دنیا میں سب سے زیادہ عظیم رشتہ ماں پاب کا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی رشتہ ماں پاب کی جگہ نہیں لے سکتا ۔ ماں باپ اپنے کسی بچے کو معمولی سی تکلیف میں دیکھ کر بھی ٹرپ اٹھتے ہیں۔ ایک مشہور مثال ہے کہ ماں پاب خود توگیلے بستر پر لیٹ جاتے ہیں لیکن یہ گوارہ نہیں کرتے کہ ان کا پیارا بچہ گیلے بستر پر لیٹے۔
ماں باپ اور قریبی عزیز یا رشتے داروں کے علاوہ میں نے کبھی کسی غیر کو دوسرے کے خاطر خود تکلیف دینی والی کوئی مثال نہیں سنی۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کل کے دور میں کسی دوسرے کی اولاد کی خاطر اپنے آپ کو قربان کرنے کا جذبہ بہت ہی کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ اس بے حسی کے دور میں جب کسی ایک انسان کو دوسرے کی خبر نہیں وہاں ایک شفیق استاد نصراللہ شجیع اپنے شاگرد کو بچانے کے لیے دریا میں کود گیا۔ جی ہاں یہ وہی نصراللہ شجیع ہیں جو اپنی مثال آپ تھے ۔ شیریں لب و لہجہ ، پیار بھرا اندا ز ہر طالب علم ان سے بے حد محبت کرتا تھا۔ وہ بچوں کی کھیل ہی کھیل میں تربیت کا سامان بھی کرتے تھے۔
حال ہی میں عثمان پبلک اسکول کراچی کا تفریحی ٹوراسکول کے پرنسپل نصراللہ شجیع کی قیادت میں لاہور،اسلام آباد اور دیگر مقامات سے ہوتا ہوا بالاکوٹ پہنچا ۔ طالب علم فورا بس سے اتر کر ادھر ادھر بیٹھ کر گپ شپ لگانے لگے اور کچھ تصاویر بنانے میں مشغول ہوگئے۔اسی دوران اچانک ایک جانب سے شور اٹھا۔ پرنسپل نصراللہ شجیع، دیگر استاتذہ اور بچے قریب پہنچے تو دیکھا ایک طالب علم سفیان دریا ئے کنہار کے تیز پانی میں ڈوب رہاتھا ۔ایک بہادر اور شفیق استاد سے یہ منظر دیکھا نہ گیا اور نصراللہ شجیع نے اپنے طالب علم سفیان کو آوازیں دیتے ہوئے اس کو بچانے کی غرض سے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ یہ تو دیکھا ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کی محبت میں دریا میں کود جائے لیکن کسی دوسرے کی اولاد کی خاطر ایسی قربانی کا حوصلہ کسی کسی میں ہی ہوتا ہے ۔
جب میں نے یہ خبر سنی تو مجھے گذشتہ سال کا واقعہ یاد آگیا جب منگوال میں ایک سکول وین میں سلنڈر پھٹنے سے آگ لگ گئی تھی۔ لیکن وین میں موجود ٹیچر سمعیہ نورین نے اپنی جان کی پراہ کئے بغیر بچوں کو بچاتے بچاتے اپنی جان قربان کردی ۔
آج کے بے حس دور میں جہاں بھائی ہی بھائی کا دشمن ہے وہاں سمعیہ نورین اور نصراللہ شجیع جیسے عظیم لوگوں نے استاد ہونے کی لاج رکھ لی انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ استاد بھی روحانی ماں باپ ہوتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو ایسے ہی اساتذہ کی ضرورت ہے جو طلبا کے درست تعلیم کو تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی ہمہ وقت مدد کے لئے بھی تیار رہیں۔ اگر ہر استاد سمعیہ نورین اور نصراللہ شجیع جیسے روش اختیار کرلے تو مجھے یقین ہے کہ ہماری نوجوان نسل اور استاتذہ کے درمیان حائل دوریاں ہمیشہ کے لئے ختم ہوسکتی ہیں ۔ اور معاشرے میں بڑھتے ہوئے بگاڑ پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے۔ میری تمام استاتذہ سے گزارش ہے کہ وہ صرف ایک بار طلبا کے روحانی ماں باپ بن کر دیکھیں ۔ اس ملک کے ہر کونے میں علم کی شمع روشن ہوجائے
عبدالقیوم
ماں باپ اور قریبی عزیز یا رشتے داروں کے علاوہ میں نے کبھی کسی غیر کو دوسرے کے خاطر خود تکلیف دینی والی کوئی مثال نہیں سنی۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کل کے دور میں کسی دوسرے کی اولاد کی خاطر اپنے آپ کو قربان کرنے کا جذبہ بہت ہی کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ اس بے حسی کے دور میں جب کسی ایک انسان کو دوسرے کی خبر نہیں وہاں ایک شفیق استاد نصراللہ شجیع اپنے شاگرد کو بچانے کے لیے دریا میں کود گیا۔ جی ہاں یہ وہی نصراللہ شجیع ہیں جو اپنی مثال آپ تھے ۔ شیریں لب و لہجہ ، پیار بھرا اندا ز ہر طالب علم ان سے بے حد محبت کرتا تھا۔ وہ بچوں کی کھیل ہی کھیل میں تربیت کا سامان بھی کرتے تھے۔
حال ہی میں عثمان پبلک اسکول کراچی کا تفریحی ٹوراسکول کے پرنسپل نصراللہ شجیع کی قیادت میں لاہور،اسلام آباد اور دیگر مقامات سے ہوتا ہوا بالاکوٹ پہنچا ۔ طالب علم فورا بس سے اتر کر ادھر ادھر بیٹھ کر گپ شپ لگانے لگے اور کچھ تصاویر بنانے میں مشغول ہوگئے۔اسی دوران اچانک ایک جانب سے شور اٹھا۔ پرنسپل نصراللہ شجیع، دیگر استاتذہ اور بچے قریب پہنچے تو دیکھا ایک طالب علم سفیان دریا ئے کنہار کے تیز پانی میں ڈوب رہاتھا ۔ایک بہادر اور شفیق استاد سے یہ منظر دیکھا نہ گیا اور نصراللہ شجیع نے اپنے طالب علم سفیان کو آوازیں دیتے ہوئے اس کو بچانے کی غرض سے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ یہ تو دیکھا ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کی محبت میں دریا میں کود جائے لیکن کسی دوسرے کی اولاد کی خاطر ایسی قربانی کا حوصلہ کسی کسی میں ہی ہوتا ہے ۔
جب میں نے یہ خبر سنی تو مجھے گذشتہ سال کا واقعہ یاد آگیا جب منگوال میں ایک سکول وین میں سلنڈر پھٹنے سے آگ لگ گئی تھی۔ لیکن وین میں موجود ٹیچر سمعیہ نورین نے اپنی جان کی پراہ کئے بغیر بچوں کو بچاتے بچاتے اپنی جان قربان کردی ۔
آج کے بے حس دور میں جہاں بھائی ہی بھائی کا دشمن ہے وہاں سمعیہ نورین اور نصراللہ شجیع جیسے عظیم لوگوں نے استاد ہونے کی لاج رکھ لی انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ استاد بھی روحانی ماں باپ ہوتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو ایسے ہی اساتذہ کی ضرورت ہے جو طلبا کے درست تعلیم کو تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی ہمہ وقت مدد کے لئے بھی تیار رہیں۔ اگر ہر استاد سمعیہ نورین اور نصراللہ شجیع جیسے روش اختیار کرلے تو مجھے یقین ہے کہ ہماری نوجوان نسل اور استاتذہ کے درمیان حائل دوریاں ہمیشہ کے لئے ختم ہوسکتی ہیں ۔ اور معاشرے میں بڑھتے ہوئے بگاڑ پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے۔ میری تمام استاتذہ سے گزارش ہے کہ وہ صرف ایک بار طلبا کے روحانی ماں باپ بن کر دیکھیں ۔ اس ملک کے ہر کونے میں علم کی شمع روشن ہوجائے
عبدالقیوم