• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اخلاق حسنہ

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جناب ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 23 جمادی ثانیہ 1434 کو" اخلاق حسنہ " کے موضوع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے مسلمانوں کو اخلاق حسنہ اپنانے کی ترغیب دلائی، کیونکہ اچھا اخلاق جنت میں داخلے کاسبب ہے، اور بتلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اخلاق حسنہ کیلئے عملی نمونہ ہیں، اسکے لئے انہوں نے کتاب و سنت سے دلائل بھی ذکر کئے۔

پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، وہ انتہائی برد بار اور کامل علم والا ہے، وہ غالب ہونے کے ساتھ ساتھ حکمت والا بھی ہے، میں اسکی حمد و ثناء بیان کرتے ہوئے اسی کی جانب لوٹنا چاہتا ہوں، اور بخشش بھی طلب کرتا ہوں، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں وہی بلندیوں اور عظمتوں کا مستحق ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں جنکا اخلاق انتہائی بلند و اعلی ہے، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- پر درود و سلام بھیج، آپکی آل اور صحابہ کرام پر بھی۔
اللہ کی حمد و ثناء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے بعد!
اللہ تعالی سے ڈرو اور اسی کی اطاعت بھی کرو، اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اسکی نافرمانی کے قریب بھی مت جاؤ۔
اللہ کے بندو!
اسلام کا مقصد ایک بلند ہدف کو پانا ہے، یہ عظیم ہدف ہے: حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی، اسی عظیم ہدف کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یوں بیان کیا: وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا اوراللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ والدین سے اچھا سلوک کرو ، نیز قریبی رشتہ داروں ،یتیموں مسکینوں ،رشتہ دار ہمسائے ، اجنبی ہمسائے ، اپنے ہم نشین اور مسافر ان سب سے اچھا سلوک کرو، نیز ان لونڈی غلاموں سے بھی جو تمہارے قبضہ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ یقینا مغرور اور خود پسند بننے والے کو پسند نہیں کرتا[النساء: 36]
کائنات کی آباد کاری ، حدود کا نفاذ، دستِ ظلم کو تھامنا، وغیرہ تمام اشیاء ، اصل مقصد کا ایک جزء بنتی ہیں اور وہ ہے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری، یہ سب کچھ اسی کیلئے راستہ صاف کرتی ہیں اور اس عظیم ہدف کو پانے کیلئے زمین ہموار کرتی ہیں۔
اس کیلئے کلیدی قردار "اخلاق حسنہ "کا ہے، جو ایمان کے ساتھ مل کر حقوق اللہ و حقوق العباد ادا کرنے کیلئے بہترین مرکب ہے، جسکی بنا پر درجات بلند اور گناہ ختم کردئے جاتے ہیں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں، آپ نے فرمایا: (مؤمن اپنے اچھے اخلاق کی بنا پر دن میں نفلی روزہ اور راتوں کو نفلی قیام کرنے والوں کے درجات تک پہنچ جاتا ہے) ابو داود
ابو درداء رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: (قیامت کے دن مؤمن کے ترازوئے اعمال میں "اخلاقِ حسنہ "سے بڑھ کچھ نہیں ہوگا، اور یقینا اللہ تعالی فحش اور گھٹیازبان والے سے بغض رکھتا ہے)اسے ترمذی نے بیان کیا اور کہا: یہ حدیث حسن ، صحیح ہے۔

چنانچہ "اخلاق حسنہ" تمام بھلائیوں کی چابی ہے، اسی لئے شریعتِ مطہرہ اور عقلِ سلیم کے ہاں ہر اچھی صفت کو "اخلاقِ حسنہ "میں شمار کیا جاتاہے۔

چند اہلِ علم نے "اخلاقِ حسنہ"کے بارے میں یوں بھی کہا: "خوشیاں بانٹو! تکالیف روکو!" کا نام "حُسنِ خلق" ہے، جامع مانع تعریف ان لفظوں میں کی جاسکتی ہے: "اللہ کی جانب سے واجب یا مستحب تمام احکامات کی پابندی کرنا، اور تمام ممنوعہ کاموں سے دور رہنے کا نام حُسنِ خُلق ہے"

اخلاقِ حسنہ کے اجزاء میں : تقوی، اخلاص، صبر، برد باری، تحمل مزاجی، شرم و حیاء، پاکدامنی، غیرت، والدین سے اچھا سلوک، رشتہ داروں سے اچھا برتاؤ، شفقت، مصیبت زدہ لوگوں کی مدد، شجاعت، سخاوت، سچائی، دلوں کا صاف ہونا، نرمی، وفاداری، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، پڑوسی سے اچھا سلوک کرنا، تواضع، برداشت، فراخ دلی شامل ہے ، اسی طرح مکاری، عیاری، خیانت، غداری، دھوکہ بازی ، بے حیائی، برائی ، حرام مشروب، حرام کھانے، جھوٹ، بہتان بازی، کنجوسی، بخیلی، بزدلی، ریاکاری، تکبر، خودپسندی، ظلم و زیادتی، کینہ ، چغلی، حسد وغیرہ سے دور رہنا بھی اخلاقِ حسنہ کا ضروری حصہ ہے۔

اخلاقِ حسنہ مؤمن کو دنیا و آخرت میں فائدہ دے گا، اس سے اللہ کے ہاں درجات بلند ہونگے، جسکا اخلاق اچھا ہو اس سے نیک وبد تمام لوگ مستفید ہوتے ہیں، جبکہ کافر کو اخلاقِ حسنہ کا فائدہ صرف دنیا میں ہوگا اسی لئے اللہ تعالی اسے دنیا ہی میں اسکا بدلہ چکا دیتا ہے، اور آخرت میں اسکے لئے کچھ نہیں ، کیونکہ وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لایا۔

عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:اللہ کے رسول ! عبد اللہ بن جُدعان کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے؛ وہ مہمان نواز تھا، غریبوں کی مدد کرتا تھا، آسمانی آفات کے موقع پر دل کھول کر تعاون کرتا تھا؛ کیا اسے ان تمام رفاہی کاموں کا فائدہ ہوگا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس لئے کہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا: میرے رب! روزِ جزاء کو میرے گناہ معاف فرمادینا)

اللہ تعالی نے اپنی کتاب عظیم میں تمام اخلاقی اقدار پر عمل کرنے کا حکم ؛ اور تمام بد کردار صفات کی مذمت کی ہے ، اسی لئے تمام اچھی صفات کے بارے میں سنتِ مطہرہ میں حکم اور بری صفات سے دور رہنے پر زور دیا گیا ہے، اس بارے میں قرآن مجید کی بہت زیادہ آیات ہیں جس میں سے چند یہ ہیں: فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ بے حیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ، خواہ یہ اعلانیہ ہوں یا چھپی ہوں [الأنعام: 151]، فرمانِ باری تعالی ہے الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ جو خوشحالی اور تنگ دستی (ہر حال) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ ایسے ہی نیک لوگوں سے اللہ محبت رکھتا ہے [آل عمران: 134]، فرمانِ باری تعالی ہے: خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (اے نبی!) درگزر کرنے کا رویہ اختیار کیجئے، اچھے کاموں کا حکم دیجئے۔ اور جاہلوں سے کنارہ کیجئے [الأعراف: 199]، فرمانِ باری تعالی ہے: وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ آپ صبر کیجئے اور آپ کا صبر اللہ (ہی کی توفیق) سے ہے [النحل: 127]، فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (اے نبی) نیکی اور بدی کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ آپ (بدی کو) ایسی بات سے دور کیجئے جو اچھی ہو۔ (اس سے )آپ دیکھیں گے کہ جس شخص کی آپ سے عداوت تھی وہ آپ کا گہرا دوست بن گیا ہے۔ [فصلت: 34].

اسی طرح مزید فرمانِ باری تعالی ہے: وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اور ایمان لانےوالوں میں سے جو آپ کی اتباع کریں ان سے تواضع سے پیش آئیے۔ [الشعراء: 215]، فرمانِ باری تعالی ہے: تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ یہ آخری گھر، ہم اسے ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو نہ زمین میں کسی طرح اونچا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ کسی فساد کا اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔ [القصص: 83].

فرمانِ باری تعالی ہے: وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (63) وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (64) وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا (65) إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا (66) وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا (67) وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔[63]اور وہ جو اپنے رب کے لیے سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے رات گزارتے ہیں۔[64]اور وہ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے ۔بے شک اس کا عذاب ہمیشہ چمٹ جانے والا ہے۔[65]بے شک وہ بری ٹھہرنے کی جگہ اور اقامت کی جگہ ہے۔[66]اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں اور (ان کا خرچ) اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے۔[67]اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ پائےگا۔ [الفرقان: 63- 68]، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! عہد پورے کرو۔ [المائدة: 1]، فرمانِ باری تعالی ہے: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا اور رسول تمھیں جو کچھ دے ؛ تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ [الحشر: 7]

جبکہ احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں ایسے شخص کیلئے جنت کے اعلی ترین مقام پر ایک گھر کا ضامن ہوں ، جس کا اخلاق اچھا ہے) صحیح سند کے ساتھ ابو داود نے ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں تمہیں ایسے شخص کے بارے میں بتاؤں جو جہنم پر حرام ہے ، اور اسکے لئے جہنم حرام ہے!!؟؟ جہنم ہر اس شخص کیلئے حرام ہے جو لوگوں سے مل کر رہے، نرم دل اور نرم گو ہو، بات آسانی سے مانے)اسے ترمذی نے بیان کیا ، اور کہا: یہ حدیث حسن ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نرمی کسی بھی چیز میں ہو تو اسے خوبصورت بنا دیتی ہے، اور جس سے چھین لی جائے اسے بد صورت بناد یتی ہے)مسلم

نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا: آپ نے فرمایا: (اخلاق حسنہ کو نیکی کہا جاتا ہے، جبکہ گناہ وہ ہے جس کیلئے تمہارے دل میں کھٹکا لگا رہے، کہ کہیں لوگوں کو پتہ نہ چل جائے)مسلم

اچھے اخلاق کے حامل افراد اپنے اخلاق کے باعث اپنے لئے تو باعثِ خیر ہوتے ہی ہیں، اپنے معاشرے کیلئے بھی خیروبرکت اور ترقی و شادمانی کا باعث بنتے ہیں، اللہ کے ہاں انکا بلند مقام ہے، لوگوں کے دلوں میں انکی محبت پائی جاتی ہے، ان کے بارے میں لوگ سوچ کر مطمئن رہتے ہیں، رہتی دنیاتک انہی کا چرچا ہوگا، اور آخرت میں اچھے نتائج سامنے ہونگے۔
جبکہ بداخلاقی نحوست ہے، جسکی بنا پر زندگی سے برکت مٹا دی جاتی ہے، تمام مخلوقات ان سے بغض رکھتی ہیں، اور انکے لئے دلوں میں کوئی جگہ نہیں ہوتی، اسی طرح بد اخلاقی بدبختی اور دائمی شر ؛ کا بھی باعث بنتی ہے۔
مسلمانو!
بلند اخلاقی اقدار کے مالک سلف صالحین کے نقشِ قدم پر چلو ، جن کے بارے میں اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں فرمایا: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو ں انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں ، سجدے کرنے کے اثر سےموجود ہے۔ [الفتح: 29]، اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔ اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ ان میں سے کچھ لوگ تو ایمان لے آئے ہیں مگر ان کی اکثریت نافرمان ہی ہے [آل عمران: 110]
یہ ہی لوگ کائنات کے افراد کیلئے بہترین نمونہ ہیں جن کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے: مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا مومنوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی تو اپنی ذمہ داری پوری کرچکا ہے اور کوئی موقع کا انتظار کر رہاہے۔ اور انہوں نے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ [الأحزاب: 23]

صحابہ کرام میں سے ہر ایک صحابی اپنے اندر ایک امت کے برابر اخلاقی اقدار ، اور برائی سے یکسر دورتھا ، صحابہ کرام کی سیرت کا ذوقِ مطالعہ رکھنے والوں سے یہ بات ڈھکی چُھپی نہیں ہے۔
اخلاق حسنہ کی بلا مقابلہ اعلی ترین مثال ، جن میں ہر مثبت خوبی کامل شکل میں پائی جاتی ہے، وہ ہیں ہمارے پیارے پیغمبر محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - آپ ہر میدان میں مکمل آئیڈیل ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے، جو بھی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔ [الأحزاب: 21] اللہ تعالی نے ہمارے پیغمبر کی انتہائی بہترین تربیت کی ۔
اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی تربیت کرتے ہوئے ان تمام اخلاقی اقدار کا خاص خیال کیا، جیسے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (مجھے اخلاقی اقدار کو مکمل کرنے کیلئے بھیجا گیاہے) احمد
اسی لئے اللہ تعالی نے بھی اپنے نبی کے اخلاق کو بیان کرتے ہوئے ایسی تعریف کی جو ہمیشہ ساری مخلوق سنتی رہے گی ، جن و انس تو کیا فرشتے بھی اسے گنگناتے رہے گے، جسےزمانہ کبھی بھلا نہیں پائے گا، فرمایا: وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ اور آپ یقینا اخلاق کے بڑے بلند مرتبہ پر ہیں ۔ [القلم: 4]جس کے بارے میں اللہ گواہی دے دے اسے کسی اور گواہی کی ضرورت نہیں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیاتو کہا: "آپکا اخلاق قرآن تھا"
ابن کثیر رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: "قرآنی احکامات کی پیروی آپکی فطرت بن چکی تھی، حتی کہ آپ نے اپنی عادات کو بھی اسی میں ڈھال دیا، چنانچہ قرآن نے آپکو کسی بھی کام کا حکم دیا تو آپ کر گزرے، قرآن نے آپکو کسی کام سے روکا تو آپ رک گئے، یہ سب کچھ اس عظیم اخلاق، حیاء ، سخاوت، شجاعت، حلم اور برد باری، کے ساتھ تھا جسے اللہ تعالی نے آپکی فطرت میں ڈالا تھا"
یہی وجہ تھی دشمنوں کی بہتات اور بسیار کوشش و تلاش کے باوجود بعثت سے پہلے کی زندگی میں بھی کوئی عیب نہ ڈھونڈ پائے۔
اور جب اچانک آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی توآپ نے اپنی رفیقہ حیات خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: "مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے" کہنی لگیں: "اللہ کی قسم!! اللہ آپکو کبھی رسوا نہیں کریگا؛ آپ تو رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، لوگوں کا سامان اٹھا کر پہنچا دیتے ہیں، مہمان نواز ہیں، آفات نازل ہونے پر مکمل تعاون کرتے ہیں" اسے بخاری مسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا۔
یہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعثت سے پہلے کا اخلاق جسے اللہ تعالی نے بعثت کے بعد مزید چار چاند لگا کر مکمل کر دیا۔
مسلمانو! اپنے پیارے حبیب کی اقتدا کرو، مضبوط دین کو تھام لو، روزِ روشن کی طرح عیاں شریعت پر عمل کرو، اور حسبِ توفیق بلند کردار کے مالک بنو، انتہائی اخلاص کے ساتھ نبوی منہجِ پر گامزن رہو، سنتِ نبوی کے طلبگار رہو، بدعات ایجاد نہ کرو ،فرمانِ باری تعالی ہے: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ آپ کہہ دیجئے: کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے [آل عمران: 31]

اللہ کے بندو! "مدارات" اچھے اخلاق کا حصہ ہے، اور "مداہنت" مذموم ہے، "مدارات" شر کو اچھی بات یا عمل سے دور رکھنے،اور محفوظ ترین طریقہ سے حق بات پہچانے کا نام ہے، اسکو زندگی کے خاص حالات ہی میں استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ "مداہنت" حق کہنے سے کترانے اور گناہ پر چُپ سادھ لینے کا نام ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور نیکی کرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ [الحج: 77]
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں یقینا وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:
حمدوثناء اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودو سلام کے بعد!
اللہ کے حکم کے مطابق اس سے ڈرو ، ممنوعہ کاموں سے دور رہو، یقینا اللہ تعالی نے تمہیں حکم دیا ہے کہ: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]
اس آیت کریمہ میں تمام اخلاقِ حسنہ بیان کئے گئے ہیں اور ساتھ ہی بد اخلاقی سے روکا بھی گیا ہے۔

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا:(جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، گناہ ہونے کے فورا نیکی کرو اس سے گناہ مٹ جائے گا، اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آؤ) ترمذی

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں آپ سے سوال کیا گیاکہ کونسے اعمال ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد جنت میں داخل ہوگی، فرمایا:(تقوی، اور اچھا اخلاق) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: جہنم میں کونسی چیز لیکر جائے گی؟ فرمایا: (زبان اور شرمگاہ)ترمذی نے رویت کیا اور اسے حسن صحیح کہا۔
دینی اقدار کو مضبوطی سے تھام لو، اور سنتِ نبوی کی حفاظت کروِ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جاؤ گے۔

اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56] اور دوسری جانب فرمانِ رسالت ہے: (جس نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا اللہ اس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے)
چنانچہ سب سید الاولین و الآخرین امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد.

دعا:
اے اللہ !تمام خلفائے راشدین سے راضی ہو جا، ہدایت یافتہ ائمہ ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ سے راضی ہو جا ، تمام کے تمام تابعین کرام سے بھی، اور ان لوگوں سے بھی جو انکی راہ پر چلیں۔
اے اللہ !ہم پر اپنا کرم ، احسان، اور رحمت کرتے ہوئے ہم سے بھی راضی ہو جا۔
اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، اے اللہ!کفر اور کافروں کو ذلیل و رسوا کر دے۔اسلام کے دشمنوں کی مکاریاں تباہ و برباد کردے، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ہر منصوبہ بندی فاش کردے۔
یا اللہ تمام مسلمانوں کی ضروریات پوری فرما، یا اللہ ! تمام مسلمانوں کو نفسانی شرسے بچا، گناہوں کے شر سے بچا، یا اللہ!دشمنوں کے شر سے بچا۔
یا اللہ! تمام مسلمانوں کے دلوں کے ملا دے، انکے آپس کے جھگڑے ختم فرما، یا اللہ! انہیں جنت کے راستے پر چلا، انہیں اندھیر نگریوں سے نکال کر روشن راستے پر چلا۔
یا اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت نصیب فرما، کفر اور کافروں کو ذلیل فرما، یا اللہ ! اپنے دین، قرآن، سنتِ نبوی کو غالب فرما۔
یا اللہ! مسلمانوں سے ہر مصیبت ٹال دے، یا اللہ تمام تکالیف دور کردے، یا اللہ تمام مسلمانوں سے ہمہ قسم کی مصیبت ٹال دے، یا اللہ! شامی مسلمانوں پر نازل ہونے والی تکالیف دور فرما، یا اللہ! انکی ہمہ قسم کی مصیبتوں سے جان چھڑا دے، یا اللہ! ظالموں کی تباہی و بربادی کا بندو بست فرما۔
یا اللہ! تمام مسلمانوں کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ فرما، یا اللہ! تمام کا انجام اچھا فرما، یا اللہ ! بھوکے مسلمانوں کو کھلا، یا اللہ! جن کے پاس کپڑے نہیں انہیں مہیا فرما، یا اللہ توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہمیں اپنے ملکوں میں امن نصیب فرما، اے اللہ! ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما ۔
یا اللہ! خادم الحرمین الشریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ ! اپنی راہنمائی کے مطابق اسے توفیق دے، اے اللہ !اسکے تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما، یا اللہ! اے اللہ رب العالمین!ہر اچھے کام میں اسکی مدد فرماجو اپنی قوم ، ملک اور مسلمانوں کے لئے کرےیا اللہ! اسکے ذریعے اپنے دین کو غالب فرما، یا اللہ! اس پر تمام مسلمانوں کو اتفاقِ رائے کرنے کی توفیق دے، یا اللہ ! اسکے نائب کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے یا اللہ ! اپنی راہنمائی کے مطابق دونوں کو توفیق دے، اے اللہ !دونوں تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما، یا اللہ رب العالمین!ہر اچھے کام میں دونوں مدد فرما، اے اللہ!توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ ارحم الراحمین ! اپنی رحمت کے صدقے ، ہمیں اپنے نفس کے شر سے بچا، ہمارے اعمال کے شر سے بچا، اور ہر شریر کے شر سے بچا، یا رب العالمین !۔
یا اللہ! تمام مریضوں کو شفا یاب فرما، یا اللہ تمام مریضوں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام مریضوں کو شفا یاب فرما، یا اللہ ! ہم پر زیادتی کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ! ہماری شرح صدر فرما، ہمارے معاملات آسان فرما۔
یا اللہ! تجھ سے جنت کے قریب کرنے والے ہر قول و عمل کا سوال کرتے ہیں ، یااللہ! ہم جہنم کی طرف لے جانے والے ہر عمل سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو ابلیس اور اسکے چیلوں سے بچا، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو شیطان کے حملوں سے بچا، توں ہر چیز پر قادر ہے۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ [البقرة: 201]
اللہ کے بندوں!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو[٩0] اور اگر تم نے اللہ سے کوئی عہد کیا ہو تو اسے پورا کرو۔ اور اپنی قسموں کو پکا کرنے کے بعد مت توڑو۔ جبکہ تم اپنے (قول و قرار) پر اللہ کو ضامن بناچکے ہوجو تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ [النحل: 90، 91]
اللہ عز و جل کا ذکر کرو وہ تمہارا ذکر کریگا، اسکی عنایت کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، اللہ ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اور اللہ تعالی تمہارے کاموں کو بخوبی جانتا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم شاکر بھائی!
میں نے فارمیٹنگ تو ٹھیک کی ہے لیکن یہاں کیوں نہیں درست نظر آ رہی؟ آپ تدوین میں جا کر دیکھیں تمام کوڈ صحیح جگہ لگے ہیں، لیکن یہاں سیٹنگ تھوڑی مختلف نظر آ رہی ہے؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
السلام علیکم شاکر بھائی!
میں نے فارمیٹنگ تو ٹھیک کی ہے لیکن یہاں کیوں نہیں درست نظر آ رہی؟ آپ تدوین میں جا کر دیکھیں تمام کوڈ صحیح جگہ لگے ہیں، لیکن یہاں سیٹنگ تھوڑی مختلف نظر آ رہی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ ،
کاپی پیسٹنگ میں بعض اوقات کچھ ایکسٹرا ایچ ٹی ایم ایل کوڈ شامل ہو جاتا ہے جو مسئلہ پیدا کرتا ہے۔
اگر کہیں سے بھی موضوع کاپی کریں تو ایک مرتبہ سلیکٹ آل کریں اور پھر ایڈیٹر کے سب سے اوپر دائیں کونے پر موجود "فارمیٹنگ ختم کریں" کا بٹن دبا دیں۔
اور پھر فورم پر فارمیٹنگ کریں تو اس سے فقط ٹیکسٹ باقی بچ جاتا ہے۔

آپ کی بالا پوسٹ میں میں نے یہی عمل دہرایا ہے۔ اگر آپ نے کہیں کلر وغیرہ دیا تھا، وہ ضائع ہو گیا ہوگا۔ باقی جو اصل مسئلہ تھا، وہ حل ہو گیا ہے، الحمدللہ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ ،
کاپی پیسٹنگ میں بعض اوقات کچھ ایکسٹرا ایچ ٹی ایم ایل کوڈ شامل ہو جاتا ہے جو مسئلہ پیدا کرتا ہے۔
اگر کہیں سے بھی موضوع کاپی کریں تو ایک مرتبہ سلیکٹ آل کریں اور پھر ایڈیٹر کے سب سے اوپر دائیں کونے پر موجود "فارمیٹنگ ختم کریں" کا بٹن دبا دیں۔
اور پھر فورم پر فارمیٹنگ کریں تو اس سے فقط ٹیکسٹ باقی بچ جاتا ہے۔

آپ کی بالا پوسٹ میں میں نے یہی عمل دہرایا ہے۔ اگر آپ نے کہیں کلر وغیرہ دیا تھا، وہ ضائع ہو گیا ہوگا۔ باقی جو اصل مسئلہ تھا، وہ حل ہو گیا ہے، الحمدللہ۔
جزاک اللہ خیرا

لیکن آپ نے فارمیٹنگ بہت تھوڑی کی ہے، خیر کوئی مسئلہ نہیں۔
 
Top