ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 577
- ری ایکشن اسکور
- 186
- پوائنٹ
- 77
ارشادات رب العالمین فی ابطال التقلید
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
[ وَاَنْزَلْنَـآ اِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُمْ بَيْنَـهُـمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ ۖ وَلَا تَتَّبِــعْ اَهْوَآءَهُـمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّ ] (المائدۃ : 48)
’’ اور ہم نے آپ کی طرف ( اے پیغمبر ﷺ ) حق کے ساتھ کتاب نازل کی جو پہلی کتابوں کی تصدیق بھی کرتی ہے اور ان کی نگہبان بھی ہے۔ تو آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حق کے ساتھ فیصلہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا ہے کہ میری طرف سے نازل کردہ وحی کی اتباع کرنا ہے لوگوں کی خواہشات رائے و قیاس کو نہیں اپنانا تو مقلدین حضرات غور کرو جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغبر کو تقلید سے منع کیا ہے تو کیا میرے اور آپ کے لئے یہ قبیح بدعت جائز ہوگی؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔
[ لَّـقَدْ كَانَ لَكُمْ فِىْ رَسُوْلِ اللّـٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.....الخ ] (الاحزاب : 21)
’’ کہ میرے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے لئے بہترین ( مکمل ) نمونہ ہے ‘‘۔
اور پھر اللہ تعالیٰ نے مزید ارشاد فرمایا :
[ وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَـهُـمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ وَلَا تَتَّبِــعْ اَهْوَآءَهُـمْ وَاحْذَرْهُـمْ اَنْ يَّفْتِنُـوْكَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ اِلَيْكَ ] (المائدہ : 49)
’’ یعنی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کیجئے ان کی خواہشات کو چھوڑ دیجئے اور اس بات سے بھی ڈرتے رہئے کہ کہیں وہ تم کو اللہ تعالیٰ کے کسی حکم سے بہکا نہ دیں ‘‘۔
قارئین ! غور کریں کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ اے میرے پیغمبر ﷺ اگر تو نے ان کی خواہشات کو تسلیم کرلیا ( ان کی تقلید کرلی ) تو ممکن ہے کہ وہ تجھ کو اللہ تعالیٰ کے کسی حکم سے اعراض کرنے کی پوزیشن میں لا کھڑا کریں۔ اور پھر تفسیر میں اس آیت کا شان نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ بعض یہودی ایک سازش کے تحت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ :
(( یا محمد قد عرفت انا احبار الیھود دواشرافھم وساداتھم وانا ان اتبعناك اتبعك الیھود ولم مخالفونا وان بیننا و بین قومنا خصومه خصومة فنتحاکم الیك فاقض لنا علیھم نومن علیك ونصدقك )) (بحوالہ حاشیہ جلالین 101)
’’ اے محمد ﷺ آپ جانتے ہیں کہ ہم یہودیوں کے علماء بزرگوں اور رؤسا میں شمار ہوتے ہیں ( اور یہ بھی آپ جانتے ہیں کہ ) اگر ہم آپ کی پیروی کرلیں تو باقی یہودی بھی آپ کی پیروی کرلیں گے ہماری مخالفت نہیں کریں گے ( اور بات یہ ہے ) کہ ہمارا اپنی قوم سے کسی معاملہ پر جھگڑا ہو گیا ہے اگر آپ ہماری قوم کے خلاف ہمارے حق میں فیصلہ کردیں گے ( یعنی غلط فیصلہ ہماری تقلید کرتے ہوئے ) تو ہم آپ کے ساتھ ایمان لے آئیں گے اور آپ کی نبوت کی تصدیق کر دیں گے ‘‘۔
یہ تھا معاملہ کہ یہودیوں نے پروگرام بنایا کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے اپنے حق میں غلط فیصلہ کرواتے ہیں تاکہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کام کر گزریں مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے آخر الزماں پیغمبر کو یہودی علماء واشراف کی تقلید سے منع فرما کر امت محمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے ہمیشہ کے لئے یہ قانون بنا دیا کہ اتباع و فرمانبرداری صرف قرآن وحدیث کی کرنی ہے لوگوں کی آراء اور قیاس کو خاطر میں بھی نہیں لانا۔
مقلد بھائیو ! غور کرو کہ اللہ تعالیٰ تو آراء الرجال کی تقلید سے منع فرمائیں اور کیا آپ کسی آدمی کے قیاسات کو ہی دین سمجھ لیں گے؟
مزید سنئے : اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
[ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّـذِىٓ اُوْحِىَ اِلَيْكَ ۖ اِنَّكَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِـيْمٍ (43) وَاِنَّهٝ لَـذِكْـرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۖ وَسَوْفَ تُسْاَلُوْنَ ] (الزخرف : 44-43)
’’ آپ ( اے پیغمبر ﷺ ) وحی الٰہی پر عمل کریں بیشک آپ سیدھی راہ پر ہیں اور وہ وحی ( قرآن مجید ) ذکر ہے آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے اور تم سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا ‘‘۔
یعنی اللہ تعالی نے آپ کو صرف وحی الٰہی کی اتباع کا مکلف بنایا ہے ( خواہ وہ قرآن کی شکل میں ہو یا حدیث کی صورت میں ) کسی کی تقلید کا نہیں اور پھر سوال بھی اس کے متعلق ہی ہوگا کہ قرآن و حدیث پر عمل بھی کیا یا نہیں اور اگر کیا تو کیا بلاچون وچراں قبول کیا یا اپنے امام کے قول کی کسوٹی پر پرکھتے رہے۔
مقلد بھائیو غور کرو اللہ نے اتباع کتاب وسنت کے متعلق سوال کرنا ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ یہ پوچھیں گے کہ تو نے کسی امام کی تقلید بھی کی تھی کہ نہیں۔ ذرا اپنے گریبان میں جھانکو اگر اللہ تعالیٰ نے یہ سوال کیا ( اور وہ یقیناً ایسا کرے گا ) تو کیا؟ ہم یہ کہہ کر بری ہوجائیں گے کہ ہم نے قرآن و حدیث کے صرف وہ احکام تسلیم کئے تھے ہمارے امام کی فقہ کے مطابق تھے۔
[ اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٓ ٖ اَوْلِيَآءَ ۗ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ ] (الاعراف : 3)
’’ صرف اس چیز کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اور اس ( اللہ تعالیٰ کے حکم کے علاوہ اولیاء ( علماء وائمہ وغیرہ ) کی اتباع نہ کرو ‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں بھی صرف وحی الٰہی کی اتباع کا حکم ہو رہا ہے اور وحی الٰہی صرف دو چیزوں ( قرآن و حدیث ) کا نام ہے جیسا کہ امام اعظم محمد رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : (( الا انی اوتیت القرآن و ومثله معه )) [ مشکوٰۃ 30/1 ] یعنی قرآن مجید کی طرح حدیث بھی وحی الٰہی ہے۔ تو مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح صاف الفاظ میں قرآن و حدیث کی اتباع کا حکم فرما کر تقلید کا ردّ کر دیا ہے۔
[ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَاِنْ تَنَازَعْتُـمْ فِىْ شَىْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّـٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُـمْ تُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيْـرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا ] (النساء : 59)
’’ اے ایمان والو! اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں، پھر اگر آپس میں کسی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لاؤ اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو، یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے ‘‘۔
اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے تنازع ( جھگڑے ) کی صورت میں معاملے کو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹانے کا حکم دے کر تقلید کی نفی کر دی ہے۔
اسی بات کو امام ابن قیم جوزیؒ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
(( فمعناہ سبحانه غيره و غير رسوله وھذا یبطل التقلید )) [ اعلام الموقعین 170/2 ]
’’ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے اور اپنے رسول کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف معاملے ( جھگڑے ) کو لوٹانے سے تقلید کا رد کیا ہے ‘‘۔
قارئین امام صاحب نے کس طرح چند الفاظ میں تقلید کے باطل ہونے کی دلیل بیان فرما کر کوزے میں دریا کو بند کر دیا ہے۔ ( فجزاہ اللہ خیراً )
اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف معاملے کو لوٹانے کا مقصد ہے کہ اپنے معاملات کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھو۔
چنانچہ امام ابن قیم اعلام الموقعین میں ہی فرماتے ہیں :
(( اجمع الناس ان الرد الی الله سبحانه هو الرد الى كتابه والرد الى الرسول بعد موته هو الرد الى سنته ))
’’ کہ اس بات پر لوگوں کا اجماع ہے ( یعنی کسی کو بھی اختلاف نہیں ) کہ اللہ تعالیٰ کی لوٹانے کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ( قرآن مجید ) کی طرف لوٹایا جائے اور رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹانے کا مطلب ہے کہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی سنت کی طرف رجوع کیا جائے ‘‘۔
قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنے کا نام اطاعت واتباع ہے اور کتاب و سنت کو چھوڑ کر کسی کی رائے اور قیاس پر عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔ جو آدمی کتاب و سنت سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرے گا وہ تو حق پر ( ہدایت پر ) ہوگا اور جو کوئی کتاب و سنت کے علاوہ کسی دوسرے ( امام یا فقیہ وغیرہ ) کی تقلید کرے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔
جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے :
[ فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا يَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُـمْ ۚ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْـرِ هُدًى مِّنَ اللّـٰهِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الظَّالِمِيْنَ ] (القصص : 50)
’’ پس اگر وہ آپ کی بات ( حدیث ) کو قبول نہ کریں ( قول امام کے مقابلے میں ) تو جان لیجئے کہ بیشک وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی اتباع ( تقلید ) کرتا ہے اس سے بڑا اور کوئی دوسرا گمراہ نہیں ہوسکتا بیشک اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مقلد کو دو القاب عطا کئے ہیں :
- سب سے بڑا گمراہ
- ظالم
(( ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب الله و سنة نبيه )) [ موطا امام مالک ، ص 461 ، باب النھی عن القول القدر ]
جب تک کتاب و سنت ( وحی الٰہی ) پر عمل کروگے گمراہ نہیں ہوگے اور جب قرآن و حدیث کو چھوڑ کر آراء الرجال کی تقلید شروع کر دوگے گمراہ ہوجاؤ گے۔
2- اللہ تعالیٰ نے مقلد کو ظالم اس لئے کہا کہ اتباع حق تھا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا مگر مقلد نے یہ حق کسی امتی کے لئے تسلیم کرکے ظلم کیا کیونکہ ظالم کہتے ہی ایسے شخص کو ہیں جو کسی ایک کے حق کو دوسرے کے لئے تسلیم کرے۔
عربی لغت میں بھی ظلم کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے۔ کسی چیز کا غلط استعمال کرنا۔ کسی چیز کو غیر محل رکھنا۔ (بحوالہ المنجد ص : 622)
اور اللہ تعالیٰ کے فرمان مبارک سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے۔
[ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى يَدَيْهِ يَقُوْلُ يَا لَيْتَنِى اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا ] (الفرقان : 27)
’’ اور قیامت کے دن ظالم یہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا کہ کاش میں نے رسول اللہ ﷺ کے راستے ( حکم ) کی اتباع کی ہوتی۔ ( یعنی تقلید نہ کرتا کسی امتی کی ) ‘‘۔
غور فرمائیں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی اتباع نہ کرنے والے کو ظالم کہا ہے اور پھر آیت کے الفاظ بھی ہمارے دعوے کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ یہ ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا۔ کیا؟ وہ جسم کے کسی اور حصے کو نہیں کاٹ سکتا تھا۔ ضرور کاٹ سکتا تھا مگر وہ ہاتھوں کو اس لئے کاٹے گا کہ یہ ہاتھ رکھنے تو تھے امام اعظم محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر مگر رکھ دیئے کسی امتی ( امام یا پیر ) کے ہاتھ پر اس نے اپنے ہاتھوں کو غیر محل میں رکھا اس لئے مقلد کو اللہ تعالیٰ نے ظالم جیسے لقب سے نواز دیا۔ ( اعاذنا الله منه )
[ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّـٰهُ وَرَسُوْلُـهٝٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُـوْنَ لَـهُـمُ الْخِيَـرَةُ مِنْ اَمْرِهِـمْ ۗ وَمَنْ يَّعْصِ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِيْنًا ] (احزاب : 36)
’’ اور کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کے لئے یہ لائق نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کر دیں تو ان کے لئے اپنے کام ( معاملے ) میں کوئی اختیار ہو اور جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرے گا تو وہ کھلم کھلا گمراہ ہوگیا ‘‘۔
عزیز قارئین ! غور فرمائیں یہ آیت کس قدر تقلید کے ردّ میں واضح ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا ایک فیصلہ ( قرآن و حدیث کی نص ) موجود ہو تو پھر اس میں کمی بیشی کا کسی کو بھی اختیار نہیں۔ مگر یہ حکم صرف مومنوں ( ایمان داروں ) کے لئے ہے وہ خواہ عالم ہوں یا جاہل متبع سنت ہوں یا سنت کے دشمن مقلد کوئی مجتہد ہو یا عامی شخص اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی یہ اختیار نہیں دیا البتہ کافر اس سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے۔ ’’ نولهٖ ما تولى و نصلهٖ جهنم ‘‘ کہ کافر دنیا میں جو چاہے کرتا پھرے قیامت کے دن ہم اس کو جہنم کا ایندھن بنا دیں گے۔
قارئین ! اب غور فرمائیں ایک آدمی ( ہو بھی مسلمان کہلائے بھی محمد رسول اللہ ﷺ کا امتی ) اور پھر یہ کہہ کر حدیث مصطفیٰ ﷺ کو ترک کر دے۔ نحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنيفة۔ [ تقریر ترمذی ص 36 تلبیس ابلیس ص 94 ] ’’ کہ ہم تو امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں اس لئے ہم ان کی ہی تقلید کریں گے خواہ ان کا قول حدیث پیغمبر کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے آدمی کے متعلق تو پھر مقلدین حضرات ہی کچھ بتا سکتے ہیں۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
بھائیو ! یہ سب شیطانی پھندے ہیں ان سے بچ جاؤ کبھی حدیث کو ٹھکرانے کے لئے منسوخ تصور کیا جاتا ہے اور کبھی اس کے معارض ( مقابلہ میں ) دوسری روایت ہونے کا درس دیا جاتا ہے اور کبھی حدیث کی تاویل کرنے کو اصول کا نام دیا جاتا ہے اور شیطان بھی تو اسی طرح آدمی کو اپنے جال میں پھنساتا ہے۔ چنانچہ علامہ ابن قیم جوزیؒ نے اسی بات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
(( فان ابلیس زین للمقلدین ان الادلة قد تشبته والصواب قد يخفى والتقليد سليم و قد ضل فى هذا الطريق خلق كثير وبه هلآك عامة الناس )) [ بحوالہ تلبیس ابلیس ص : 94 ]
بیشک شیطان نے مقلدین کے لئے اس بات کو مزین کیا ہے کہ دلیلیں کبھی مشتبہ ہوتی ہیں ( کوئی حدیث صحیح ہے اور کوئی ضعیف ) تو اس طرح راہ صواب ( ہدایت ) مخفی ہوجاتی ہے تو پھر تقلید کرلینا ہی سلامتی کی راہ ہے اس راہ تقلید میں بہت سی مخلوق گمراہ ہوئی اور لوگوں پر تباہی بھی عموماً اسی وجہ سے آئی۔
علامہ ابن قیم کے تجزئیے کو حنفی مقلدین نے حرف بحرف پورا کر دکھایا ہے۔ چنانچہ مولوی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ عامی مقلد ایسا نہیں ہوتا جو دلائل کے راجح و مرجوح ہونے کا فیصلہ کرسکے بلکہ ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی ایسی حدیث نظر آجائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ ( عامی ) اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے اور حدیث کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا صحیح مطلب میں نہیں سمجھ سکا یا یہ کہ امام مجتہد کے پاس اس کے معارض ( خلاف ) کوئی قوی دلیل ہوگی۔
آگے چل کر مزید بیان کرتے ہیں :
اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پا کر اپنے امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے تو اس کا نتیجہ شدید افرتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ [ تقلید کی شرعی حیثیت ص : 87 ]
قارئین ! غور کرو حدیث پر عمل کرنے کو حنفی مصنف گمراہی قرار دے رہا ہے جناب عثمانی صاحب اللہ کے لئے غور کرو ! اگر حدیث پر عمل کرنا گمراہی ہے اور اس سے افراتفری پیدا ہوتی ہے تو پھر ہدایت کا جام کہاں سے لاؤگے۔
ویسے حدیث پر عمل کرنے سے حنفیت کے ایوانوں میں موجود حنفیوں میں ضرور افراتفری پھیل جاتی ہے کیونکہ جب کوئی آدمی حدیث مصطفیٰ پر عمل کرتا ہے تو ان مقلدین کو حنفیت کی بنیادیں ہلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
مقلدین کی ذہنیت کا اندازہ لگا کر علامہ ابن قیم نے درست فرمایا تھا کہ :
(( فان ابلیس لما تمکن من الاغبیاء فورطھم فی التقلید وساقھم سوق البھائم )) [ تلبیس ابلیس ص : 95 ]
’’ کہ شیطان نے احمقوں ( بیوقوفوں ) کو اپنے قابو میں لاکر تقلید کے گرداب میں ڈبو دیا اور جانوروں کی طرح ان ( مقلدین ) کو امام ( متبوع ) کے پیچھے ہانک دیا ‘‘۔
کیوں قارئین ! علامہ ابن قیم کا تجزیہ درست ہے یا نہیں؟ اگر سمجھ نہیں آئی تو مولانا تقی عثمانی کے الفاظ دوبارہ پڑھ لو۔ ان شاء اللہ العزیز فیصلہ خود بخود ہوجائے گا۔
[ وَاِذَا قِيْلَ لَـهُـمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَا ۗ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُـمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَيْئًا وَّلَا يَـهْتَدُوْنَ ] (البقرۃ : 170)
’’ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو کہتے ہیں بلکہ ہم تو ان افعال کی پیروی کریں گے جن پر ہم نے اپنے آباء واجداد کو پایا تھا اگرچہ ان کے آباء واجداد عقل نہ رکھتے ہو اور نہ ہی ہدایت بھی ‘‘۔
یعنی اگرچہ ان کے بزرگ ( اکابر ) عقل اور ہدایت ( کتاب و سنت ) کے خلاف ہی فعل کیوں نہ کرتے ہوں انہیں کتاب وسنت کو چھوڑنا تو آسان تھا مگر اپنے بزرگوں کے افعال و اقوال کو چھوڑنا محال تھا۔ اس آیت کو بھی پڑھو اور مولانا تقی عثمانی حنفی کی مذکورہ بالا عبارت کو دوبارہ پڑھ کر آج کے مقلدین کے متعلق غور کرو کہ ان کی کڑیاں کہاں سے ملتی ہیں ہم نے تو صرف نشان دہی کی تھی۔
مزید سنئے ارشاد باری تعالٰی
[ وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَيْـهَآ اٰبَآءَنَا وَاللّـٰهُ اَمَرَنَا بِـهَا ۗ قُلْ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ ۖ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّـٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ] (الاعراف : 28)
’’ اور جب وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ہم کو ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے کہہ دیجئے ( اے پیغمبر ﷺ ) کہ بیشک اللہ تعالیٰ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا کیا؟ اللہ تعالیٰ پر ایسی بات کہتے ہو جو تم نہیں جانتے ‘‘۔
مقلدین حضرات ! غور کرو کہیں تم بھی تو اس آیت کی زد میں نہیں آ رہے۔ ایک تو اپنے ائمہ کے کتاب وسنت کے خلاف احکامات کو بجا لاتے ہو اور دوسرا تقلید جیسی بدعت کو ثابت کرنے کے لئے قرآن مجید کا سہارا تلاش کرتے ہو۔
آئیے ! ذرا بحر العلو علامہ شوکانیؒ کا فیصلہ بھی سن لیجئے فرماتے ہیں کہ :
(( وان فی ھذہ الایة الشريفة لآعظم زاجر وابلغ واعظ للمقلدہ الذین یتبعون اباءھم فی المذاھب المخالفة للحق فان ذلك من الاقتداء باھل الکفر لا باھل الحق فانھم القائلون انا وجدنا اباءنا علی امة و انا علی اثارھم مقتدون )) [ فتح القدیر 198/2 ]
’’ اور اس آیت میں مقلدین کے لئے ڈانٹ اور درس پند و موعظت ہے جو حق کے خلاف مذاہب میں اپنے آباء کی پیروی کرتے ہیں تو یہ اہل کفر ( کفار ) کی پیروی ہے اہل حق کی نہیں تو بیشک وہ ( اہل کفر ) یہی کہتے تھے ( آج کے مقلدین کی طرح ) کہ ہم نے اپنے باپوں کو ایک مذہب پر پایا ہے اور ہم بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں ‘‘۔