی کا فائدہ بھی اٹھاتے تھے اور یوں ان کی بلیک منی بھی وائٹ ہو جاتی تھی اور دولت میں بھی دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ ہو جاتا تھا۔

’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کا کاروبار چل پڑا، یہ فرم آہستہ آہستہ پانامہ سے باہر نکلی اور دنیا کی چوتھی بڑی لاء فرم بن گئی، دنیا میں اس وقت ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کے پچاس کے قریب دفاتر اور 500 اعلیٰ پائے کے مستقل وکلاء ہیں، اس فرم نے دنیا کے سو سے زائد ممالک میں جزوقتی وکلاء کا بندوبست بھی کر رکھا ہے اور اب اس کے کلائنٹس میں صرف مافیاز اور منشیات فروش شامل نہیں ہیں بلکہ یہ اب دنیا جہان کے امراء کی لاء فرم ہے، یہ ان کیلیے آف شور کمپنیاں بھی بناتی ہے، ان کیلیے عارضی دفاتر کا بندوبست بھی کرتی ہے۔

ان کیلیے جعلی اسٹاف بھی بھرتی کرتی ہے، ان کو ٹیکس سے بھی بچاتی ہے اور انھیں سرمایہ کاری کے نئے طریقے بھی بتاتی ہے، یہ فرم اس قدر مضبوط ہے کہ یہ چھوٹے ملکوں میں حکومتیں بدل دیتی ہے، یہ پھر ان حکومتوں سے ٹیکس اصلاحات کے نام پر سسٹم تبدیل کراتی ہے، اپنے کلائنٹس سے وہاں سرمایہ کاری کراتی ہے اور آخر میں ان ملکوں کا سارا سرمایہ سمیٹ کر غائب ہو جاتی ہے، یہ فرم ہمارے ملک کے نظام میں بھی خوفناک حد تک دخیل ہے، کیسے؟

میں اس کیلیے صرف دو مثالیں پیش کروں گا،
ہمارے ملک میں شوکت عزیز نام کے ایک وزیراعظم ہوا کرتے تھے،
یہ کہاں سے آئے، یہ چند ہفتوں میں وزیر خزانہ کیسے بن گئے۔

یہ وزیراعظم کیسے بنے، ان کے دور میں ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کیسے ہوا، پاکستان کی پیداوار تاریخ کی بلند ترین سطح پر کیسے پہنچی، ڈالر کی قیمت کیسے مستحکم رہی اور پھر یہ 2008ء میں اچانک کہاں غائب ہو گئے اور ان کے جانے کے چند ماہ بعد ملکی خزانہ کیسے خالی ہو گیا؟
اس کا جواب ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کے پاس ہے، کیوں؟ کیونکہ انھیں یہ فرم پاکستان لائی تھی، اسی نے انھیں وزیراعظم بنوایا تھا، اسی نے اپنے کلائنٹس کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کرائی تھی اور اسی نے شوکت عزیز کے ذریعے اپنے کلائنٹس کا کالادھن سفید کرایا تھا اور ان کے اثاثوں میں اضافہ کیا تھا، دوسری مثال پاکستان کے تمام بااثر خاندان ہیں۔

یہ خاندان مختلف جماعتوں سے تعلق کے باوجود اس لاء فرم کے کلائنٹ ہیں اور یہ وہ کمزوری ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کسی مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا، کیوں؟

کیونکہ ملک کی ہر حکومت اور ہر اپوزیشن کے ڈانڈے پانامہ کی اس فرم سے جا کر مل جاتے ہیں، ملک میں مقدمے بنانے، تحقیقات کرنے اور فیصلے کرنے والے بھی اس فرم کے کلائنٹ ہیں، شوکت عزیز ہوں، شریف خاندان ہو، بھٹو فیملی ہو، چوہدری ہوں، سیف اللہ خاندان ہو، ملک کے جرنیل ہوں، جج ہوں، میڈیا مالکان ہوں یا پھر بیوروکریٹس ہوں یہ تمام لوگ ایک خاص مقام کے بعد ایک ہو جاتے ہیں، یہ ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ شوکت عزیز کے دور کا تجزیہ کر لیں، شریف خاندان اور بھٹو فیملی یہ دونوں اس دور میں ایک طرف حکومت کا ٹارگٹ تھے اور دوسری طرف ان کے کاروبار، ان کے اثاثوں اور ان کی دولت میں اضافہ ہو رہا تھا، کیسے؟ اس کیسے کا جواب ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ ہے۔

یہ فرم چل رہی تھی لیکن پھر اچانک پچھلے سال اس کا ڈیٹا چوری ہو گیا، کمپنی کے مین سرور سے ایک کروڑ پانچ لاکھ ڈاکومنٹس نکلے اور یہ سیدھے جرمنی کے شہر میونخ کے مشہور اخبار زیتوشے زائتونگ (Süddeutsche-Zeitung) جا پہنچے، یہ میونخ کا سب سے بڑا اخبار ہے، یہ روزانہ ساڑھے گیارہ لاکھ کی تعداد میں چھپتا ہے، یہ یورپ کے سو بڑے اخبارات میں بھی شمار ہوتا ہے، یہ نیویارک ٹائمز کا ایڈیٹوریل پارٹنر بھی ہے، یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کا پہلا اخبار تھا جسے امریکا نے اشاعت کی اجازت دی تھی، یہ تحقیقاتی صحافت میں پوری دنیا میں مشہور ہے۔ ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کا خفیہ ڈیٹا اخبار تک پہنچا تو ادارے میں سراسیمگی پھیل گئی۔

کیوں؟ کیونکہ یہ دنیا کا سب سے بڑا سکینڈل تھا، اس سکینڈل میں دنیا کے 143 اہم لوگ، ان کے خاندان اور ان کے فرنٹ مین شامل تھے، ان میں حکمران بھی تھے، شاہی خاندان بھی، بزنس گروپس بھی، اعلیٰ سرکاری عہدیدار بھی، کھلاڑی بھی، اداکار بھی اور این جی اوز بھی۔ یہ ایک بڑی خبر تھی لیکن اخبار نے یہ ’’کیک‘‘ اکیلا کھانے کی بجائے دنیا کے ان 76 ممالک کے صحافیوں کو ساتھ شامل کرنے کا فیصلہ کیا جن کی اعلیٰ شخصیات کے نام اس ڈیٹا میں موجود تھے، اخبار نے ڈیٹا کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا اور اسے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیشن جرنلزم (آئی سی آئی جے) کے ساتھ شیئر کر دیا، یہ ڈیٹا ملنے کی دیر تھی۔

دنیا کے 76 ممالک کے صحافیوں نے تحقیقات شروع کر دیں، اس ڈیٹا میں ابتدائی طور پر دو سو پاکستانی خاندانوں کے نام سامنے آئے، ان میں بھٹو فیملی بھی شامل تھی، شریف فیملی بھی، چوہدری صاحبان بھی، سیف اللہ خاندان بھی اور بے شمار بزنس مین اور اعلیٰ شخصیات بھی، ڈیٹا میں میاں نواز شریف کے دونوں صاحبزادے حسین نواز اور حسن نواز اور صاحبزادی مریم نواز جب کہ میاں شہبا زشریف کے خاندان سے ان کی اہلیہ تہمینہ درانی اور برادر نسبتی الیاس معراج کے نام شامل ہیں، تہمینہ درانی کے نام پر آخری کمپنی 2010ء میں اس وقت رجسٹر ہوئی جب میاں شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنے دو سال ہو چکے تھے۔

یہ کمپنیاں کیوں بنائی گئیں، یہ میں اگلے کالم میں بیان کروں گا۔

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
پانامہ لیکس
کالم: جاوید چوہدری
جمعـہ 8 اپريل 2016

پانامہ لیکس کے تین رخ ہیں‘ ہمیں یہ تینوں رخ دیکھنے ہوں گے‘


پہلا رخ قانونی ہے‘ ہمیں یہ ماننا ہو گا‘ آف شور کمپنیاں غیر قانونی نہیں ہوتیں‘ دنیا میں بے شمار ایسے ممالک ہیں جہاں آف شور کمپنیاں بنائی جاتی ہیں‘ ان کمپنیوں میں سرمایہ ڈالا جاتا ہے اور اس سرمائے سے بعد ازاں جائیدادیں خریدی جاتی ہیں‘ فیکٹریاں لگاتی جاتی ہیں اور تجارت کی جاتی ہے۔

ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا دنیا بھر کی حکومتیں اور خفیہ ایجنسیاں بھی آف شور کمپنیاں بناتی ہیں اور یہ ان کے ذریعے خفیہ ڈیلز بھی کرتی ہیں‘ حساس آلات‘ اسلحہ اور ٹیکنالوجی بھی خریدتی ہیں اور خفیہ آپریشنز بھی کرتی ہیں‘

ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا‘ پاکستان اور بھارت کے نیو کلیئر پروگرامز بھی آف شور کمپنیوں کی مہربانی ہیں‘ آپ ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر عبدالکلام سے پوچھ لیں کیا یورپ اور امریکا میں آف شور کمپنیاں نہیں بنائی گئی تھیں اور یہ کمپنیاں ایٹمی پلانٹس کے آلات خرید کر نہیں بھجواتی رہیں؟

آپ امریکا‘ یورپ اور گلف کی حکومتوں سے بھی پوچھ لیں‘ کیا یہ حکومتیں آف شورکمپنیوں کے ذریعے افغانستان‘ ویتنام اور عراق کی جنگیں نہیں لڑتی رہیں‘

کیا جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغانستان کی جنگ کے لیے سینیٹر چارلی کی آف شور کمپنیوں کے ذریعے اسرائیل کا اسلحہ پاکستان نہیں لایا گیا تھا‘

کیا عرب ممالک افغان جنگ کے دوران آف شور کمپنیوں کے ذریعے پاکستان کی مدد نہیں کرتے رہے‘

کیا سعودی عرب 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے مفت تیل فراہم نہیں کرتا رہا اور

کیا ایران‘ عراق‘ لیبیا اور شام کی حکومتیں عالمی پابندیوں کے دوران آف شور کمپنیوں کے ذریعے اپنے معاملات نہیں چلاتی رہیں اور

کیا شام کے صدر بشار الاسد اس وقت بھی آف شور کمپنیوں کے ذریعے ملک نہیں چلا رہے ہیں؟

آپ اسی طرح "سی آئی اے" ، "را" کے جی بی اور موساد کے معاملات بھی دیکھئے‘ کیا یہ تمام خفیہ ایجنسیاں آف شور کمپنیوں کے ذریعے اپنے آپریشن نہیں چلاتی ہیں اور کیا یہ وہ ’’مجبوریاں‘‘ نہیں ہیں جن کی وجہ سے پوری دنیا کی حکومتیں آف شور کمپنیوں کو قانونی اور جائز قرار دینے پر مجبور ہیں‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا‘ دنیا پانامہ لیکس سے پہلے بھی اس حقیقت سے واقف تھی‘ یہ جانتی تھی ہزاروں اسمگلر‘ مافیا لارڈز‘ رشوت خور اور کرپٹ عناصر اس قانونی رعایت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ یہ اپنی بلیک منی کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے وائیٹ کر رہے ہیں لیکن یہ ملک خاموش رہے‘ کیوں؟ اس خاموشی کی وجہ ان کے ’’وسیع ترین مفادات‘‘ تھے‘

یہ جانتے تھے‘ ہم نے جس دن آف شور کمپنیوں پر پابندی لگا دی ہم اس دن دوسرے ملکوں سے ممنوعہ اسلحہ اور خطرناک ٹیکنالوجی خرید سکیں گے اور نہ ہی دشمن ملکوں کی حکومتیں گرانے اور بنانے کے لیے پیسوں کا لین دین کر سکیں گے‘

یہ جانتے تھے‘ ہم ان پابندیوں کے بعد خفیہ انٹیلی جینس آپریشنز کر سکیں گے اور نہ ہی کک بیکس دے اور لے سکیں گے چنانچہ یہ 80 سال تک خاموش رہے‘80 سال کی اس خاموشی کے دوران آف شور کمپنیوں کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی نہ ہو سکی‘ پانامہ لیکس آئیں تو یورپی ممالک میں قانون بننا شروع ہو گئے۔

فرانس اس معاملے میں تمام ملکوں سے بازی لے گیا‘ فرانس کے ایک ہزار کاروباری لوگ پانامہ لیکس میں ملوث ہیں‘ فرانس نے ان کے نام سامنے آتے ہی قانون سازی شروع کر دی‘ فرانس میں اب آف شور کمپنیوں کے مالکان کو سات سال قید اور 15 لاکھ یورو جرمانہ ہو سکے گاجرمنی‘ برطانیہ‘ نیوزی لینڈ اور اسپین میں بھی قانون بن رہے ہیں‘ یہ بھی چند دنوں میں باقاعدہ قانون بنا دیں گے‘ ہمارے ملک میں بھی تاحال آف شور کمپنیوں کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں‘ ہم اگر پانامہ لیکس کے اڑھائی سو ملزموں کو سزا دینا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں قانون سازی کرنا ہو گی اور سزا کی باری بعد میں آئے گی‘ دوسرا پہلو اخلاقیات ہے۔

ہم اگر قانون کو سائیڈ پر رکھ دیں اور اخلاقیات کی بنیاد پر فیصلہ کریں تو آف شور کمپنیاں قانونی ہونے کے باوجود غلط ہیں‘ یہ بنائی ہی اس وقت جاتی ہیں جب کوئی شخص‘ ادارہ یا حکومت معاملات کو خفیہ رکھنا چاہتی ہے‘ آپ اگر اپنی بلیک منی چھپانا چاہتے ہیں‘ آپ منی لانڈرنگ کرنا چاہتے ہیں‘ آپ کک بیکس دینا یا وصول کرنا چاہتے ہیں‘ آپ اسلحہ‘ منشیات اور تاوان کی رقم ٹھکانے لگانا چاہتے ہیں یا آپ ٹیکس چوری کرنا چاہتے ہیں تو آپ آف شور کمپنی بنائیں گے چنانچہ یہ کمپنیاں قانونی ہونے کے باوجود ناجائز اور غلط ہیں۔

یہ درست ہے‘ دنیا کا کوئی قانون ان کمپنیوں کے مالکان کا احتساب نہیں کر سکتا لیکن اگر ضمیر کوئی چیز ہے اور انسان اس کے سامنے جواب دہ ہے تو پھر یہ کمپنیاں غلط ہیں اور ان کے مالکان کو کبھی نہ کبھی‘ کہیں نہ کہیں اس کا حساب دینا پڑے گا اور ہمیں پانامہ لیکس کے بعد دنیا کے 78 ممالک میں یہ حساب بھی ہوتا نظر آ رہا ہے اور اخلاقیات بھی مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔

آئس لینڈ کے وزیراعظم نے 5 اپریل کو اسی اخلاقی دباؤ میں آ کر استعفیٰ دیا ورنہ آف شور کمپنیاں تو آئس لینڈ میں بھی قانونی ہیں اور یہ بھی میاں نواز شریف کی طرح جوڈیشل کمیشن بنا کر جان چھڑوا سکتے تھے لیکن دنیا اب کیونکہ حقیقتاً گلوبل ویلج ہے اور اخلاقیات اس گلوبل ویلج کا ’’یونیورسل لاء‘‘ ہے چنانچہ وزیراعظم سگمنڈر ڈیوڈ ایک دن میں مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے‘ ہمیں یہ اخلاقی دباؤ اس وقت امریکا سے لے کر پاکستان تک میں نظر آ رہا ہے‘ دنیا بہت جلد آئس لینڈ کی طرح ’’بی ہیو‘‘ کرنے پر مجبور ہو جائے گی اور تیسرا اور آخری پہلو شریف فیملی ہے!۔

شریف فیملی کو بہرحال ماننا ہو گا یہ پھنس چکے ہیں اور اب انھیں بھی جواب دینا پڑے گا‘
میاں شریف سات بھائی تھے‘
میاں معراج ان ساتوں میں سے ایک بھائی تھے‘ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں‘
ایک صاحبزادی نصرت معراج میاں شہباز شریف کی اہلیہ ہیں‘
نصرت شہباز کے تین بھائی ہیں‘ میاں ریاض معراج‘ میاں الیاس معراج اور میاں اعجاز معراج۔
ہم اگر تیسری نسل میں جائیں تو میاں الیاس کے صاحبزادے کا نام حسیب الیاس اور میاں ریاض معراج کے بیٹے کا نام وقاص معراج ہے۔

میاں الیاس معراج حسیب وقاص کے نام سے ایک کمپنی چلا رہے ہیں‘ یہ کمپنی ننکانہ صاحب میں ایک شوگر مل کی مالک بھی ہے‘ پانامہ لیکس میں حسیب وقاص گروپ کا نام بھی شامل ہے‘ اس گروپ نے 2003ء میں بہاماس میں ہیلینڈ لمیٹڈ کے نام سے فرم رجسٹر کرا لی‘ الیاس معراج اس فرم کے مین شیئر ہولڈر ہیں‘ میاں شہباز شریف کی فیملی کا دعویٰ ہے ’’ہمارا الیاس معراج کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں‘ ہم نے 1990ء کی دہائی میں کاروبار الگ کر لیا تھا‘‘ لیکن الیاس معراج اس کے باوجود میاں شہباز شریف کی اہلیہ کے بھائی اور ان کے بچوں کے ماموں ہیں چنانچہ شریف فیملی خود کو اس الزام سے بری الذمہ کیسے رکھ سکے گی؟ میاں شہباز شریف کو الیاس معراج کی آف شور ’’غلطیوں‘‘ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

میاں شہباز شریف کی دوسری اہلیہ تہمینہ درانی اور تہمینہ درانی کی والدہ ثمینہ درانی کا نام بھی پانامہ لیکس میں شامل ہے‘ یہ خواتین تین کمپنیوں کی مالک ہیں‘ آخری کمپنی 29 ستمبر 2010ء کو برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹر ہوئی اور میاں شہباز شریف اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے‘ یہ درست ہے‘ شریف فیملی نے آج تک تہمینہ درانی کو بہو تسلیم نہیں کیا‘ یہ 14 برس کی ازدواجی رفاقت کے دوران شریف فیملی کے کسی گھر میں داخل نہیں ہو سکیں‘ یہ بھی درست ہے‘ تہمینہ درانی نے بڑی جرأت کے ساتھ 5 اپریل کو شریف فیملی کے خلاف ٹویٹ کیا اور کہا ’’غیرقانونی کا مطلب قانون توڑنا ہے لیکن غیر اخلاقی کا مطلب روح توڑنا ہے جو بدترین جرم ہے‘ اگر بیرونی آف شورکمپنیاں‘ جائیدادیں اور اکاؤنٹس قانونی بھی ہوں تو میرے لیے غیر اخلاقی ہیں۔

شریف فیملی صرف اس وقت اپنا نام کلیئر کروا سکتی ہے جب وہ کم سے کم دولت اپنے پاس رکھے ‘ انتہائی سادہ طرز زندگی اپنائے اور تمام اندرونی و بیرونی دولت قوم کو واپس لوٹا دے‘‘ لیکن بدقسمتی سے تہمینہ درانی اس کے باوجود میاں شہباز شریف کی اہلیہ اور ان کی والدہ ان کی ساس ہیں چنانچہ ان کی کمپنیوں کا حساب بھی شریف فیملی کو دینا پڑے گا‘

ہم اب آتے ہیں‘ میاں نواز شریف کے صاحبزادوں اور صاحبزادی کی آف شور کمپنیوں کی طرف۔ یہ درست ہے‘ حسین نواز‘ حسن نواز اور مریم نواز عاقل‘ بالغ اور خودمختار ہیں اور یہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کاروبار اور نوکری کر سکتے ہیں۔

یہ جائیداد بھی خرید سکتے ہیں اور یہ رہائش بھی اختیار کر سکتے ہیں اور یہ وہ حق ہے جو دنیا کا کوئی شخص ان سے نہیں چھین سکتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے‘یہ تینوں میاں نواز شریف کی اولاد ہیں اور میاں نواز شریف اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور ہم ان تینوں کو ان سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے اور یہ بھی حقیقت ہے۔

پارک لین کے فلیٹس 1993-94 ء میں خریدے گئے تھے اور حسین نواز نے 2006ء میں اپنی رقم جدہ سے لندن ٹرانسفر کی تھی چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہے یہ فلیٹس اگر 2006ء میں خریدے گئے تھے تو 1993-94ء کے فیلٹس کہاں گئے اور یہ اگر 1993-94ء کے ہی فلیٹس ہیں تو پھر 2006ء میں کن کے لیے آف شور کمپنیاں بنائی گئیں‘ وزیراعظم کو ان سوالوں کا جواب بھی دینا پڑے گا‘ انھیں خود کو عوام کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہو گا‘ انھیں دنیا کو فیس کرنا ہوگا۔

اور ایک اور حقیقت‘ ہمیں ماننا ہو گا پانامہ لیکس میں 250 بااثر پاکستانیوں کے نام شامل ہیں‘ ہمیں ان تمام لوگوں کو بھی کٹہرے میں لانا ہو گا‘ ہم اگر حسین نواز سے پوچھ رہے ہیں تو پھر ہمیں بھٹو فیملی‘ رحمن ملک اور سیف اللہ خاندان سے بھی سوال کرنا ہو گا‘ ہمیں گاجروں کو تربوزوں کے پیچھے چھپنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے‘ شریف فیملی نے اگر اس بار بھی انصاف نہ کیا تو عوامی حدت اور شدت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور پھر ایک ایسا وقت آ جائے گا جب ان میں سے کسی شخص کو ملک سے فرار کی مہلت نہیں مل سکے گی چنانچہ وزیراعظم کو اس وقت سے پہلے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔

ح
 
Top