• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ اگر صحافی بننا چاہتے ہیں ۔ جاوید چوہدری

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
آپ اگر صحافت کے طالب علم ہیں' آپ ماس کمیونیکیشن میں بی اے یا ایم اے کر رہے ہیں تو پھر آپ کو ڈگری لینے سے پہلے پانچ کام ضرور کرنے چاہئیں' یہ کام آپ کی روٹین ہونے چاہئیں بالکل اسی طرح جس طرح ٹوتھ پیسٹ' ناشتہ' جرابیں اور کنگھی آپ کا معمول ہیں' ان پانچ کاموں میں سے پہلا کام مطالعہ ہے' آپ مطالعے کو اس طرح عادت بنالیں جس طرح ناشتہ آپ کی عادت ہے' آپ تین قسم کی سیاسی کتابوں کا مطالعہ کریں' ایک' تازہ ترین سیاسی کتب' یہ کتابیں بین الاقوامی سیاستدانوں' لیڈروں اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کی بائیو گرافی بھی ہو سکتی ہیں اور ان کے مضامین کا مجموعہ بھی۔ مثلاً آج کل رابرٹ گیٹس کی کتاب ''ڈیوٹی'' بہت مقبول ہے' اس سے قبل بل کلنٹن کی کتاب مائی لائف اور جارج بش کی کتاب ''Decision Points'' بہت مشہور ہوئی' آپ ان کتب کا مطالعہ کریں۔ دو' آپ ان کتب کا مطالعہ کریں جو آپ کی پیدائش اور آپ کی پرائمری تعلیم کے دوران مارکیٹ میں آئی تھیں' یہ کتابیں بھی سیاسی' جغرافیائی اور آپ بیتیوں پر مشتمل ہونی چاہئیں' آپ مشہور صحافیوں کی آپ بیتیاں بھی ضرور پڑھیں اور ادیبوں' شاعروں اور سماجی کارکنوں کی بائیوگرافیز بھی۔ تین' آپ اپنی پیدائش سے 20 سال قبل لکھی جانے والی کتابیں پڑھیں'یہ کتابیں آپ کے علم میں اضافہ کریں گی' آپ اگر فکشن یا ادب کو پسند کرتے ہیں تو آپ دس بیس فیصد ادبی کتابیں بھی پڑھیں' آپ روز کم از کم دو اخبارات کا مطالعہ ضرور کریں' آپ کے پاس ایک ہینڈ سائز ڈائری ہونی چاہیے' آپ کو کتابوں اور اخبارات میں سے جواچھی چیزملے' آپ اسے فوراً ڈائری میں لکھ لیں اور آپ کو جب بھی وقت ملے آپ ڈائری نکالیں اور اپنے نوٹس پڑھنا شروع کر دیں' اس سے آپ کا دماغ معلومات کا خزانہ بنتا چلا جائے گا' آپ دماغی طور پر اپنے کلاس فیلوز سے آگے ہوں گے۔

دوسرا کام' آپ تین صحافی منتخب کریں' ایک اردو صحافی ہونا چاہیے'دوسرا انگریزی اور تیسرے کا تعلق بین الاقوامی میڈیا سے ہونا چاہیے' آپ ان کی تمام تحریریں' خبریں اور تجزیے پڑھ جائیں' آپ لائبریریوں میں جا کر ان کی پرانی تحریریں نکالیں اور گھول کر پی جائیں' آپ ان کی شخصیت' ان کے کام کرنے کے طریقے' ان کی فیملی لائف اور زندگی کے بارے میں ان کی فلاسفی تک پڑھ لیں' آپ جب انھیں پوری طرح جان لیں تو آپ ان سے ملاقات کریں' آپ ان کے شاگرد' برخوردار بلکہ خادم بن جائیں' آپ کی یہ پریکٹس آپ کو صحافی بنا جائے گی' میں نے طالب علمی کے دور میں تین صحافیوں کی ''ہٹ لسٹ'' بنائی تھی' عطاء الحق قاسمی' خالد حسن (مرحوم) اور آرٹ بک والڈ۔ میں ان کو ان سے زیادہ جانتا تھا' میں جب ان تینوں کا حافظ ہو گیا تو میں نے ان سے ملاقات کے لیے صرف پانچ پانچ منٹ مانگے' میں 1997ء میں عطاء الحق صاحب سے ملا' میں تین بجے ان کے کمرے میں داخل ہوا اور رات گیارہ بجے باہر نکلا' یہ ملاقات عمربھر کی دوستی بن گئی' خالدحسن صاحب گورا ٹائپ انسان تھے' یہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے باذوق اور ذہین شخص کے ساتھی رہے تھے' یہ آسانی سے متاثر نہیں ہو سکتے تھے' میں انھیں 2001ء میں واشنگٹن میں ملا' میں نے ان کے موبائل پر پیغام چھوڑا ''آپ مجھے پانچ منٹ دیں' آپ میرے ساتھ پانچ گھنٹے بیٹھے رہیں گے'' خالد صاحب کا فون آ گیا' ملاقات طے ہوئی اور خالد صاحب اس کے بعد مجھے پانچ دن ملتے رہے'مجھے ان کی وہ تحریریں بھی یاد تھیں جنھیں وہ خود بھی بھول چکے تھے' یہ دوستی ان کے آخری وقت تک جاری رہی اور آرٹ بک والڈ کے ساتھ بھی یہی ہوا' میں نے بڑی مشکل سے ان سے ملاقات کا وقت لیا' ملاقات شروع ہوئی اور پھر چلتی رہی' میں پاکستان سے جب بھی ان سے رابطہ کرتا تھا تو وہ مجھے ''رنگ بیک'' کرتے تھے' وہ پاکستان آنا چاہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں مہلت نہیں دی' میں نے ان سے سیکھا'' دنیا کے تمام ہنر ''ٹیم ورک'' ہوتے ہیں' آپ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتے جب تک آپ ٹیم بنانے کی صلاحیت پیدا نہیں کرتے'' وہ کہتے تھے ''میں نوجوان بھرتی کرتا ہوں' یہ نوجوان مجھ سے سیکھتے ہیں اور میں بعد ازاں انھیں مارکیٹ کے حوالے کر دیتا ہوں' یہ لوگ میری طرف سے صحافت کے لیے تحفہ ہوتے ہیں'' آپ بھی تین صحافیوں کی ''ہٹ لسٹ'' بنائیں' انھیں فالو کریں اور یہ لوگ آپ کو صحافی بنا دیں گے۔

ہم اب آتے ہیں تیسرے کام کی طرف۔ صحافت کے چار بنیادی شعبے ہیں' ایڈیٹنگ' رپورٹنگ' رائیٹنگ اور شوٹنگ' صحافت کے باقی تمام شعبے ان چار شعبوں کی اولاد ہیں' آپ ان میں سے کسی ایک شعبے کا انتخاب کریں اور تعلیم کے دوران یہ کام سیکھنا شروع کر دیں' آپ کسی ''ورکنگ جرنلسٹ'' کا چھوٹا بن جائیں' آپ روز چند گھنٹوں کے لیے ''استاد'' کے پاس جائیں اور اس کا ہاتھ بٹائیں' یہ فری سروس آپ کو ڈگری سے قبل ہنر اور مہارت بھی دے گی اور کام کرنے کا گُر بھی سکھائے گی' یہ آپ میں مستقل مزاجی کی عادت بھی ڈال دے گی' میں یونیورسٹی کے دور میں بہاولپور کے ایک سینئر صحافی سے ایڈیٹنگ سیکھتا تھا' وہ مجھ سے روزانہ تین خبریں ایڈٹ کرواتا تھا' ان تین خبروں کے عوض میں اسے ہفتے میں دو بار رات کے تین بجے گھر چھوڑ کر آتا تھا' یہ مشکل ترین مرحلہ ہوتا تھا کیونکہ وہ نشے میں دھت ہوتا تھا اور وہ اپنے گھر کے بجائے کسی دوسرے گھر میں گھسنا چاہتا تھا اور میری ذمے داری ہوتی تھی میں اسے اسی کے گھر چھوڑ کر آؤں اور میں یہ فرض پوری ایمانداری سے ادا کرتا رہا' اس مشقت کا یہ فائدہ ہوا میں جب یونیورسٹی سے نکلا تو ڈگری کے ساتھ ساتھ مجھے خبر ایڈٹ کرنا بھی آتا تھا جب کہ میرے باقی کلاس فیلوز اس معاملے میں بالکل کورے تھے لہٰذا وہ اس کورے پن کی وجہ سے صحافت کی پرخار وادی میں ٹھہر نہ سکے۔

چوتھا کام' صحافت کانٹیکیٹ یا رابطوں کا شعبہ ہے' اس پیشے میں سماجی رابطے سٹیئرنگ کی حیثیت رکھتے ہیں' آپ اگر رابطے نہیں بنا سکتے تو آپ کے صحافی بننے کے چانس کم ہو جاتے ہیں چنانچہ آپ طالب علمی کے زمانے سے سماجی رابطے بڑھانا شروع کردیں' آپ مقامی سیاستدانوں سے ملیں' ان سے سیاست اور پارلیمنٹ کے بارے میں پوچھیں' آپ تھانے جائیں اور تھانے کے عملے سے قانونی معلومات حاصل کریں' آپ کے علاقے کا ایس ایچ او کوئی بڑا مجرم پکڑ لے تو آپ اس سے ملیں اور اس کی تعریف کریں' وہ آپ کو اپنی کامیابی کی چند ایسی چیزیں بتائے گا جو آپ نے اخبارات میں بھی نہیں پڑھی ہوں گی' آپ اس ایس ایچ او سے رابطہ استوار کر لیں' آپ اپنے ضلع کے ایس پی یا ایس ایس پی سے بھی ملاقات کریں' اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سے بھی ملیں' آپ علاقے کے تمام سرکاری دفتروں میں جائیں' افسروں سے ملاقات کریں اور ان سے محکمے کا ''پروسیجر'' پوچھیں' آپ کے گھر بجلی' گیس' ٹیلی فون' سیوریج اور واٹر سپلائی ہو گی مگر آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا ہو گا' آپ کے گھر پانی کہاں سے آتا ہے' سیوریج کی لائنیں آخر میں کہاں جاتی ہیں' ٹیلی فون کا نیشنل نیٹ ورک کہاں ہے' گیس کہاں سے چلتی ہے اور کہاں پہنچتی ہے اور بجلی کی مین ٹرانسمشن لائین کس کو کہتے ہیں' فیڈر کیا ہوتا ہے اور ٹرانسفارمر کیا کام کرتا ہے' آپ طالب علمی کے زمانے میں ان محکموں کے دفاتر جائیں'ان سے بنیادی معلومات حاصل کریں اور خدانخواستہ اگرملک کے کسی حصے کی ٹرانسمیشن لائین میں فالٹ آ جائے تو آپ واپڈا کے مقامی ملازمین کے پاس جائیں اور ان سے اس فالٹ کے بارے میں پوچھیں' آپ پوسٹ مارٹم ہوتے ہوئے دیکھیں' فوجی ٹینک میں بیٹھ کر اس کا معائنہ کریں اور محکمہ انہار کے نظام کو سمجھنے کی کوشش کریں' یہ معلومات اور یہ رابطے آپ کی عملی زندگی میں بہت کام آئیں گے۔

اور پانچواں کام۔ صحافت صرف پیشہ نہیں یہ جنون ہے' آپ اسے جب تک جنون نہیں سمجھیں گے' آپ اس میں کامیاب نہیں ہو ں گے' آپ اس پیشے کو مشرقی عورت کا نکاح سمجھیں' آپ اگر اس میں ایک بار آ گئے تو پھر آپ جان لیں اب یہاں سے آپ کی نعش ہی جانی چاہیے' ڈولی نہیں' آپ اگر مستقل مزاج نہیں ہیں' آپ روٹین کو فالو نہیں کر سکتے' آپ نوکریاں یا کام چھوڑنے کے عادی ہیں یا پھر آپ تیزی سے ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر صحافت آپ کا پیشہ نہیں ہو سکتا' یہ ہلکی آنچ پر پکنے والی ڈش ہے' یہ برگر یا سینڈوچ نہیں کہ آپ اسے اٹھا کر منہ میں ڈال لیں گے' آپ اگر صحافی بننا چاہتے ہیں تو پھر صبر' مستقل مزاجی اور صحافت کا جنون آپ کی شخصیت کا حصہ ہونا چاہیے بالکل خشونت سنگھ کی طرح۔ خشونت سنگھ برصغیر کے عظیم صحافی تھے' ان کا 20 مارچ 2014ء کو 99 سال کی عمر میں انتقال ہوا' یہ پوری زندگی رات آٹھ بجے ڈنر کرتے تھے' دس بجے سو جاتے تھے اور صبح چار بجے اٹھتے تھے' خشونت سنگھ کی اس روٹین نے انھیں35 کتابوں کا مصنف اور برصغیر کا سب سے بڑا صحافی بنایا' آپ بھی خشونت سنگھ بن سکتے ہیں لیکن آپ کو اس کے لیے خشونت سنگھ کا ڈسپلن اپنانا ہوگا' آپ اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر آپ صحافی ضرور بن سکتے ہیں لیکن اچھے صحافی نہیں۔
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
خوب! آج کا پیپر ہو جائے تو اس کے رہ جانے والےحصےپرعمل شروع کریں گے کیونکہ باقی پر عمل ہےہی چاہے تھوڑا سہی۔۔لیکن گزرتے دن کے ساتھ ہمیں "جدید صحافت" سے نفرت ہوتی جا رہی ہے وجہ وہی جو ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے مثبت سوچ کا فقدان۔۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ویسے تو بالعموم ہر شعبے میں نمایاں مقام اور نمایاں کامیابی کے لئے ”جنون“ کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ”ادب و صحافت“ میں خاص طور سے اس ”جنون“ کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ”اعتدال پسند انسان“ شاید ہی اس شعبہ میں کبھی کوئی نمایاں مقام حاصل کرسکے۔ مجھے ذاتی طور پر ”جنون“ سے جنون کی حد تک نفرت ہے :) جنون ہی کا دوسرا نام ”عشق“ بھی ہے۔ اور عشق کے بارے میں تو سب ہی جانتے ہیں کہ ع کہتے ہیں جس کو عشق، خلل ہے دماغ کا :) دنیا کے جتنے بڑے بڑے موجد، فلاسفر، چوٹی کے شاعر و ادیب و صحافی، سیاستدان وغیرہ وغیرہ ہیں، یہ سب کے سب اپنے ”لگن“ سے جنون کی حد تک عشق کرتے تھے۔ عشق ”آر یا پار“ کا نام ہے۔ اگر آپ ”پار“ کر گئے تو کامیاب ہوگئے اور اگر نہ کرسکے تو ”کہیں کے نہیں رہے“۔
یہ عشق نہیں آساں، اتنا تم سمجھ لینا​
اک آگ کا دریا ہے اور دوب کے جانا ہے​

عشق اور (فوجی و سیاسی ٹائپ کی) بغاوتیں ایک جیسی چیزیں ہیں۔ اگر ”کامیاب“ ہوگئے تو ”ہیرو“ ورنہ ”زیرو“، پھانسی کے ”اعزاز“ کے ساتھ :)

لہذا میں تو کہتا ہوں کہ کوئی ”جاوید چوہدری“ جیا کامیاب بننے کے لئے کوئی صحافت میں داخل نہ ہو۔ اپنے محدود اور ٹارگیٹیڈ اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے جاوید چوہدری جیسے کامیاب صحافیوں سے ”استفادہ“ ضرور کرنا چاہئے، مگر ان کی طرح اپنی مکمل زندگی کو صحافت کے سمندر میں نہیں پھینکنا چاہئے۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں ”صحافت“ کے سوا :) اور ایک مسلمان کو تو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی ”کامیابی“ کا خیال رکھنا ہوتا ہے ۔ لہٰذا ایک مسلمان خشونت سنگھ جیسا ”کامیاب صحافی“ کیسے بن سکتا ہے؟؟؟ پاکستان کے ”مسلمان گھرانوں“ سے تعلق رکھنے والے کامیاب ترین صحافیوں نے بھی پہلے دین و مذہب کو خود سے ”دور“ کیا، تب کہیں جاکر ”کامیاب صحافی“ بنے (الا ماشاء اللہ)
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
کالم پر تبصرہ بھی خوب رہا۔اس پر مزید تبصرے بعد میں ان شاء اللہ ۔
یہ نہ ہو یہاں بیٹھے بیٹھے "صحافت" میں آجائیں اور ابو تبصرہ کریں"پیپر کا وقت کیا ہے گھر سے نکل کب رہی ہو"):
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بہت خوب۔۔۔۔
اصل مقصد تو عزائم کی پختگی کے ساتھ نصب العین کا تعاقب کرنا ہے۔۔۔۔
جاوید چوہدری صاحب یقینا واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس "نصب العین" کے لیے کہیں خوشامد کی سیڑھی چڑھنی پڑے یا کامیاب لوگوں کے پیچھے بھاگنا پڑے تو ضرور بھاگیں، آسان الفاظ میں جدھر ہاتھ پڑے ، ضرور ڈالیں۔
سب سے اہم تو نصب العین کا تعین جستجو اور محنت ہے ، اسی نصب العین کی بدولت ہر زمانے میں علماء ، محدثین ، فقہاء اور دیگر نیک و صالح بندے موجود رہے۔۔۔۔۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
لگتا ہے کہ یوسف ثانی بھائی نے ان دنوں خود کو جاوید چودھری کے لئے وقف کردیا ہے۔(ابتسامہ)

اور بھی غم ہیں زمانے میں ’’جاوید چودھری‘‘ کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں ''جاوید چودھری کے کالموں'' کی راحت کے سوا
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
لگتا ہے کہ یوسف ثانی بھائی نے ان دنوں خود کو جاوید چودھری کے لئے وقف کردیا ہے۔(ابتسامہ)

اور بھی غم ہیں زمانے میں ’’جاوید چودھری‘‘ کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں ''جاوید چودھری کے کالموں'' کی راحت کے سوا
ہاہاہا۔ بہت خوب۔ آپ کا جواب پڑھ کر لطف آگیا
 
Top