• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احساس برتری اور احساس کمتری

شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
82
ری ایکشن اسکور
309
پوائنٹ
79
بعض انسان کم ظرف ہوتے ہیں۔ جب انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے تو وہ اس پر اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے اسے اپنی کاوشوں کا نیتجہ سمجھتے ہیں۔ اپنی کامیابیوں کے زعم میں وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگتے ہیں۔ دوسروں کو حقیر سمجھنا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرنا ان کی عادت بن جاتی ہے۔ ہمیں اپنے گرد و پیش ایسے بہت سے کردار ملیں گے۔ غرور و تکبر کی بڑی وجوہات میں مال و دولت، اعلیٰ عہدہ، حسب و نسب اور سب سے بڑھ کر علم اور دین داری شامل ہیں۔

جدید شہری معاشروں میں اب حسب و نسب کا غرور نسبتاً کم ہو گیا ہے لیکن دیہاتی معاشروں میں اس کی وجہ سے امتیازی سلوک آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مال اور عہدے کا غرور آج بھی اسی طرح قائم ہے ۔ علم اور دین داری کا غرور وہ ہے جس کا شکار سب سے زیادہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ بعض کم ظرف اہل علم خود کو دوسروں سے زیادہ بہتر سمجھ کر انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہر بات میں "جاہل" کا لفظ بڑی نفرت اور حقارت سے ادا کرتے ہیں۔

بعض لوگ اپنی عبادت کے زعم میں ساری دنیا کو گناہ گار سمجھتے ہیں اور ڈنڈا لے کر سب کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور انہیں کافر، مشرک، بدعتی، بے عمل، گستاخ نجانے کیا کیا قرار دیتے رہتے ہیں۔ دین اسلام ایسے تمام رویوں کو سختی سے مسترد کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا:

إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ۔ (النحل 16:23)
’’بے شک اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

جو لوگ زمین پر اکڑ کر چلتے ہیں، ان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

ولا تمش فی الارض مرحا ، انک لن تخرق الارض و لن تبلغ الجبال طولا۔ (بنی اسرائیل 17:37)
’’زمین پر اکڑ کر نہ چلو، بے شک تم نہ تو زمین کو پھاڑ سکتے ہو او رنہ ہی پہاڑوں جتنے بلند ہو سکتے ہو۔ ‘‘

احساس برتری یا غرور و تکبر کے برعکس بعض افراد احساس کمتری کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ یہ عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں کسی بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ ایسے والدین، جو اپنے بچوں کو بہت زیادہ دباؤ میں رکھتے ہیں، کے بچوں میں بالعموم احساس کمتری بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس مرض کے شکار لوگوں میں عموماً قوت ارادی اور قوت فیصلہ کی کمی ہوتی ہے۔

احساس برتری ہو یا احساس کمتری، یہ دونوں امراض کسی بھی انسان کی شخصیت پر بہت برا اثر چھوڑتے ہیں۔ ایک متکبر شخص معاشرے میں اپنی عزت اور مقام کھو بیٹھتا ہے۔ اگر کوئی اس کی عزت کرتا بھی ہے تو صرف اس کے سامنے، اس کی عدم موجودگی میں عام طور پر لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں یا پھر اس کی برائیاں کرتے ہیں۔ اسی طرح احساس کمتری کا شکار انسان بھی دوسروں سے ملنے جلنے سے گھبراتا ہے اور اپنے ہی خول میں بند ہو کر رہ جاتا ہے۔

دین اسلام ہمیں غرور و تکبر کے مقابلے میں عجز و انکسار اور احساس کمتری کے مقابلے میں عزت نفس کا تصور دیتا ہے۔ عجز و انکسار کا مطلب احساس کمتری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی کم حیثیتی کا اعتراف کرنا ہے۔ ایک عاجز انسان اپنی ہر کامیابی کو اپنی صلاحیتوں کا نتیجہ نہیں بلکہ اپنے رب کا فضل سمجھتا ہے اور اس کے سامنے سر بسجود ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کو وہی مقام دیتا ہے جو خود اسے حاصل ہے۔

دین اسلام ہمیں ایک دوسرے کی عزت کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں ایک انسان کی عزت کو حرم کعبہ کی طرح محترم بتایا ہے۔ احساس کمتری کے شکار انسان کو سوچنا چاہئے کہ اگر اسے ایک مرتبہ ناکامی کا سامنا کرنا بھی پڑا ہے لیکن زندگی میں اسے بارہا کامیابیاں بھی ملی ہیں۔ یہ جو دنیا میں وہ چلا پھر رہا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا اس پر فضل ہی تو ہے۔ شیخ سعدی نے کیا خوب درس دیا ہے کہ جس کے پاس جوتے نہ ہوں ، وہ جوتے پہننے والوں کو نہ دیکھے بلکہ اسے دیکھے جس کے پاس پاؤں ہی نہیں ہیں۔

احساس برتری کا علاج تو اس میں مبتلا شخص اگر خود چاہے تو کر سکتا ہے لیکن احساس کمتری کے شکار افراد کا علاج اس کے دوست اور رشتے دار بھی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے نزدیک کوئی ایسا دوست یا رشتے دار ہے جو اس احساس کا شکار ہے تو اسے حوصلہ دلائیے اور اس میں جینے کی امنگ پیدا کیجئے۔ آپ کی یہ نیکی کبھی ضائع نہیں جائے گی اور ایک انسان کی زندگی سنور جائے گی۔ اس بات کا خیال رہے کہ یہ علاج نہایت محبت اور شفقت سے ہونا چاہئے، طعن و تشنیع کے انداز سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہئے۔

(مصنف: محمد مبشر نذیر)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا فی الدارین۔ ماشاءاللہ نہایت ہی اہم بات کی طرف بہت خوبصورت انداز بیان میں توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ واقعی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں علم و عبادت پر تکبر کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ۔ دوسروں کو حقیر نہ بھی کہا جائے، سمجھتے ضرور ہیں۔ اوریقیناً یہ شیطان کا بہت کارگر ہتھیار بھی ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی عبادت کے غرور میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تکبر کی ہر قسم سے ہم سب کو محفوظ فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا .... بہت ہی اہم معاشرتی اور روحانی (قلبی) بیماری کی طرف توجہ دلائی آپ نے، حسن اتفاق یہ کہ اس جمعۃ المبارک میں محترم خطیب صاحب﷾ نے بھی اسی خطرناک بیماری کو موضوع سخن بنایا، جس سے کافی اصلاح ہوئی، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق بھی عطا کریں۔
میں سمجھتا ہوں کہ تکبر (یعنی چھوٹا شخص اپنے آپ کو تکلّف کے ساتھ بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ تکبر، کبر سے بابِ تفعل ہے، جس میں خاصیت ’تکلف‘ پائی جاتی ہے۔) در اصل احساس کمتری کی بناء پر پیدا ہوتا ہے۔ ورنہ جو شخص معاشرے میں ایک عزت اور مقام رکھتا ہے، اسے کیا ضرورت ہے کہ دوسروں کے سامنے اپنے آپ کو بلاوجہ بڑا بنانے کی کوشش کرے؟ جو شخص سمجھتا ہے کہ لوگ مجھے ہلکا، یا چھوٹا خیال کرتے ہیں، وہ اپنے اسی احساس کو تکبر کے ذریعے مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم بعض دفعہ دیکھتے ہیں کہ ایک نو دولتیا مالدار شخص بھی فخر وتکبر سے کام لیتا ہے، جس کی بنیادی وجہ بھی احساسِ کمتری وکہتری ہے۔ جب شیطان مردود نے دیکھا کہ مجھے آدم ﷤ کو سجدہ کرنا پڑ رہا ہے، تو اس نے اپنے آپ کو حقیر اور ہلکا خیال کيا حالانکہ یہ کوئی تحقیر نہیں تھی، کیونکہ اللہ رب العٰلمین کا حکم تھا، جس پر عمل کرنے سے کوئی شخص دوسرے کے سامنے ذلیل نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مقام ہی بڑھتا ہے، کیا سیدنا جبریل ﷤ کے آدم ﷤ کو اللہ کے حکم کے مطابق سجدہ کرنے سے ان کا مقام گر گیا، ہر گز ہرگز نہیں! بہرحال شیطان نے احساس کمتری کی بناء پر جھوٹے قیاس اور خود ساختہ تاویل (کہ میں آگ سے ہوں اور آدم مٹی سے، حالانکہ دونوں اللہ رب العٰلمین کی مخلوق ہونے کے اعتبار سے برابر تھے۔ یا تو شیطان نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا ہوتا تو وہ واقعی ہی بڑا ہوتا۔) پیش کر کے اپنے آپ کو بڑا کرنے کی کوشش کی، اور نتیجے میں اس کے تمام ’نیک اعمال‘ اکارت ہوگئے اور وہ کافروں میں سے ہوگیا، والعیاذ باللہ! فرمان باری ہے: ﴿ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ﴾ کہ ’’جب ہم نے فرشتوں (ابلیس، جو درحقیقت جنوں میں سے تھا، بھی ان میں رہا کرتا تھا) سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا، تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔‘‘
 

mubashirnazir

مبتدی
شمولیت
مئی 12، 2011
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
0
تمام بہنوں اور بھائیوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں آپ سب کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری اس ناقص تحریر کو سراہا۔ اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر دے۔

والسلام
مبشر
 
Top