فاروق رفیع
مبتدی
- شمولیت
- اپریل 18، 2011
- پیغامات
- 5
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 0
اخروی فلاح کے لئے دنیوی مصائب کا مطالبہ
فاروق رفیع
ہم مسلمانوں کا کتاب و سنت سے دوری اور دینِ اسلام سے بے زاری کی وجہ سے یہ مزاج بن چکا ہے کہ ہم یا تو سرے ہی سے بنیادی ارکان اسلام سمیت فرائض و منہیات کے تارک ہیں اور اگر دینی فکر اور مذہبی لگاؤ کا جذبہ انگڑائی لے تو کتاب و سنت کے متعین دائرہ کار سے بہت آگے نکلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس قدر افراط و تفریط کے ملے جلے رجحان کی وجہ سے عوام کی اکثریت تو بالکل ہی دینی عقائد و نظریات اور عبادات سے منحرف ہے اور بعض لوگ عبادات و ریاضات میں اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ شرعی حدود و قیود اور مسائل دینیہ کے شرعی طریقہ کار کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ تقویٰ و للٰہیت کا ایسا مصنوعی رنگ اختیار کیا جاتا ہے اور روحانیت و قلبی احیاء کے ایسے خود ساختہ طریقے اختیار کئے جاتے ہیں، جن کا کتاب و سنت اور شریعت اسلامیہ سے دور کا تعلق نہیں ہوتا ہے۔ پھر تقویٰ و خشیت کے اظہار ، پاک طینتی کے اعلیٰ معیار کے ثبوت اور اخروی کامیابی کی بقاء کے لئے ایک طریقہ یہ اختیار کیا جاتا ہے اور بظاہر تقویٰ و للّٰہیت کے پیکر اور آخرت کی زندگی کے حصول کی لگن میں مشغول دنیا سے بے زار قسم کے (بالخصوص صوفیت سے مانوس) لوگ عوام الناس میں یہ بات بکثرت دہراتے دکھائی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں آزمائشوں اور پریشانیوں میں مبتلا کر کے آخرت میں کامیاب کر دے اور اخروی فلاح کے مقابلہ میں دنیاوی عذاب و مصائب سے دو چار کرلے، لیکن آخرت میں کامیاب کر دے توہماری اس سے بڑی خوش قسمتی کوئی نہیں۔ یہ نظریہ و عقیدہ اسلامی عقائد کے صریح متضاد ہے، بلکہ مسلمان پر لازم ہے کہ وہ دنیا و آخرت کی بھلائی اور کامیابی کی مسلسل دعا کرے اور دنیوی و اخروی مصائب سے بچاؤ کی التجاء کرے۔ کیونکہ نفسِ انسانی اللہ تعالیٰ کی ابتلاء و آزمائش اور عذاب کا متحمل نہیں ہو سکتا اور اگر ابتلاء و آزمائش کا عرصہ طویل ہو جائے تو انسان کے دین حنیف سے برگشتہ ہونے اور اللہ تعالیٰ سے بدظن ہونے کے خطرات زیادہ ہیں، اس لئے دنیا و آخرت کی عافیت اور خیر و برکت کا سوال کرنا چاہئے اور خود کو دعاؤں التجاوؤں کے ذریعے مصائب و مشکلات کے نزول کا ہدف نہیں بنانا چاہئے۔ اس کی درست راہنمائی آئندہ حدیث میں موجود ہے۔
سیدنا انسؓ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ عَادَ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ قَدْ خَفَتَ فَصَارَ مِثْلَ الْفَرْخِ، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: ھَلْ كُنْتَ تَدْعُوْ بِشَيْيءٍ أَوْ تَسْأَلُهُ إِيَّاهُ. قَالَ نَعَمْ، كُنْتُ اَقُوْلُ: اَللّٰھُمَّ مَا کُنْتَ مُعَاقِبِيْ بِهِ فِیْ الْآخِرَۃِ فَعَجِّلْهُ لِيْ فِيْ الْدُّنْيَا،فقال رَسُوْلُ اللهِ ﷺ :سُبْحَانَ اللهِ! لَا تُطِيْقُهُ أَوْ لَا تَسْتَطِيْعُهُ. أَفَلَا قُلْتَ: اللّٰھُمَّ! آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ قَالَ: فَدَعَا اللهَ لَهُ فَشَفَاهُ. (صحيح مسلم: ۲۶۸۸، جامع ترمذی: ۳۴۸۷)
رسول اللہ ﷺ نے ایک مسلمان شخص کی عیادت کی جو کمزور ہو کر چوزے کی طرح ہو چکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تو کوئی دعا یا کسی چیز کا سوال کرتا ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں! میں یہ کلمات کہتا ہوں۔ اے اللہ! آخرت میں تو مجھے جو عذاب دینے والا ہے، مجھے اس سے دنیا میں جلد دو چار کر دے۔ (یہ سن کر )رسول اللہ ﷺ نے حیرت کا اظہار کیا اور فرمایا: تو اسی کی طاقت و استطاعت نہیں رکھتا، تو یہ کلمات کیوں نہیں کہتا کہ اے اللہ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر، ہمیں آخرت میں بھلائی سے ہمکنار کر اور ہمیں آگے کے عذاب سے بچا۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اسے شفا یاب کر دیا۔
فقہ الحدیث: امام نوویؒ نے اس حدیث سے درج ذیل فوائد کشید کیے ہیں:
1. عذاب و سزا کی جلدی کی دعا کرنا ممنوع ہے۔
2. اس میں اس دعا اللّٰھُمَّ! آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً کی فضیلت کا بیان ہے۔
3. بیمار کی بیمار پرسی کرنا اور اس کے لئے دعا کرنا مستحب فعل ہے۔ اور آزمائش و ابتلاء کی تمنا کرنا مکروہ ہے۔ کیونکہ اس سے انسان پریشان و ناراض ہو سکتا ہے اور بعض اوقات نالاں ہو جاتا ہے۔
دنیا میں بھلائی کی تفسیر میں راجح قول یہ ہے کہ اس سے مراد عبادت اور عافیت ہے اور آخرت میں بھلائی سے مراد جنت اور بخشش ہے۔ (شرح النووی: ۱۷/۱۳، ۱۴)
دنیا و آخرت کی خیر و برکت کی دعا کرنا اور دنیا و آخرت کی آزمائش و ابتلاء اور عذاب سے پناہ طلب کرنا مسنون و مستحب عمل ہے اور نبی مکرم ﷺ دنیا و آخرت کی فوز و فلاح اور ابتلاء و عذاب سے بچاؤ کی بکثرت دعا کیا کرتے تھے۔
سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ کی اکثر دعا اللّٰھُمَّ! آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ تھی۔ (صحیح بخاری: ۱۳۸۹، صحیح مسلم: ۲۶۹۰)
نیز دین و دنیا اور آخرت میں عافیت کی دعا کرنا نبی ﷺ کے صبح و شام کا معمول بھی تھا۔
ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح اور شام کے وقت یہ دعائیں ترک نہ کرتے تھے:
أَللّٰھُمَّ! إِنِّيْ أَسَأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اللّٰھُمَّ! إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَة فِيْ دِيْنِي وَدُنْيَايَ وَأَھْلِيْ وَمَالِيْ، اللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِيْ وَاٰمِنْ رَوْعَاتي، أَللّٰھُمَّ احْفَظْنِيْ مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِيْ وَعَنْ يَميْنِي وَعَنْ شِمَالِيْ وَمِنْ فَوْقِيْ وَأَعُوُذ بِعَظْمَتِكَ أَنْ اُغْتَالَ مِنْ تَحْتِيْ
اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت کی عافیت (مصائب سے بچاؤ) کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے، اپنے دین و دنیا اور اہل و مال میں معافی و عافیت کا طلب گار ہوں۔ اے اللہ! میرے راز چھپا دے اور میری گھبراہٹوں سے مجھے بے خوف کر دے۔ اے اللہ! میرے سامنے سے، میرے پیچھے سے اور میرے دائیں اور بائیں سے اور میرے اوپر سے میری حفاظت کرنا اور میں تیری عظمت کے واسطے سے پناہ مانگتا ہوں ،کہ میں نیچے سے ہلاک کیا جاؤں۔ (سنن ابی داؤد، ۵۰۷۴، سنن نسائی: ۵۵۳۱، صحیح)
لہٰذا دین و دنیا اور آخرت کی کی فوز و فلاح اور آزمائش و ابتلاء سے بچاؤ کی دعا کرنا چاہئے۔