• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احناف کے پیچھے نماز کا حکم

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
احناف کے پیچھے نماز کا حکم

فضیلۃ الشیخ ابو بصیر الطرسوسی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
ائمہ مساجد تین اقسام کے ہوتے ہیں:
(1)عادل فرمانبردارامام،اس کی اقتداء میں نماز کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔
(2)گنہگار(فاسق)امام:اس کا گناہ اور انحراف جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی اس قطع تعلقی کرنا اور اس کو چھوڑ کرکسی ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنازیادہ افضل ہوگاجواس سے کم منحرف ہواوراس سے زیادہ دین دار ہو،لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنے سےجمعہ کی نمازیاجماعت کی نماز کو چھوڑنانہ پڑے۔اوراگراس قطع تعلقی اختیار کرنےجمعہ اور جماعت رہ جاتی ہوتواس کے پیچھے نماز پڑھناواجب ہوجاتاہے۔
(3)کافراورمرتد امام:وہ امام جس کا کفر اور ارتدادیقینی دلیل سے ثابت ہوجائےتواس کے پیچھے نمازپڑھناجائز نہیں اس بات میں قطعاً کوئی اختلاف نہیں ہے۔(فتویٰ نمبر:۹۴۳)
جس امام کے متعلق معلوم ہو کہ یہ کفروشرک کا عقیدہ رکھتا ہےتوچونکہ اس کی اپنی نماز باطل ہے اس لئے اس کی اقتداء میں پڑھی گئی نماز درست نہیں جیسا کہ شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کی کتاب’’امام صحیح العقیدہ ہونا چاہیے‘‘،حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمۃ اللہ کی کتاب’’اہل حدیث کی نماز غیر اہل حدیث کے پیچھے‘‘میں شرکیہ وکفریہ نظریات رکھنے والے دیوبندی کے پیچھے نماز نہ ہونے کا فتوی دیا ہے اور جس امام کے عقیدہ کے متعلق معلوم نہ ہو یعنی مجہول الحال ہو تو اس کے بارے میں اسی فورم میں موجود ’’مستور الحال کی اقتداء میں نماز‘‘کا مطالعہ کریں۔رہا وہ امام جو غیر شرکیہ بدعات میں ملوث ہےیا فقہی مسائل میں کسی مذہب کا مقلد ہےتو اس کی اقتداءمیں نماز ادا کرنا درست ہے۔
فضیلۃ الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امت میں باہمی اختلاف کا ایک پہلوفقہی وفروعی اور استنباط واستخراج مسائل کا ہے،اوریہ اختلاف صحابہ کرام،تابعین عظام اورائمہ کرام سے چلا آرہا ہےمگراس کے باوجودسلف میں کوئی تفریق و انتشار نہ تھا۔چنانچہ صحابہ کرام وتابعین میں مس ذکر سے وضوٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کا اختلاف تھا،آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے سےوضو ٹوٹنےیانہ ٹوٹنے کا اختلاف تھا اور اس میں بھی اختلاف تھا کہ خون کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہےیانہیں لیکن اس کے باوجودوہ ایک دوسرے کا احترام کرتےاورایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے۔
سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نےحج کے دوران چار رکعتیں پڑھائیں تو سیدنا عبداللہ بن مسعودوغیرہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان سے اس بارے میں اختلاف تو کیا مگران کے پیچھے خود چار رکعتیں ہی پڑھیں۔جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نےچاررکعتیں پڑھائیں تو سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے افضل عمل چھوڑنے پر افسوس کااظہارکرتےہوئے’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘پڑھا۔(صحیح مسلم:ج۱ص۲۴۳)
ان سے کہا گیا کہ آپ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر اعتراض تو کرتے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ ان کے ساتھ چار رکعتیں بھی ادا کرتے ہیں تو انہوں نے فرمایا:’’الخلاف شر‘‘اختلاف برا ہے۔(ابوداؤد،رقم:۱۹۶۰)
اور بیہقی کے الفاظ ہیں’’انی لأکرہ الخلاف‘‘میں اختلاف کو برا جانتا ہوں اسی طرح امام احمدسے پوچھا گیا کہ ایک شخص قرآن کا حافظ ہے مگر رفع الیدین نہیں کرتا،اور دوسرا وہ ہے جو رفع الیدین کرتا ہےمگر قرآن کا حافظ نہیں کس کو امام بنایا جائے؟امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیاجوقرآن کا حافظ ہےوہ امامت کرائے اور اسے چاہیےکہ وہ رفع الیدین کرےکیونکہ یہ سنت ہے۔(مسائل احمد بروایۃ عبداللہ ج۱ص۲۳۶)
اس نوعیت کی متعدد مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ خیرالقرون میں ایسے فقہی مسائل میں اختلاف کے باوجود سلف ایک دوسرے کا احترام کرتےاورایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے،ان میں کوئی افتراق و انتشار نہ تھا۔۔۔۔
اس کے برعکس تقلیدوجمود کے دور میں جو کچھ کہا گیا اور اجتہادی مسائل کی بنیاد پرایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کےجو فتوے داغے گئےحتیٰ کے عین خانہ کعبہ میں چار چار جماعتیں ہونے لگیں۔اقتداء خلف المخالف کا مسئلہ فقہائے متاخرین کی کتابوں میں عموماً پایا جاتا ہے۔۔۔۔بلکہ متاخرین کی اس تنگ نظری کی بنیاد پرباہم جنگ و جدال کی نوبت آتی رہی ہے جس کی تفصیل تاریخ کے اوراق میں موجود ہے۔
’’اسباب اختلاف الفقہاء:حقیقی و مصنوعی عوامل‘‘میں ہم نے اس کا ذکر بھی کیا ہے،مگر یہ صورت حال قطعاً محمود نہیں۔ہر دور میں درددل رکھنے والےعلماء نے سلف کے طریقے کو پسند فرمایا اوران فروعی،فقہی مسائل کوباہم انتشار و افتراق کا باعث بننے سے روکا۔
(مقالات تربیت:179تا182)​
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ان مسائل میں اختلاف کے باوجودایک دوسرے کے پیچھے نماز جائز ہے جیسا کہ صحابہ کرام،تابعین عظام اور ان کے بعد ائمہ اربعہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے،ان میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے،جو اس کا انکار کرتا ہے وہ بدعتی،گمراہ اور کتاب وسنت اور سلف امت اور ان کے ائمہ کے اجماع کے مخالف ہے‘‘(مجمو ع الفتاوی،ج۲۳ص۳۷۴)
جن دیوبندیوں کی مساجد کے ائمہ بعض بدعات میں ملوّث ہیں اور ان کے ہاں کفروشرک نہیں پایا جاتا علمائے اہلحدیث نے ان کے پیچھے نماز کے جائز ہونے کے فتاویٰ دئیے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
(1)حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ
سوال:
حنفی،شافعی،حنبلی،مالکی مسلمان ہیں یا نہیں؟مقلدین کے پیچھے اہلحدیث کی نماز جائز ہے یا نہیں؟اگر یہ فرقے مسلمان ہیں تو اہل سنت و الجماعت میں شامل ہیں یا نہیں؟مقلد کو اپنی لڑکی کا رشتہ دینا اور جائز ہے یا نہیں؟مقلد کی منکوحہ سے نکاح حلال ہے یا حرام؟
جواب:
احناف دیوبندی اہل سنت میں شامل ہیں اور اہل سنت کے کئی فرقے ہیں جن میں بعض ہر مسئلہ میں ترجیح رکھتے ہیں وہ جماعت اہل حدیث ہے اگر کوئی دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھ لےتو ہوجائے گی لیکن ترجیح اہل حدیث کو ہے اگر امام مقرر کرنا ہو تو اہل حدیث کی کوشش کرنی چاہیے،باقی باتوں کے جواب بھی اس کے تحت میں آگئے،اس طرح نکاح پر نکاح بھی صحیح نہیں ہے‘‘(فتاوی اہلحدیث،ص۶)
سوال:
یہاں اہل حدیث کی کوئی مسجد نہیں۔ہم جامعہ مسجد احناف میں نماز پنجگانہ ادا کرتے ہیں مگر یہ تمام اوقات نماز پنجگانہ گرا کر نماز پڑھتے ہیں۔مثلاًظہر دو بجے،عصرساڑھے چار بجے،خاص کر نمازِ فجر کو یہ لوگ بہت دیر کرکے نماز پڑھتے ہیں۔لہٰذا ان اوقات پر کیا ہم بھی ان کے ساتھ ہی نماز باجماعت ادا کرتے رہیں یا اول وقت علیحدہ اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیا کریں؟
جواب:
جو اوقات آپ نے نمازوں کے لکھے ہیں۔ان میں بعض میں زیادہ دیر ہے مثلاًآج کل عصروہاں ساڑھے چار بجےزیادہ تاخیر سے ہوتی ہے،اسی طرح ظہر میں کچھ زیادہ تاخیر ہے۔سوآپ جس نماز کووہ زیادہ تاخیر سے پڑھیں اکیلے پڑھ لیا کریں۔اگر دوبارہ ان کے ساتھ موقعہ ملےپڑھ لی جائے ورنہ پہلی کافی ہے۔(فتاوی اہلحدیث،جلد اول:۵۵۸)
(۲)مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلویرحمہ اللہ۱۹۰۰ء؁فرماتے ہیں بالعموم یہ کہنا کہ غیر مقلد کی نماز مقلد کے پیچھے نہیں ہوتی صحیح نہیں!

سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ غیر مقلد کی نمازمقلد کے پیچھے ہوتی ہے یا نہیں اور مقلد کی نماز غیر مقلد کے پیچھے ہوتی ہے یا نہیں؟
(۲)امام اعظم کی تقلید کرنا شرک ہے یا نہیں؟
(۳)جو شخص یہ کہے کہ غیر مقلد کی نماز مقلد کے پیچھے نہیں ہوتی،اس کے لیے حکم شارع کیا ہے؟مندرجہ بالا سوالات کے جوابات حدیث سے ہونے چاہیے۔

جواب:
ہر مسلمان کے پیچھے نماز ہوتی ہے۔وہ مقلد ہو یا غیر مقلد،بشرطیکہ مشرک اور مبتدع بدعت مکفرہ نہ ہو۔اس واسطے کہ مشرک کے پیچھے نماز نہیں ہوتی اور نہ ہی ایسے مبتدع کے پیچھے نماز ہوتی ہے جس کی بدعت مکفرہ ہو،پس جو مقلد مشرک نہیں اور مبتدع ببدعت مکفرہ بھی نہیں ہے،اس کے پیچھے نماز بلاشبہ جائز اور درست ہے اور ہاں واضح رہے بعض مقلدین کی تقلید مفضی الیٰ الشرک(شرک تک پہنچانے والی) ہوتی ہے۔سو ایسے مقلدین کے پیچھے نماز جائز نہیں اور تقلید مفضی الیٰ الشرک یہ ہے کہ کسی ایک خاص مجتہد کی اس طرح تقلید کرے کہ جب کوئی صحیح حدیث غیر منسوخ اپنے مذہب کے خلاف پاوے تو اس کو قبول نہ کرے اور یہ سمجھے بیٹھا ہو،کہ ہمارے امام سے خطا اور غلطی ناممکن ہے اور اس کا ہر قول حق اور صواب ہے اور اپنے دل میں یہ بات جمارکھی ہو کہ ہم اپنے امام کی تقلید ہرگز نہ چھوڑیں گے اگرچہ ہمارے مذہب کے خلاف قرآن و حدیث سے دلیل قائم ہو پس جس مقلد کی تقلید ایسی ہو وہ مشرک ہے۔۔۔
(۲)امام اعظم کی تقلید اگر مفضی الی الشرک ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا،تو بے شک امام اعظم کی یہ تقلید شرک ہے،والافلا۔(اگر ایسی نہیں تو مشرک نہیں ہے)
(۳)اس شخص کا علی الاعلان یہ کہنا صحیح نہیں ہے ہاں اگر اس شخص کے کہنے سے یہ مراد ہو کہ مقلد مشرک(یعنی جس کی تقلید مفضی الی الشرک ہو)کے پیچھے غیر مقلد کی نماز نہیں ہوتی تو اس کا یہ کہنا صحیح ہے،واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
(فتاوی نذیریہ،کتاب التقلید و الاجتہاد:ج،۱ص۱۶۸،۱۶۹)
مولانا سید نذیر حسین مرحوم و مغفور(ان شاء اللہ)دہلی کی جامع مسجد اورعیدگاہ میں جاکر حنفی امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے،ان کا یہ طرز عمل خبر متواتر سے ثابت اور معلوم و مشہور ہے،(الاعتصام،۲۵جون یا یکم جولائی،ص:۲۱)
شیخ الاسلام مولانا ابوالوفاءثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ
سوال:
ایک شخص حنفی المذہب کہتا ہے کہ ایک وتر پڑھنا گمراہی ہے۔کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز درست ہے؟
جواب:
ایک وتر پڑھنا حدیث شریف میں آیا ہے(صحیح بخاری)جو شخص جان بوجھ کر حدیث کو گمراہی کہے وہ خود گمراہ ہے۔امام احمد کا قول ہے کہ ایک رکعت وتر زیادہ ثابت ہے،نماز بحکم قرآن و حدیث ہر مسلمان کے پیچھے جائز ہے۔(فتاویٰ ثنائیہ جلد اول:554)
سوال:
جو شخص جماعت اہلحدیث کو گمراہ اور جہنمی قرار دیتا ہے اور علمائے اہلحدیث کے پیچھے نماز نہ جائز قرار دیتا ہے۔ایسے شخص پر منجانب قرآن و احادیث نبویہ کوئی حرف اطلاق ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اور ایسے شخص کے پیچھے نماز ہوتی ہے یا نہیں؟الخ
جواب:
ایسے شخص کی وہی سزا ہے جو حدیث میں آئی ہے کہ جو شخص کسی کو کافر یا فاسق کہے اور وہ اصل میں نہ ہو تو وہ الفاظ اس پر لوٹ آتے ہیں۔لیکن ایسے شخص کو امام نہیں بنانا چاہیے۔اگر نماز پڑھا رہا ہو تو اقتداء جائز ہے۔صحیح بخاری میں باب امامۃ المفتون وا لمبتدع ملاحظہ ہو۔(فتاوی ثنائیہ جلد اول:222)
سوال:
مقلدین کو رسول اللہﷺکی شفاعت نصیب ہو گی یا نہیں؟
جواب:
ہرکلمہ گو غیر مشرک کوشفاعت نصیب ہوگی،مقلدین بھی اس میں داخل ہیں۔(فتاوی ثنائیہ جلد اول:186)
(۴)مولانا ثناء اللہ امرتسری،مولانا ابو القاسم سیف بنارسی اور مولانا عبدالوہاب آروی اور مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہم جمعیت علماء ہند کی مجالس شوریٰ میں شرکت کے موقع پر مفتی کفایت اللہ صاحب اور دوسرے اکابرعلماء احناف کی اقتداء میں نماز بلا کراہت ادا کرتے تھے۔(ہفت روزہ الااعتصام،۲تا۸جولائی،ص۱۵)
(۵)شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ
سوال:
کیا دیوبندیوں،بریلویوں وغیرہ کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟
جواب:
غیر اللہ کو حاجت روا،مشکل کشا سمجھنے والے مشرک بریلوی امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا ناجائز ہے۔
قرآن میں ہے: اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ(سورۃ التوبہ:۲۸)
اوردیو بندی غیر متعصب امام کی پیچھے بوقت ضرورت نماز پڑھی جا سکتی ہے تاہم مستقلاً اپنا علیحدہ بندوبست کرنا چاہیے کسی بھی مخصوص مقام کو مسجد قرار دیا جا سکتا ہے۔حدیث میں ہے(جعلت لی الارض مسجداً و طھوراً)
(۶)مولانا عبدالقہار دہلوی رحمہ اللہ۔مفتی جماعت غربا اہلحدیث پاکستان
سوال:
۱{حنفی مسلک وعقائد کے حامل دیوبندی کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟اگر نماز اسے ایسا سمجھتے ہوئے پڑھ لی تو کب اس نماز کو دھرانا واجب ہے؟}۲{کیا ہم انہیں مشرک یا بدعتی کہہ سکتے ہیں؟}۳{کسی دینی تحریک میں انکا ساتھ دینا کیسا ہے؟ازراہ کرام مذکورہ سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں۔(سائل:قاری محمد)
جواب:۱
۔صورت مسؤلہ میں واضح ہو کہ شرعاً’’امام عقیدہ و اخلاق اور معاملات میں مقتدیوں سے بہتر ہونا چاہیے جیسا کہ حدیث شریف میں مذکور ہے:اجعلو ائمتکم خیارکم۔۔۔رواہ الدارقطنی(نیل الاوطار للشوکانی)
عام حالات میں ان اوصاف مذکورہ بالا کا خیال رکھنا ضروری ہے۔عارضی طور پر اور بحالت مجبوری بدعتی فاسق وفاجر کے پیچھے نماز پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ:امام بخاری نے باب امامۃ المفتون وا لمبتدع میں تابعی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے:وقال الحسن:صل و علیہ بدعتہ۔کہ تو بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھ لے اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہوگا اور پھر سیدنا عثمانکی موقف حدیث بیان کی،عبیداللہ بن عدی الخیارنے پوچھا تھا کہ آپامام العوام ہیں اور مشکل میں مبتلا ہیں اور امام فتنہ نماز پڑھا رہے ہیں،کیا ہم گنہگار تو نہیں ہوں گے؟سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:
’’الصلاۃ احسن مایعمل الناس فاذااحسن الناس فاحسن معھم واذا ساؤا فاجتنب اسائتھم‘‘کہ نماز لوگوں کا بہترین عمل ہے،وہ اچھا عمل کریں تو تم ان کے ساتھ شریک ہو جاؤ اور اگر وہ برائی کریں تو تم ان کے ساتھ برائی کرنے میں شریک نہ ہو۔
اور امام بخاری رحمہ اللہ اپنی تاریخ میں تحریر فرماتے ہیں کہ عبدالکریم البکاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس صحابہ کرامکوپایا وہ سب ائمہ جور کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔
اسی طرح حدیث ہے:
صلوخلف من قال:لا الہ الا اللہ۔رواہ الدارقطنی باسنادہ ضعیف،اورحدیث:الصلاۃ واجبہ علیکم خلف کل مسلم برا کان اوفاجراًوان عمل الکبائر۔۔۔۔رواہ ابوداؤد باسناد منقطع‘‘اس سے مجبوری و معذوری کی حالت میں،فاسق،فاجر اور بدعتی وغیرہ کے نماز پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے،بہرصورت امام عالم و موحد اورصحیح العقیدہ کے پیچھے ہی پنجگانہ نماز ادا کرنی چاہیے۔
۲:شرک کرنے والے کو مشرک اور بدعت کے کام کرنے والے کو بدعتی کہتے ہیں،مشرک اور بدعتی کہنے کی بجائے انہیں حسن اخلاق کے ساتھ صحیح بات بتانی اور سمجھانی چاہیے اور ان کے حق میں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں حق سمجھنے اوراس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور تقلید وبدعت سےنکال دے۔آمین
۳:کسی دینی تحریک اور نیک کام میں ہرشخص کا ساتھ دیا جا سکتا ہے،کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ(سورۃ المائدہ:۲)واللہ سبحانہ اعلم۔(کتبہ محمد ادریس سلفی،نائب مفتی جماعت،الجواب صحیح عبدالقہار عفی عنہ(مفتی جماعت)،فتاوی ستاریہ،ج۲ص۱۲۸)
(۷) سماحۃ الشیخ علامہ صالح المنجد حفظہ اللہ
(۱۳۸۰/۱۲/۳ہجری کو پیدا ہوئے،سعودیہ عرب کے دارالحکومت الریاض میں آپ نے ابتدائی اور انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد آپ شہر’’ظہران‘‘منتقل ہوئے،جہاں آپ نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی۔آپ کے درج ذیل اساتذہ ہیں
سماحۃ الشیخ عبدالعزیز عبداللہ بن باز رحمہ اللہ،ان سے آپ نے ۱۵سال تک علم حاصل کیا۔
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ،فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن جبرین رحمہ اللہ،فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن ناصر البراک حفظہ اللہ،فضیلۃ الشیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ،فضیلۃ الشیخ عبداللہ نم محمد الغنیمان حفظہ اللہ۔فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن صالح المحمود حفظہ اللہ،ان کے علاوہ بھی آپ نے دیگر کئی اساتذہ سے علم حاصل کیا۔
اس وقت آپ سعودیہ کے شہر خبر میں جامع مسجد عمر بن عبدالعزیز کے امام اور خطیب ہیں جہاں آپ دورس کی صورت میں کئی کتابوں کی تعلیم دیتے ہیں۔اسی طرح آپ اسلام سوال و جواب نامی ویب سائٹ کے مدیر بھی ہیں جہاں آپ سینکڑوں سوالوں کے جوابات دے چکے ہیں۔آپ کے یہ فتاوی اس ویب سائٹ پر موجود ہیں،اسی طرح آپ بیسیوں کتابوں کے مولف بھی ہیں۔امت مسلمہ اور خاص کر سلف صالحین کے منہج پر گامزن دنیا آ پ کے فتاویٰ اور علمی کاوشوں کا قدر کی نگا ہ سے دیکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ آہ کے ایمان اور زندگی میں برکت عطا فرمائے اور آپ کو مزید اسلام کی خدمت کی توفیق بخشے۔آمین)
سوال:
ميرے علاقے ميں اكثريت حنفى اور ديوبندى حضرات كى ہے، اس علاقے ميں سلفى اہلحديث حضرات كى مساجد بہت ہى كم ہيں، اور عصر كى نماز كا وقت مجھے ڈيوٹى پر ہى ہو جاتا ہے جہاں قريب كوئى سلفى اہلحديث مسجد نہيں جس ميں عصر كى نماز باجماعت ادا كر سكوں، بلكہ وہاں حنفيوں كى مسجد ہے جو عصر كى نماز تاخير كے ساتھ مغرب سے تقريبا ايك گھنٹہ قبل ادا كرتے ہيں. مجھے بتائيں كہ ميں كيا كروں آيا اس حالت ميں نماز مؤخر كر كے نماز باجماعت ادا كروں يا كہ اول وقت ميں اكيلے ہى ڈيوٹى والى جگہ ميں نماز ادا كر ليا كروں ؟
جواب:
عصر كى نماز كا اختيارى وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب ہر چيز كا سايہ اس كى مثل یعنی برابر ہو جائے، اور يہ ظہر كےوقت كى انتہاء ہے، عصر كى نماز كا وقت سورج زرد ہونے تك رہتا ہے۔
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم ﷺ نے فرمايا:
’’ ظہركاوقت عصر كى نماز كے وقت تك ہے، اورعصر كى نماز كا وقت سورج زرد ہونے تك رہتا ہے ‘‘(صحیح مسلم:۶۱۲)
اس ليے بغير كسى ضرورت كے نماز ميں تاخير كرنا جائز نہيں ہے۔
اور موسم كے مختلف ہونے كے اعتبار سے سورج زرد ہونے كا وقت بھى بدلتا رہتا ہے، يعنى موسم بہار ميں اور وقت ہوگا، اور موسم گرما ميں اس سے مختلف اور موسم سرما ميں اس كى بجائے كوئى اور وقت، ليكن اگر مغرب سے ايك گھنٹہ قبل نماز ادا كى جائے تو يہ سورج زرد ہونےسے قبل ہو گى، ليكن اول وقت ميں نماز ادا كرنا افضل ہے۔ يہ معلوم ہونا چاہيے كہ جمہور فقھاء كے ہاں ظہر كاآخرى وقت ہر چيز كے سايہ كى ايك مثل كے برابر ہے، ليكن ابو حنیفہ رحمہ اللہ كى رائے ميں دو مثل ہونے پر ہے، جو كہ حديث كے مخالف ہے۔اور بعض احناف جمہور كے ساتھ ہى متفق ہيں كہ ظہر كا وقت ايك مثل ہونے پر ختم ہو جاتا ہے، جن ميں صاحبین ابو يوسف اور محمد رحمہم اللہ شامل ہيں، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بھى ايك روايت يہى ہے۔۔۔۔۔
حاصل يہ ہوا كہ عصر كى نماز ميں تاخير كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اول وقت ميں ادا كرنا سنت اور افضل ہے ليكن نماز عصر وقت كے اندر ہى ادا كرنا چاہيے يعنى سورج زرد ہونے سے قبل نماز عصر ادا كر لينى چاہيے، اور آپ اس ليے جماعت مت چھوڑيں۔
دوم:
ديوبندى مذہب عقيدہ ماتريديہ پر قائم ہے، اور يہ لوگ صوفى طرق مثلا نقشبندى اور چشتى اور قادرى اور سوہروردى طريقے اختيار كرتے ہيں۔
بدعتى شخص كے پیچھے نماز ادا كرنے كے بارہ ميں راجح حكم يہى ہے كہ جس كے مسلمان ہونے كا حكم ہو اس كے پیچھے نماز ادا كرنى جائز ہے، اور جس كى بدعت كفريہ ہو اور وہ اس بدعت كى بنا پر كافر ہو جائے تو اس كے پیچھے نماز نہيں ہوگى.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا اہل سنت والجماعت كے عقيدے كے مخالف شخص مثلا اشعرى عقيدہ ركھنے والے كے پیچھے نماز ادا كرنا جائز ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
قريب تر جواب تو يہى ہے كہ ( واللہ اعلم ) جس كے بارہ ميں ہم مسلمان ہونے كا حكم لگائيں تو اس كے پیچھے ہمارا نماز ادا كرنا صحيح ہے، اور جس كے مسلمان نہ ہونے كا حكم ہو اس كے پیچھے نماز نہيں ہوگى۔اہل علم كى ايك جماعت كا قول يہى ہے اور صحيح قول بھى يہى ہے
ليكن جو كہتا ہے كہ نافرمان شخص كے پیچھےنماز ادا كرنا صحيح نہيں اس كا قول قابل قبول نہيں، اس كى دليل يہ ہے كہ نبى كريم ﷺ نے امراء كے پیچھے نماز ادا كرنے كى اجازت دى ہے، اور اكثر امراء نافرمان ہوتے ہيں، اور پھر ابن عمر اور انس رضى اللہ تعالى عنہم اور صحابہ كى ايك جماعت نے حجاج بن يوسف كے پیچھےنماز ادا كى حالانكہ وہ سب سے زيادہ ظالم شخص تھا۔
حاصل يہ ہوا كہ ايسے بدعتى شخص كے پیچھے نماز ہو جاتى ہے جس كى بدعت اسے دائرہ اسلام سے خارج نہ كرتى ہو، يا ايسے فاسق و فاجر شخص كے پیچھے بھى نماز ہو جائيگى جو اسے دائرہ اسلام سے خارج نہ كرے.
ليكن انہيں سنت پر عمل كرنے والے شخص كو امام بنانا چاہيے، اور اسى طرح اگر كچھ لوگ كہيں جمع ہوں تو وہ نماز كے ليے اپنے ميں سب سے افضل شخص كو آگے كريں ‘‘فتاوى شيخ ابن باز ( 5 / 426 )
شيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كچھ اسلامى ممالك جہاں كى اكثر مساجد ميں اشعرى مذہب ركھنے والے امام ہوں ان مساجد ميں اشعرى عقيدہ ركھنے والے امام كے پیچھے نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
’’جائز ہے، اور امام كے عقيدہ كے متعلق سوال كرنا لازم نہيں ‘‘
ميں نے شيخ رحمہ اللہ سے دريافت كيا:
اگر يہ پتہ چل جائے كہ امام اشعرى عقيدہ ركھتا ہے تو ؟
شيخ رحمہ اللہ نے جواب ديا:
’’ اس كے پیچھے نماز جائز ہے، ميرے علم كے مطابق تو كسى ايك نے بھى اشاعرہ یعنی اشعرى عقيدہ ركھنے والوں كو كافر قرار نہيں ديا ‘‘
(ثمرات التكوين تاليف: احمد عبد الرحمن القاضى)
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
رہا مسئلہ بدعتى كےپیچھےنماز ادا كرنا تو اگر اس كى بدعت شرکیہ ہو مثلا غير اللہ كو پكارنا اور غير اللہ كے ليے نذر و نياز دينا، اور ان كا اپنے پيروں اور مشائخ كے بارہ ميں اللہ كے كمال علم جيسا عقيدہ ركھنا، اور ان كے بارہ ميں يہ عقيدہ ركھنا كہ انہيں علم غیب ہے، يا كون ميں اثرانداز ہوتے ہيں اور اختيار ركھتے ہيں تو پھر ان كے پیچھے نماز صحيح نہيں ہو گى۔
اور اگران كى بدعت شركيہ نہيں،مثلا نبى كريم ﷺسے ثابت شدہ ذكر كو وہ اجتماعى طور پر كريں اور لہك كر كريں تو ان كے پیچھے نماز صحيح ہے۔ ليكن يہ ہے كہ مسلمان شخص كو نماز كى ادائيگى كے ليے سنت پر عمل كرنےوالا امام تلاش كرنا چاہيے بدعتى نہيں؛ تا كہ اجروثواب زيادہ ہو، اور برائى سے دور رہے ‘‘(فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 353)
اس بنا پر اگر آپ كو علم ہو كہ وہ شركيہ امور نہيں كرتا تو اس كے پیچھے نماز صحيح ہے، چاہے وہ عصر كى نماز سوال ميں مذكورہ وقت تك كرتا ہو اہم يہ ہے كہ شركيہ امور نہ كرے اور وقت كے اندر نماز كرتا ہو تو نماز صحيح ہے، اور اس كى بنا پر نماز باجماعت سے پیچھے رہنا جائز نہيں ہوگا۔(اسلام سوال و جواب،سوال نمبر:150090)
’’اہل سنت کا منہج تعامل‘‘از ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
السلام علیکم۔

فضیلۃ الشیخ ابو بصیر الطرسوسی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
زرا ان الشیخ کا تعارف بھی کروا دیں؟
کون ہیں کہاں سے ہیں ، اور کہاں سے فارغ ہیں ؟؟؟
کہیں یہ وہی تو نہیں جو کفر بالطاغوت کی مدعی ہیں مگر خود طاغوت اعظم برطانیہ کے طاغوتی قوانین کے وفادار ہیں؟؟
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سوال یہ ہے کہ
کوئی حنفی، شافعی، مالکی ہو یا حنبلی ہو
یا
اہل الحدیث، دیوبندی ہو یا بریلوی
یا
آئین پاکستان کے مطابق کافر قادیانی ہو
یا
بعض علماء کی رائے کے مطابق مسلمان
شیعہ
ہو
کوئی بھی ہو
جب اسے حق بات دلیل کے ساتھ سمجھ آجائے لیکن پھر بھی وہ اپنے اجتہاد و ضد پر قائم ہو
سادہ سے لفظوں میں
حق بات سمجھ کر بھی اس پر عامل نہ بنے
تو
اس کے پیچھے
نماز باجماعت کا کیا حکم ہے
کیا مذکورہ بالا تمام فتاوی سے
ایسے عالم و امام کو بھی فائدہ پہنچے گا؟
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
سوال یہ ہے کہ
کوئی حنفی، شافعی، مالکی ہو یا حنبلی ہو
یا
اہل الحدیث، دیوبندی ہو یا بریلوی
یا
آئین پاکستان کے مطابق کافر قادیانی ہو
یا
بعض علماء کی رائے کے مطابق مسلمان
شیعہ
ہو
کوئی بھی ہو
جب اسے حق بات دلیل کے ساتھ سمجھ آجائے لیکن پھر بھی وہ اپنے اجتہاد و ضد پر قائم ہو
سادہ سے لفظوں میں
حق بات سمجھ کر بھی اس پر عامل نہ بنے
تو
اس کے پیچھے
نماز باجماعت کا کیا حکم ہے
کیا مذکورہ بالا تمام فتاوی سے
ایسے عالم و امام کو بھی فائدہ پہنچے گا؟
یعنی سادہ الفاظ میں آپ نے
مالكي
حنبلی
الشافعي
حنفي
سب کی مذمت کرہے ہیں؟ یہ کیا طریقہ ہے بھائی؟
 

عبدالعزيز

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 24، 2017
پیغامات
169
ری ایکشن اسکور
78
پوائنٹ
29
الله اپنے حفظ و امان میں رکھ
حنفي دیوبندی کے شر سے! آمین
 
Top