کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
آن لائن ویب سائٹ سے خریدا گیا چینی مال گم ہونے لگا،
کہاں پہنچ کر ”غائب“ ہو جاتا ہے؟ جان کر آپ بھی ساری کہانی سمجھ جائیں گے
روزنامہ پاکستان، 11 مئی 2016کہاں پہنچ کر ”غائب“ ہو جاتا ہے؟ جان کر آپ بھی ساری کہانی سمجھ جائیں گے
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) علی بابا گروپ کی ذیلی کمپنی علی ایکسپریس دنیا بھر میں بڑی آن لائن مارکیٹ میں شمار ہوتی ہے اور دنیا بھر کے لوگ بالخصوص چینی عوام آن لائن آپریشنز کیلئے اس ویب سائٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ علی ایکسپریس نے اپنی کم قیمتوں، اشیاء کی یقینی فراہمی اور پیسوں کی واپسی کی بہترین پالیسیز کے باعث مختصر عرصے میں دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی ہے اور یہی وجہ ہے پاکستانی عوام بھی آن لائن خریداری کیلئے اس ویب سائٹ کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستانی خریدار اس ویب سائٹ سے انوکھی اور نایاب چیزیں باآسانی خرید سکتے ہیں اور یہ دوسری سروسز کی نسبت سستی بھی ہے حتیٰ کہ ای کامرس کے ادارے بھی چین سے سامان درآمد کرنے کیلئے علی ایکسپریس کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ بڑی مقدار میں چیزوں کی خریداری محفوظ اور آسان طریقہ کار فراہم کرتی ہے۔
لیکن اب ایک ایسا مسئلہ درپیش آ گیا ہے جس نے پاکستانیوں کیلئے کئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ کئی خریداروں نے شکایت کی ہے کہ گزشتہ دو، تین مہینوں سے علی ایکسپریس سے خریدی گئی اشیاء ان تک نہیں پہنچ رہیں اور جب بھی ٹریکنگ انفارمیشن دستیاب ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشیاء کراچی پورٹ پر پہنچنے کے بعد غائب ہو جاتی ہیں۔
علی ایکسپریس کے ذریعے آرڈر کی جانے والی تمام اشیاء پاکستان پہنچنے تک اوریجن شپنگ کمپنی ہینڈل کرتی ہے اور جب اشیاء پاکستان پہنچ جاتی ہیں تو پھر کسٹم کلیئرنس کے عمل سے گزرتی ہیں۔ کسٹم آفیسرز کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ شک پڑنے پر کسی بھی پیکیج کو کھول کر چیک کر سکتے ہیں اور اس کے بعد یہ پیکیجز پاکستان پوسٹ کو بھجوا دیئے جاتے ہیں تاکہ انہیں متعلقہ افراد تک پہنچایا جا سکے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے کراچی پہنچنے پر تمام پیکیجز غائب ہونے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور کچھ افراد کا ماننا ہے کہ اس میں شامل ”مجرمان“ کی فہرست زیادہ لمبی نہیں ہے تاہم ابھی تک اس جرم میں ملوث افراد کا سراغ نہیں مل سکا ہے اور اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو علی ایکسپریس پاکستان کو بلیک لسٹ میں بھی شامل کر سکتی ہے یا پھر اس ویب سائٹ پر سامان بیچنے والے افراد پاکستانیوں کو کچھ بھی فروخت کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔
یہ بالکل بھی درست نہیں ہے اور اس جرم میں ملوث افراد کی جلد از جلد نشاندہی ہونی چاہئے تاکہ ایک بار پھر پاکستان کی جگ ہنسائی سے بچا جا سکے۔ اگر یہ معاملہ یونہی جاری رہا تو اس سے عوام، کسٹمز، ای کامرس انڈسٹری اور ڈلیوری سروسز مہیا کرنے والی کمپنیوں کو بھی نقصان ہی ہو گا جبکہ اس کے ایمیزون اور ای بے جیسی دیگر ویب سائٹس بھی پاکستان میں اپنی سروسز شروع کرنے میں عدم دلچسپی کا اظہار کر سکتی ہیں۔