بنت عبد السمیع
رکن
- شمولیت
- جون 06، 2017
- پیغامات
- 240
- ری ایکشن اسکور
- 27
- پوائنٹ
- 40
ابن عبد البر رحمه الله اور تقلید ؟؟؟؟؟؟؟؟
١٨٩٣ - قَوْلُ الْمُزَنِيِّ، رَحِمَهُ اللَّهُ، وَأَنَا أُورِدُهُ قَالَ: " يُقَالُ لِمَنْ حَكَمَ بِالتَّقْلِيدِ: هَلْ لَكَ مِنْ حُجَّةٍ فِيمَا حَكَمْتَ بِهِ؟ فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ أُبْطِلَ التَّقْلِيدُ؛ لِأَنَّ الْحُجَّةَ أَوْجَبَتْ ذَلِكَ عِنْدَهُ لَا التَّقْلِيدُ، وَإِنْ قَالَ: حَكَمْتُ فِيهِ بِغَيْرِ حُجَّةٍ قِيلَ لَهُ: فَلِمَ أَرَقْتَ الدِّمَاءَ وَأَبَحْتَ الْفُرُوجَ وَأَتْلَفْتَ الْأَمْوَالَ وَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِحُجَّةٍ؟ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنْ عِنْدَكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِهَذَا} [يونس: ٦٨] أَيْ مِنْ حُجَّةٍ بِهَذَا فَإِنْ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ أَنِّي قَدْ أَصَبْتُ وَإِنْ لَمْ أَعْرِفِ الْحُجَّةَ؛ لِأَنِّي قَلَّدْتُ كَبِيرًا مِنَ الْعُلَمَاءِ وَهُوَ لَا يَقُولُ إِلَّا بِحُجَّةٍ خَفِيَتْ عَلَيَّ، قِيلَ لَهُ: إِذَا جَازَ تَقْلِيدُ مُعَلِّمِكَ لِأَنَّهُ لَا يَقُولُ إِلَّا بِحُجَّةٍ خَفِيَتْ عَلَيْكَ فَتَقْلِيدُ مُعَلِّمِ مُعَلِّمِكَ أَوْلَى؛ لِأَنَّهُ لَا يَقُولُ إِلَّا بِحُجَّةٍ خَفِيَتْ عَلَى مُعَلِّمِكَ، كَمَا لَمْ يَقُلْ مُعَلِّمُكَ إِلَّا بِحُجَّةٍ خَفِيَتْ عَلَيْكَ، فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ تَرَكَ تَقْلِيدَ مُعَلِّمِ مُعَلِّمِهِ، وَكَذَلِكَ مَنْ هُوَ أَعْلَى حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، [ص: ٩٩٣] وَإِنْ أَبَى ذَلِكَ نَقَضَ قَوْلَهُ وَقِيلَ لَهُ: كَيْفَ يَجُوزُ تَقْلِيدُ مَنْ هُوَ أَصْغَرُ وَأَقَلُّ عِلْمًا وَلَا يَجُوزُ تَقْلِيدُ مَنْ هُوَ أَكْبَرُ وَأَكْثَرُ عِلْمًا وَهَذَا يَتَنَاقَضُ، فَإِنْ قَالَ: لِأَنَّ مُعَلِّمِي وَإِنْ كَانَ أَصْغَرَ فَقَدْ جَمَعَ عِلْمَ مَنْ هُوَ فَوْقَهُ إِلَى عِلْمِهِ، فَهُوَ أَبْصَرُ بِمَا أَخَذَ وَأَعْلَمُ بِمَا تَرَكَ قِيلَ لَهُ: وَكَذَلِكَ مَنْ تَعَلَّمَ مِنْ مُعَلِّمِكَ فَقَدْ جَمَعَ عِلْمَ مُعَلِّمِكَ وَعِلْمَ مَنْ فَوْقَهُ إِلَى عِلْمِهِ؛ فَيَلْزَمُكَ تَقْلِيدُهُ وَتَرْكُ تَقْلِيدِ مُعَلِّمِكَ، وَكَذَلِكَ أَنْتَ أَوْلَى أَنْ تُقَلِّدَ نَفْسَكَ مِنْ مُعَلِّمِكَ؛ لِأَنَّكَ جَمَعْتَ عِلْمَ مُعَلِّمِكَ وَعِلْمَ مَنْ هُوَ فَوْقَهُ إِلَى عِلْمِكَ، فَإِنْ فَادَ قَوْلَهُ جُعِلَ الْأَصْغَرَ وَمَنْ يُحَدِّثُ مِنْ صِغَارِ الْعُلَمَاءِ أَوْلَى بِالتَّقْلِيدِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَذَلِكَ الصَّاحِبُ عِنْدَهُ يَلْزَمُهُ تَقْلِيدُ التَّابِعِ، وَالتَّابِعُ مَنْ دُونَهُ فِي قِيَاسِ قَوْلِهِ والْأَعْلَى الْأَدْنَى أَبَدًا وَكَفَى بِقَوْلٍ يَؤُولُ إِلَى هَذَا قُبْحًا وَفُسَادًا"
[جامع بیان العلم وفضله ج2 ص978]
ابن عبد البر رحمه الله نے اپنی کتاب "جامع بیان العلم وفضله" میں باب باندھا {تقلید کے باعث فساد ، اور اتباع اور تقلید میں فرق کا باب}
اس باب کو قائم کرنے کے بعد تقلید کا رد کرتے ھوئے آگے چل کر ابن عبد البر رحمه الله کہتے ہیں :
اس بارے میں (یعنی تقلید کے باطل ھونے کے بارے میں) سب سے بہتر تقریر جو میری نظر سے گزری ہے۔ وہ امام المزنی کی ھے۔
وہ فرماتے ہیں : تقلیداً فتویٰ دینے والے سے ہمارا سوال ھے۔ کہ تم نے کس دلیل سے فتویٰ دیا ھے؟ یا بے دلیل ہی دے دیا ھے؟ اگر دلیل سے (فتویٰ) دیا ھے۔ تو تم نے تقلید کو باطل کردیا (یعنی تم نے تقلید نہیں کی)۔ کیونکہ دلیل کی پیروی کرنا ہمارے نزدیک تقلید میں سے نہیں".۔
لیکن اگر بے دلیل (یعنی تقلیداً) فتویٰ دیا ھے۔ تو بتاؤکس حق سے تم نے مسلمانوں کا خون بہایا؟ نکاح کے رشتے جوڑے؟ مال تباہ کیا ؟ حالانکہ بے دلیل ایسا کرنا الله تعالی حرام قرار دے چکا ھے.
قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنْ عِنْدَكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِهَذَا}
ابن عبد البر رحمه الله کہتے ھیں الله فرماتا ھے : "تمہارے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں". [يونس: ٦٨]
پھر ابن عبد البر رحمه الله آگے لکھتے ھیں : کہ
"اگر مقلد کہے مجھے یقین ھے کہ فتویٰ درست ھے کیونکہ میں نے ایک بڑے عالم کی تقلید کی ھے۔ اور وہ عالم کوئی بات بے دلیل نہیں کہتا۔ ضرور اس خاص مسئلہ میں بھی اُس عالم کے پاس کوئی دلیل ھوگی۔ اگرچہ مجھے (وہ دلیل) نہیں ملی۔
تو ہم کہتے ہیں : کہ اگر حسن ظن کی بناء پر اُس عالم کی تقلید جائز سمجھتے ھو کہ اس کے پاس کوئی دلیل ھوگی۔ تو اُس عالم کے بھی معلم (استاز) کی تقلید بدرجہ اولیٰ جائز ھونی چاھییے۔ کہونکہ اُس (معلم) کے حق میں بھی یہی حسن ظن ھے کہ ہر بات دلیل سے کہتا ھوگا۔
تو اگر مقلد تسلیم کرے کہ ہاں یہ ٹھیک فرمایا ، تو....
تو ضروری ھوجائے گا ، کہ مقلد اپنے عالم کی تقلید چھوڑ کے آُس کے معلم کی تقلید شروع کردے۔ پھر اسی طرح اُس معلم کی بھی تقلید چھوڑ کر اُس کے بھی معلم کی تقلید اختیار کرلے۔ یہاں تک کہ یہ معاملہ یونہی آگے بڑھتے بڑھتے اصحاب رسول الله صلی الله علیه وسلم تک جا پہنچے۔
لیکن اگر وہ مقلد صحابہ کی تقلید کرنے سے انکار کرے ۔ تو حسن ظن پر بنی یہ ساری عمارت باطل ھوجائے گی۔
تو ہم اُس مقلد سے کہیں گے۔ اتنا تناقض کیوں؟ تم (مقلد) کم درجہ اور کم علم لوگوں کی تقلید تو جائز رکھتے ھو۔ لیکن بلند درجہ اور زیادہ علم والوں کی تقلید جائز نہیں رکھتے؟
اگر وہ مقلد جواب دے۔ کہ
میرا عالم گو چھوٹا ھے لیکن اپنے اکابر کا علم حاصل کرکے اُس میں اپنے علم کا بھی اضافہ کرچکا ھے۔ اسی لیئے اپنے قول وفعل میں اُن سے زیادہ بصیرت رکھتا ھے".
تو ہم اُس مقلد کو جواباً کہیں گے : کہ اگر یہی بات ٹھیک ھے جو تم نے کہی ھے۔ تو یہی بات تمہارے علم کے شاگرد، بلکہ خود تمھارے حق میں بھی صادق آتی ھے۔ تم نے بھی اپنے عالم کا علم حاصل کیا۔ اور اگلوں کے علم سے بھی دامن بھرا۔ اور اِس سب میں خود اپنے علم کا بھی اضافہ کیا۔ لہذا پھر تو تمہاری بصیرت ان سب سے زیادہ ھے۔ تو تمہیں خود اپنی تقلید کرنی چاہییے۔
اگر وہ مقلد یہ بات تسلیم کرلے۔
تو مطلب یہ ھوگا کہ۔ بڑوں کے مقابلے میں چھوٹوں کی تقلید اولیٰ ھے۔ اور ظاہر ھے کہ وہ (مقلد) یہ بات کبھی تسلیم نہیں کرے گا".۔
[جامع بیان العلم وفضله ج2 ص978]
١٨٩٥ - وَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ بْنُ خُوَازٍ مِنْدَادٌ الْبَصْرِيُّ الْمَالِكِيُّ: «التَّقْلِيدُ مَعْنَاهُ فِي الشَّرْعِ الرُّجُوعُ إِلَى قَوْلٍ لَا حُجَّةَ لِقَائِلِهِ عَلَيْهِ، وَهَذَا مَمْنُوعٌ مِنْهُ فِي الشَّرِيعَةِ، وَالِاتِّبَاعُ مَا ثَبَتَ عَلَيْهِ حُجَّةٌ» وَقَالَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مِنْ كِتَابِهِ: «كُلُّ مَنِ اتَّبَعْتَ قَوْلَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَجِبَ عَلَيْكَ قَبُولُهُ لِدَلِيلٍ يُوجِبُ ذَلِكَ فَأَنْتَ مُقَلِّدُهُ، وَالتَّقْلِيدُ فِي دِينِ اللَّهِ غَيْرُ صَحِيحٍ وَكُلُّ مَنْ أَوْجَبَ عَلَيْكَ الدَّلِيلُ اتِّبَاعَ قَوْلِهِ فَأَنْتَ مُتَّبِعُهُ والِاتِّبَاعُ فِي الدِّينِ مَسُوغٌ وَالتَّقْلِيدُ مَمْنُوعٌ»
ابن عبد الرحمه الله نے کہا : کہ
ابو عبدالله بن خواز منداد البصري رحمه الله مالکی نے اپنی کتاب میں لکھا ھے : کہ
شریعت میں تقلید کے معنیٰ یہ ھیں کہ ایسے قول کو مان لیا جائے جس کی صحت پر کوئی دلیل معلوم نہیں۔ حالانکہ شریعت اس سے منع کرتی ہے۔ برخلاف اِس کے ، کہ اتباع یہ ھے ، کہ ایسے قول کو مانا جائے جس کی دلیل بھی معلوم کرلی گئی ہے۔ تو جب تم کسی کے قول کی بغیر دلیل پیروی کرتے ہو تو اُس کے مقلد ھو۔ اور تقلید دینِ الٰہی میں درست نہیں۔ لیکن کس قول کی دلیل کے ساتھ پیروی کرتے ھو۔ تو اُس کے متبع ھو۔ اور اتباع دینِ الٰہی میں درست ھے ، لیکن تقلید ممنوع ھے".
[جامع بیان العلم وفضله ، ج2 ص992]
١٨٩٤ - قَالَ أَبُو عُمَرَ: " وَقَالَ أَهْلُ الْعِلْمِ وَالنَّظَرِ: حَدُّ الْعِلْمِ التَّبْيِينُ وَإِدْرَاكُ الْمَعْلُومِ عَلَى مَا هُوَ فِيهِ، فَمَنْ بَانَ لَهُ الشَّيْءُ فَقَدْ عَلِمَهُ، قَالُوا: وَالْمُقَلِّدُ لَا عِلْمَ لَهُ وَلَمْ يَخْتَلِفُوا فِي ذَلِكَ وَمِنْ هَا هُنَا وَاللَّهُ أَعْلَمُ قَالَ الْبَخْتَرِيُّ فِي مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ الزَّيَّاتِ:
[البحر الخفيف]
عَرَفَ الْعَالِمُونَ فَضْلَكَ بِالْعِلْـمِ وَقَالَ الْجُهَّالُ بِالتَّقْلِيدِ
وَأَرَى النَّاسَ مُجْمِعِينَ عَلَى ... فَضْلِكَ مِنْ بَيْنِ سَيِّدٍ وَمَسُودِ
ابن عبد البر رحمه کہتے ہیں : اہل علم ونظر نے علم کی تعریف یہ کی ھے، کہ معلوم کو اُس کی اصلی صورت میں جاننا۔ پس جو شخص کسی چیز کو جان جاتا ہے تو وہ اُس چیز کا عالم ھے۔ اسی بناء پر علماء کا فیصلہ ہے ، جس میں کسی کا اختلاف نہیں ، کہ مقلد عالم نہیں". کیونکہ وہ (مقلد) علم کے ساتھ کوئی حکم نہیں لگاتا۔ بلکہ دوسروں کی کہی ہوئی باتیں بے دلیل کہنے لگتا ھے".
[جامع بیان العلم وفضله ، ج2 ص992]
وَشَبَّهَ الْعُلَمَاءُ زَلَّةَ الْعَالِمِ بِانْكِسَارِ السَّفِينَةِ؛ لِأَنَّهَا إِذَا غَرِقَتْ غَرِقَ مَعَهَا خَلْقٌ كَثِيرٌ [ص: ٩٨٣] وَإِذَا ثَبَتَ وَصَحَّ أَنَّ الْعَالِمَ يُخْطِئُ وَيَزِلُّ لَمْ يَجُزْ لِأَحَدٍ أَنْ يُفْتِيَ وَيَدِينَ بِقَوْلٍ لَا يَعْرِفُ وَجْهَهُ
ابن عبد البر نے باب قائم کیا "تقلید کے باعث فساد۔ اور تقلید اور اتباع میں فرق".
پھر ابن عبد البر اس باب میں کہتے ہیں : علماء نے عالم کی ٹھوکر کو ٹوٹی ہوئی کشتی سے تشبیہ دی ہے۔ کیونکہ جس طرح کشتی اپنے مسافروں کو لے ڈوبتی ہے۔ اسی طرح عالم بھی بہت ساری مخلوق کو اپنے ساتھ لے کر گمراہ ھوجاتاہے۔ پس جب یہ ثابت ھے۔ اور واقعہ ومشاہدہ ہے۔ کہ عالم ٹھوکر کھاتا ہے۔ غلطی کر جاتا ہے۔ تو پھر کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ عالم ایسے قول پر چلے یا فتویٰ دے۔ جس کی صحت وحقیت سے پوری طرح آگاہ نہیں؟
[جامع بیان العلم وفضلہ ص 982 ج2]
ابن عبد البر رحمه الله نے کہا :
وَثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا قَدْ ذَكَرْنَاهُ فِي كِتَابِنَا هَذَا أَنَّهُ قَالَ: «يَذْهَبُ الْعُلَمَاءُ ثُمَّ يَتَّخِذُ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا يُسْأَلُونَ فَيُفْتُونَ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَيَضِلُّونَ وَيُضِلُّونَ» وَهَذَا كُلُّهُ نَفْيٌ لِلتَّقْلِيدِ وَإِبْطَالٌ لَهُ لِمَنْ فَهِمَهُ وَهُدِيَ لِرُشْدِهِ"
"نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے جیسا کہ اسے ہم اسی کتاب میں بیان کرچکے کہ : علماء تو (دنیا سے ) چلے جائیں گے ، پھر لوگ جہلاء کو (اہل علم کے منصب پر بٹھا کر ) بڑا مان لیں گے ،اور ان سے شرعی امور کے متعلق سوال کیا کریں گے ، اور وہ جاہل لوگ بغیر علم ان کو فتویٰ دیتے پھریں گے ،خود بھی گمراہ ہوں گے ،اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ،
اور یہ تمام احادیث و روایات تقلید کی نفی اور ابطال کیلئے ہیں ، اس کیلئے جو فہم و ھدایت سے بہرہ یاب ہے۔
[جامع بيان العلم وفضله ج 2 ، ص 988]
امام ابن عبد البر رحمه الله اسی تقلید کے فساد والے باب میں لکھتے ہیں۔
وَثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ» وَلَا خِلَافَ بَيْنَ أَئِمَّةِ الْأَمْصَارِ فِي فَسَادِ التَّقْلِيدِ فَأَغْنَى ذَلِكَ عَنِ الْإِكْثَارِ "۔
اور نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا :
« ظن و گمان سے بچو ! کیونکہ ظن و گمان سب سے بڑا جھوٹ ہے » اور تقلید کے خراب اورفساد ہونے میں تمام علاقوں کے علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ، [یعنی سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تقلید میں خرابی ہی خرابی ہے] تو اسلئے اس پر کثرت سے حوالے دینے کی حاجت نہیں".
[جامع بيان العلم وفضله ص995]
(کیونکہ کثرت سے حوالے اور دلائل تو اختلافی موضوع پر دیئے جاتے ہیں جبکہ خرابیء تقلید پر تو اہل علم متفق ہیں )
١٨٩٣ - قَوْلُ الْمُزَنِيِّ، رَحِمَهُ اللَّهُ، وَأَنَا أُورِدُهُ قَالَ: " يُقَالُ لِمَنْ حَكَمَ بِالتَّقْلِيدِ: هَلْ لَكَ مِنْ حُجَّةٍ فِيمَا حَكَمْتَ بِهِ؟ فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ أُبْطِلَ التَّقْلِيدُ؛ لِأَنَّ الْحُجَّةَ أَوْجَبَتْ ذَلِكَ عِنْدَهُ لَا التَّقْلِيدُ، وَإِنْ قَالَ: حَكَمْتُ فِيهِ بِغَيْرِ حُجَّةٍ قِيلَ لَهُ: فَلِمَ أَرَقْتَ الدِّمَاءَ وَأَبَحْتَ الْفُرُوجَ وَأَتْلَفْتَ الْأَمْوَالَ وَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِحُجَّةٍ؟ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنْ عِنْدَكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِهَذَا} [يونس: ٦٨] أَيْ مِنْ حُجَّةٍ بِهَذَا فَإِنْ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ أَنِّي قَدْ أَصَبْتُ وَإِنْ لَمْ أَعْرِفِ الْحُجَّةَ؛ لِأَنِّي قَلَّدْتُ كَبِيرًا مِنَ الْعُلَمَاءِ وَهُوَ لَا يَقُولُ إِلَّا بِحُجَّةٍ خَفِيَتْ عَلَيَّ، قِيلَ لَهُ: إِذَا جَازَ تَقْلِيدُ مُعَلِّمِكَ لِأَنَّهُ لَا يَقُولُ إِلَّا بِحُجَّةٍ خَفِيَتْ عَلَيْكَ فَتَقْلِيدُ مُعَلِّمِ مُعَلِّمِكَ أَوْلَى؛ لِأَنَّهُ لَا يَقُولُ إِلَّا بِحُجَّةٍ خَفِيَتْ عَلَى مُعَلِّمِكَ، كَمَا لَمْ يَقُلْ مُعَلِّمُكَ إِلَّا بِحُجَّةٍ خَفِيَتْ عَلَيْكَ، فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ تَرَكَ تَقْلِيدَ مُعَلِّمِ مُعَلِّمِهِ، وَكَذَلِكَ مَنْ هُوَ أَعْلَى حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، [ص: ٩٩٣] وَإِنْ أَبَى ذَلِكَ نَقَضَ قَوْلَهُ وَقِيلَ لَهُ: كَيْفَ يَجُوزُ تَقْلِيدُ مَنْ هُوَ أَصْغَرُ وَأَقَلُّ عِلْمًا وَلَا يَجُوزُ تَقْلِيدُ مَنْ هُوَ أَكْبَرُ وَأَكْثَرُ عِلْمًا وَهَذَا يَتَنَاقَضُ، فَإِنْ قَالَ: لِأَنَّ مُعَلِّمِي وَإِنْ كَانَ أَصْغَرَ فَقَدْ جَمَعَ عِلْمَ مَنْ هُوَ فَوْقَهُ إِلَى عِلْمِهِ، فَهُوَ أَبْصَرُ بِمَا أَخَذَ وَأَعْلَمُ بِمَا تَرَكَ قِيلَ لَهُ: وَكَذَلِكَ مَنْ تَعَلَّمَ مِنْ مُعَلِّمِكَ فَقَدْ جَمَعَ عِلْمَ مُعَلِّمِكَ وَعِلْمَ مَنْ فَوْقَهُ إِلَى عِلْمِهِ؛ فَيَلْزَمُكَ تَقْلِيدُهُ وَتَرْكُ تَقْلِيدِ مُعَلِّمِكَ، وَكَذَلِكَ أَنْتَ أَوْلَى أَنْ تُقَلِّدَ نَفْسَكَ مِنْ مُعَلِّمِكَ؛ لِأَنَّكَ جَمَعْتَ عِلْمَ مُعَلِّمِكَ وَعِلْمَ مَنْ هُوَ فَوْقَهُ إِلَى عِلْمِكَ، فَإِنْ فَادَ قَوْلَهُ جُعِلَ الْأَصْغَرَ وَمَنْ يُحَدِّثُ مِنْ صِغَارِ الْعُلَمَاءِ أَوْلَى بِالتَّقْلِيدِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَذَلِكَ الصَّاحِبُ عِنْدَهُ يَلْزَمُهُ تَقْلِيدُ التَّابِعِ، وَالتَّابِعُ مَنْ دُونَهُ فِي قِيَاسِ قَوْلِهِ والْأَعْلَى الْأَدْنَى أَبَدًا وَكَفَى بِقَوْلٍ يَؤُولُ إِلَى هَذَا قُبْحًا وَفُسَادًا"
[جامع بیان العلم وفضله ج2 ص978]
ابن عبد البر رحمه الله نے اپنی کتاب "جامع بیان العلم وفضله" میں باب باندھا {تقلید کے باعث فساد ، اور اتباع اور تقلید میں فرق کا باب}
اس باب کو قائم کرنے کے بعد تقلید کا رد کرتے ھوئے آگے چل کر ابن عبد البر رحمه الله کہتے ہیں :
اس بارے میں (یعنی تقلید کے باطل ھونے کے بارے میں) سب سے بہتر تقریر جو میری نظر سے گزری ہے۔ وہ امام المزنی کی ھے۔
وہ فرماتے ہیں : تقلیداً فتویٰ دینے والے سے ہمارا سوال ھے۔ کہ تم نے کس دلیل سے فتویٰ دیا ھے؟ یا بے دلیل ہی دے دیا ھے؟ اگر دلیل سے (فتویٰ) دیا ھے۔ تو تم نے تقلید کو باطل کردیا (یعنی تم نے تقلید نہیں کی)۔ کیونکہ دلیل کی پیروی کرنا ہمارے نزدیک تقلید میں سے نہیں".۔
لیکن اگر بے دلیل (یعنی تقلیداً) فتویٰ دیا ھے۔ تو بتاؤکس حق سے تم نے مسلمانوں کا خون بہایا؟ نکاح کے رشتے جوڑے؟ مال تباہ کیا ؟ حالانکہ بے دلیل ایسا کرنا الله تعالی حرام قرار دے چکا ھے.
قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنْ عِنْدَكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِهَذَا}
ابن عبد البر رحمه الله کہتے ھیں الله فرماتا ھے : "تمہارے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں". [يونس: ٦٨]
پھر ابن عبد البر رحمه الله آگے لکھتے ھیں : کہ
"اگر مقلد کہے مجھے یقین ھے کہ فتویٰ درست ھے کیونکہ میں نے ایک بڑے عالم کی تقلید کی ھے۔ اور وہ عالم کوئی بات بے دلیل نہیں کہتا۔ ضرور اس خاص مسئلہ میں بھی اُس عالم کے پاس کوئی دلیل ھوگی۔ اگرچہ مجھے (وہ دلیل) نہیں ملی۔
تو ہم کہتے ہیں : کہ اگر حسن ظن کی بناء پر اُس عالم کی تقلید جائز سمجھتے ھو کہ اس کے پاس کوئی دلیل ھوگی۔ تو اُس عالم کے بھی معلم (استاز) کی تقلید بدرجہ اولیٰ جائز ھونی چاھییے۔ کہونکہ اُس (معلم) کے حق میں بھی یہی حسن ظن ھے کہ ہر بات دلیل سے کہتا ھوگا۔
تو اگر مقلد تسلیم کرے کہ ہاں یہ ٹھیک فرمایا ، تو....
تو ضروری ھوجائے گا ، کہ مقلد اپنے عالم کی تقلید چھوڑ کے آُس کے معلم کی تقلید شروع کردے۔ پھر اسی طرح اُس معلم کی بھی تقلید چھوڑ کر اُس کے بھی معلم کی تقلید اختیار کرلے۔ یہاں تک کہ یہ معاملہ یونہی آگے بڑھتے بڑھتے اصحاب رسول الله صلی الله علیه وسلم تک جا پہنچے۔
لیکن اگر وہ مقلد صحابہ کی تقلید کرنے سے انکار کرے ۔ تو حسن ظن پر بنی یہ ساری عمارت باطل ھوجائے گی۔
تو ہم اُس مقلد سے کہیں گے۔ اتنا تناقض کیوں؟ تم (مقلد) کم درجہ اور کم علم لوگوں کی تقلید تو جائز رکھتے ھو۔ لیکن بلند درجہ اور زیادہ علم والوں کی تقلید جائز نہیں رکھتے؟
اگر وہ مقلد جواب دے۔ کہ
میرا عالم گو چھوٹا ھے لیکن اپنے اکابر کا علم حاصل کرکے اُس میں اپنے علم کا بھی اضافہ کرچکا ھے۔ اسی لیئے اپنے قول وفعل میں اُن سے زیادہ بصیرت رکھتا ھے".
تو ہم اُس مقلد کو جواباً کہیں گے : کہ اگر یہی بات ٹھیک ھے جو تم نے کہی ھے۔ تو یہی بات تمہارے علم کے شاگرد، بلکہ خود تمھارے حق میں بھی صادق آتی ھے۔ تم نے بھی اپنے عالم کا علم حاصل کیا۔ اور اگلوں کے علم سے بھی دامن بھرا۔ اور اِس سب میں خود اپنے علم کا بھی اضافہ کیا۔ لہذا پھر تو تمہاری بصیرت ان سب سے زیادہ ھے۔ تو تمہیں خود اپنی تقلید کرنی چاہییے۔
اگر وہ مقلد یہ بات تسلیم کرلے۔
تو مطلب یہ ھوگا کہ۔ بڑوں کے مقابلے میں چھوٹوں کی تقلید اولیٰ ھے۔ اور ظاہر ھے کہ وہ (مقلد) یہ بات کبھی تسلیم نہیں کرے گا".۔
[جامع بیان العلم وفضله ج2 ص978]
١٨٩٥ - وَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ بْنُ خُوَازٍ مِنْدَادٌ الْبَصْرِيُّ الْمَالِكِيُّ: «التَّقْلِيدُ مَعْنَاهُ فِي الشَّرْعِ الرُّجُوعُ إِلَى قَوْلٍ لَا حُجَّةَ لِقَائِلِهِ عَلَيْهِ، وَهَذَا مَمْنُوعٌ مِنْهُ فِي الشَّرِيعَةِ، وَالِاتِّبَاعُ مَا ثَبَتَ عَلَيْهِ حُجَّةٌ» وَقَالَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مِنْ كِتَابِهِ: «كُلُّ مَنِ اتَّبَعْتَ قَوْلَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَجِبَ عَلَيْكَ قَبُولُهُ لِدَلِيلٍ يُوجِبُ ذَلِكَ فَأَنْتَ مُقَلِّدُهُ، وَالتَّقْلِيدُ فِي دِينِ اللَّهِ غَيْرُ صَحِيحٍ وَكُلُّ مَنْ أَوْجَبَ عَلَيْكَ الدَّلِيلُ اتِّبَاعَ قَوْلِهِ فَأَنْتَ مُتَّبِعُهُ والِاتِّبَاعُ فِي الدِّينِ مَسُوغٌ وَالتَّقْلِيدُ مَمْنُوعٌ»
ابن عبد الرحمه الله نے کہا : کہ
ابو عبدالله بن خواز منداد البصري رحمه الله مالکی نے اپنی کتاب میں لکھا ھے : کہ
شریعت میں تقلید کے معنیٰ یہ ھیں کہ ایسے قول کو مان لیا جائے جس کی صحت پر کوئی دلیل معلوم نہیں۔ حالانکہ شریعت اس سے منع کرتی ہے۔ برخلاف اِس کے ، کہ اتباع یہ ھے ، کہ ایسے قول کو مانا جائے جس کی دلیل بھی معلوم کرلی گئی ہے۔ تو جب تم کسی کے قول کی بغیر دلیل پیروی کرتے ہو تو اُس کے مقلد ھو۔ اور تقلید دینِ الٰہی میں درست نہیں۔ لیکن کس قول کی دلیل کے ساتھ پیروی کرتے ھو۔ تو اُس کے متبع ھو۔ اور اتباع دینِ الٰہی میں درست ھے ، لیکن تقلید ممنوع ھے".
[جامع بیان العلم وفضله ، ج2 ص992]
١٨٩٤ - قَالَ أَبُو عُمَرَ: " وَقَالَ أَهْلُ الْعِلْمِ وَالنَّظَرِ: حَدُّ الْعِلْمِ التَّبْيِينُ وَإِدْرَاكُ الْمَعْلُومِ عَلَى مَا هُوَ فِيهِ، فَمَنْ بَانَ لَهُ الشَّيْءُ فَقَدْ عَلِمَهُ، قَالُوا: وَالْمُقَلِّدُ لَا عِلْمَ لَهُ وَلَمْ يَخْتَلِفُوا فِي ذَلِكَ وَمِنْ هَا هُنَا وَاللَّهُ أَعْلَمُ قَالَ الْبَخْتَرِيُّ فِي مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ الزَّيَّاتِ:
[البحر الخفيف]
عَرَفَ الْعَالِمُونَ فَضْلَكَ بِالْعِلْـمِ وَقَالَ الْجُهَّالُ بِالتَّقْلِيدِ
وَأَرَى النَّاسَ مُجْمِعِينَ عَلَى ... فَضْلِكَ مِنْ بَيْنِ سَيِّدٍ وَمَسُودِ
ابن عبد البر رحمه کہتے ہیں : اہل علم ونظر نے علم کی تعریف یہ کی ھے، کہ معلوم کو اُس کی اصلی صورت میں جاننا۔ پس جو شخص کسی چیز کو جان جاتا ہے تو وہ اُس چیز کا عالم ھے۔ اسی بناء پر علماء کا فیصلہ ہے ، جس میں کسی کا اختلاف نہیں ، کہ مقلد عالم نہیں". کیونکہ وہ (مقلد) علم کے ساتھ کوئی حکم نہیں لگاتا۔ بلکہ دوسروں کی کہی ہوئی باتیں بے دلیل کہنے لگتا ھے".
[جامع بیان العلم وفضله ، ج2 ص992]
وَشَبَّهَ الْعُلَمَاءُ زَلَّةَ الْعَالِمِ بِانْكِسَارِ السَّفِينَةِ؛ لِأَنَّهَا إِذَا غَرِقَتْ غَرِقَ مَعَهَا خَلْقٌ كَثِيرٌ [ص: ٩٨٣] وَإِذَا ثَبَتَ وَصَحَّ أَنَّ الْعَالِمَ يُخْطِئُ وَيَزِلُّ لَمْ يَجُزْ لِأَحَدٍ أَنْ يُفْتِيَ وَيَدِينَ بِقَوْلٍ لَا يَعْرِفُ وَجْهَهُ
ابن عبد البر نے باب قائم کیا "تقلید کے باعث فساد۔ اور تقلید اور اتباع میں فرق".
پھر ابن عبد البر اس باب میں کہتے ہیں : علماء نے عالم کی ٹھوکر کو ٹوٹی ہوئی کشتی سے تشبیہ دی ہے۔ کیونکہ جس طرح کشتی اپنے مسافروں کو لے ڈوبتی ہے۔ اسی طرح عالم بھی بہت ساری مخلوق کو اپنے ساتھ لے کر گمراہ ھوجاتاہے۔ پس جب یہ ثابت ھے۔ اور واقعہ ومشاہدہ ہے۔ کہ عالم ٹھوکر کھاتا ہے۔ غلطی کر جاتا ہے۔ تو پھر کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ عالم ایسے قول پر چلے یا فتویٰ دے۔ جس کی صحت وحقیت سے پوری طرح آگاہ نہیں؟
[جامع بیان العلم وفضلہ ص 982 ج2]
ابن عبد البر رحمه الله نے کہا :
وَثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا قَدْ ذَكَرْنَاهُ فِي كِتَابِنَا هَذَا أَنَّهُ قَالَ: «يَذْهَبُ الْعُلَمَاءُ ثُمَّ يَتَّخِذُ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا يُسْأَلُونَ فَيُفْتُونَ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَيَضِلُّونَ وَيُضِلُّونَ» وَهَذَا كُلُّهُ نَفْيٌ لِلتَّقْلِيدِ وَإِبْطَالٌ لَهُ لِمَنْ فَهِمَهُ وَهُدِيَ لِرُشْدِهِ"
"نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے جیسا کہ اسے ہم اسی کتاب میں بیان کرچکے کہ : علماء تو (دنیا سے ) چلے جائیں گے ، پھر لوگ جہلاء کو (اہل علم کے منصب پر بٹھا کر ) بڑا مان لیں گے ،اور ان سے شرعی امور کے متعلق سوال کیا کریں گے ، اور وہ جاہل لوگ بغیر علم ان کو فتویٰ دیتے پھریں گے ،خود بھی گمراہ ہوں گے ،اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ،
اور یہ تمام احادیث و روایات تقلید کی نفی اور ابطال کیلئے ہیں ، اس کیلئے جو فہم و ھدایت سے بہرہ یاب ہے۔
[جامع بيان العلم وفضله ج 2 ، ص 988]
امام ابن عبد البر رحمه الله اسی تقلید کے فساد والے باب میں لکھتے ہیں۔
وَثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ» وَلَا خِلَافَ بَيْنَ أَئِمَّةِ الْأَمْصَارِ فِي فَسَادِ التَّقْلِيدِ فَأَغْنَى ذَلِكَ عَنِ الْإِكْثَارِ "۔
اور نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا :
« ظن و گمان سے بچو ! کیونکہ ظن و گمان سب سے بڑا جھوٹ ہے » اور تقلید کے خراب اورفساد ہونے میں تمام علاقوں کے علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ، [یعنی سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تقلید میں خرابی ہی خرابی ہے] تو اسلئے اس پر کثرت سے حوالے دینے کی حاجت نہیں".
[جامع بيان العلم وفضله ص995]
(کیونکہ کثرت سے حوالے اور دلائل تو اختلافی موضوع پر دیئے جاتے ہیں جبکہ خرابیء تقلید پر تو اہل علم متفق ہیں )
Last edited: