اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
اعتراض نمبر 8:۔
مصنف اپنی جہالت اور بدنیتی کا اعادہ کرتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ 24پر صحیح بخاری کی ایک حدیث نقل کرتا ہوا معترض ہے ۔ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن فرمائیں گے:
''اے رب تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ زندہ کرنے کے دن میں تجھ کو ذلیل نہ کرونگا چنانچہ اس سے بڑی ذلت اورکیا ہوگی کہ میرا باپ جہنم میں چلاجائے ''۔ (صحیح بخاری کتاب الانبیائ474 )
آگے رقمطراز ہے :
قرآن میں عدم بصیرت کی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو امام بخاری نے اللہ کا وعدہ بنادیا حالانکہ قرآن میں کتناصاف لکھا ہوا ہے کہ خلیل اللہ نے دنیا ہی میں اپنے باپ سے برأت کا اعلان کردیا تھا تو قیامت میں کیسے کہہ سکتے تھے۔
جواب:۔
قارئین کرام اس مسئلہ میں دو باتیں ہیںاول یہ کہ مصنف کا فہم اللہ نے سلب کرلیا ہے اور وہ احادیث کو سمجھ نہیں سکتا اور دوئم مصنف خیانت اور غلو میں اتنا آگے پہنچ چکا ہے کہ حق اسے نظر ہی نہیں آتا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں اس طرح سے ذکر کیا ہے :
''عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال:یلقی ابراھیم اباہ آزر یوم القیٰمۃ وعلی وجہ آزرقترۃ وغبرۃ۔۔۔''
(صحیح بخاری۔کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراھیم خلیلارقم الحدیث3350)
''نبی کریم ﷺ نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آزر کو قیامت کے دن دیکھیں گے کہ اس کے منہ پر سیاہی اور گردوغبارہوگی،ان سے کہیں گے کہ میں نے (دنیا میں) تم سے نہیں کہا تھا میری نافرمانی نہ کرنا آزرکہے گا آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کرونگا اس وقت ابراہیم علیہ السلام (اللہ تعالیٰ سے) عرض کریں گے پروردگار تونے (میری دعا قبول کی تھی ،جو سورہ شعراء 87/26میں ہے )مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ قیامت کے دن تجھ کو رسو ا نہیں کرونگا اس سے زیادہ کونسی رسوائی ہوگی ۔میرا باپ ذلیل ہوا جو تیری رحمت سے محروم ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے بہشت تو کافروں پر حرام کردی ہے پھر ابراہیم علیہ السلام کوکہا جائے گا ذرا اپنے پاؤں کے تلے تو دیکھو وہ دیکھیں گے تو ایک بجّو نجاست سے لتھڑا ہواہے اور (فرشتے) اس کے پاؤں پکڑ کردوزخ میں ڈال دیں گے'' ۔
حدیث سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں :۔
1)ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعاکی کہ انکی رسوائی نہ ہو ۔
2)سورہ شعراء میں ہے کہ ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا کہ اے اللہ مجھ کو رسوا نہ کرنا۔
3)اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو رسوائی سے بچایا نہ کہ آزر کو۔
4) آزر کے عذاب میں کوئی کمی نہیں ہوئی بجو کی صورت میں ہی اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا ۔
مذکورہ بالا نتائج سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے اور الحمد للہ کسی محدث یا مفسر نے اس حدیث کو قرآن کے خلاف نہیں سمجھا ۔لیکن مصنف کونا معلوم یہ حدیث قرآن کے خلاف کیسے نظر آئی ۔یقینا یہ ایک بدنیت انسان ہے ۔
لہٰذا حدیث مبارکہ قرآن کریم کے خلاف نہیں بلکہ مصنف حدیث کے خلاف ہے ۔