• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ازالة الكرب عن توثيق سماك بن حرب

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
’’سماك بن حرب بن أوس بن خالد بن نزار‘‘ بخاری شواہد ، مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔
یہ ثقہ ہیں محدثین کی ایک بڑی جماعت نے ان کی توثیق کی ہے ۔چنانچہ آگے ہم پینتیس(35) محدثین سے ان کی توثیق پیش کریں گے ان شاء اللہ۔
صرف عکرمہ سے ان کی روایت پر جرح کی گئی ہے اوربعض نے اخیر میں ان کے حافظہ کو متغیر بتلایا ہے۔لہذا ان کی جو روایات عکرمہ کے علاوہ دیگررواۃ سے ہیں اور ابتدائی زمانہ کی ہیں وہ بلاشک وشبہہ صحیح ہیں اوران روایات میں یہ ثقہ ہیں۔
سب سے پہلے ہم سماک سے متعلق جرح کے اقوال کا جائزہ لیتے ہیں اس کے بعد اخیرمیں ہم پینتیس(35) محدثین سے ان کی توثیق پیش کریں گے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اقوال جارحین


امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
وسماك ليس بالقوي وكان يقبل التلقين
سماک بہت زیادہ قوی نہیں ہیں اور یہ تلقین کوقبول کرتے تھے[سنن النسائي الكبرى 3/ 231]

اورایک دوسرے مقام پر کہتے ہیں:
فسماك بن حرب ليس ممن يعتمد عليه إذا انفرد بالحديث لأنه كان يقبل التلقين
سماک بن حرب جب کسی روایت کے بیان میں منفرد ہوں تو ان پراعتماد نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ تلقین کوقبول کرتے تھے[سنن النسائي الكبرى 2/ 251]

عرض ہے کہ امام نسائی متشددین میں سے ہیں جیساکہ امام ذہبی اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا ہے دیکھئے :[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 437، مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 387]
لہٰذا موثقین کے مقابلہ میں ان کی تضعیف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

علاوہ بریں امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی جرح کا سبب یہ بتلایا ہے کہ یہ تلقین قبول کرتے تھے اور دیگر محدثین نے تلقین قبول کرنے والی بات کی تفصیل یہ بتلائی ہے کہ یہ عکرمہ سے روایت کرتے وقت تلقین قبول کرتے تھے چنانچہ:

امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160)نے کہا:
حدثني سماك، أكثر من كذا وكذا مرة، يعني حديث عكرمة‍: «إذا بنى أحدكم فليدعم على حائط جاره، وإذا اختلف في الطريق» وكان الناس ربما لقنوه فقالوا: عن ابن عباس؟ فيقول: نعم، وأما أنا فلم أكن ألقنه
سماک نے مجھ سے عکرمہ کی یہ روایت ’’إذا بنى أحدكم فليدعم على حائط جاره، وإذا اختلف في الطريق‘‘ کئی بار بیان کی ہے اور لوگ بسااوقات انہیں تلقین کرتے اور کہتے ’’عن ابن عباس‘‘ ؟ یعنی کیا یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؟ تو سماک کہتے : ہاں ! ۔لیکن میں نے انہیں کبھی تلقین نہیں کی[الضعفاء الكبير للعقيلي: 2/ 178 واسنادہ حسن]

نوٹ: اس قول کی سند حسن ہے ، امام عقیلی کے استاذ ’’محمد بن موسى‘‘ یہ ’’محمد بن موسى بن حماد البربري‘‘ ہے کیونکہ امام عقیلی جب اپنے استاذ کی جگہ ’’محمد بن موسى‘‘ کہتے ہیں تو اس سے مراد ’’محمد بن موسى بن حماد البربري‘‘ ہوتے ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ ’’المفضل بن غسان‘‘ کے طریق میں بھی امام عقیلی نے اپنے استاذ کو متعدد بار ’’محمد بن موسى‘‘ بتلایا ہے مثلا دیکھئے:[الضعفاء الكبير للعقيلي: 3/ 336]۔اور بعض دفعہ اس طریق میں ان کا پورا نام ’’محمد بن موسى بن حماد البربري‘‘ بتلایا ہے،مثلا دیکھئے:[الضعفاء الكبير للعقيلي: 2/ 114]۔
اور یہ صدوق ہیں۔امام ذہبی نے’’الإمام، الحافظ، الباهر‘‘کہا ہے[سير أعلام النبلاء للذهبي: 14/ 91]۔امام حاکم نے ان کی روایت کو صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے تائید کی ہے دیکھیں:[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 3/ 37] ۔ امام دارقطنی نے ’’لیس بالقوی‘‘ کہا ہے لیکن یہ جرح قادح نہیں ہے جیساکہ ہم نے اس کی پوری تفصیل اپنی کتاب ’’یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ: ص 677 تا 679 ‘‘ میں پیش کی ہے۔

قاضی شریک بن عبداللہ النخعی (المتوفى177 أو 178) نے بھی یہی بات کہی ہے کماسیاتی۔ دیکھئے: ص

امام شعبہ اور شریک رحمہما اللہ کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ تلقین قبول کرنے والی جو جرح ہے اس کا تعلق عکرمہ والی سند سے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دیگرکئی محدثین نے خاص عکرمہ ہی سے سماک کی روایت کو مضطرب بتلایا ہے کماسیاتی ۔لہٰذا اسے ہرجگہ عام کرنا اور اس کی وجہ سے انہیں مطلق ضعیف قرار دینا یہ امام نسائی رحمہ اللہ کا تشدد ہے جو قابل قبول نہیں۔

امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456)نے کہا:
سماك بن حرب وهو ضعيف يقبل التلقين
سماک بن حرب ، یہ ضعیف ہیں ، تلقین قبول کرتے ہیں[المحلى لابن حزم: 9/ 391]

عرض ہے کہ یہاں پر وہی بات ہے جسے امام نسائی کے قول کے تحت پیش کیا گیا بلکہ خود ابن حزم نے کہا:
سماك بن حرب ضعيف يقبل التلقين شهد عليه بذلك شعبة
سماک بن حرب ضعیف ہیں یہ تلقین قبول کرتے تھے جیساکہ شعبہ نے اس کی شہادت دی ہے[المحلى لابن حزم: 7/ 452]

عرض ہے کہ امام شعبہ کی شہادت صرف عکرمہ والی سند کے ساتھ خاص ہے کمامضی۔ لہٰذا اسے عام مان کر سماک کوعلی الاطلاق ضعیف بتلانا درست نہیں ہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
درج ذیل اقوال سے تضعیف ثابت نہیں ہوتی


امام سفیان ثوری رحمہ اللہ (المتوفى161) سے منقول ہے:
سماك بن حرب ضعيف
سماک بن حرب ضعیف ہے۔[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 541 واسنادہ ضعیف]
اس قو ل کی سند ضعیف ہے۔کیونکہ اس کی سند میں ''محمد بن خلف بن عبد الحميد'' مجہول ہے۔
لیکن اما م یعقوب بن شیبہ نے زکریابن عدی کے حوالہ سے یہ قول نقل کیا ہے اوراس میں سفیان ثوری کاحوالہ چھوٹ گیا ہے۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس قول کی کوئی اصل ہے[تهذيب الكمال للمزي: 12/ 120 نقلہ عن یعقوب ۔نیز دیکھیں:التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 16/ 14]۔
اور حقیقت میں یہ قول سفیان ثوری ہی کا ہے جیساکہ ابن عدی کی روایت سے معلوم ہوتاہے۔ ابن عدی کی سند گرچہ ضعیف ہے لیکن حافظ یعقوب بن شیبہ کے نقل سے اس کے اصل کی تائید ہوتی لہٰذا دونوں کو ملا کریہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ سفیان ثوری ہی کا قول ہے۔دیکھئے:[تنقيح التحقيق لابن عبد الهادي بتحقیق سامی: 1/ 48 حاشیہ نمبر5]

لیکن سفیان ثوری کی اس تضعیف سے مراد معمولی درجے کی تضعیف ہے جیساکہ سفیان ثوری ہی سے ایک دوسراقول منقول ہے جس سے معلوم ہوتا ہےکہ سفیان ثوری سماک میں معمولی درجہ کا ضعف مانتے تھے چنانچہ:

امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
وكان سفيان الثوري يضعفه بعض الضعف
سفیان ثوری ان کے اندرکچھ ضعیف بتلاتے تھے[تاريخ الثقات للعجلي: ص: 207 بدون سند]

دوسری طرف سفیان رحمہ اللہ نے یہ کہا:
ما يسقط لسماك بن حرب حديث
سماک بن حرب کی کوئی حدیث ساقط نہیں[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 9/ 214 واسنادہ صحیح]
اوراس کا مطلب یہی ہے کہ سفیان ثوری کے نزدیک سماک بن حرب ثقہ ہیں جیساکہ معدلین کے اقوال میں نمبر (2) کے تحت مزید تفصیل آرہی ہے دیکھئے: ص۔۔

اوراس توثیق کی روشنی میں ان کی تضعیف کی تفسیر یہی کی جائے گی کہ اس سے معمولی درجے کا ضعف مراد جیساکہ امام عجلی نے صراحۃ یہی بات ان کے حوالہ سے نقل کی ہے،کمامضی۔
یاپھر یہ کہ اس سے مراد بعد میں ان کا مختلط ہونا ہے جیساکہ حافظ یعقوب نے اس قول کی یہی تفسیر کی ہے لیکن انہوں نے اسے سفیان ثوری کے شاگرد ابن المبار ک کی طرف منسوب کردیا ہے جوکہ سہوہے۔جیساکہ وضاحت کی گئی۔


جرير بن عبد الحميد الضبي (المتوفى188)نے کہا:
أتيت سماك بن حرب فوجدته يبول قائما فتركته، ولم أسمع منه
میں سماک بن حرب کے پاس آیا تو میں نے انہیں کھڑے ہوکر پیشاکرتے ہوئے دیکھا تو میں نے انہیں چھوڑ دیا اور ان سے کچھ بھی نہیں سنا[الضعفاء الكبير للعقيلي: 2/ 178 واسنادہ صحیح]
عرض ہے کہ ممکن ہے سماک بن حرب کسی عذر کی وجہ سے کھڑے ہوکر پیشاب کررہے ہوں ، اس لئے محض اتنی سی بات سے کسی پر تنقید نہیں کی جاسکتی ۔کیونکہ اس طرح کی بات توبعض صحابہ سے بھی ثابت نہیں چنانچہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے بھی کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ثابت ہے۔دیکھئے:[موطأ مالك ت عبد الباقي: 1/ 65 واسنادہ صحیح]
احناف کے امام محمد نے بھی ابن عمررضی اللہ عنہ کا یہ عمل نقل کیا ہے دیکھئے:[موطأ محمد بن الحسن الشيباني: ص: 343]
بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ثابت ہے۔[صحيح البخاري 1/ 54 رقم224]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل ابوحنیفہ کی طرف منسوب مسند ابی حنیفہ میں بھی منقول ہے۔دیکھئے:[جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 250]

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
مضطرب الحديث
یہ حدیث میں اضطراب کے شکار ہوجاتے ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 279 واسنادہ صحیح]

نوٹ:
اس قول کی سند میں امام ابن ابی حاتم کے استاذ ’’محمد بن حمويه بن الحسن‘‘ ثقہ ہیں ۔امام ابن ابی حاتم نے ان سے روایت بیان کیا ہے اور امام ابن ابی حاتم صرف ثقہ ہی سے روایت بیان کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک مقام پر ایک راوی کے بارے میں خود انہوں نے کہا:
كتبت عنه وامسكت عن التحديث عنه لما تكلم الناس فيه
میں نے ان سے لکھا لیکن ان سے روایت بیان کرنے سے رک گیا کیونکہ لوگوں نے ان پر کلام کیا ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 62]
معلوم ہواکہ غیرثقہ راوی سے امام ابن ابی حاتم روایت بیان نہیں کرتے تھے جیساکہ ان کے والدکا بھی یہی معمول تھا ۔اور’’محمد بن حمويه بن الحسن‘‘ سے امام ابن ابی حاتم نے تقریبا ڈھائی سو روایات بیان کی ہیں ۔ لہٰذا امام ابن ابی حاتم کے نزدیک یہ یقینی طور پر ثقہ ہیں۔


امام احمدرحمہ اللہ کی اس جرح کا تعلق خاص عکرمہ عن ابن عباس کے طریق سے ہے چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ کے دوسرے شاگرد ابوبکربن هانئ الأثرم نے امام احمد رحمہ اللہ کی یہ جرح ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
حدیث سماک مضطرب عن عکرمہ
عکرمہ سے سماک کی روایت مضطرب ہے[النفح الشذی : ص326 نقلہ من کتاب الاثرم]

اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ کے شاگر امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا :
سمعت أحمد، قال: قال شريك: كانوا يلقنون سماك أحاديثه عن عكرمة، يلقنونه: عن ابن عباس، فيقول: عن ابن عباس
میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے سنا کہ شریک نے کہا: لوگ سماک کو عکرمہ سے ان کی مرویات کی تلقین کرتے تھے ۔لوگ تلقین کرتے ہوئے کہتے تھے : عن ابن عباس یعنی یہ ابن عباس سے مروی ہے۔ تو سماک بھی کہتے : عن ابن عباس ، یعنی یہ ابن عباس سے مروی ہے[مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني ص: 440]

نیز ''علل'' میں یوں صراحت ہے:
وسماك يرفعها عن عكرمة عن بن عباس
سماک عکرمہ عن ابن عباس کی روایت کو مرفوع بناتے دیتے ہیں[العلل ومعرفة الرجال لأحمد: 1/ 395]

ثابت ہوا کہ امام احمدرحمہ اللہ کی جرح عکرمہ عن ابن عباس والی سند پر ہے اور اس کے علاوہ دیگر سندوں میں سماک امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک ثقہ ہیں۔

اس کی مزید تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ دیگر محدثین نے بھی اضطراب والی جرح خاص عکرمہ والی سند پر ہی کی ہے چنانچہ :

امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234) نے نقل کرتے ہوئے حافظ یقوب نے کہا:
قلت لابن المديني رواية سماك عن عكرمة فقال مضطربة
میں نے امام علی بن المدینی سے پوچھا: عکرمہ سے سماک کی روایت کیسی ہے؟ تو انہوں نے کہا: مضطرب ہے[تهذيب التهذيب لابن حجر: 4/ 233 ونقلہ من یعقوب بن شیبہ وھو صاحب کتاب]

حافظ يعقوب بن شيبة (المتوفى262)نے کہا:
وروايته عن عكرمة خاصة مضطربة
سماک کی خاص عکرمہ سے روایت مضطرب ہے[تهذيب الكمال للمزي: 12/ 120 ونقلہ من یعقوب]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق وروايته عن عكرمة خاصة مضطربة
آپ صدوق ہیں اور خاص عکرمہ سی آپ کی روایات مضطرب ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم2624]

بلکہ امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795)نے تو متعدد حفاظ کے اقوال کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا:
ومن الحفاظ من ضعف حديثه عن عكرمة خاصة
اورحفاظ میں سے کچھ لوگوں نے خاص عکرمہ ہی سے سماک کی روایت کو ضعیف قراردیا ہے[شرح علل الترمذي 2/ 797]

معلوم ہوا کہ امام احمد کی مضطرب والی جرح صرف عکرمہ والی سند کے ساتھ خاص ہے۔
نیزاس کی زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ امام احمد نے سماک کی حدیث کو ''عبد الملك بن عمير'' کی حدیث سے بہتر کہا ہے چنانچہ:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
سماك بن حرب اصلح حديثا من عبد الملك بن عمير
سماک بن حرب یہ عبدالملک بن عمیر سے بہتر حدیث والے ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 279 واسنادہ صحیح]
اور''عبد الملك بن عمير'' کتب ستہ کے معروف ثقہ راوی ہیں[تهذيب الكمال للمزي: 18/ 370]
لہٰذا امام احمدرحمہ اللہ کے نزدیک سماک بدرجہ اولی ثقہ ہیں۔

محمد بن عبد الله بن عمارالموصلى (المتوفى242)نے کہا:
سماك بن حرب يقولون انه كان يغلط ويختلفون في حديثه
سماک بن حرب کے بارے میں محدثین کہتے ہیں کہ یہ غلطی کرتے تھے اور محدثین ان کی حدیث میں اختلاف کرتے ہیں[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 9/ 214 واسنادہ صحیح]

عرض ہے کہ محض غلطی کرنے سے کوئی ضعیف نہیں ہوجاتا ثقہ رواۃ سے بھی غلطی ہوجاتی ہے اس لئے یہ قول مجمل ہے ابن عمار موصلی کا یہ اپنا قول نہیں ہے بلکہ انہوں نے محدثین کی طرف اسے منسوب کیا ہے اور محدثین نے اپنے قول کی تفسیر یہ کی ہے کہ خاص عکرمہ والی سند میں ہی سماک غلطی کرتے تھے۔

امام صالح بن محمد جزرة رحمه الله (المتوفى293)نے کہا:
وسماك بن حرب يضعف
سماک بن حرب کو ضعیف کہاجاتاہے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 9/ 214 واسنادہ حسن]

نوٹ:-اس قول کی سند میں خطیب بغدادی کے استاذ ”محمد بن علي المقرئ“ یہ ”محمد بن محمد: بن علي المقرئ. العكبري الجوزراني“ ہیں۔ اور امام ذہبی نے انہیں ”صدوق“ کہا ہے ، لہٰذا اس قول کی سند حسن ہے[تاريخ الإسلام ت بشار : 10/ 359 ]۔

عرض ہے کہ یہ بھی مجمل قول ہے ۔ اور انہیں ضعیف کہنے والوں کے قول میں یہ تفسیر موجود ہے کہ ان کا ضعف صرف عکرمہ والی سند کے ساتھ خاص ہے۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
يخطىء كثيرا
یہ بہت زیادہ غلطی کرتے ہیں[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 4/ 339]

عرض ہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے سماک کو اپنی کتاب ”الثقات“ میں ذکرکرکے ان پرجرح کی ہے ، اوربظاہر یہ متعارض بات لگتی ہے کہ اگر یہ ثقہ ہیں تو ان پر جرح کیوں کی گئی؟ اور اگر مجروح ہیں توانہیں ثقات میں کیوں ذکر کیا گیا ؟
ہمارے نزدیک اس اشکال کا حل یہ ہے کہ بعض محدثین جب تٍضعیف کے ساتھ ساتھ توثیق بھی کرتے ہیں تو ایسے مواقع پر توثیق اصطلاحی مراد نہیں ہوتی بلکہ محض دیانت داری مراد ہوتی ہے۔
یعنی امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں دیانت داری کے لحاظ سے ثقہ بتلایا ہے اور ضبط کے لحاظ سے ان پر جرح کی ہے۔
لیکن چونکہ ابن حبان رحمہ اللہ جرح میں متشدد ہیں اس لئے ثابت شدہ صریح توثیق کے مقابلہ میں ان کی جرح کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
بلکہ خود ابن حبان نے بھی اپنی اس جرح کا اعتبار نہیں کیا ہے اور سماک بن حرب کو ثقہ مان کر اس کی کئی احادیث کو اپنی کتاب صحیح ابن حبان میں درج کیا ہے۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ولم يرفعه غير سماك، وسماك سيء الحفظ.
اسے سماک کے علاوہ کسی نے مرفوع بیان نہیں کیا اور سماک سيء الحفظ. ہے[علل الدارقطني : 13/ 184]

امام دارقطنی رحمہ اللہ کی اس جرح کا پس منظر یہ ہے کہ ایک روایت کو کئی لوگوں نے موقوفا بیان کیا ہے اور صرف سماک نے مرفوعا بیان کیا ہے تو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے روایت کو موقوفا راجح قرار دیا ہے اور سماک کی بیان کردہ مرفوعا روایت کو مرجوح قرار دیا ۔
معلوم ہوا کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے محض سماک کے سوء حفظ کی وجہ سے ان کی روایت کو ضعیف نہیں کہا ہے بلکہ سماک کی دیگر رواۃ کی مخالفت کی وجہ سے ان کی روایت کو ضعیف کہا ہے۔

نیز یہاں سيء الحفظ. سے امام دارقطنی کی مراد سماک کا اخیر میں مختلط ہونا ہے جیساکہ خود امام دارقطنی ہی نے کہا:
سِمَاكُ بنُ حربٍ إذا حدَّث عنه شُعبةُ والثَّوريُّ وأبو الأَحْوصِ فأحاديثُهم عنه سليمةٌ، وما كان عن شَريكِ ابنِ عبدِاللهِ وحفصِ بن جُمَيْع ونظرائِهم، ففي بعضِها نَكارةٌ
سماک بن حرب سے جب شعبہ ، سفیان ثوری اور ابوالاحوص روایت کریں تو سماک سے ان کی احادیث (صحیح و) سالم ہیں۔اورسماک سے جوروایات شریک بن عبداللہ ، حفص بن جمیع اوران جیسے لوگ نقل کریں تو ان میں سے بعض میں نکارت ہے[سؤالات السلمي للدارقطني ت الحميد ص: 189 نیز دیکھئے:المؤتلف والمختلف للدارقطني 2/ 35 ، مزید دیکھیں :إكمال تهذيب الكمال 6/ 110]

نوٹ:-امام دارقطنی کے شاگرد أبو عبد الرحمن السلمي ثقہ ہیں بلکہ امام حاکم نے کہا:
كثير السماع والطلب متقن فيه
یہ کثیرالسماع اور بہت زیاد علم حاصل کرنے والے تھے اور ان سب میں یہ متقن تھے[سؤالات السجزي للحاكم: ص: 65]
بعض لوگوں نے بلاوجہ ان پر جرح کردی ہے جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے قدرے تفصیل کے لئے دیکھئے:سؤلات السلمي للدار قطني بتحقیق مجدی فتحی السید ، مقدمہ: ص 32 تا 37۔ نیز دیکھیں :[التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل 2/ 593]۔


امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اس قول سے معلوم ہوا کہ وہ سماک کو علی الاطلاق سیء الحفظ نہیں مانتے ہیں بلکہ خاص سندوں میں ہی انہیں سی الحفظ مانتے ہیں ۔
اس کی مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ بعض دیگر مقامات پر امام دارقطنی رحمہ اللہ نے سماک بن حرب کی حدیث کو صحیح بھی کہا ہے چنانچہ اپنی مشہور کتاب ’’سنن‘‘ میں ان کی ایک روایت درج کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
هذا إسناد حسن صحيح
یہ سند حسن اورصحیح ہے[سنن الدارقطني: 2/ 175]

امام عقیلی اور ابن الجوزی نے انہیں ’’ ضعفاء‘‘ والی کتاب میں ذکر کیا ہے لیکن ضعفاء والی کتابوں میں کسی راوی کا ذکر ہونا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ راوی ضعفاء کے مولفین کے نزدیک ضعیف ہے ، کیونکہ ضعفاء کے مؤلفین ثقہ رواۃ کا تذکرۃ بھی ضعفاء میں یہ بتانے کے لئے کردیتے ہیں کہ ان پر جرح ہوئی ہے۔دیکھئے: یزیدبن معاویہ پرالزامات کاتحقیقی جائزہ :ص675 تا 677۔
نیز سماک پر جس نوعیت کی جرح ہوئی ہے اس کی تفصیل پیش کی جاچکی ہے کہ اس پر کی گئی جرح کا تعلق خاص عکرمہ والی سند پر ہے اور یہی اقوال امام عقیلی اور ابن الجوزی نے بھی نقل کئے ہیں ۔لہٰذا ان اقوال میں علی الاطلاق تضعیف کی کوئی بات ہے ہی نہیں۔

تنبیہ بلیغ:
بعض لوگ” امام ابوالقاسم “کے نام اس کی کتاب (قبول الأخبار ومعرفة الرجال:ج2ص390)سے یہ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے سماک کوان لوگوں کی فہرست میں ذکرکیا ہے جن پر بدعت اورخواہش پرستی کاالزام۔
عرض ہے :
اولا:
اس بات کے لئے جس ”امام ابوالقاسم“ کاحوالہ دیا جاتا ہے یہ کوئی اہل سنت کاامام نہیں ہے بلکہ اہل سنت والجماعت سے خارج گمراہ فرقہ معتزلہ کا سردارہے۔اوریہ انتہائی بدعقیدہ اوربدفکرشخص ہے۔تدلیس وتلبیس کی حد ہوگئی کہ ایسے کج عقیدہ وبددماغ اورباطل افکارکے حامل شخص کو امام کالقب دے کراہل سنت کے ائمہ کی فہرست پیش کیاجاتاہےاورظلم علی ظلم یہ کہ اس معتزلی کے حوالہ سے سنی راوی کو بدعتی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی۔اسے کہتے ہیں الٹاچور کوتوال کوڈانتے۔
ثانیا:
ابوالقاسم معتزلی کے بارے میں ائمہ اہل سنت نے صراحت کی ہے یہ شخص محدثین سے دشمنی رکھتاہے اوران پرزبان درازی کرتاہے۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
من كبار المعتزلة وله تصنيف في الطعن على المحدثين
یہ معتزلہ کے اکابریں میں سے ہیں اوراس نے محدثین پرطعن وتشنیع کرنے کے لئے کتاب لکھی ہے[لسان الميزان ت أبي غدة (4/ 429)]
اب بھلاکسی سنی راوی کے خلاف بدزبان معتزلی کی بات کون سے گا؟
ثالثا:
”ابوالقاسم معتزلی نےاس ضمن میں مذکورمحدثین کے بارے میں خود کہا:
ولیس قولنا کل من نسبوہ الی البدعۃاسقطوۃ اوضعفوہ قولھم،معاذاللہ من ذلک بل کثیرمن اولئک عندنااہل عدالۃ وطھارۃوبروتقوی ...ولکن اتیت بالجمل التی تدل علی المرادوعلیھاالمدار
اورہمارا یہ کہنانہیں ہے کہ جن کی طرف بھی لوگوں نے بدعت کی نسبت کی ہے یااسے ساقط وضعیف قراردیا ہے۔معاذاللہ ہم بھی اسی کے قائل ہیں۔بلکہ ان میں سے اکثرلوگ ہمارے نزدیک دیانت داروپاکبازاورنیک اورمتقی ہیں ...لیکن میں نے وہ الفاظ نقل کئے ہیں جو مراد پردلالت کرتے ہیں اور جن پرقول کا دارومدارہوتا[قبول الأخبار ومعرفة الرجال :ج 1ص19]۔

اورابوالقاسم معتزلی نے سماک بن حرب سے متعلق کوئی بھی ایسالفظ نقل نہیں کیا ہے جو ان کی کسی بدعت پردلالت کرے۔
رابعا:
کسی راوی کے بدعتی ہونے سے اس کی ثقاہت پر اثر نہیں پڑتا[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 5]
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
درج ذیل اقوال ثابت نہیں ہیں


امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160) سے منقول ہے:
امام ابن معین ناقل ہیں کہ امام شعبہ نے کہا:
كان شعبة يضعفه
امام شعبہ انہیں ضعیف کہتے تھے[الكامل لابن عدي: 4/ 541 ]
عرض ہے کہ یہ تضعیف ثابت نہیں ہے کیونکہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے امام شعبہ سے اس قول کی سند بیان نہیں کیا ہے لہٰذا امام شعبہ سے اس قول کو نقل کرنے والا نامعلوم ہے۔
اوربالفرض اس کو ثابت مان لیں تو امام شعبہ رحمہ اللہ ہی کے دوسرے قول کی روشنی میں اسے مراد صرف عکرمہ والی سند میں ان کاضعیف ہونا ہے جیساکہ ماقبل میں ذکر کیا گیا دیکھئے: ص۔
علاوہ بریں امام شعبہ رحمہ اللہ نے اس سے روایت کیا ہے جواس بات کی دلیل ہے کہ سماک امام شعبہ کے نزدیک ثقہ ہیں۔کیونکہ امام شعبہ صرف ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں ۔تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب : یزید بن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ ص۔۔

عفان بن مسلم الباهلى رحمه الله (المتوفى بعد 219)نے کہا:
سمعت شعبة، وذكر سماك بن حرب بكلمة لا أحفظها، إلا أنه غمزه
میں نے شعبہ سے سنا انہوں نے سماک بن حرب کا ایسی بات سے ذکر کیا جو مجھے یاد نہیں ہے مگر انہوں نے سماک پرعیب لگایا[الضعفاء الكبير للعقيلي: 2/ 178 واسنادہ حسن]

عرض ہے کہ یہاں بھی عفان نے امام شعبہ کے اصل الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں لیکن دوسرے ذرائع سے ثابت ہے کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے صرف عکرمہ والی سند میں سماک پر عیب لگایا ہے جیساکہ گذشتہ سطور میں نقل کیا گیا دیکھئے: ص۔۔

امام عبد الله بن المبارك رحمه الله (المتوفى181)کی طرف منسوب ہے:
وَقَال زكريا بن عدي ، عن ابن المبارك : سماك ضعيف في الحديث
زکریا بن عدی نے ابن المبارک سے نقل کیا: سماک حدیث میں ضعیف ہے[تهذيب الكمال للمزي: 12/ 120 نقلہ عن یعقوب ۔نیز دیکھیں:التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 16/ 14]۔

عرض ہے کہ امام ابن عدی نے یہ قول اسی سند سے یوں نقل کیا ہے:
حدثنا أحمد بن الحسين الصوفي، حدثنا محمد بن خلف بن عبد الحميد، حدثنا زكريا بن عدي، عن ابن المبارك عن سفيان الثوري قال سماك بن حرب ضعيف
یعنی زکریا نے ابن المبارک سے اورانہوں نے سفیان ثوری سے نقل کیا کہ :سماک حدیث میں ضعیف ہے[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 541 واسنادہ ضعیف]

غورفرمائیں اس سند میں ابن المبارک قائل نہیں بلکہ راوی ہے اور اصل قول سفیان ثوری سے منقول ہے۔ غالبا امام یعقوب نے جلدبازی میں ایسا نقل کردیا ہے اور سفیان ثوری کا قول ابن المبارک کی طرف منسوب کردیا۔واللہ اعلم نیز دیکھیں:[تنقيح التحقيق لابن عبد الهادي بتحقیق سامی: 1/ 48 حاشیہ نمبر5]
بالفرض ابن المبارک سے یہ قول ثابت بھی مان لیں تو بھی حافظ یعقوب نے اسے اخیر میں اختلاط کی جرح پرمحمول کیا ہے۔

ابن خراش رافضی (المتوفى283)سے منقول ہے:
سماك بن حرب الذهلي في حديثه لين
سماک بن حرب ذہلی کی حدیث میں کمزوری ہے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 9/ 214 واسنادہ ضعیف]
عرض ہے کہ ابن خراش سے یہ قول ثابت ہی نہیں ہے کیونکہ اس کی سندمیں موجود ''محمد بن محمد بن داود الكرجي'' مجہول ہے۔
نیز ابن خراش کے قول کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ یہ خود مجروح ورافضی ہے دیکھئے: ص
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اختلاط کی جرح


بعض محدثین نے ان پر ایسی جرح کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آخر میں اختلاط کے شکار ہوگئے تھے
امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
كان رجلا مشهورا لا أعلم أحدا تركه وكان قد تغير قبل موته
آپ مشہورشخص تھے ، میں کسی کو نہیں جانتا جس نے انہیں چھوڑا ہو اور یہ اپنی موت سے قبل تغیر حفظ کے شکار ہوگئے تھے[تهذيب التهذيب لابن حجر: 4/ 234 نقلہ من مسندالبزار بقولہ:قال البزار في مسنده ]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وقد تغير بأخرة
یہ آخر میں تغیرحفظ کے شکارہوگئے تھے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم2624]

لیکن دیگر محدثین نے یہ بھی صراحت کردی ہے کہ ان کے قدیم تلامذہ نے ان سے جو روایت لی ہیں وہ صحیح ہیں اور امام شعبہ اور امام سفیان ثوری رحمہما اللہ نے ان سے اختلاط سے پہلے روایت کیا ہے چنانچہ:

حافظ يعقوب بن شيبة (المتوفى262)نے کہا:
ومن سمع من سماك قديما مثل شعبة وسفيان فحديثهم عنه صحيح مستقيم ، والذي قاله ابن المبارك إنما يرى أنه فيمن سمع منه بأخرة
جن لوگوں نے سماک سے شروع میں سنا ہے جیسے شعبہ اور سفیان ثوری تو ان کی سماک سے احادیث صحیح اوردرست ہیں ۔ اور ابن المبارک (!) جو تضعیف کی بات کہی ہے اس کاتعلق ان کی ان روایات سے ہے جو ان سے اخیر میں سنی گئی ہیں[تهذيب الكمال للمزي: 12/ 120 ونقلہ من یعقوب وھوصاحب کتاب]

یادرہے کہ ابن المبارک نے سماک کی تضعیف کی ہی نہیں ہے جیساکہ وضاحت کی جاچکی ہے۔دیکھئے: ص۔۔۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
سماك بن حرب إذا حدث عنه شعبة والثوري وأبو الأحوص ، فأحاديثهم عنه سليمة ، وما كان عن شريك بن عبد الله وحفص بن جميع ونظرائهم ، ففي بعضها نكارة
سماک بن حرب سے جب شعبہ ، سفیان ثوری اور ابوالاحوص روایت کریں تو سماک سے ان کی احادیث سلامت (صحیح) ہیں۔اورسماک سے جوروایات شریک بن عبداللہ ، حفص بن جمیع اوران جیسے لوگ نقل کریں تو ان میں سے بعض میں نکارت ہے[سؤالات السلمي للدارقطني ت الحميد ص: 189 نیز دیکھئے:المؤتلف والمختلف للدارقطني 2/ 35 ، مزید دیکھیں :إكمال تهذيب الكمال 6/ 110]

معلوم ہوا کہ سماک بن حرب سے سفیان ثوری وغیرہ کی روایات ان کے اختلاط سے قبل کی ہیں اورسماک سے سینے پرہاتھ باندھنے والی حدیث سفیان ثوری ہی نے نقل کی ہے لہٰذا اس حدیث میں سماک پر اختلاط کی جرح کی کوئی گنجائش نہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
معدلین کے اقوال

(پینتیس (35) محدثین سے سماک بن حرب کی توثیق)


سماک بن حرب سے متعلق جرح کے اقوال پر تبصرے کے بعد اب ذیل میں پینتیس (35) محدثین سے سماک بن حرب کی توثیق پیش خدمت ہے۔

(1) :- امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160):
امام شعبہ رحمہ اللہ نے ان سے روایت لی ہے ۔دیکھئے صحیح مسلم حدیث نمبر2344۔
اورامام شعبہ رحمہ اللہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں تفصیل کے لئے دیکھئے : یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ: ص685۔

(2) :-امام سفیان ثوری رحمہ اللہ (المتوفى161):
آپ نے کہا:
ما يسقط لسماك بن حرب حديث
سماک بن حرب کی کوئی حدیث ساقط نہیں[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 9/ 214 واسنادہ صحیح]
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اسی طرح کی بات سماک بن الفضل کے بارے میں بھی کہی ہے اور اس کی تشریح کرتے ہوئے امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
يعنى لصحة حديثه
یعنی ان کی حدیث کے صحیح ہونے کی وجہ سے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 280]
معلوم ہوا کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کے نزدیک سماک بن حرب صحیح الحدیث یعنی ثقہ ہیں۔
یادرہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے یہ بات دونوں سماک کے بارے میں کہی ہے بعض اہل علم کا سماک بن حرب کے بارے میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کی اس بات کا اس وجہ سے انکار کرنا کہ سفیان ثوری نے سماک بن حرب کی تضعیف کی ہے ، غلط ہے۔ کیونکہ سفیان ثوری رحمہ اللہ سے سماک بن حرب کی تضعیف ثابت ہی نہیں ہے ۔ لہٰذا یہ بنیاد ہی غلط ہے۔

(3) :-امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) :
آپ نے کہا
ثقة
یہ ثقہ ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 279 واسنادہ صحیح]

(4) :-امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241):
آپ نے کہا:
سماك بن حرب اصلح حديثا من عبد الملك بن عمير
سماک بن حبر یہ عبدالملک بن عمیر سے بہترحدیث والے تھے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 279 واسنادہ صحیح]
اور''عبد الملك بن عمير'' کتب ستہ کے معروف ثقہ راوی ہیں[تهذيب الكمال للمزي: 18/ 370]
لہٰذا امام احمدرحمہ اللہ کے نزدیک سماک بدرجہ اولی ثقہ ہیں۔

(5) :-امام بخاري رحمه الله (المتوفى256):
آپ نے ان سے استشہادا روایت لی ہے دیکھئے صحیح بخاری حدیث نمبر 6722۔
اورامام بخاری رحمہ اللہ جس سے استشہادا روایت لیں وہ عام طور سے ثقہ ہوتا ہے۔
محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)کہتے ہیں:
بل استشھد بہ فی مواضع لیبین انہ ثقہ
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان (حمادبن سلمہ ) سے صحیح بخاری میں کئی مقامات پر استشہادا روایت کیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ یہ ثقہ ہیں [شروط الأئمة الستة:18]

(6) :- امام مسلم رحمه الله (المتوفى261):
امام مسلم نے صحیح مسلم میں ان سے کئی احادیث لی ہیں ۔مثلا دیکھئے:حدیث نمبر139 وغیرہ
امام حاكم رحمه الله کہتے ہیں:
قد احتج مسلم في المسند الصحيح بحديث سماك بن حرب
امام مسلم نے اپنی صحیح میں سماک بن حرب کی حدیث سے حجت پکڑی ہے[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 1/ 164]
حافظ ابن حجر رحمه الله کہتے ہیں:
قد احتج به مسلم
امام مسلم نے ان سے احتجاج کیا ہے۔[تلخيص الحبير 1/ 14]

(7) :-امام عجلى رحمه الله (المتوفى261) :
آپ نے کہا:
سماك بن حرب البكري كوفي، جائز الحديث
سماک بن حرب البکری کوفی ، یہ جائز الحدیث ہیں[تاريخ الثقات للعجلي: ص: 207]

(8) :- حافظ يعقوب بن شيبة (المتوفى262) :
آپ نے کہا:
ومن سمع من سماك قديما مثل شعبة وسفيان فحديثهم عنه صحيح مستقيم
جن لوگوں نے سماک سے شروع میں سنا ہے جیسے شعبہ اور سفیان ثوری تو ان کی سماک سے احادیث صحیح اوردرست ہیں ۔ [تهذيب الكمال للمزي: 12/ 120 ونقلہ من یعقوب وھوصاحب کتاب]

(9) :- امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) :
آپ نے کہا:
صدوق ثقة
یہ صدوق اور ثقہ ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 279]

(10) :-امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279):
آپ نے سماک کی بہت ساری احادیث کو صحیح کہا ہے مثلا دیکھئے: سنن ترمذی حدیث نمبر 65 ۔

(11) :- امام ابن الجارود رحمه الله (المتوفى307):
آپ نے ''المنتقی'' میں کئی مقامات پر ان سے روایت لی ہے مثلا دیکھئے:[المنتقى لابن الجارود (صحيح ابن الجارود) ص: 19 رقم 25]

(12) :-امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310):
آپ نے سماک کی ایک روایت کے بارے میں کہا:
وهذا خبر عندنا صحيح سنده،
اس روایت کی سند ہمارے نزدیک صحیح ہے[تهذيب الآثارللطبری: مسند عمر 2/ 693]

(13) :-امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311):
آپ نے اپنی ''صحیح'' میں بہت سے مقامات پر ان سے روایت لی ہے مثلا دیکھئے:[صحيح ابن خزيمة 1/ 8 رقم 8]

(14) :-امام أبو علي ابن منصور الطوسيي رحمه الله (المتوفى312):
آپ نے سماک کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
حَدِيثٌ حَسَنٌ
یہ حدیث حسن ہے[مستخرج الطوسي على جامع الترمذي 2/ 176 ]

(15) :- امام أبو عوانة الإسفراييني رحمه الله (المتوفى316):
آپ نے اپنی ’’مستخرج أبي عوانة‘‘ میں بہت سے مقامات پر ان سے روایت لی ہے مثلا دیکھئے:[مستخرج أبي عوانة 1/ 305 رقم1078]
یادرہے اس کتاب کی احادیث کو آپ نے صحیح کہا ہے۔

(16) :-حافظ أحمد بن سعيد بن حزم الصدفي المعروف بالمنتجالي (المتوفى350):
آپ نے کہا:
تابعي ثقة لم يترك أحاديثه أحد
[إكمال تهذيب الكمال 6/ 110، مغلطای ینقل من کتاب ''التعديل والتجريح'' للمنتجالی]

(17) :- امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354):
آپ نے اپنی ''صحیح'' میں بہت سے مقامات پر ان سے روایت لی ہے مثلا دیکھئے:[صحيح ابن حبان: 4/ 232 رقم 1390]

(18) :-امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
آپ نے کہا:
لسماك حديث كثير مستقيم إن شاء الله كله وقد حدث عنه الأئمة، وهو من كبار تابعي الكوفيين وأحاديثه حسان عمن روى عنه، وهو صدوق لا بأس به
سماک کی بہت ساری احادیث ہیں جو ان شاء اللہ درست ہیں، ان سے ائمہ نے روایت کیا ہے اور یہ کوفہ کے کبار تابعین میں سے ہیں ، اوران کی لوگوں سے روایات حسن ہیں ، اوریہ صدوق ہیں ان میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔[الكامل لابن عدي: 4/ 543]

(19) :-امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385):
آپ نے سماک بن حرب کی سند سے ایک حدیث روایت کرکے کہا:
هذا إسناد حسن صحيح
یہ سند حسن اورصحیح ہے[سنن الدارقطني: 2/ 175]

(20) :-امام ابن شاهين رحمه الله (المتوفى385):
آپ نے سماک کو ثقات میں ذکرکرتے ہوئے ابن معین سے نقل کیا:
قال سماك بن حرب ثقة
یعنی ابن معین نے کہا : سماک ثقہ ہیں[الثقات لابن ابن شاهين: ص: 107]

(21) :- امام حاكم رحمه الله (المتوفى405):
آپ نے سماک کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
هذا حديث صحيح الإسناد
یہ حدیث صحیح سند والی ہے[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 2/ 508]

(22) :-امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430):
آپ نے صحیح احادیث پر مشتمل اپنی کتاب ”المستخرج“ میں کئی مقامات پر ان سے حجت پکڑی ہے مثلا دیکھئے:[المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم 2/ 58 رقم 971]

(23) :-امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463):
آپ نے سماک کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
حديث صحيح
یہ حدیث صحیح ہے[التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 8/ 138]

(24) :-محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507):
سماك صدوق
سماک یہ صدوق ہیں[ذخيرة الحفاظ لابن القيسراني: 2/ 669]

(25) :-امام أبو محمد البغوي رحمه الله (المتوفى516):
آپ نے سماک کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
هذا حديث حسن
یہ حدیث حسن ہے[شرح السنة للبغوي 3/ 31]

(26) :-ابن السيد البطليوي رحمہ اللہ (المتوفى521)
كان إماما عالما ثقة فيما ينقله
آپ امام، عالم، اوراپنی نقل کردہ باتوں میں ثقہ تھے[إكمال تهذيب الكمال 6/ 109 بحوالہ شرح الكامل للمبرد للبطلیوی ]

(27) :-امام جورقاني رحمه الله (المتوفى543):
آپ نے سماک کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
هذا حديث صحيح
یہ حدیث صحیح ہے[الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير 1/ 241]

(28) :- امام إ بن خلْفُون رحمه الله (المتوفى 636):
آپ نے انہیں ثقات میں ذکرکیا ہے:[إكمال تهذيب الكمال 6/ 109 نقلا عن کتابہ]

(29) :- ازامام ضياء المقدسي رحمه الله (المتوفى643):
امام ضياء المقدسي رحمه الله (المتوفى643) نے بھی الأحاديث المختارة میں ان کی روایت لی ، دیکھئے :[ المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما 8/ 107رقم 119وقال المحقق اسنادہ صحیح]۔

(30) :- امام نووي رحمه الله (المتوفى676):
آپ نے سماک کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
فلا أقل من أن يكون حسنا وسماك بن حرب رجل صالح
یہ حدیث حسن درجہ سے کم نہیں ہے اور سماک بن حرب صالح شخص ہیں[المجموع 10/ 111]

(31) :-امام ابن سيد الناس رحمه الله (المتوفى 734):
آپ نے سماک کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
والحدیث صحیح
اوریہ حدیث صحیح ہے [النفح الشذی لابن سیدالناس: ج1 ص319 بتحقیق احمدمعبد]

(32) :-امام ابن عبد الهادي رحمه الله (المتوفى744):
آپ نے سماک کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
وهو حديث صحيح كما قال الترمذي.وسماك بن حرب: وثقه يحيى بن معين وأبو حاتم الرازي وغيرهما، وروى له مسلم في "صحيحه" الكثير
یہ حدیث صحیح ہے جیساکہ ترمذی نے کہا ہے اور سماک بن حر کوابن معین ، ابوحاتم وغیرہما نے ثقہ کہا ہے اورامام مسلم نے اپنی صحیح میں سماک کی روایات لی ہیں[تنقيح التحقيق لابن عبد الهادي 3/ 205]

(33) :-امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748):
آپ نے سماک کی روایت سے متعلق امام حاکم کی تصحیح کی موافقت کرتے ہوئے کہا:
صحيح
یہ حدیث صحیح ہے[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 508]
نیز کہا:
الحافظ، الإمام الكبير
آپ حافظ اوربہت بڑے امام ہیں[سير أعلام النبلاء للذهبي: 5/ 245]

(34) :- امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807):
آپ نے سماک بن حرب کو ثقہ کہا ہے دیکھئے:[مجمع الزوائد للهيثمي: 7/ 392 بقولہ بقیۃ رجالہ ثقات وسماک منھم]
نیز آپ نے سماک بن حرب کی ایک روایت کے بارے میں کہا:
وإسناده حسن
اس کی سند حسن ہے[مجمع الزوائدللھیثمی: 2/ 41]

(35) :-حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852):
آپ نے سماک کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
هذا إسناد متصل صحيح
اس کی سند متصل اورصحیح ہے[فتح الباري لابن حجر 8/ 694]
یادرے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تقریب میں جو کچھ کہا ہے اس کا تعلق عکرمہ والی سندیا اختلاط سے ہیں۔

یہ کل پینتیس (35) محدثین ہیں جن کے نزدیک سماک بن حرب ثقہ ہیں ۔


اس کتاب پرنقد و تبصرے کے لئے درج ذیل دھاگے میں تشریف لائیں
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top