القاعدہ کے بانی رہنماء اسامہ بن لادن نے اپنے آخری ایام میں ایک خط تحریر کیا تھا جس میں انھوں نے تحریک طالبان پاکستان کی حکمت عملی اور طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
امریکی حکومت نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ سے قبضے میں لیے گئے کمپوٹر مواد کی بنیاد پر مرتب کی گئی دستاویزات کو جاری کر دیا ہے جس سے مختلف مسائل اور اسامہ کی سوچ کا علم ہوتا ہے۔
یہ دستاویزات امریکی فوجی اکیڈمی کے تحقیقی ادارے ’ کامبیٹنگ ٹیرر ازم سینٹر‘ کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ہیں اور ان میں سب سے پرانی دستاویز دو ہزار چھ کی ہے۔
ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن کو القاعدہ کے بہت سینئر کارکنوں کی ہلاکت کی وجہ سے یہ خطرہ تھا کہ تنظیم کا وجود ہی ختم ہوسکتا ہے۔ انہیں اس بات کی بھی فکر تھی کہ جہاد کی وجہ سے مسلمان ان کی تحریک سے بد زن ہو رہے ہیں اور انہوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ اسلامی دنیا میں حملے کرنے کے بجائے امریکہ پر توجہ مرکوز کی جائے۔
دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ القاعدہ کی اعلٰی قیادت میں اس بات پر بھی اختلافات تھے کہ ان تنظیموں کے بارے میں کیا حکمت عملی اختیار کی جائے جن پر القاعدہ کا براہ راست کنٹرول نہیں تھا کیونکہ ان تنظیموں میں ’ڈسپلن‘ کی کمی تھی اور وہ براہ راست ہدایات لینے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ اسی سلسلےمیں ایک خط میں اسامہ بن لادن نے عراق اور یمن جیسے ممالک میں اپنے ساتھیوں کی بڑھتی ہوئی غلطیوں پر تشویش ظاہر کی تھی۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ دستاویزات میں القاعدہ اور اس کے کارکنوں کے لیے کسی پاکستانی ادارے کی جانب سے حمایت کا کوئی واضح ذکر نہیں ہے۔ بعض دستاویزات سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ القاعدہ کے ایران اور پاکستان سے روابط تلخی کا شکار تھے۔
ایک دستاویز میں القاعدہ کا نام بدلنے کی تجویز ہے جبکہ ایک خط میں پاکستان تحریک طالبان کی حکمت عملی پر تنقید کی گئی ہے
اکتوبر دو ہزار دس کے ایک خط میں اسامہ بن لادن نے وزیرستان سے القاعدہ کے کارکنوں کو ہٹانے کی ضرورت کا ذکر کیا ہے۔
امریکی انٹیلی جنس اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین نے اعلی قیادت کی سطح پر القاعدہ کے کام کرنے کے طریقہ کار اور حملوں کے لیے ممکنہ اہداف کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے مہینوں تک باریکی سے ان دستاویزات کا مطالعہ کیا ہے۔
چند روز قبل برطانوی اخبار گارڈین نے باخبر ذرائع کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں یہ دعوٰی کیا تھا کہ دستاویزات میں القاعدہ کی اعلٰی قیادت اور ملا محمد عمر کے درمیان خط و کتابت بھی شامل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن، ایمن الزواہری اور ملا عمر کے درمیان قریبی رابطہ تھا اور وہ افغانستان میں نیٹو افواج، افغان حکومت اور پاکستان میں ممکنہ اہداف پر مشترکہ حملوں کے بارے میں اکثر صلاح مشورہ کرتے تھے۔
اخبار کےمطابق اسامہ بن لادن القاعدہ کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان سے بھی کافی پریشان تھے اور انہوں نے صومالیہ میں الشہاب گروپ کے سربراہ مختار ابو الزبیر کو یہ پیغام بھی بھیجا تھا کہ وہ کھلے عام القاعدہ سے وابستگی کا اعلان نہ کریں کیونکہ اس سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن آج جاری ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن نے الشہاب کے القاعدہ سے باقاعدہ الحاق سے انکار کردیا تھا۔
اخبار کا دعوی تھا کہ پاکستانی طالبان کو بھی اس بارے میں ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ اغوا کے واقعات میں وہ کن باتوں کا خیال رکھیں۔
بی بی سی
امریکی حکومت نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ سے قبضے میں لیے گئے کمپوٹر مواد کی بنیاد پر مرتب کی گئی دستاویزات کو جاری کر دیا ہے جس سے مختلف مسائل اور اسامہ کی سوچ کا علم ہوتا ہے۔
یہ دستاویزات امریکی فوجی اکیڈمی کے تحقیقی ادارے ’ کامبیٹنگ ٹیرر ازم سینٹر‘ کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ہیں اور ان میں سب سے پرانی دستاویز دو ہزار چھ کی ہے۔
ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن کو القاعدہ کے بہت سینئر کارکنوں کی ہلاکت کی وجہ سے یہ خطرہ تھا کہ تنظیم کا وجود ہی ختم ہوسکتا ہے۔ انہیں اس بات کی بھی فکر تھی کہ جہاد کی وجہ سے مسلمان ان کی تحریک سے بد زن ہو رہے ہیں اور انہوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ اسلامی دنیا میں حملے کرنے کے بجائے امریکہ پر توجہ مرکوز کی جائے۔
دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ القاعدہ کی اعلٰی قیادت میں اس بات پر بھی اختلافات تھے کہ ان تنظیموں کے بارے میں کیا حکمت عملی اختیار کی جائے جن پر القاعدہ کا براہ راست کنٹرول نہیں تھا کیونکہ ان تنظیموں میں ’ڈسپلن‘ کی کمی تھی اور وہ براہ راست ہدایات لینے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ اسی سلسلےمیں ایک خط میں اسامہ بن لادن نے عراق اور یمن جیسے ممالک میں اپنے ساتھیوں کی بڑھتی ہوئی غلطیوں پر تشویش ظاہر کی تھی۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ دستاویزات میں القاعدہ اور اس کے کارکنوں کے لیے کسی پاکستانی ادارے کی جانب سے حمایت کا کوئی واضح ذکر نہیں ہے۔ بعض دستاویزات سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ القاعدہ کے ایران اور پاکستان سے روابط تلخی کا شکار تھے۔
ایک دستاویز میں القاعدہ کا نام بدلنے کی تجویز ہے جبکہ ایک خط میں پاکستان تحریک طالبان کی حکمت عملی پر تنقید کی گئی ہے
اکتوبر دو ہزار دس کے ایک خط میں اسامہ بن لادن نے وزیرستان سے القاعدہ کے کارکنوں کو ہٹانے کی ضرورت کا ذکر کیا ہے۔
امریکی انٹیلی جنس اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین نے اعلی قیادت کی سطح پر القاعدہ کے کام کرنے کے طریقہ کار اور حملوں کے لیے ممکنہ اہداف کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے مہینوں تک باریکی سے ان دستاویزات کا مطالعہ کیا ہے۔
چند روز قبل برطانوی اخبار گارڈین نے باخبر ذرائع کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں یہ دعوٰی کیا تھا کہ دستاویزات میں القاعدہ کی اعلٰی قیادت اور ملا محمد عمر کے درمیان خط و کتابت بھی شامل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن، ایمن الزواہری اور ملا عمر کے درمیان قریبی رابطہ تھا اور وہ افغانستان میں نیٹو افواج، افغان حکومت اور پاکستان میں ممکنہ اہداف پر مشترکہ حملوں کے بارے میں اکثر صلاح مشورہ کرتے تھے۔
اخبار کےمطابق اسامہ بن لادن القاعدہ کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان سے بھی کافی پریشان تھے اور انہوں نے صومالیہ میں الشہاب گروپ کے سربراہ مختار ابو الزبیر کو یہ پیغام بھی بھیجا تھا کہ وہ کھلے عام القاعدہ سے وابستگی کا اعلان نہ کریں کیونکہ اس سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن آج جاری ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن نے الشہاب کے القاعدہ سے باقاعدہ الحاق سے انکار کردیا تھا۔
اخبار کا دعوی تھا کہ پاکستانی طالبان کو بھی اس بارے میں ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ اغوا کے واقعات میں وہ کن باتوں کا خیال رکھیں۔
بی بی سی