• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابابیل حلال ہے یا حرام؟

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


شیخ محترم ابابیل کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

حلال ہے یا حرام ہے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
’ ابابیل ‘ کوئی خاص پرندہ ہے ؟
قرآن مجید کے سورہ فیل کے اندر جو ’ طیرا ابابیل ‘ کہا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ ’ غول در غول پرندے ‘ یا ’ قطار در قطار پرندے ‘
یہ پرندوں کے آنے کی صفت ہے کہ وہ ’ ابابیل ‘ کی صورت آئے ۔
اگر کوئی خاص قسم کے پرندے کو ابابیل کہا جاتا ہے ، تو اس کے متعلق معلومات فراہم ہونے کے بعد ہی کچھ فیصلہ کیا جاسکتا ہے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
شیخ محترم ایک فورم پر یہ دیکھا ہے


ابابیل کا کھانا حرام ہے ، حدیث شریف میں اس سے روکا گیا ہے ۔
(احکام الحیوان:۳۵)


http://www.urdumajlis.net/threads/حلال-و-حرام-پرندے.30352/
اندلس کے مشہور امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ابابیل کے حلال ہونے پر اتفاق ہے :
وَاتَّفَقُوا أَن أكل الابابيل والنعام وبقر الْوَحْش وحمر الْوَحْش المتوحشة والظباء والآرام والغزلان والاوعال والنياتل وأنواع دَوَاب الْبر حَلَال مَا لم يكن ذَا نَاب من السبَاع
(مراتب الإجماع )
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ابابیل
ایک قسم کی چھوٹی چڑیا جس کی "چونچ" اور سارے "پر" سیاہ مگر "سینہ" سفید ہوتا ہے۔
ابابیل اکثر چھتوں میں مٹی کا گھونسلا بنا کر رہتی ہے اور ابر میں بڑی خوشی سے اپنے غول کے ساتھ اڑتی اور چہچہاتی پھرتی ہے۔ اسے پنجابی میں سلارا بعض جگہ کِنھیا اور دیو دلائی فارسی میں پرستو کہتے ہیں

پرستو (قدیم فارسی) سلارا (پنجابی)

سیاہ پر اور سفید سینے کی چھوٹی سی چڑیا، پرانے گنبدوں، مسجدوں، کھنڈروں اور تاریک عمارتوں میں گارے سے پیالے کی طرح کا گھونسلا بنا کر رہتی اور اسے نرم نرم پروں یا روئی سے سجاتی، غول درغول نکلتی، فضا میں چکر لگاتی اور اُڑتے ہی میں ہوائی کیڑے کھاتی ہے

خطاف
ابابیل کی مانند ایک پرندہ ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
ابابیل
ایک قسم کی چھوٹی چڑیا جس کی "چونچ" اور سارے "پر" سیاہ مگر "سینہ" سفید ہوتا ہے۔
ابابیل اکثر چھتوں میں مٹی کا گھونسلا بنا کر رہتی ہے اور ابر میں بڑی خوشی سے اپنے غول کے ساتھ اڑتی اور چہچہاتی پھرتی ہے۔ اسے پنجابی میں سلارا بعض جگہ کِنھیا اور دیو دلائی فارسی میں پرستو کہتے ہیں

پرستو (قدیم فارسی) سلارا (پنجابی)

سیاہ پر اور سفید سینے کی چھوٹی سی چڑیا، پرانے گنبدوں، مسجدوں، کھنڈروں اور تاریک عمارتوں میں گارے سے پیالے کی طرح کا گھونسلا بنا کر رہتی اور اسے نرم نرم پروں یا روئی سے سجاتی، غول درغول نکلتی، فضا میں چکر لگاتی اور اُڑتے ہی میں ہوائی کیڑے کھاتی ہے

خطاف
ابابیل کی مانند ایک پرندہ ہے۔
جزاک اللہ خیرا محترم بھائی!
انگلش میں اسکو کیا کہتے ہیں؟؟؟
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
ابابیل
تفسير قوله تعالى: ( طيراً أبابيل )

السؤال :
ما المقصود بما في الآية الكريمة " أبابيل " ؟

تم النشر بتاريخ: 2012-06-20
الجواب :
الحمد لله
" أبابيل " جاء ذكرها في سورة "الفيل" : قال تعالى: ( أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ * أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ * وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ * تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ * فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ ) الفيل/1 ، 5 .
قال الواحدي رحمه الله : " نزلت في قصة أصحاب الفيل وقصدهم تخريب الكعبة ، وما فعل الله تعالى بهم من إهلاكهم وصرفهم عن البيت ، وهي معروفة " .
انتهى من " أسباب النزول " للواحدي (ص 306) .
وقد اختلف في معنى كلمة أبابيل ، على أقوال :
فقال ابن عباس، والضحاك : يتبع بعضها بعضاً.
وقال الحسن البصري وقتادة : الأبابيل : الكثيرة.
وقال مجاهد : أبابيل : شتى متتابعة مجتمعة.
وقال ابن زيد : الأبابيل : المختلفة ، تأتي من هاهنا، ومن هاهنا، أتتهم من كل مكان .
ينظر : "تفسير ابن كثير" (8/487) .
قال الحافظ ابن حجر رحمه الله : " وَعِنْد الطَّبَرِيّ بِسَنَدٍ صَحِيح عَنْ عِكْرِمَة أَنَّهَا كَانَتْ طَيْرًا خُضْرًا خَرَجَتْ مِنْ الْبَحْر ، لَهَا رُءُوس كَرُءُوسِ السِّبَاع .
وَلِابْنِ أَبِي حَاتِم مِنْ طَرِيق عُبَيْد بْن عُمَيْر بِسَنَدٍ قَوِيّ : " بَعَثَ اللَّه عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَنْشَأَهَا مِنْ الْبَحْر كَأَمْثَالِ الْخَطَاطِيف فَذَكَرَ نَحْو مَا تَقَدَّمَ " انتهى من " فتح الباري " (12/207) .
واختار الإمام الطبري رحمه الله أن معنى " أبابيل " يشمل ذلك كله ؛ قال : " يَقُولُ تَعَالَى ذِكْرُهُ: وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ طَيْرًا مُتَفَرِّقَةً، يَتَّبِعُ بَعْضُهَا بَعْضًا مِنْ نَوَاحٍ شَتَّى " .
انتهى من"تفسير الطبري" (24/627) .
والله أعلم .
موقع الإسلام سؤال وجواب
 
Top