• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسباب اپنانے کے کیا ضابطے ہیں ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اسباب اپنانے کے کیا ضابطے ہیں ؟

سوال: مجھے کیسے پتا چلے گا کہ میں نے ضرورت کے مطابق اتنے اسباب اپنا لیے ہیں کہ استطاعت کے مطابق اسباب اپنانے کی اپنی کوشش سے میں نفسیاتی طور پر مطمئن ہو جاؤں اور یہ جان لوں کہ اب مجھے اللہ تعالی پر بھروسا اور اعتماد کرنا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ: اسباب اپنانے کا کیا ضابطہ ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ "گھٹنا باندھ کر توکل کرو" تو کیا اسباب میں یہ شامل ہو گا کہ لوہے کی زنجیر سے باندھوں؟ یا اس میں مبالغہ آرائی ہے؟

Published Date: 2017-04-04

الحمد للہ:

اسباب اپنانا اللہ تعالی پر اعتماد اور بھروسا کرنے کے منافی نہیں ہے؛ بلکہ اسباب اپنانے کا اللہ تعالی نے حکم بھی دیا ہے، لیکن ساتھ میں یہ عقیدہ ہونا ضروری ہے کہ نفع اور نقصان صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، وہی مسبب الاسباب ہے، [یعنی اسباب میں تاثیر پیدا کر کے اہداف مکمل فرما دیتا ہے]

اسی طرح اسباب ایسے ہوں جن کا حقیقی معنوں میں باہمی تعلق ہو، اور اپنائے جانے والے اسباب کی کامیابی مشاہداتی، یا عرف یا شرعی ذریعے یا کسی اور انداز سے مشہور و معروف ہو۔

اس کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ اپنائے جانے والے اسباب شرعی طور پر بھی جائز ہوں؛ چنانچہ اچھے اہداف کیلیے وسائل و اسباب کا شرعاً درست ہونا بھی از بس ضروری ہے۔

اسباب اپنانے کے بعد انسان کو معتدل رہنا چاہیے، لہذا یہ درست نہیں ہے کہ کلی طور پر اسباب اپنانا ہی چھوڑ دے ، اور نہ ہی کلی طور پر اسباب کے ساتھ ہی دل لگا لے، چنانچہ ہونا یہ چاہیے کہ اسباب کو اسی طرح صرف ذریعہ ہی سمجھے جیسے دیگر لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں اسباب کو ذریعہ سمجھتے ہیں ، ان پر کلی اعتماد نہ کرے، بلکہ اعتماد صرف خالق باری تعالی پر ہی کرے؛ کیونکہ وہی شہنشاہ اور تمام امور کو چلانے والا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اسباب پر اعتماد کا مطلب یہ ہے کہ: دل کلی طور پر اسباب پر بھروسا کر بیٹھے اور اسی سے امید لگائے، اسی کو سہارا سمجھے؛ حالانکہ مخلوقات میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جن پر مکمل طور پر اعتماد کیا جا سکے؛ کیونکہ مخلوق تنہا کچھ بھی نہیں اور مخلوق کے حامی اور مخالفین بھی ہوتے ہیں، اس تفصیل کے بعد: اگر مسبب الاسباب ذات ان اسباب کو مؤثر نہ بنائے تو یہ اسباب غیر مؤثر ہی رہتے ہیں" انتہی
"مجموع الفتاوى" (8/169)

اور جہاں تک اسباب اپنانے کے ضابطوں کا معاملہ ہے تو وہ ہر معاملے کے اعتبار سے الگ ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے معمولی بیماری کیلیے احتیاط ایسے نہیں ہوتی جیسے غیر معمولی بیماری کیلیے ہوتی ہے، اسی طرح قیمتی چیز کی حفاظت ایسے نہیں ہو تی جیسے معمولی قیمت کی چیز کی ہوتی ہے، تو یہی معاملہ اسباب اپنانے کا بھی ہے۔

اسی طرح تلاشِ معاش کیلیے اسباب اپنانے کا ضابطہ بیماریوں سے بچاؤ سے مختلف ہو گا، اسی طرح کھانے پینے کیلیے اسباب اپنانے کا ضابطہ حصولِ اولاد کے ضابطوں اور اسباب سے مختلف ہو گا، اسی طرح بچوں کی تعلیم و تربیت کیلیے اسباب بھی مختلف ہوں گے، چنانچہ ہر معاملے کیلیے اسباب مختلف اور ان کے ضابطے بھی الگ الگ ہوں گے۔

اسی طرح اسباب نہ اپناتے ہوئے سستی اور کاہلی میں پڑے ہوئے شخص کے درمیان اور اسباب اپنانے کیلیے خوب تگ و دو کرنے والے میں بھی فرق ہوتا ہے، ہر ایک اپنے اپنے معاملات اور حالات کے اعتبار سے بھی مختلف ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں لوگوں کو اپنے بارے میں زیادہ جانکاری ہوتی ہے وہ اپنی عادات اور طور اطوار سے بھی اسباب اپنانے کی کیفیت جان لیتے ہیں۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (11749) اور (130499) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم .

اسلام سوال و جواب

https://islamqa.info/ur/213652
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اللہ تعالی پر توکل کرنے کی دلیل دے کر اسباب پر عمل نہ کرنا

بعض صوفی یہ کہتے ہیں کہ اسباب پر عمل نہ کریں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالی پر توکل اس کی تقدیر اور فیصلے کو تسلیم کرنا چاہیۓ تو کیا یہ کلام صحیح ہے اور صحیح مذہب کیا ہے ؟

Published Date: 2004-04-02

الحمدللہ :

یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی آزمائش بہت سخت اور مصیبت عام ہو چکی ہے اگرچہ وہ انفرادی ہو یا قومی طور پر امت مسلمہ بہت سی سختیوں اور مشکل دوروں سے گزرتی رہی تو صحیح تصور اور دور اندیشی اور فکری روشنی کے ساتھ ان سے نکلتی رہی اور اسباب کو تلاش کیا جاتا اور ابتدا اور انجام کو دیکھا جاتا اور پھر اس کے بعد اسباب کو لے کر عمل کیا جاتا تھا تو اس طرح گھروں میں داخل ہونے کے لۓ دروازے کا استعمال کر کے امت مسلمہ اللہ تعالی کے حکم سے ان مشکلوں سے نکل جانے میں کامیاب ہوتی تو اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس آجاتی اور اس کی گئ ہوئی بزرگی بحال ہو جاتی تو امت مسلمہ کا اپنے روشن دور میں یہ حال تھا

لیکن اس آخری دور میں جو کہ جہالت سے بھرا ہوا ہے اور اس میں الحاد وغربت کی آندھیاں اور جھکڑ چل رہے اور ضلالت وگمراہی پھیلی ہوئی ہے تو یہ معاملہ بہت سے مسلمانوں پر خلط ملط ہو چکا ہے اور انہوں نے تقدیر اور قضاء پر ایمان کو زمین میں مستقل رہنے کا سہارا بنا لیا اور اسے دور اندیشی اور کوشش کو چھوڑنے کا جواز بنا لیا اور معاملات کی بلندی اور اہمیت اور عزت وکامیابی کے راستوں کے متعلق سوچ کو ختم کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔

تو انہوں نے آسانی سے سوار ہونے کو مشکل پر ترجیح دی ہے تو ان کے لۓ مخرج یہ تھا کہ وہ آدمی تقدیر پر توکل کرے اور بیشک اللہ تعالی جو چاہے کرتا ہے اور وہ جو چاہے ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا تو اسی کا ارادہ چلتا اور اسی کی مشیت ہوتی ہے اور اس کی تقدیر اور فیصلہ جاری ہوتا ہے تو ہماری کوئی طاقت نہیں اور نہ ہی ان سب چیزوں میں ہمارا ہاتھ ہے ۔

تو اس طرح ہر آسانی اور سہولت کے ساتھ اختلاف کے بغیر اس کی تقدیر کو تسلیم کرنا چاہیے اور مشروع اور مباح اسباب پر عمل کرنا چاہے-

نہ تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور نہ ہی اللہ تعالی کے دشمنوں سے جہاد اور نہ ہی علم کے نشر کرنے اور جہالت ختم کرنے کی حرص اور نہ ہی غلط افکار اور گمراہی کی مبادیات سے ٹکراؤ ہے تو یہ سب اس دلیل کی بنا پر کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے چاہا ہے ۔

اور حقیقت میں یہی بڑی مصیبت اور عظیم گمراہی ہے جس نے امت مسلمہ کو ترقی نہیں کرنے دی اور اسے گہرائیوں میں پھینک دیا اور دشمنوں کو ان پر مسلط کرنے کا سبب بنی ہے اور اس ہلاکت کے بعد ہلاکت چلتی جا رہی ہے ۔

اور اسباب پر عمل کرنا تقدیر پر ایمان کے منافی نہیں بلکہ یہ تو اسے مکمل کرتا ہے تو اللہ تعالی نے ہمارے لۓ کچھ چیزوں کا ارادہ کیا ہے اور ہم سے بھی کچھ چیزوں کا ارادہ کیا ہے تو جو ارادہ اس نے ہمارے ساتھ کیا ہے اسے ہم سے لپیٹ لیا (چھپا ) ہے اور جو ہم سے چاہا ہمیں اسے کرنے کا حکم دیا ہے ۔

تو اس نے ہم سے یہ چاہا کہ ہم کافروں کو دعوت دین دیں اگرچہ وہ یہ جانتا تھا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے اور ہم سے اس نے یہ چاہا کہ ہم کفار کے ساتھ لڑائی کریں اگرچہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہم ان کے سامنے شکست سے دو چار ہوں گے اور اس نے ہم سے یہ چاہا کہ ہم ایک امت بن کر رہیں اگرچہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہم جدا جدا ہو جائیں گے اور اختلاف کریں گے اور اس نے ہم سے یہ چاہا کہ ہم کفار پر سخت اور آپس میں نرم دل ہوں اگرچہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہم آپس میں بہت سخت ہوں گے اور اسی طرح اور بھی ۔

تو اس کے درمیان خلط ملط کرنے کا اس نے ہمارے ساتھ جو ارادہ کیا اور ہم سے جو چاہا ہے یہی چیز معاملے کو خلط ملط کرتی اور جس سے منع کیا گیا ہے اس میں وقوع کا سبب بنتی ہے ۔

یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالی جو چاہتا ہے کرتا اور ہر چیز کا خالق ہے اسی کے ہاتھ میں ہر چيز کی بادشاہی ہے اور وہی ہے جس کے پاس آسمان وزمین کی کنجیاں ہیں، لیکن اللہ تبارک وتعالی نے اس جہان کے لۓ کچھ ضوابط تیار کۓ ہیں جن پر یہ چل رہا اور قوانین بناۓ ہیں جن کے ساتھ یہ منظم ہے اگرچہ اللہ تعالی اس پر قادر ہے کہ وہ یہ نظام اور قوانین ختم اور توڑ ڈالے اور نہ بھی توڑے۔

اور یہ ایمان رکھنا کہ اللہ تعالی کافروں کے مقابلہ میں مومنوں کی مدد پر قادر ہے اس کا یہ معنی نہیں کہ وہ گھروں میں بیٹھے رہیں اور اسباب پر عمل نہ کریں تو اللہ تعالی مومنوں کی مدد کرے گا کیونکہ اسباب کے بغیر مدد ملنا محال ہے اور اللہ تعالی کی قدرت مستحیل سے متعلق نہیں کیونکہ یہ اللہ تعالی کی حکمت کے خلاف ہے اور اللہ تعالی کی قدرت کا تعلق حکمت کے ساتھ ہے ۔

تو اللہ تعالی کا ہر چیز پر قادر ہونے کا یہ معنی نہیں ہے کہ ایک فرد یا جماعت اور یا کوئی امت اس پر قادر ہے تو اللہ تعالی کی قدرت اور اس کا اس طرح کرنا جیسا کہ اللہ تعالی نے حکم دیا ہے ان دونوں کے درمیان خلط ملط کرنا ہی انسان کو بیٹھنے پر ابھارتا ہے اور وہی امتوں اور لوگوں کو مد ہوش کر دیتا ہے ۔

اور ایک جرمن مستشرق نے مسلمانوں کے آخری دور کی تاریخ لکھتے ہوئے اسی کا ملاحظہ کیا ہے ( مسلمان کی طبیعت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ارادہ کو تسلیم اور اس کی تقدیر اور فیصلے پر راضی ہوتا اور وہ ہر چیز کے ساتھ جس کا وہ مالک ہے اللہ واحد اور قہار کے لۓ عاجزی کرتا ہے ۔

تو اس اطاعت کے دو مختلف اثر تھے تو اسلامی دور کے پہلے حصہ میں لڑائیوں کا بہت دور تھا اور ان میں مسلسل مدد ملتی رہی اور کامیابی ہوتی رہی کیونکہ یہ اطاعت فوجی کو اپنی روح قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرتی تھی ۔

اور اسلام کے آخری دور میں عالم اسلامی پر جمود طاری ہو چکا تھا جو ان کی حکومت گرانے کا سبب بنا اور اسے عالمی احداث سے لپیٹ کر رکھ دیا۔

دیکھیں کتاب : العلمانیہ للشیخ سفر الحوالی نے پاول شمٹز کی کتاب الاسلام قوۃ الغد العالمیۃ ص 87 ( اسلام کل کی عالمی طاقت ہے ) .

کتاب الایمان بالقضاء والقدر
تالیف : محمد بن ابراہیم الحمد ص 144

https://islamqa.info/ur/11749
 
Top