ابو عبداللہ صغیر
رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2011
- پیغامات
- 26
- ری ایکشن اسکور
- 81
- پوائنٹ
- 58
ان سے ملیے! یہ جرمنی کے سرجن ڈاکٹر جی میشل ہیں۔ یہ ماہر امراض چشم ہیں، یہ 36سال کی عمر میں براعظم افریقہ میں 100فیصد کے قریب مسلم اور توحید پرعمل پیرا آبادی رکھنے والے ملک صومالیہ میں خاص مشن پر بھیجے گئے تھے۔ مشن کیا تھا؟ یہی کہ صومالیہ کے لوگوں کا پہلے علاج کرنا ہے اور پھر انہیں اپنے جال میں پھانس کر عیسائی بنانا ہے۔ ڈاکٹر جی میشل 1987ءمیں صومالیہ پہنچے تھے لیکن انہوں نے اپنی ساری داستان حیات حال ہی میں ایک نشریاتی ادارے کو سنائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جب جرمنی جیسے ترقی یافتہ اور دولت کی ریل پیل والے ملک سے بھوک افلاس اور پسماندگی میں ڈوبے ملک صومالیہ پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہاں کے لوگ تو غیرت اور عزت نفس سے مالا مال تھے۔ انہوں نے ہماری جدید دنیا کی کوئی روشنی دیکھنا تو کجا اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا لیکن ان لوگوں کی امانت اور صداقت نے مجھے چکراہی دیا۔ یہاں آتے ہی میں اپنے کام میں جت گیا۔ہمارے علاج سے سینکڑوں لوگوں کی آنکھیں صحت یاب ہو گئیں تو ان لوگوں کی محبت، رویہ اور سلوک دیکھ کر میں یہ تو بھول ہی گیا کہ آیا کس لئے تھا؟ پھر اچانک مجھے پہلے لندن جانے کا حکم ملا تو میں پہلے جرمنی اپنے گھر سے ہوتا ہوا برطانیہ پہنچا ۔وہاں عیسائیت کی تبلیغ اور غربت کے مارے مسلمانوں کو دام فریب میں پھانسنے کی ایک ماہ کی تربیت دی گئی، اس کے بعد ایک بار پھر میں واپس جرمنی آ گیاتو مجھے دن رات صومالیہ کے لوگوں کی محبت ستاتی رہتی لیکن میں تو وہاں اب خود سے جا نہیں سکتا تھا کہ مجھے اچانک تنزانیہ جانے کا حکم ملا۔ تنزانیہ میں مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لئے کام کرنے والی ایک عیسائی مشنری کے لوگوں کے ساتھ ایک ماہ رہنے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد مجھے دوبارہ صومالیہ جانے کا حکم ملا تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ جب میں واپس صومالیہ کے ان لوگوں میں پہنچا جن کا میں علاج کر چکا تھا تو میری اور ان کی خوشی دیدنی تھی۔
یہاں رہتے ہوئے اس بار میری ملاقات محمد باہور نامی ایک مسلم نوجوان سے ہوئی تو وہ مجھے اپنے گھرلے گیا۔ اس کے گھر میں اس کا والد موجود تھا جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ علاقے میں اثرورسوخ رکھنے والا شخص تھا۔ میرا خیال تھا کہ اگر میں نے اس شخص پر قابو پا لیا تو میرا کام آسان ہو جائے گا اور میرا عیسائیت پھیلانے کامشن تیزی سے آگے بڑھے گا لیکن وہاں میرے ساتھ عجیب حادثہ ہوا۔ محمد باہور کے والد نے مجھے قرآن کریم کا نسخہ دے کر پوچھا، کیا اس کے بارے میں کچھ جانتے ہو؟ میں نے اثبات کے انداز میں جعلی تبسم ہونٹوں پر پھیلا دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو میں پکڑا جاﺅں۔ وہ بولے اس کتاب میں تمہاری عیسائیت اور ہمارے اسلام کے ہر سوال کا جواب موجود ہے۔ میں یک دم لرز گیا کہ کہانی تو الٹ چل پڑی ہے۔ میں الٹے قدموں لوٹا۔عیسائیت کی تبلیغ پر مبنی کئی کتابوں اور سوالات و جوابات کے لٹریچر کا بار بار مطالعہ کر کے خوب تیاری کی، کہ میں شکست نہ کھا جاﺅں۔ یوں جب میں ہر لحاظ سے مطمئن ہو ا تو محمد باہور کے گھر پہنچ گیا۔ اس بار پھر حسب سابق وہاں اس کا والد موجود تھا۔ علیک سلیک کے بعد اس نے بات شروع کر دی اور کہنے لگا کہ یہ ہمارا قرآن ہے، اس میں تمہاری اس طب کا بھی ذکر ہے جو تم یہاں لے کر آئے ہو۔ پھر انہوں نے قرآن کے وہ حصے کھول کر میرے سامنے رکھ دیئے جہاں انسان کی پیدائش کا تذکرہ ہے…. میں پڑھتا جاتا اور حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطے کھاتا جاتا کہ جو میڈیکل سائنس میں نے سالہا سال دن رات ایک کر کے پڑھی تھی اس کا بالاجمال تذکرہ تو قرآن میں صدیوں پہلے سے موجود ہے۔ اس سب نے تو مجھے سخت حیران و پریشان کر دیا…. بوجھل دل اور ٹوٹے جذبات کے ساتھ میں واپس لوٹا لیکن وہ دماغ پر بوجھ اس قدر تھا کہ رات بھر نہ سو سکا۔ یوں میری محمد باہور کے والد سے کتنی ملاقاتیں ہوئیں لیکن ان کی قرآن سے اخذ کردہ باتیں مجھے لاجواب کر دیتیں۔
میرے ساتھ آئے ہوئے میری مشنری کے لوگ میری حرکات و سکنات پر نگاہ رکھے ہوئے تھے کہ میں ایک طرف لوگوں کو عیسائیت کی طرف دعوت نہیں دے رہا، دوسرا علاقے میںاسلام کا عقل و شعور رکھنے والی ایک معروف شخصیت کے گھر آنا جانا ہے۔ یوں اب میرے اوپر پہلے سختیاں شروع ہوئیں، پھر مجھے اس علاقے سے دارالحکومت موغادیشو ٹرانسفر کر دیا گیا تو حکام محمد باہور کو علاقہ چھوڑنے کیلئے دباﺅ ڈالتے رہے۔ محمد باہور اور اس کا گھر تو میرے دل میں جگہ بنا چکا تھا۔ میں سب سے چھپ چھپا کر ٹیکسی پکڑتا اور ان کے ہاں جا پہنچتا۔ پھر یہ معاملہ ہمارے سکیورٹی افسر تک پہنچا تو میرے لئے سختیاں بڑھ گئیں۔ میری وجہ سے محمد باہور کو خاندان سمیت گرفتار کر لیا گیا لیکن جلد ہی رہائی مل گئی۔ میں بے چین تھا اور چاہتا تھا کہ مذہب کی یہ بحث تکمیل تک پہنچے کہ مجھے فوری کینیا جانے کا حکم ملا۔ اس پر میں پہلے سے زیادہ پریشان تھا۔ میں نے بہانہ بنایا کہ میری کچھ دستاویزات اس علاقے میں رہ گئی ہیں جہاں میری اول وقت ڈیوٹی لگی تھی ۔یوں اس بہانے وہاں آخری بار پہنچا تو اس بار ماحول ہی تبدیل تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ ہمارا رمضان کا مہینہ شروع ہے ،پھر مجھے اس کے آداب بتانے لگے تو میں نے اس پر عمل شروع کر دیا اور پھر میں کینیا کے دارالحکومت نیروبی پہنچ گیا جہاں محمد باہور کی کاوشوں سے وہاں کے کچھ مسلمان استقبال کیلئے تیار کھڑے تھے۔ ان کا رویہ اور سلوک بھی صومالیہ کے مسلمانوں سے کم نہیں تھا۔ دوسری طرف جرمنی میں میرے گھر پر جیسے ایک آفت آن پڑی تھی۔ میرے والد کو میرے متعلق غلط معلومات پہنچائی گئیں تو انہوں نے مجھے فوری واپسی کا حکم دیاتوحکومت نے مجھے صومالیہ ہمیشہ کیلئے بھول جانے کا حکم دیا۔
میں واپس جرمنی پہنچا توسوچ اور فکر میں ایک نئی کشمکش کا طوفان بپا تھا۔ ایک طرف جرمنی کا عالیشان گھر، دنیا کی چکا چوندھ روشنی، ، موج مستیاں اور رنگینیاں تھیں تو دوسری طرف صومالیہ کے صحراﺅں اور جنگلوں میں صدیوں پہلے کی سی زندگی گزارنے والے لیکن دل اور سوچ کے صاف، شفاف اور سچے پکے مسلمان تھے جن کے صادق چہرے مجھے ستاتے تھے اور پھر…. میں نے اللہ سے ہدایت کی سچے دل سے دعا مانگی…. پھر میں نے جرمنی میں اپنے مرکزی آفس کو خط لکھا کہ آپ مطمئن رہیں…. میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آپ نے جو کرنا ہے کر لیں، میں اپنا قدم اٹھا رہا ہوں…. یہ فیصلہ لکھنے کے بعد میری کیفیت عجیب تھی، مجھے اس قدر روحانی سکون اور اطمینان زندگی میں پہلے کبھی نہیں ملا تھا، جتنا اس فیصلے پر مل چکا تھا۔ میں اس وقت نیروبی پہنچ چکا تھا لیکن میرے پاس صومالیہ جانے کیلئے وسائل نہ تھے۔ میںنے وہاں پہنچنے کیلئے تن کے کپڑے کے سوا سب کچھ بیچ دیا اور پھر سیدھا صومالیہ اور پھرمحمد باہور کے گھر پہنچ گیا۔ میں نے جب انہیں ”السلام علیکم“ کہا تو انہوں نے مجھے اپنے سینے سے چمٹا لیا اور پھر میں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہاں میرا نام عبدالجبار رکھا گیا، اب میں زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھتا، عبادات میں مصروف رہتا تو تھوڑے ہی دنوں بعد مجھے صومالیہ کی شہریت مل گئی تومیں نے سب کچھ بھول کر یہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا اور ان لوگوں کے امراض چشم کا علاج معالجہ بھی شروع کر دیا۔ میں ان لوگوں کے بیچ رہ کر جہاں پہنچا اب اس سے باہر آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔قرآن میں اللہ کے ذکر کے ساتھ سکون کا جتنا تذکرہ پڑھا اس کا اول دن سے عملی مشاہدہ کیا…. اسلام نے وہ کچھ دے دیا جس کا جرمنی میں رہنے والے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اب میں صومالیہ میں ہوں ۔اسلام ہی میرا وطن اور صومالیہ ہی میراگھر ہے۔ -
علی عمران شاہین
یہاں رہتے ہوئے اس بار میری ملاقات محمد باہور نامی ایک مسلم نوجوان سے ہوئی تو وہ مجھے اپنے گھرلے گیا۔ اس کے گھر میں اس کا والد موجود تھا جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ علاقے میں اثرورسوخ رکھنے والا شخص تھا۔ میرا خیال تھا کہ اگر میں نے اس شخص پر قابو پا لیا تو میرا کام آسان ہو جائے گا اور میرا عیسائیت پھیلانے کامشن تیزی سے آگے بڑھے گا لیکن وہاں میرے ساتھ عجیب حادثہ ہوا۔ محمد باہور کے والد نے مجھے قرآن کریم کا نسخہ دے کر پوچھا، کیا اس کے بارے میں کچھ جانتے ہو؟ میں نے اثبات کے انداز میں جعلی تبسم ہونٹوں پر پھیلا دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو میں پکڑا جاﺅں۔ وہ بولے اس کتاب میں تمہاری عیسائیت اور ہمارے اسلام کے ہر سوال کا جواب موجود ہے۔ میں یک دم لرز گیا کہ کہانی تو الٹ چل پڑی ہے۔ میں الٹے قدموں لوٹا۔عیسائیت کی تبلیغ پر مبنی کئی کتابوں اور سوالات و جوابات کے لٹریچر کا بار بار مطالعہ کر کے خوب تیاری کی، کہ میں شکست نہ کھا جاﺅں۔ یوں جب میں ہر لحاظ سے مطمئن ہو ا تو محمد باہور کے گھر پہنچ گیا۔ اس بار پھر حسب سابق وہاں اس کا والد موجود تھا۔ علیک سلیک کے بعد اس نے بات شروع کر دی اور کہنے لگا کہ یہ ہمارا قرآن ہے، اس میں تمہاری اس طب کا بھی ذکر ہے جو تم یہاں لے کر آئے ہو۔ پھر انہوں نے قرآن کے وہ حصے کھول کر میرے سامنے رکھ دیئے جہاں انسان کی پیدائش کا تذکرہ ہے…. میں پڑھتا جاتا اور حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطے کھاتا جاتا کہ جو میڈیکل سائنس میں نے سالہا سال دن رات ایک کر کے پڑھی تھی اس کا بالاجمال تذکرہ تو قرآن میں صدیوں پہلے سے موجود ہے۔ اس سب نے تو مجھے سخت حیران و پریشان کر دیا…. بوجھل دل اور ٹوٹے جذبات کے ساتھ میں واپس لوٹا لیکن وہ دماغ پر بوجھ اس قدر تھا کہ رات بھر نہ سو سکا۔ یوں میری محمد باہور کے والد سے کتنی ملاقاتیں ہوئیں لیکن ان کی قرآن سے اخذ کردہ باتیں مجھے لاجواب کر دیتیں۔
میرے ساتھ آئے ہوئے میری مشنری کے لوگ میری حرکات و سکنات پر نگاہ رکھے ہوئے تھے کہ میں ایک طرف لوگوں کو عیسائیت کی طرف دعوت نہیں دے رہا، دوسرا علاقے میںاسلام کا عقل و شعور رکھنے والی ایک معروف شخصیت کے گھر آنا جانا ہے۔ یوں اب میرے اوپر پہلے سختیاں شروع ہوئیں، پھر مجھے اس علاقے سے دارالحکومت موغادیشو ٹرانسفر کر دیا گیا تو حکام محمد باہور کو علاقہ چھوڑنے کیلئے دباﺅ ڈالتے رہے۔ محمد باہور اور اس کا گھر تو میرے دل میں جگہ بنا چکا تھا۔ میں سب سے چھپ چھپا کر ٹیکسی پکڑتا اور ان کے ہاں جا پہنچتا۔ پھر یہ معاملہ ہمارے سکیورٹی افسر تک پہنچا تو میرے لئے سختیاں بڑھ گئیں۔ میری وجہ سے محمد باہور کو خاندان سمیت گرفتار کر لیا گیا لیکن جلد ہی رہائی مل گئی۔ میں بے چین تھا اور چاہتا تھا کہ مذہب کی یہ بحث تکمیل تک پہنچے کہ مجھے فوری کینیا جانے کا حکم ملا۔ اس پر میں پہلے سے زیادہ پریشان تھا۔ میں نے بہانہ بنایا کہ میری کچھ دستاویزات اس علاقے میں رہ گئی ہیں جہاں میری اول وقت ڈیوٹی لگی تھی ۔یوں اس بہانے وہاں آخری بار پہنچا تو اس بار ماحول ہی تبدیل تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ ہمارا رمضان کا مہینہ شروع ہے ،پھر مجھے اس کے آداب بتانے لگے تو میں نے اس پر عمل شروع کر دیا اور پھر میں کینیا کے دارالحکومت نیروبی پہنچ گیا جہاں محمد باہور کی کاوشوں سے وہاں کے کچھ مسلمان استقبال کیلئے تیار کھڑے تھے۔ ان کا رویہ اور سلوک بھی صومالیہ کے مسلمانوں سے کم نہیں تھا۔ دوسری طرف جرمنی میں میرے گھر پر جیسے ایک آفت آن پڑی تھی۔ میرے والد کو میرے متعلق غلط معلومات پہنچائی گئیں تو انہوں نے مجھے فوری واپسی کا حکم دیاتوحکومت نے مجھے صومالیہ ہمیشہ کیلئے بھول جانے کا حکم دیا۔
میں واپس جرمنی پہنچا توسوچ اور فکر میں ایک نئی کشمکش کا طوفان بپا تھا۔ ایک طرف جرمنی کا عالیشان گھر، دنیا کی چکا چوندھ روشنی، ، موج مستیاں اور رنگینیاں تھیں تو دوسری طرف صومالیہ کے صحراﺅں اور جنگلوں میں صدیوں پہلے کی سی زندگی گزارنے والے لیکن دل اور سوچ کے صاف، شفاف اور سچے پکے مسلمان تھے جن کے صادق چہرے مجھے ستاتے تھے اور پھر…. میں نے اللہ سے ہدایت کی سچے دل سے دعا مانگی…. پھر میں نے جرمنی میں اپنے مرکزی آفس کو خط لکھا کہ آپ مطمئن رہیں…. میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آپ نے جو کرنا ہے کر لیں، میں اپنا قدم اٹھا رہا ہوں…. یہ فیصلہ لکھنے کے بعد میری کیفیت عجیب تھی، مجھے اس قدر روحانی سکون اور اطمینان زندگی میں پہلے کبھی نہیں ملا تھا، جتنا اس فیصلے پر مل چکا تھا۔ میں اس وقت نیروبی پہنچ چکا تھا لیکن میرے پاس صومالیہ جانے کیلئے وسائل نہ تھے۔ میںنے وہاں پہنچنے کیلئے تن کے کپڑے کے سوا سب کچھ بیچ دیا اور پھر سیدھا صومالیہ اور پھرمحمد باہور کے گھر پہنچ گیا۔ میں نے جب انہیں ”السلام علیکم“ کہا تو انہوں نے مجھے اپنے سینے سے چمٹا لیا اور پھر میں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہاں میرا نام عبدالجبار رکھا گیا، اب میں زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھتا، عبادات میں مصروف رہتا تو تھوڑے ہی دنوں بعد مجھے صومالیہ کی شہریت مل گئی تومیں نے سب کچھ بھول کر یہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا اور ان لوگوں کے امراض چشم کا علاج معالجہ بھی شروع کر دیا۔ میں ان لوگوں کے بیچ رہ کر جہاں پہنچا اب اس سے باہر آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔قرآن میں اللہ کے ذکر کے ساتھ سکون کا جتنا تذکرہ پڑھا اس کا اول دن سے عملی مشاہدہ کیا…. اسلام نے وہ کچھ دے دیا جس کا جرمنی میں رہنے والے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اب میں صومالیہ میں ہوں ۔اسلام ہی میرا وطن اور صومالیہ ہی میراگھر ہے۔ -
علی عمران شاہین