• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اختلاف کی قسمیں

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اختلاف کی قسمیں

اختلاف کی تین قسمیں ہیں۔
1۔مذموم اختلاف:
اور اس کی بہت سی صورتیں ہیں ،جیسے:
1۔کافروں کا مومنوں سے ایمان اور اسلام میں اختلاف :اسواسطے کہ ایمان کو چھوڑ کر شرک و کفر کی راہ اختیار کرنا اور اپنے خالق و مالک اور پروردگار عالم کی خالص عبادت اور اس کے فرستا دہ رسول کی اطاعت سے انکار کرنا ظلم عظیم ہے(إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ) (لقمان:١٣)جس پر کسی طرح سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا ،(قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ۔لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ۔وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ۔ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ۔وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ۔ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ۔) (الکافرون ) آپ کہدیجئے کہ اے کافرو! نہ میں تمہارے معبودوں کو پوجتا ہوں ،نہ تم میرے معبود کو پوجتے ہو، اور نہ میں تمہارے معبودوں کی پرستش کروں گا ،نہ تم اس کی پرستش کروگے جس کی میں عبادت کررہا ہوں،تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے۔
لیکن پھر بھی اسلام کسی کوایمان لانے پر مجبورکرنے کا قائل نہیں،ارشاد باری تعالیٰ ہے :(لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ) (البقرة :256) دین کے معاملے میں کوئی زور و زبردستی نہیں۔
2۔خوارج ومعتزلہ وغیرہ خواہشات نفسانی کی اتباع کرنے والے مبتدعین کااہل سنت والجماعۃسے اختلاف،جو اپنی ظاہری دینداری کے باوجود دین سے اس طرح خارج ہیں ،جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔
3۔ان مقلدین کا اختلاف،جو مذہب ومسلک کے اختلاف کی بنیاد پر امت کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنا اور ہر ایک کے لئے الگ الگ مصلے اور مسجدیں بنانا چاہتے ہیں اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا گوارہ نہیں کرتے ہیں۔یا جواپنے مذہب یا امام کی بے جا حمایت میں سنت نبویﷺ کے واضح اور ثابت ہوجانے کے باوجود اسے ترک کرد یتے یا اس کوبلا دلیل منسوخ کہتے یا اس کی غلط تاویل کرتے ہیں اور اپنے مذہب اور امام کی تائید میں حدیثیں وضع کرتے اور فرمان نبویﷺ ’’ مَنْ كَذَبَ عَلَىَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ‘‘ ( صحيح البخاری: 2/ 102،صحيح مسلم: 1/ 7) کے مصداق ہوتے ہیں۔
2۔اختلاف ممد وح:
مسلمانوں کی جانب سے اہل کتاب ،مشرکین ،مجوس ، فاسقوں اور اہل جاہلیت کی ان کے مخصوص لباس ، وضع قطع، آداب معاشرت اور تیوہاروں وغیرہ میں مخالفت ،کیونکہ کتاب و سنت میں ان کی مخالفت کاحکم ہے ،
مثلا رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’ غَيِّرُوا الشَّيْبَ ، وَلاَ تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ” وفی روایۃ“وَلاَ بِالنَّصَارَى ‘‘ (رواہ احمد وغیرہ عن ابی ہریرة)
یعنی سفید بالوں کو رنگ کر بدل دیا کرو اور یہود و نصاریٰ کی مشابہت نہ اختیار کرو۔اور حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَوْفُوا اللِّحَى‘‘ (صحيح البخاری: 7/ 206،صحيح مسلم: 1/ 153)مشرکین کی مخالفت کرو اور مونچھوں کو پست کرو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ ،اور ایک حدیث میں ہے:’’ جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوا اللِّحَى خَالِفُوا الْمَجُوسَ‘‘ (رواہ مسلم:1/ 153)مونچھوں کو کاٹو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ اورمجوس کی مخالفت کرو۔ایک حدیث میں فرمایا:’’ خَالِفُوا الْيَهُودَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُصَلُّونَ فِى نِعَالِهِمْ وَلاَ خِفَافِهِم‘‘ (رواہ ابو داود: 1/ 247)یہود کی مخالفت کرو کیونکہ وہ اپنے جوتوں اور موزوں میں نماز نہیں پڑھتے ہیں ۔
اسی طرح حدیث میں اہل کتاب کی مخالفت میں سحر ی کھانے ، افطاری میں جلدی کرنے اوربیوی کے ساتھ حالت حیض میں کھانے پینے کا حکم دیا گیا اورایک حدیث میں عمومی طور سے اہل کتاب کی مخالفت کا حکم دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُم‘‘ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے ۔
بہر حال ان امور میں اہل کتاب اور مجوس وغیرہ سے اختلاف مطلوب و ممدوح ہے۔
3۔جائز اختلاف:
جن امور کا مختلف طریقوں سے کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،اور جنہیں اہل علم کی اصطلاح میں اختلاف تنوع کہا جاتا ہے،انہیں مختلف لوگوں کا مختلف اور الگ الگ طریقے سے کرنا جائز ہے اور اس اختلاف پرکسی کو کسی پر نکیر کرنا درست نہیں،جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے دن فرمایا:
’’ لاَ يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلاَّ فِي بَنِي قُرَيْظَة‘‘ ( صحيح البخاری:2/ 19)
نہ عصر کی نماز پڑھے کوئی مگر بنو قریظہ میں ۔ مگر بعض صحابۂ کرام نے دیکھا کہ اگر بنو قریظہ میں پہنچ کر نماز پڑھیں گے توعصر کاوقت نکل جائے گا اس واسطے انہوں نے اسے راستے میں پڑھ لیا ، انہوں نے یہ سمجھا کہ آپﷺ کا مقصد یہ تھا کہ جلداز جلد بنو قریظہ میں پہنچا جائے،یہ مقصد نہیں تھا کہ نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کردیا جائے۔اور کچھ لوگوں نے آپ ﷺکے حکم کی حرف بحرف تعمیل کی اور بنو قریظہ پہونچنے کے بعد ہی نماز ادا کی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپﷺ نے کسی پر کوئی تنقید نہیں کی اور دونوں کو صحیح قرار دیا۔
اسی طرح بنو نضیر کے محاصرہ کے وقت ان کے درختوں کے کاٹنے کے بارے میں صحابہ کرام میں اختلاف ہوا، چنانچہ کچھ لوگوں نے کاٹا اور کچھ لوگوں نے نہیں کاٹا، تو اللہ نے دونوں کی تصویب کی اور فرمایا:( مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ) (حشر:٥)تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنھیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیا۔یہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمان سے تھا۔ اور اس لئے بھی کہ بدکاروں کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے۔
اسی طرح بعض آیات کی قر ء ات میں صحابہ کرام کا اختلاف بھی جائز اور اختلاف تنوع تھا ،کیونکہ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو ایک آیت اس کے بر خلاف پڑھتے سنا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھتے سنا تھا،میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسے لے گیا اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا تو میں نے آپ کے چہرہ مبارک پر نا گواری کے آثار محسوس کئے ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ كِلاَكُمَا مُحْسِنٌ قَالَ شُعْبَةُ أَظُنُّهُ قَالَ : لاََ تَخْتَلِفُوا فَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ اخْتَلَفُوا فَهَلَكُوا‘‘ (صحيح البخاری:4/ 213)تم دونوں صحیح اورٹھیک پڑھتے ہو ، اختلاف نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں نے اختلاف کیا تو اس کی بناء پر ہلاک کردئے گئے۔
اسی طرح اذان، اقامت ،دعاء استفتاح، صلوٰة الخوف،تکبیرات جنازہ وغیرہ دو ود تین تین طریقے سے ثابت ہیں اور یہ اختلاف ،اختلاف تنوع ہے اختلاف تضاد نہیں اس واسطے اگر مختلف لوگ الگ الگ طریقے سے پڑھیں تو جائز ہے۔
اسی طرح امام بیہقی نے السنن الکبریٰ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سفر کرتے تھے تو ہم میں سے کچھ لوگ روزہ رکھتے اور کچھ لوگ روزہ نہیں رکھتے،کچھ لوگ پوری نماز پڑھتے اور کچھ لوگ قصر کرتے،اور کوئی ایک دوسرے پر تنقید نہیں کرتا۔
اور صحیح مسلم میں ابو خالد احمر نے حمید سے روایت کیا ہے کہ میں سفر میں نکلا اور روزہ رکھ لیا تو کچھ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ روزہ دہراؤ،میں نے کہا مجھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بتایا ہے کہ صحابۂ کرام سفر کرتے تھے تو روزہ دار غیر روزہ دار پر اور غیر روزہ دار روزہ دار پر عیب نہیں لگاتا تھا،پھر میری ملاقات عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے ہوئی تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت کرتے ہوئے مجھے یہ بات بتائی۔
اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا اختلاف جائز ہے اور ان میں سے ہر ایک مصیب اور حق پر مانا جائے گا اور جواس میں کسی ایک رائے پر عمل کرنے کے لئے دوسرے پر سختی کرے اور اس کی وجہ سے لوگوں میں فرقہ بندی اور دشمنی ہووہ قابل مذمت ہے ۔
رہا اختلاف تضاد جس میں ایک ہی قول درست ہوسکتا ہے اور اس کے سوا دوسرے اقوال غلط اور مرجوع ہوتے ہیں جیسے توحید اور شرک کا اختلاف، اللہ کے اسما ءو صفات جیسے کتاب وسنت میں وارد ہیں ویسے ہی بلا کسی تاویل وتکییف اورتشبیہ کے اثبات اور قبول کرنے والوں اور ان کی تاویل کرنے والوں میں اختلاف،یا صحت نکاح کے لئے ولی کی شرط، یامحرم کے لئے نکاح کر نے کرانے اور پیغام نکاح دینے کے جواز میں اختلاف وغیرہ
تو ان میں مختلف اسباب کی بنا پر اختلاف کا احتمال وامکان ہے مگر جو قول کتاب وسنت کے ادلہ کے موافق ہو اسی کو قبول کرنا چاہئے اور اس اختلاف کی بنا پر فرقہ بندی کرنا اور امت میں اختلاف اور دشمنی پیدا کرنا درست نہیں۔ (ماخوذمن:مجموع فتاوی و مقالات للدکتور فضل الرحمن المدنی)
 
Top