makki pakistani
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 25، 2011
- پیغامات
- 1,323
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 282
جو امریکہ کی خارجہ پالیسی ہے ہوبہو وہی دو نمبر مولوی کی داخلہ پالیسی ہے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں “دشمن” بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ آپ امریکی خارجہ پالیسی کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اس کا مرکز آپ کو ہر دور میں “دشمن” ہی نظر آئے گا مگر امریکہ کی یہ مہربانی تو ماننی پڑے گی وہ اپنے ہر دس سالہ دشمن کو ایک دن مار کر یا اس سے مار کھا کر نئے دشمن کی تلاش شروع کردیتا ہے جبکہ ہمارے خاص قسم کے مولوی کا تیار کردہ دشمن ہر دور میں ناقابل شکست رہا ہے۔ مرتے دم تک یہ مولوی نہ خود فتح پاتا ہے اور نہ ہی دشمن کو جیتنے دیتا ہے۔ اس کا ایم بی سی یعنی مولوی براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور وائس آف مولوی خطبہ جمعہ سمیت اپنے ہر نشریئے میں یہی بتاتے ہیں کہ گھمسان کا رن جاری ہے، “اسلام خطرے میں ہے” اور اس کی فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ ڈیفنس لائن اگر کوئی ہے تو تن تنہا یہی ناچیز ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ کیا حاصل کرتا ہے یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ کئی نسلوں سے مولوی خانہ بنے چلے آنے والے گھر پیدا ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے وہ باپ میسر آ گیا جو ہم بھائیوں کو مولوی بھی بناتا گیا اور ساتھ ہی بچپن سے دو نمبر مولویوں کے کرتوت بتا کر ان سے بچنے کی تیاری بھی کرواتا گیا۔ مثلا انہوں نے کراچی کے ایک مشہور مولوی کی مسجد کا زیر تعمیر مینار دکھا کر ہم سے کہا کہ جب تم اپنی ماں کے پیٹ میں بھی نہ پہنچے تھے یہ مینار تب سے زیر تعمیر ہے اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھو گے کہ یہ مولوی مر جائے گا لیکن یہ مینار زیر تعمیر ہی رہے گا۔ اس مینار کی تعمیر صرف اسی صورت مکمل ہوگی کہ اس مولوی کو کوئی متبادل زیر تعمیر آئیڈیا سوجھ جائے۔ اسی طرح مختلف سمتوں اور جہتوں میں دو نمبر مولویوں کے طے کردہ اہداف اور اس کے رموز بابا محمد عالم ہماری رگ رگ میں بھر کر دنیا سے رخصت ہوا ہے۔ یوں ہم مولوی بھی بنتے گئے اور دو نمبر مولویوں کے خلاف گہرا شعور بھی حاصل کرتے گئے۔ یہ اسی شعور کا نتیجہ تھا کہ 18 سال قبل روزنامہ پاکستان میں میرا وہ کالم چھپا تھا جس کا عنوان ہی یہ تھا “اسلام خطرے میں ہے” اس کالم میں دو نمبر مولوی کے اسی کارڈ کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
سوشل میڈیا پر بھی ہمیں یہی حرکتیں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور یہاں سب سے پاپولر دشمن “ملحد” ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ الحاد سے اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ پھر خطرے کی شدت بتانے کے لئے کوئی کہتا ہے کہ میری راتوں کی نیند اڑی ہوئی ہے تو کوئی بتاتا ہے کہ میری نیند نہیں بلکہ بھوک اڑ گئی ہے مگر دروغ گو کا حافظہ بھی تو ایک سنگین مسئلہ ہے، یہ حافظہ پیٹ بھر کر سو جاتا ہے تو انہی حضرات میں سے کوئی اگلے روز شیئر کی گئی تصاویر میں چکن تکے سے الجھا نظر آرہا ہوتا ہے تو کوئی سرِ شام یہ سنگل لائن پوسٹ کر کے رخصت ہوتا نظر آتا ہے “رب راکھا دوستو ! آج نیند بہت آرہی ہے” میں یہ مان سکتا ہوں کہ عالم عرب میں الحاد شدت سے پھیل رہا ہوگا مگر یہ نہیں مان سکتا کہ عرب ملحدین کے مقابلے کے لئے تو آپ صرف ازہری ٹوپی پہننے پر اکتفا کرلیں، فائرنگ پاکستان کی سمت میں کریں اور نتائج بنگلہ دیش میں ظاہر ہوں۔ ایسی کرامتیں تو کبھی کرامتوں کے مرکز رائے بریلی میں نظر آئیں اور نہ ہی شیخ عبدالقادر جیلانی کے بغداد میں۔ میں یہ مان سکتا ہوں کہ آپ کی نوک قلم ہدایت کا سرچشمہ ہے لیکن میں یہ نہیں مان سکتا تذلیل، توہین اور تحقیر ہدایت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اگر اس کا ادنیٰ ترین امکان بھی ہوتا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ اس سے منع نہ کرتے بلکہ سید الاانبیاء ﷺ اپنی حیات مبارکہ میں کم از کم ایک بار تو اس کا بھی مظاہرہ فرما چکے ہوتے۔ میں یہ مان سکتا ہوں کہ صحیح بخاری کی روایات میں کمزور راوی ہوسکتے ہیں اور یقینا ہیں مگر میں یہ نہیں مان سکتا قرون اولیٰ کی جو داستانیں آپ سناتے ہیں ان کا ہر رواوی ثقاہت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ہم پلہ ہے۔ میں یہ مان سکتا ہوں کہ ملحدین کسی مولوی کو لاجواب کر سکتے ہیں مگر میں یہ نہیں مان سکتا کہ اس کا حل حدیث سے انکار کی صورت نکالا جا سکتا ہے۔ میں ایک لمحے کو یہ بھی مان سکتا ہوں کہ پورے کا پورا ذخیرہ حدیث جھوٹ ہو مگر یہ نہیں مان سکتا کہ ایسا ہونے کی صورت میں 1400 سال بعد تک حب رسول ﷺ باقی رہ سکتا ہے اور آپ عشق رسالت کا دم بھر سکتے ہیں۔ عرض بس اتنی ہے کہ اسلام کو کوئی خطرہ نہیں۔ یہ 1400 سال سے محفوظ و مامون چلا آ رہا ہے اور آگے بھی نہ جانے کتنے سو یا کتنے ہزار سال تک چلتا چلاجائے گا۔ یہ اپنے دفاع کے لئے آپ کی فقط ساٹھ ستر سالہ زندگی کا ہرگز ہرگز محتاج نہیں۔ خطرہ مسلمانوں کو ہو سکتا ہے اور ان کے دفاع کا کام فوج کا ہے۔ عالم دین کا کام فقط علم کی خدمت کرنا، دین کی دعوت دینا، اسلام کے حوالے سے پیدا شدہ اشکالات و سوالات کا جواب دینا اور اگر جواب نہ آئے تو احادیث سے انکار نہ کرنا بلکہ اپنی کم علمی قبول کر کے کسی بڑے عالم کی جانب ریفر کردینا ہے۔ بے شمار پیغمبر ایسے گزرے جن کی دعوت کسی ایک بھی انسان نے قبول نہیں کی۔ وہ تنہاء آئے اور تنہاء دنیا سے چلے گئے۔ اس سے ان کی صحت پر کوئی فرق پڑا اور نہ ہی ان کی نبوت یا اللہ کی وحدانیت پر۔ اگر ہدایت دینا انسان کے بس میں ہوتا تو اس کرہ ارض پر کم از کم ہر وہ انسان ضرور ہدایت پر مرتا جس تک کوئی بھی پیغمبر پہنچ گیا تھا۔ ہدایت دینا نہ دینا خالص اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دائرہ اختیار ہے، ہم اس میں دخل دے سکتے ہیں اور نہ ہی دینے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر یہ دخل ممکن ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ کو اللہ سے حضرت عمر یا ابوجہل میں سے کوئی ایک دعاؤں میں نہ مانگنا پڑتا بلکہ ہاتھ بڑھا کر دونوں کو ہی بذاتِ خود ہدایت سے نواز دیتے اور صرف وہی نہیں بلکہ ابولہب اینڈ کمپنی کبھی بھی دنیا سے حالتِ کفر میں رخصت نہ ہوتی۔ ہمارا کام دعوت دینا ہے، کوئی اسے قبول کرے یا نہ کرے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔ ہم کوئی فیکٹری یا دکان نہیں ہیں کہ اشتہارات شائع کر کے لوگوں کو متوجہ کریں کہ حضرات ہماری فیکٹری یا دکان کی ہدایت اختیار کیجئے کیونکہ یہ عرب ممالک کے حالات سے متاثر ہو کر پاکستانی زبان میں لکھنے کے باوجود بنگلہ دیش میں نتائج ظاہر کرتی ہے اور یہ معجزہ اپنے ظہور کے لئے ایک خاص قسم کی ازہری ٹوپی کا محتاج ہے جو صرف ہمارے پاس ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی ہمیں یہی حرکتیں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور یہاں سب سے پاپولر دشمن “ملحد” ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ الحاد سے اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ پھر خطرے کی شدت بتانے کے لئے کوئی کہتا ہے کہ میری راتوں کی نیند اڑی ہوئی ہے تو کوئی بتاتا ہے کہ میری نیند نہیں بلکہ بھوک اڑ گئی ہے مگر دروغ گو کا حافظہ بھی تو ایک سنگین مسئلہ ہے، یہ حافظہ پیٹ بھر کر سو جاتا ہے تو انہی حضرات میں سے کوئی اگلے روز شیئر کی گئی تصاویر میں چکن تکے سے الجھا نظر آرہا ہوتا ہے تو کوئی سرِ شام یہ سنگل لائن پوسٹ کر کے رخصت ہوتا نظر آتا ہے “رب راکھا دوستو ! آج نیند بہت آرہی ہے” میں یہ مان سکتا ہوں کہ عالم عرب میں الحاد شدت سے پھیل رہا ہوگا مگر یہ نہیں مان سکتا کہ عرب ملحدین کے مقابلے کے لئے تو آپ صرف ازہری ٹوپی پہننے پر اکتفا کرلیں، فائرنگ پاکستان کی سمت میں کریں اور نتائج بنگلہ دیش میں ظاہر ہوں۔ ایسی کرامتیں تو کبھی کرامتوں کے مرکز رائے بریلی میں نظر آئیں اور نہ ہی شیخ عبدالقادر جیلانی کے بغداد میں۔ میں یہ مان سکتا ہوں کہ آپ کی نوک قلم ہدایت کا سرچشمہ ہے لیکن میں یہ نہیں مان سکتا تذلیل، توہین اور تحقیر ہدایت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اگر اس کا ادنیٰ ترین امکان بھی ہوتا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ اس سے منع نہ کرتے بلکہ سید الاانبیاء ﷺ اپنی حیات مبارکہ میں کم از کم ایک بار تو اس کا بھی مظاہرہ فرما چکے ہوتے۔ میں یہ مان سکتا ہوں کہ صحیح بخاری کی روایات میں کمزور راوی ہوسکتے ہیں اور یقینا ہیں مگر میں یہ نہیں مان سکتا قرون اولیٰ کی جو داستانیں آپ سناتے ہیں ان کا ہر رواوی ثقاہت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ہم پلہ ہے۔ میں یہ مان سکتا ہوں کہ ملحدین کسی مولوی کو لاجواب کر سکتے ہیں مگر میں یہ نہیں مان سکتا کہ اس کا حل حدیث سے انکار کی صورت نکالا جا سکتا ہے۔ میں ایک لمحے کو یہ بھی مان سکتا ہوں کہ پورے کا پورا ذخیرہ حدیث جھوٹ ہو مگر یہ نہیں مان سکتا کہ ایسا ہونے کی صورت میں 1400 سال بعد تک حب رسول ﷺ باقی رہ سکتا ہے اور آپ عشق رسالت کا دم بھر سکتے ہیں۔ عرض بس اتنی ہے کہ اسلام کو کوئی خطرہ نہیں۔ یہ 1400 سال سے محفوظ و مامون چلا آ رہا ہے اور آگے بھی نہ جانے کتنے سو یا کتنے ہزار سال تک چلتا چلاجائے گا۔ یہ اپنے دفاع کے لئے آپ کی فقط ساٹھ ستر سالہ زندگی کا ہرگز ہرگز محتاج نہیں۔ خطرہ مسلمانوں کو ہو سکتا ہے اور ان کے دفاع کا کام فوج کا ہے۔ عالم دین کا کام فقط علم کی خدمت کرنا، دین کی دعوت دینا، اسلام کے حوالے سے پیدا شدہ اشکالات و سوالات کا جواب دینا اور اگر جواب نہ آئے تو احادیث سے انکار نہ کرنا بلکہ اپنی کم علمی قبول کر کے کسی بڑے عالم کی جانب ریفر کردینا ہے۔ بے شمار پیغمبر ایسے گزرے جن کی دعوت کسی ایک بھی انسان نے قبول نہیں کی۔ وہ تنہاء آئے اور تنہاء دنیا سے چلے گئے۔ اس سے ان کی صحت پر کوئی فرق پڑا اور نہ ہی ان کی نبوت یا اللہ کی وحدانیت پر۔ اگر ہدایت دینا انسان کے بس میں ہوتا تو اس کرہ ارض پر کم از کم ہر وہ انسان ضرور ہدایت پر مرتا جس تک کوئی بھی پیغمبر پہنچ گیا تھا۔ ہدایت دینا نہ دینا خالص اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دائرہ اختیار ہے، ہم اس میں دخل دے سکتے ہیں اور نہ ہی دینے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر یہ دخل ممکن ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ کو اللہ سے حضرت عمر یا ابوجہل میں سے کوئی ایک دعاؤں میں نہ مانگنا پڑتا بلکہ ہاتھ بڑھا کر دونوں کو ہی بذاتِ خود ہدایت سے نواز دیتے اور صرف وہی نہیں بلکہ ابولہب اینڈ کمپنی کبھی بھی دنیا سے حالتِ کفر میں رخصت نہ ہوتی۔ ہمارا کام دعوت دینا ہے، کوئی اسے قبول کرے یا نہ کرے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔ ہم کوئی فیکٹری یا دکان نہیں ہیں کہ اشتہارات شائع کر کے لوگوں کو متوجہ کریں کہ حضرات ہماری فیکٹری یا دکان کی ہدایت اختیار کیجئے کیونکہ یہ عرب ممالک کے حالات سے متاثر ہو کر پاکستانی زبان میں لکھنے کے باوجود بنگلہ دیش میں نتائج ظاہر کرتی ہے اور یہ معجزہ اپنے ظہور کے لئے ایک خاص قسم کی ازہری ٹوپی کا محتاج ہے جو صرف ہمارے پاس ہے۔