کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
احمد رضا قصوری: بھٹو پھانسی کیس سے مشرف تک!
26 اپریل 2013[/SUP]
انگریز کے زمانے میں بطور مجسٹریٹ شہرت پانے والے قصور کے نواب محمد احمد خان قصوری نے اُس وقت بہت شہرت پائی، جب جنگِ آزادی کے ایک ہیرو بھگت سنگھ کو جیل میں پھانسی دینے کے لئے کوئی مجسٹریٹ وہاں جانے کے لئے راضی نہیں ہو رہا تھا، کیونکہ جیل کے تمام قیدی مشتعل تھے، تاہم نواب محمد احمد خان نے یہ سرکاری ڈیوٹی سر انجام دی۔
اُن کے فرزند احمد رضا قصوری گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے طالب علم لیڈر تھے اور بہترین مقرر بھی۔ یونیورسٹی لاء کالج میں وہ راقم کے ایل ایل بی میں کلاس فیلو بھی تھے ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں پیپلز پارٹی بنائی تو انہوں نے مغربی پاکستان کے تقریباً تمام اہم کالجوں اور یونیورسٹیوں کا دورہ کیا اور نوجوان نسل کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
اس وقت یونیورسٹیوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی، لہٰذا دو تین برس میں ہی ذوالفقار علی بھٹو نے تقریباً تمام یونیورسٹیوں میں 21 برس کے ان نوجوانوں سے اپنی ملاقات اور خطاب کا کام مکمل کر لیا اور اسلامی جمعیت طلباءکی مخالفت کے باوجود وہ 21 برس کے ان نوجوان ووٹروں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ احمد رضا قصوری نے 1967ء تک وکالت شروع کر دی تھی، وہ ذوالفقار علی بھٹو کے پرستاروں میں سے تھے۔ انہیں 1970ء کے الیکشن میں پی پی پی کی ٹکٹ بھی ملی اور بطور ممبر قومی اسمبلی وہ بڑے مارجن کے ساتھ منتخب بھی ہو گئے۔
وہ اپنی عادت اور نڈر پن کی بدولت جلد ہی پارٹی میں مشہور ہو گئے، کیونکہ اس زمانے میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی کسی بھی میٹنگ میں کوئی پرندہ پَر نہیں مار سکتا تھا، احمد رضا قصوری مختلف معاملات میں ان کی باتوں سے اختلاف کرتے اور بَرملا کھلم کھلا اُن پر تنقید بھی کرتے اور ساتھ یہ بھی کہتے جاتے کہ تنقید ہی دراصل جمہوریت کا حُسن ہے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو جمہوریت کا چیمپیئن کہا کرتے تھے اور خوب زور دار آواز میں پارٹی اجلاس میں انہیں میرے چیمپیئن! ذرا غور سے سنئے! یہ فقرے اُن کے ایسے فقرے تھے، جنہیں وہ بار بار دُہراتے رہتے۔ دو چار مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو نے اُنہیں ڈانٹا بھی۔ ساتھی ارکان اسمبلی نے اُنہیں زبردستی بٹھا بھی دیا، لیکن وہ اپنی بات پوری کر کے ہی چھوڑتے اور اگر کوئی بات رہ جاتی تو پارلیمینٹ میں جا کر اپنی ہی پارٹی کے موقف کے خلاف تقریر شروع کر دیتے۔ مصطفی کھر اس وقت پنجاب کے گورنر، پھر چیف منسٹر تھے۔ انہوں نے بھی احمد رضا قصوری کو کئی بار بلوا کر سمجھانے کی کوششیں کیں، لیکن 1972ء سے 1973ء کے ایک ہی برس میں اس شخص نے پوری پیپلز پارٹی، خصوصاً ذوالفقار علی بھٹو کی ناک میں دم کر دیا۔ اسمبلی میں بھی وہ بعض بِلوں کی مخالفت کرتے اور پارٹی اجلاسوں میں تو وہ گھنٹوں کھل کر خطاب کرتے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے انہی دنوں فیڈرل سیکیورٹی فورس (FSF) کے نام سے اپنے ماتحت ایک خصوصی فورس بنائی تھی، جس کو لامتناہی اختیارات حاصل تھے۔ یہ کسی کو بھی حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیتے، پھر گرفتار لوگوں کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ سینکڑوں مقدمات ہائی کورٹس میں حبس بے جا کے ہوئے، لیکن گرفتار افراد مل نہیں پاتے تھے۔ عام طور پر مشہور کر دیا گیا تھا کہ یہ فورس حراست میں لئے گئے افراد کو یا تو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے یا پھر انہیں ہمیشہ کے لئے غائب کر دیا جاتا تھا۔ حالت یہ تھی کہ پولیس کے ضلع انچارج ایس پی اور ڈویژن انچارج ڈی آئی جی بھی اس فورس کے ایک عام انسپکٹر اور سب انسپکٹر سے ڈرتے تھے۔ ویسے بھی اس فورس کے پاس جدید اسلحہ، جدید گاڑیاں، فون ٹیپ کرنے کے جدید آلات اور دوسری ایسی تمام چیزیں موجود تھیں جو بطور ایک خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی یا انٹیلی جنس اداروں کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہوتیں۔
یہ فورس اب پورے ملک کے لئے ایک خوف کی علامت بن چکی تھی اور اس میں اکثریت بدنام زمانہ پولیس افسروں کی تھی، جنہیں کئی گنا تنخواہ اور مراعات کے ساتھ یا تو ڈیپوٹیشن پر رکھا گیا تھا یا پھر انسپکٹر، ڈی ایس پی کے عہدوں پر براہ راست بھرتی کر کے مستقل کر دیا گیا تھا .... جب احمد رضا قصوری پر تمام دوسرے حربے ناکام ہو گئے تو وزیراعظم ذوالفقار علی نے اس فورس کو حکم دیا کہ احمد رضا قصوری کا پتہ صاف کر دیا جائے، یعنی جہنم واصل کر دیا جائے، چنانچہ یہ فورس اس ایم این اے کے پیچھے لگ گئی۔ اس کی خفیہ نگرانی شروع کر دی گئی اور ایک رات جب وہ اپنے والد، والدہ اور رشتہ داروں کے ہمراہ شادمان لاہور کے علاقہ میں ہونے والی ایک شادی میں شرکت کرنے گیا تو ایف ایس ایف کی ایک گاڑی میں سوار کچھ لوگوں نے اس کا پیچھا کیا۔ شادی ختم ہوئی اور احمد رضا قصوری اپنے خاندان کے ہمراہ واپس آ رہا تھا تو راستے میں چھپے ہوئے اہل کاروں نے اس کی کار پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں احمد رضا کے والد محمد خان شدید زخمی ہو گئے اور بعض دوسرے رشتہ داروں کو بھی بازووں پر گولیاں لگیں۔
نواب صاحب کو تقریباً ایک بجے رات لبرٹی کے یو سی ایچ ہسپتال لے جایا گیا، جہاں پر آپریشن تھیٹر میں ان کے جسم سے گولیاں نکال لی گئیں۔ نواب صاحب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ شادمان کا علاقہ چونکہ سول لائنز تھانہ کی حدود میں تھا، اس لئے رات گئے وہاں پر ذوالفقار علی بھٹو اور ایف ایس ایف کے نامعلوم اہل کاروں کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا گیا۔ اس وقت اصغر خان عرف ہلاکو خان پولیس افسر بطور ڈی ایس پی وہاں تعینات تھے۔ انہوں نے ایف آئی آر کاٹی اور نقل احمد رضا خان کو دے دی گئی۔
میڈیا والوں کو بتایا گیا کہ فی الحال ایف آئی آر کو سربمہر کر دیا گیا ہے۔ یہ وہی ایف آئی آر تھی جو 5 جولائی 1977ء کو ملک میں مارشل لاء لگنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی مقدمہ قتل میں گرفتاری کا باعث بنی اور ہائی کورٹ میں براہ راست بھٹو پر مقدمہ چلا۔ شروع میں اس گرفتاری کے خلاف جسٹس کے ایم صمدانی نے بھٹو کی ضمانت بھی لی، لیکن قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق احمد نے یہ ضمانت منسوخ کر دی اور قتل کے مقدمے کی سماعت شروع کر دی۔
اس وقت تک جنرل ضیاء الحق نے ایف ایس ایف کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والے واپس اپنے محکموں میں چلے گئے، جبکہ دوسرے اہل کاروں کو چاروں صوبوں کی پولیس میں کھپا دیا گیا۔ ایف ایس ایف کے پانچ اہل کاروں کو وعدہ معاف گواہ بنا لیا گیا تھا، چنانچہ انہوں نے ہائی کورٹ میں اپنے جرم کا اقبال کر لیا اور بتایا کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے احکام پر گولیاں چلائیں اور اسی کے نتیجے میں احمد رضا قصوری کی بجائے اُن کے والد کی موت واقع ہو گئی۔ مقدمے میں ذوالفقار علی بھٹو سمیت ان پانچ میں سے چار اہلکاروں کو بھی پھانسی کی سزا سنائی گئی، جبکہ پانچواں ساتھی (غالباً مسعود محمود) ملک سے فرار ہوگیا یا کرا دیا گیا۔
سپریم کورٹ میں اپیل بھی مسترد ہو گئی اور ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں پھانسی دے دی گئی۔ اس وقت دنیا کے 26 ممالک نے ضیاء الحق سے درخواست کی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جلا وطن کر کے اُنہیں دے دیا جائے، لیکن ضیاء الحق نہیں مانے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے سے کچھ روز قبل ایف ایس ایف کے چار اہل کاروں کو بھی پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ یعنی انہیں بھی وعدہ معاف گواہ بننے کی کوئی رعایت نہ دی گئی۔
آج ایک بار پھر احمد رضا قصوری جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی مقدمہ کے مدعی تھے، تاریخ کے نئے دھارے پر کھڑے ہیں۔ اس مرتبہ وہ مدعی نہیں، بلکہ جنرل پرویز مشرف جیسے ملزم کے وکیل صفائی ہیں۔ آج بھی شاید تاریخ خود کو دہرانے چلی ہے۔ پرویز مشرف پر آئین توڑنے کا جو مقدمہ ہے، اس کی سزا بھی موت ہے، لیکن شاید اب وعدہ معاف گواہ نہ مل پائیں، کیونکہ جو حشر پہلے وعدہ معاف گواہوں کا بھٹو کیس میں ہوا تھا، اس کے بعد کون ایسا ہو گا جو پرویز مشرف کے خلاف اس کیس میں وعدہ معاف گواہ بنے گا۔ ویسے بھی اگر 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی لگانے اور میڈیا چینلوں کو بند کرنے کا جو حکم دیا گیا تھا۔ اس میں وزیراعظم یا اس وقت کے وزیر داخلہ شریک بھی تھے تو وہ اب تو ایسی کسی میٹنگ کے منٹس کو بھی اپنے خلاف سازش قرار دیں گے، لہٰذا پرویز مشرف خاطر جمع رکھیں۔ صرف اس کارروائی میں گلاس ہی ٹوٹے گا۔