• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ارکان اسلام میں سے پہلا رکن یہ گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں اور بے شک محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
577
ری ایکشن اسکور
185
پوائنٹ
77
تعلموا أمر دينكم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ارکان اسلام میں سے پہلا رکن:


ان تشھد ان لا الٰہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ۔

گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں اور بے شک محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

ان تشھد ان لا الٰہ الا اللہ کا معنٰی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔

شرح: یعنی اللہ کے سوا کوئی بھی اس بات کا حق نہیں رکھتا کہ اس کے لئے عبادات میں سے کوئی بھی عبادت سر انجام دی جائے۔ اور اس کلمہ کے معنی کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم عبادت کے معنی کو پہچان لیں۔

عبادت کی تعریف: العبادة اسم جامع لكل ما يحبه الله ويرضاه من الأقوال والأفعال الظاهرة والباطنة

عبادت ایک ایسا جامع لفظ ہے جو ان تمام ظاہری اور باطنی اقوال وافعال کو شامل ہے، جنہیں اللہ پسند فرماتا ہے اور اس سے خوش ہوتا ہے۔ (جیسے نماز، دعا، ذبح، توکل، خوف) چنانچہ جس شخص نے نماز، دعا اور ذبح کو اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے انجام دیا، اس نے لا الٰہ الا اللہ کی گواہی کو عملاً ثابت نہیں کیا۔ اگرچہ زبان سے وہ اسکا اقرار کرتا ہو ۔

پس یہ عظیم کلمہ دو رکن پر قائم ہے۔

الرکن الاول : لا الٰه۔
یہ تردید کرتا ہے اور نفی کرتا ہے ان تمام معبودوں کی جنکی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے (اور یہی کفر بالطاغوت ہے)۔

الرکن الثانی : الا اللہ۔ یہ رکن اللہ کی عبادت کو ثابت کرتا ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

تو پس ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ اللہ کے لئے عبادت ثابت کرنے سے پہلے طاغوت کا انکار کرے۔ اور اسکی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی [سورة البقرة: ٢٥٦]

”جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے، اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا۔“

لیکن سوال یہ آتا ہے کہ طاغوت کسے کہتے ہیں اور ہم اسکا انکار کیسے کریں گے ؟


الطاغوت ((طاغوت کی تعریف ))

  • طاغوت لغت میں الطغیان سے مشتق ہے اور اسکا معنی ہے حد سے تجاوز کرنا۔
  • اصطلاح میں : ما تجاوز به العبد حده من معبود او متبوع او مطاع۔ طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی وجہ سے بندہ حد سے تجاوز کرجائے، خواہ عبادت میں ہو، تابعداری میں ہو یا اطاعت میں۔
چنانچہ ہر قوم کا طاغوت وہ ہے جسکی طرف وہ اللہ اور اسکے رسول کو چھوڑ کر فیصلوں کے لئے رجوع کرتے ہیں یا اللہ کے علاوہ اسکی عبادت کرتے ہیں یا بلا دلیل اور بغیر بصیرت کے اسکی اتباع کرتے ہیں۔

طاغوت کی اقسام: طاغوت کی تین قسمیں ہیں:

اولاً: عبادت کا طاغوت: ہر وہ جسکی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے، خواہ وہ شیطان کی صورت میں ہو یا انسان کی صورت میں۔ چاہے زندہ ہو یا مردہ۔ انسان کے طاغوت ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ اپنی عبادت پر راضی ہو۔ پھر خواہ وہ طاغوت حیوانات کی صورت میں ہو یا جمادات یعنی پتھر یا درخت کی صورت میں ہو یا پھر ستاروں میں سے کسی ستارہ کی صورت میں ہو۔ پھر یہ عبادات خواہ غیر اللہ کے لئے قربانی اور نذر ونیاز پیش کرنے کی صورت میں ہو یا نماز اور دعا کی صورت میں ہو۔ اسکی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

وَ الَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ يَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰى ١ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِۙ [سورة الزمر: ۱۷]

”اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے پرہیز کیا اور (ہمہ تن) اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے وه خوش خبری کے مستحق ہیں، میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔“

ثانیاً: حکم کا طاغوت: ہر وہ جسکی طرف اللہ کو چھوڑ کر فیصلوں کے لئے رجوع کیا جائے خواہ وہ شرکیہ دستور ہو یا وضعی قانون یا وہ شخص ہو جو اللہ کی نازل کردہ شریعت سے ہٹ کر فیصلے کرتا ہو، خواہ یہ فیصلہ کرنے والا سلطان کی صورت میں ہو یا قاضی کی صورت میں یا ان جیسے دیگر کسی صورت میں۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْۤا۠ اِلَى الطَّاغُوْتِ [
سورة النساء: ٦٠]

”وه اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔“

اور اللہ کا یہ فرمان ہے:

اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ١ؕ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَؒ [سورة المائدة: ۵۰]

”کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والاکونہوسکتاہے؟“


ثالثاً: تابعداری کا طاغوت: اسکی مثال حرام کو حلال کرنے اور حلال کو حرام کرنے، ڈیموکریسی اور قوانین وضعیہ جیسے طواغیت کے احکام ( قوانین) مقرر کرنے میں علماء سوء کی تابعداری کرنا۔ ہر انسان کو یہ جان لینا چاہئے کہ تشریع (یعنی قانون سازی) صرف اللہ جل وعلا کی خاصیتوں میں سے ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّ هٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَؕ [سورة النحل: ۱۱۶]

”کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھ لو، سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں۔“

نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ [سورة التوبة: ٣١]

”ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے۔“

اس آیت کی تفسیر میں یہ بات ذکر ہے کہ ان علماء اور درویشوں نے اللہ کی حرام کردہ اشیاء کو حلال کردیا اور اللہ کی حلال کردہ اشیاء کو حرام کردیا تھا اور اس معاملہ میں لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر رب بنالیا تھا۔

طواغیت ویسے تو بہت ہیں لیکن انکے رؤساء پانچ ہیں:
  1. شیطان۔
  2. وہ حاکم جو اللہ کے احکامات کو تبدیل کردے۔
  3. اللہ کی شریعت سے ہٹ کر دوسرے قوانین سے فیصلہ کرنے والا۔
  4. جو شخص اللہ کے غیب جاننے کا دعویدار ہو۔
  5. جسکی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے اور اس پر راضی ہو۔
کفر بالطاغوت کا انداز اور طریقہ کار:
  • اس طاغوت کے باطل ہونے کا اعتقاد رکھنا۔
  • طاغوت کو ترک کرنا اور اس سے براءت اختیار کرنا۔
  • طاغوت سے بغض وعداوت رکھنا۔
  • اہل طاغوت کی تکفیر کرنا۔
  • اللہ کے لئے ان سے دشمنی اور دوری اختیار کرنا۔
اور اسکی دلیل اللہ تعالی کا یہ قول ہے :

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْۤ اِبْرٰهِيْمَ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ١ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ٞ كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَ مَاۤ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ١ؕ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَ اِلَيْكَ اَنَبْنَا وَ اِلَيْكَ الْمَصِيْرُ [
سورة الممتحنہ: ۴]

”(مسلمانو!) تمہارے لیے ابراہیم علیہ السلام میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں۔ جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ، ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لیے بغض وعداوت ظاہر ہوگئی۔ لیکن ابراہیم کی اتنی بات جو اپنے باپ سے ہوئی تھی کہ میں تمہارے لیے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لیے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں۔ اے ہمارے پروردگار! تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔“

پس جس شخص کے اندر یہ صفت ثابت نہ ہو وہ اللہ پر ایمان لانے والا اور طاغوت کا منکر نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کے برعکس ہوگا۔ کیونکہ ایمان بالطاغوت اور ایمان باللہ یہ آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہیں، جو کسی انسان کے دل میں ایک ساتھ ہرگز جمع نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص کے اندر بیک وقت یہ دو صفتیں ہوں کہ وہ مشرک بھی ہو اور موحد بھی۔ بلکہ یہ ضروری ہے کہ اسکےاندر ان دو صفتوں (ایمان یا کفر) میں سے کوئی ایک صفت لا محالہ موجود ہو۔ اسکے علاوہ کوئی تیسری صفت کا وجود نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :


هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ١ؕ [سورة التغابن: ٢]

”اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ سو تم میں سے بعض تو کافر ہیں اور بعض ایمان والے ہیں۔“

نیز ارشاد فرمایا :

اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا [سورة الدہر: ۳]

”ہم نے اسے راه دکھائی اب خواه وه شکر گزار بنے یا ناشکرا۔“

پس یہ طاغوت ہے جسکے بارے میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اسکے ساتھ کفر کریں اور اس سے اجتناب کریں اور اسکی عبادت سے ہمیں منع کیا گیا اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس طاغوت کو ترک کر دیں اور اس طاغوت کے ماننے والوں کی تکفیر کریں اور ان سے عداوت کریں۔

یہ کلمہ (( لا اله إلا الله)) اپنے پڑہنے والے کو اس وقت تک فائدہ نہیں دے سکتا جب تک اس میں کچھ شروط نہ ہو۔

لا الـه إلا الله کی شروط

یہ جان لیجیے- اللہ آپ کو توفیق دے- کہ ہمارا مقصد فقط ان شروط کو شمار کرنا اور زبانی حفظ کرنا نہیں ہے، کیونکہ کتنے ہی ایسے لوگ موحود ہیں، جن میں یہ شروط جمع ہیں اور انہوں نے اس کا التزام کیا ہوا ہے۔ لیکن اگر ان سے کہا جائے کہ اسے شمار کریں تو وہ اسے اچھے طریقے سے نہیں کر پائیں گے اور اسکے برعکس کتنے ہی ایسے لوگ ہیں، جنہیں ان شروط کے الفاظ و حروف تو بہت اچھے طریقے سے یاد ہیں، لیکن وہ ایسے معاملات میں پڑے ہیں، جو ان شروط کے متضاد ہیں۔


پہلی شرط: ایسا علم جسکی ضد جہل ہے۔ یعنی کلمہ پڑہنے والے کو نفی اور اثبات دونوں اعتبار سے اس کلمہ کا معنی ومقصود کا علم ہو اور لا اله إلا الله کا معنی ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے اور وہ تمام معبودین، جنکی اللہ کے علاوہ لوگ عبادت کرتے ہیں، وہ سب باطل ہیں۔ اس شرط کی دلیل اللہ تعالی کا یہ قول ہے:


اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَ هُمْ يَعْلَمُوْنَ [سورة الزخرف: ۸۶]

”ہاں (مستحق شفاعت وه ہیں) جو حق بات کا اقرار کریں اور انہیں علم بھی ہو۔ ( یہاں حق سے مراد توحید ہے)۔“

اور اللہ تعالی کا یہ قول ہے :

فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۠ وَ الْمُؤْمِنٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَ مَثْوٰىكُمْؒ [سورة محمد: ۱۹]

”سو (اے نبی!) آپ جان لیجئے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی، اللہ تم لوگوں کی آمد ورفت کی اور رہنے سہنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے۔“

اور نبی ﷺ کا یہ فرمان ہے:

من مات وهو يعلم أنه لا إله إلا الله دخل۔(رواه مسلم من حديث عثمان بن عفان)

”جو شخص اس حالت میں اس دنیا سے گیا کہ وہ جانتا تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔“


دوسری شرط: ایسا یقین جسمیں شک کی گنجائش نہ ہو۔ یعنی جو شخص کلمہ لا إله إلا الله کا اقرار کرتا ہو، اس کے لئے لازم ہے کہ وہ اس کلمہ کے مدلول پر ایسا پختہ یقین رکھتا ہو، جس میں کسی قسم کے تردد اور غور کرنے کی گنجائش نہ ہو۔ کیونکہ یہ ایمان صرف اسی صورت میں نفع بخش ہوتا ہے جب اس میں یقین ہو اور اس میں ظن (گمان) داخل نہ ہو۔ تو وہ ایمان پھر کیسے فائدہ مند ہوسکتا ہے، جس میں شک داخل ہوچکا ہو (جو درجہ میں ظن سے بڑھ کر ہے) والعیاذ باللہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ [سورة الحجرات: ۱۵]

”مومن تو وه ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر (پکا) ایمان لائیں، پھر شک وشبہ نہ کریں اور اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے اللہ کی راه میں جہاد کرتے رہیں (اپنے دعوائے ایمان میں) یہی سچے اور راست گو ہیں۔“

نبی ﷺ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

اذهب بنعلي هاتين، فمن لقيت من وراء هذا الحائط يشهد أن لا إله الله مستيقناً بها قلبه فبشره بالجنة [رواه مسلم]

”میری ان دو جوتیوں کو لے جاؤ اور اس باغ کے باہر جو بھی ایسا شخص ملے اور دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے تو اسے جنت کی بشارت دے دینا۔“

اور ایک روایت میں ہے کہ جو بندہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس شہادتین کی گواہی بغیر کسی شک وشبہ کے دیتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔

تیسری شرط: ایسا اخلاص جس میں شرک نہ ہو یعنی اپنے عمل کو صالح نیت کے ذریعے ہر قسم کے شرک کی ملاوٹ سے پاک کیا جائے اور بندہ تمام عبادات میں اپنے رب کے لئے اخلاص پیدا کرے اور جب وہ ان عبادات میں کوئی عبادت کسی نبی؛ ولی؛ فرشتے؛ بت یا جن میں سے کسی کے لئے انجام دے گا تو گویا اس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اور اس شرط یعنی اخلاص کی مخالفت کرتا ہے۔ اسکی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَؕ [
سورة الزمر: ۲]

”پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے۔“

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَ الَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُوْنَۙ [سورة المؤمنون : ۵۹]

”اور وہ لوگ اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔“

نبی ﷺ نے فرمایا:

أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ أَوْ نَفْسِهِ۔ [رواه البخاري]

”قیامت کے دن لوگوں میں سب زیادہ خوش نصیب وہ شخص ہوگا جو دل کے خلوص کے ساتھ کلمہ لا إله إلا الله کا اقرار کرتا ہوگا۔“

ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

من لقي الله لا يشرك به شيئاً دخل الجنة، ومن لقيه يشرك به شيئاً دخل النار۔ [اخرجه مسلم]

”جو اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ہوگا تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اس سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بناتا ہوگا تو وہ آگ میں داخل ہوگا۔“


چوتھی شرط: ایسی سچائی جس میں جھوٹ شامل نہ ہو۔ یعنی لا إله إلا الله کا دل کی سچائی کے ساتھ اس انداز سے اقرار کرنا کہ دل زبان کے موافق اور مطابق ہو۔ اگر کسی نے اس کلمہ کا صرف زبان سے اقرار کیا اور اس کا دل اسکے معنی پر ایمان نہ رکھتا ہو تو اس کا شمار منافقین کی جماعت میں سے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اِذَا جَآءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ١ۘ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَۚ [سورة المنافقون: ۱]

”تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اس بات کے گواه ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اس کے رسول ہیں۔ اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعاً جھوٹے ہیں۔“

اور حدیث میں ہے نبی ﷺ کا فرمان ہے :

ما من يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صدقاً من قلبه إلا حرمة الله على النار۔ [
أخرجاه من حديث انس رضي الله عنه]

پانچویں شرط: ایسے قبول کرنا کہ اس میں تردید کا شائبہ تک نہ ہو۔ یعنی کلمہ پڑہنے والا شخص اس کلمہ کے مدلول کو اپنے دل اور زبان سے قبول کرلے اور اس پر راضی ہو جائے۔ کیونکہ مشرکین بھی اس کلمہ کے معنی کو پہچانتے تھے لیکن اسے قبول نہیں کرتے تھے۔ پس اللہ نے انکی مذمت کرتے ہوئے فرمایا :

اِنَّهُمْ كَانُوْۤا اِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ١ۙ يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ۙ [سورة الصَّافات : ۳۵]

”یہ وه (لوگ) ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ سرکشی کرتے تھے۔

چھٹی شرط:
اس کلمہ کی اس انداز سے کامل تابعداری کرنا کہ اسمیں ترک اطاعت نہ ہو۔ یعنی یہ کلمہ جس (معنی ومفہوم) پر دلالت کرتا ہے، اسکی تابعداری اور اطاعت کی جائے اور اکیلے اللہ کی عبادت کی جائے۔ اور اسکی شریعت پر عمل کیا جائے اور اس کی شریعت پر ایمان لایا جائے اور اسکے حق ہونے کا اعتقاد رکھا جائے۔ انقیاد اور قبول کے درمیان فرق یہ ہے کہ انقیاد کہتے ہیں افعال کے ذریعے اتباع کرنا اور قبول کا مطلب ہے اپنے قول کے ذریعے اسکے معنٰی کی صحت کا اظہار کرنا اور ان دونوں سے جو مشترکہ نتیجہ نکلتا ہے وہ ہے اتباع۔ لیکن انقیاد، استسلام اور اذعان کو کہتے ہیں (یعنی اطاعت و فرمانبرداری اور تسلیم کرنا) اور عمل کو ترک نہ کرنا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

وَ اَنِيْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ [سورة الزُّمَر : ٥٤]

”تم (سب) اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کیے جاؤ۔“

نیز ارشاد فرمایا :

وَ مَنْ يُّسْلِمْ وَجْهَهٗۤ اِلَى اللّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ [سورة لقمان: ۲۲]

”اور جو (شخص) اپنے آپ کو اللہ کے تابع کردے اور ہو بھی وه نیکوکار یقیناً اس نے مضبوط کڑا تھام لیا، تمام کاموں کا انجام اللہ کی طرف ہے۔“

اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:

فإذا نهيتكم عنشيء فاجتنبوه و إذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم۔ [أخرجه البخاری من حديث أبي هريرة رضي الله عنه]

”جب میں تم لوگوں کو کسی کام سے روکو تو تم اس سے اجتناب کرو اور جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جتنی استطاعت ہو اسے پورا کرو ۔“


ساتویں شرط: ایسی محبت کہ جس میں اسکی ضد، بغض اور کراہیت شامل نہ ہو۔ پس بندے پر واجب ہے کہ وہ اللہ سے محبت کرے اور جن چیزوں سے اور جن لوگوں سے اللہ محبت کرتا ہے ان چیزوں اور ان لوگوں سے محبت کرے اور اس کلمہ توحید اسکے تقاضوں اور جس پر یہ کلمہ دلالت کرتا ہے اس سے بھی محبت کرے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ١ؕ [سورة البقرة: ١٦٥]

”اور وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ سے شدید محبت رکھتے ہیں۔“

اور حدیث میں ہے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :

لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحبَّ إليه من ولده ووالده والناس أجمعين۔ [متفق عليه]

”تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اسکے بچوں، والد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔“
 
Top