احمد رضا الباکستانی
مبتدی
- شمولیت
- دسمبر 05، 2014
- پیغامات
- 3
- ری ایکشن اسکور
- 1
- پوائنٹ
- 18
تحریر: ابو زبیدہ الشامی
پہلا امر:
فقہاء کرام کے ہاں یہ مسئلہ معروف اور متفقہ ہے کہ جب کوئی حکومت، خالص شرعی بنیادوں پر اسلامی حکومت قرار دے دی جائے تو اس کے بعد اس حکومت کو اس وقت تک معزول نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کی اطاعت سے راہِ فرار اختیار کی جاسکتی ہے جب تک کہ اس حکومت کے حاکم کی جانب سے کسی کفر بواح کا ظہور نہ ہوجائے! صرف فسق وفجور کی بنیاد پر یا پھر مسلمانوں پر ظلم و ستم کی بنیاد پر اس حکومت کے خلاف خروج نہیں کیا جاسکتا۔ جیساکہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے
أَلَا مَنْ وَلِیَ عَلَیْہِ وَالٍ فَرَآہُ یَأْتِی شیئاً مِنْ مَعْصِیَةِ اللَّہِ فَلْیَکْرَہْ مَا یَأْتِی مِنْ مَعْصِیَةِ اللَّہِ وَلَا یَنْزِعَنَّ یَدًا مِنْ طَاعَةٍ (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، رقم: ۴۷۶۸)
جان لو کہ جس شخص پر کوئی حکمران بنا ہو، پھر وہ اس کو کسی ’’معصیت‘‘ کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھے تو جس معصیت کا وہ ارتکاب کررہا ہے، اُسے برا سمجھے لیکن اطاعت سے ہرگز ہاتھ نہ کھینچے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛
لا ینخلع إلا بالکفر أو بترک إقامۃ الصلاۃ أو الترک إلی دعا أو شیئاً من الشریعة، لقولہ علیہ السلام فی حدیث عبادۃ:(وألا ننازع الامر أہلہ إلا أن تروا کفرا بواحا عندکم من اللہ فیہ برہان (تفسیر القرطبی ج ۱ ص ۲۷۱)
کچھ لوگ کہتے ہیں جب تک امام کفر نہ کرے اسے ہٹایا نہیں جائے گا یا نماز ترک نہ کرے یا اور کوئی شریعت کا کام ترک نہ کردے جیسا کہ عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے: الا یہ کہ تم امام میں واضح کفر دیکھ لو جس پر تمہارے پاس دلیل ہو۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَنَقَلَ اِبْن التِّین عَنْ الدَّاوُدِیِّ قَال:الَّذِی عَلَیْہِ الْعُلَمَاء فِی أُمَرَاء الْجَوْر أَنَّہُ إِنْ قَدَرَ عَلَی خَلْعہ بِغَیْرِ فِتْنَۃ وَلَا ظُلْم وَجَبَ ، وَإِلَّا فَالْوَاجِب الصَّبْر۔ وَعَنْ بَعْضہمْ لَا یَجُوز عَقْد الْوِلَایَۃ لِفَاسِقٍ اِبْتِدَاء ، فَإِنْ أَحْدَثَ جَوْرًا بَعْدَ أَنْ کَانَ عَدْلًا فَاخْتَلَفُوا فِی جَوَاز الْخُرُوج عَلَیْہِ ، وَالصَّحِیح الْمَنْع إِلَّا أَنْ یُکَفِّر فَیُجِبْ الْخُرُوج عَلَیْہِ (فتح الباری لابن حجر، ج۲۰ص ۵۹ رقم: ۶۵۳۲)
ابن التین نے داؤدی سے نقل کیا ہے کہ امراءِ ظلم کے بارے میں علماء کی رائے یہ ہے کہ اگر بغیر فتنہ اور ظلم کے اس کو ہٹانا ممکن ہوتو ضروری اور واجب ہے ورنہ صبر واجب ہے۔ بعض نے کہا کہ فاسق کو حکومتی عہدہ دینا ہی جائز نہیں ہے اگر عہدہ حاصل کرنے کے بعد ظلم کیا تو اس کے ہٹانے میں اختلاف ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ بغاوت سے منع ہے جب تک کہ اس سے واضح کفر صادر نہ ہو۔
امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں:
وَأَمَّا قَوْلہ:(أَفَلَا نُقَاتِلہُمْ ؟ قَالَ :لَا ، مَا صَلَّوْا ) فَفِیہِ مَعْنَی مَا سَبَقَ أَنَّہُ لَا یَجُوز الْخُرُوج عَلَی الْخُلَفَاء بِمُجَرَّدِ الظُّلْم أَوْ الْفِسْق مَا لَمْ یُغَیِّرُوا شیئاً مِنْ قَوَاعِد الْإِسْلَام (شرح النووی علی مسلم، ج: ۶، ص: ۳۲۷)
پوچھا گیا کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ خلفاء کے خلاف خروج جائز نہیں صرف ظلم و فسق کی وجہ سے جب تک کہ وہ قواعد اسلام میں سے کسی چیزکو نہ بدل دیں۔
یہاں تک فقہاء کرام کی اس حاکم کے بارے میں بھی یہی رائے ہے جس نے بزور طاقت زبردستی مسلمانوں پر اقتدار حاصل کرلیا ہو مگر وہ ان میں شریعت کے مطابق حکومت کررہا ہو۔
علامہ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛
فِی الْحَدِیث حُجَّۃ فِی تَرْک الْخُرُوج عَلَی السُّلْطَان وَلَوْ جَارَ ، وَقَدْ أَجْمَعَ الْفُقَہَاء عَلَی وُجُوب طَاعَۃ السُّلْطَان الْمُتَغَلِّب وَالْجِہَاد مَعَہُ وَأَنَّ طَاعَتہ خَیْر مِنْ الْخُرُوج عَلَیْہِ لِمَا فِی ذَلِکَ مِنْ حَقْن الدِّمَاء وَتَسْکِین الدَّہْمَاء (فتح الباری، ج ۲۰ ص ۵۸ رقم: ۶۵۳۰)
سلطان چاہے ظالم ہی کیوں نہ ہو، اس کے خلاف مسلح بغاوت نہ کی جائے اور فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو سلطان زبردستی حاکم بن بیٹھا ہو تو (صحیح احادیث کے مطابق شرعی امور میں) اس کی اطاعت واجب ہے، اور اس کے ساتھ مل کر جہاد بھی مشروع ہے، اور یہ کہ اس کی اطاعت مسلح بغاوت سے بہتر ہے کیونکہ اسی طریقے میں خونریزی سے بچاؤ اور مصیبتوں کا ازالہ ہے۔
امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأجمعوا علی السمع والطاعة لأمة المسلمین وعلی ان کل من ولی شیئاً من امورھم عن رضی أو غلبۃ وامتدت طاعة من بر أو فاجر لایلزم الخروج علیہ بالسیف جار او عدل
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے امام کی سمع وطاعت فرض ہے۔ اور جو شخص بھی مسلمانوں کی رضا مندی یا بزور طاقت ان کا حکمران بن گیا ہو اور اس کی اطاعت نیک و بد تک پھیل گئی ہوتو ایسے حکمران کے خلاف تلوار سے خروج جائز نہیں ہے، چاہے وہ ظلم کرے یا عدل۔
البتہ اگر کسی حاکم کی ذات میں کسی کفر بواح کا ظہور ہوجائے تو اس کے خلاف خروج کرنا واجب ہوجاتا ہے اور اس کے خلاف قتال جہاد فی سبیل اللہ قرار پاتا ہے۔ ہر صاحب استطاعت پر اس کے خلاف کھڑا ہونا واجب ہوجاتا ہے اور اگر استطاعت نہ ہوتو پھر ہجرت لازم ہوجاتی ہے۔
دوسرا امر:
اسی طرح شریعت میں یہ مسئلہ بھی متفقہ ہے کہ جو کوئی بھی بلا عذر شرعی یعنی کفر بواح کے ظہور کے بغیر کسی اسلامی حکومت سے بغاوت کرے تو وہ متفقہ طور پر "باغی" تصور کیا جاتا ہے اور (باوجود اس کے کہ وہ مسلمان ہوتا ہے) اس کے خلاف قتال جائز ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ شخص یا فرد اسلامی حکومت کی اطاعت نہ قبول کرلے۔
علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والباغی فی عرف الفقہاء:الخارج عن طاعة امام الحق (فتح القدیر، ج ۵ ص ۳۳۴)
فقہاء کے ہاں عرف عام میں باغی اس گروہ کو کہتے ہیں جوکہ حق کے ساتھ حکومت کرنے والے حاکم کے خلاف خروج کرے۔
علامہ زین الدین نجیم حنفی رحمہ اللہ باغی کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وأما البغاۃ: فقوم مسلمو ن خرجوا علی الامام العدل (البحر الرائق فی شرح الکنز الدقائق جلد ۵ ص ۱۵۱)
جہاں تک باغیوں کا تعلق ہے تو یہ مسلمانوں میں سے وہ لوگ ہیں جو کہ عدل کے ساتھ حکومت کرنے والے حاکم کے خلاف مسلح ہوکر مقابلے پر نکل آئیں۔
یہاں تک کہ فقہاء نے اس حاکم کے خلاف بھی خروج کرنے والوں کو باغی قرار دیا ہے جوکہ معصیت کا مرتکب ہو یا پھر وہ ظلم وزیادتی کا مرتکب ہوا ہو۔
امام شربینی رحمہ اللہ باغی کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
والبغی :الظلم ومجاوزۃ الحد۔ سموا بذلک لظلمھم وعدولھم عن الحق والأصل فیہ آیة؛(وَإِن طَآٮِٕفَتَانِ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ٱقۡتَتَلُواْ) ولیس فیھا ذکر الخروج علی الامام صریحا لکنھا تشملہ بعمومھا أو تقتضیہ ،لأنہ اذا طلب القتال لبغی طائفة علی طائفة فللبغی علی الامام أولیٰ۔ وھم مسلمون مخالفو امام ولو جائرا،بأن خرجوا عن طاعتہ بعدم انقیادھم لہ أو منع حق توجہ علیھم کزکاۃ بالشروط الآتیة۔ ویقاتل أھل البغی وجوبا کما استفید من الآیة المتقدمة (الاقناع، ج ۲ ص ۵۴۷)
بغیٰ کے معنی ظلم ہے اور حد سے تجاوز کرنا بھی۔ باغیوں کو باغی اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ ظلم بھی کرتے ہیں اور حق سے بھی ہٹ جاتے ہیں۔ اس میں اصل یہ آیت مبارکہ ہے:(اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں)۔ اس آیت میں صراحتاً مسلمانوں کے امام کے خلاف خروج کا ذکر تو نہیں ہے لیکن یہ آیت مبارکہ اپنے عموم کی وجہ سے ایسے خروج کے متعلق بھی ہے۔ اس لئے کہ جب ایک گروہ کا دوسرے گروہ کے خلاف ظلم و زیادتی کے سبب جنگ کرنا واجب ہے تو مسلمانوں کےامام کے خلاف بغاوت کرنے والے گروہ کے خلاف قتال تو بدرجہ اولیٰ واجب ہوگا چاہے وہ امام ظالم ہی کیوں نہ ہو اور یہ باغی مسلمان ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کے امام کی اطاعت کو تسلیم نہ کرکےاس کے خلاف خروج کیا ہے یا اس کے حقوق کی ادائیگی سے انکار کیا ہے جیسے زکوۃ۔ اہل بغاوت کے ساتھ (ان کے مسلمان ہونے کے باوجود) وجوبی طور پر ان سے جنگ کی جائے گی جیساکہ مذکورہ آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے۔
امام ابن ہبیرۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واتفقوا علی أنہ اذا خرج علی امام المسلمین طائفۃ ذات شوکة بتأویل مشتبہ، فانہ یباح قتالھم حتی یفیئوا (الافصاح، ص ۴۰۲)
تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں جب طاقت و قوت والا کوئی گروہ کسی مشتبہ تاویل کی بناء پر مسلمانوں کے امام کی اطاعت سے نکل جائے تو اس کے خلاف قتال مباح ہے یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے امام کی اطاعت میں واپس آجائے۔
تیسرا امر:
اسی طرح جو بھی اسلامی حکومت ہو اس پر لازم ہے کہ وہ سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنی حدودو اربعہ میں توسیع کے لئے اپنی سرحدوں پر واقع دار الحرب پر مہم جوئی کرے تاکہ مزید علاقوں پر شریعت کا نفاذ ہوسکے، اگر تو یہ کام بناء تلوار چلے ہوجائے تو فبہا ورنہ اگر تلوار کا بھی استعمال کرنا پڑے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔
علامہ ابن عابدین شامی الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فیجب علی الامام ان یبعث سریة الی دار الحرب کل سنة أو مرتین (الرد المختار، ج ۳ ص ۲۳۹)
مسلمانوں کے امام پر لازم ہے کہ ہر سال میں ایک دفعہ یا دو دفعہ ایک لشکر دار الحرب پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کرے۔
امام ابن قدامہ الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واقل مایفعل مرۃ فی کل عام (المغنی، ج ۹ ص ۱۶۴)
(اسلامی حکومت پر) جہاد فرض کفایہ کی اقل مقدار ہر سال میں ایک مرتبہ ہے۔
امام احمد بن غنیم المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الجہاد فرض کفایة فی کل سنة (الفواکہ الدوانی، ج ۱ ص ۳۹۸)
(اسلامی حکومت پر) جہاد ہر سال فرض کفایہ ہے۔
فقہاء نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر ایک سال یہ کام نہ ہوسکے تو پھر امام سمیت سب لوگ گنہگار ہوں گے۔
علامہ ابن عابدین شامی الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
انہ یجب علی الامام فی کل سنة مرۃ أو مرتین وحینئذ فلا یکفی فعلہ فی سنةعن سنة اخریٰ (الرد المختار، ج ۳ ص ۲۴۰)
مسلمانوں کے امام کے لئے ضرور ی ہے کہ ہر سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ (دار الحرب کی جانب) لشکر روانہ کرے۔ لہٰذا اس کا ایک سال کا جہاد دوسرے سال کے جہاد کے لئے کافی نہ ہوگا۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ عمومی حالات میں جبکہ دار الحرب کی جانب سے مسلمانوں پر کسی بھی قسم کے حملہ کا ڈر بھی نہ ہوتو اس وقت بھی مسلمانو ں کے امام پر لازم ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ وہ اسلامی حکومت کے سرحدات میں توسیع کے لئے دار الحرب پر لشکر کشی کرے تاکہ اس علاقے پر بھی اللہ کی شریعت نافذ کی جاسکے۔
تو ذرا تصور کیجئےان حالات کے بارے میں جبکہ اسلامی سرحدوں کے قریب یا کسی دوسرےعلاقے میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں اور ان کی عزتوں کو تار تار کیا جارہا ہو تو اس وقت مسلمانوں کے امام پر کتنا بڑا فرض عائد ہوجائے گا کہ وہ ان کی مددو نصرت کے لئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاکر جلد از جلد اسلامی لشکروں کو روانہ کریں۔ جبکہ اس وقت ایک عام مسلمان پر بھی انفرادی طور پر ان کی مدد ونصرت کے لئے جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔ اور اگر مسلمانوں کا امام اس سے غفلت برتے تو وہ کتنے بڑے جرم کا مرتکب ٹہرے گا۔ فقہاء کرام تو صرف اس بناء پر مسلمانوں کے تحفظ کے لئے لشکروں کے بھیجے جانے کو ضروری قرار دیتے ہیں جبکہ مسلمانوں کو ابھی صرف اس بات کا خوف ہی لاحق ہوا ہو کہ دشمن ان پر حملہ آور ہونے والا ہے۔
امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَمَعْلُومٌ فِي اعْتِقَادِ جَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ أَنَّهُ إذَا خَافَ أَهْلُ الثُّغُورِ مِنْ الْعَدُوِّ ، وَلَمْ تَكُنْ فِيهِمْ مُقَاوِمَةٌ لَهُمْ فَخَافُوا عَلَى بِلَادِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَذَرَارِيِّهِمْ أَنَّ الْفَرْضَ عَلَى كَافَّةِ الْأُمَّةِ أَنْ يَنْفِرُ إلَيْهِمْ مَنْ يَكُفُّ عَادِيَتَهُمْ عَنْ الْمُسْلِمِينَ .وَهَذَا لَا خِلَافَ فِيهِ بَيْنَ الْأُمَّةِ ، إذْ لَيْسَ مِنْ قَوْلِ أَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ إبَاحَةُ الْقُعُودِ عَنْهُمْ حَتَّى يَسْتَبِيحُوا دِمَاءَ الْمُسْلِمِينَ وَسَبْيَ ذَرَارِيِّهِمْ (احکام القرآن: ج ۷ ص ۳۷)
اور تمام مسلمانوں کے اعتقاد میں یقینی طور پر یہ بات ہے کہ ’’دارالاسلام‘‘ کی سرحدوں پر رہنے والے جب دشمن سے خوف زدہ ہوں اور دشمن کے مقابلے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور اپنے شہروں، جانوں اور اہل خانہ کے بارے میں خوف کا شکار ہوں تو تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ ان کی مدد کے لئے اتنے لوگ نکلیں کہ جو دشمن سے دفاع کے لئے کافی ہوں اور یہ ایسی بات ہے جس کے بارے میں امت میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس لئے کہ اس وقت کسی بھی مسلمان کا یہ قول نہیں ہوتا کہ ان کی مدد سے کنارہ کشی حلال ہے تاکہ کفار مسلمانوں کے خون اور ان کے بچوں کو قید کرنے کو حلال سمجھنے لگیں۔
ایک بات ذہن میں مستحضر رہے کہ جہاد کی ادائیگی چاہے فرض کفایہ کی صورت میں ہو یا پھر فرض عین کی صورت میں، علاقوں کا فتح ہونا اور مال غنیمت کے طور پر اموال اور زمین کا مسلمانوں کے پاس آجانا یہ تو جہاد کا ثمرہ ہے جو کہ اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے انعام ہوتا ہے اور جس کو رسول اللہﷺ نے احل الحلال قرار دیا ہے۔
چوتھا امر:
یہ بات فقہاء کرام کے نزدیک متفقہ ہے کہ اسلامی حکومت کا حاکم ان تمام کاموں کی انجام دہی کے لئےجوکہ حکومت سے متعلق ہوں تو وہ اس پر شریعت کے مطابق اپنی شوریٰ کے مشورے سے عمل کرتا ہے۔ وہ معاملات جن میں شریعت کی واضح نصوص موجود ہیں ان کے عملی نفاذ کے لئے مشورہ کرتا ہے اور اس حکم کو نافذ کرتا ہے اور اگر وہ معاملہ انتظامی حوالے سے ہے تو اس معاملے میں وہ اپنی شوریٰ یا شوریٰ سے باہر مشورہ تو لیتا ہے لیکن اصل صوابدیدی اختیار اس انتظامی معاملات میں اس اسلامی حکومت کے حاکم کا ہوتا ہے کہ آیا وہ اس معاملے میں اپنی شوریٰ یا کسی اور کا مشورہ قبول کرے یا اپنی رائے کے مطابق اس پر حکم جاری کرے۔
مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اپنی کتاب "خلافت و جمہوریت" میں لکھتے ہیں:
حتی کہ اگر ساری شوریٰ بھی ایک طرف ہو اور امیر کو یہ وثوق ہو کہ اس کی رائے اقرب الی الحق ہے تو ساری شوریٰ کے خلاف بھی فیصلہ دے سکتا ہے۔ جیساکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوۃ سے جنگ کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا۔ (خلافت و جمہوریت، ص ۱۲۷)
حال ہی میں اس کی مثال امارت اسلامی افغانستان کی ہے کہ جب ملاعمر حفظہ اللہ نے علماء کی شوریٰ بلاکر ان سے شیخ اسامہ کی بابت مشورہ مانگا تو انہوں نے ان کو افغانستان سے باہر چلے جانے کو کہا جس کو ملاعمر حفظہ اللہ مکمل طور پر رد کردیا۔
ایک عملی مثال:
ایک عالم یا مجاہد کمانڈر جس نے ایک حکومت کو اسلامی حکومت تسلیم کیا پھر وہ عالم یا جہادی کمانڈر صرف اس بنیاد پر کہ فلاں فلاں انتظامی معاملات میں چونکہ تم نے ہمارے حکم کو نہیں مانا تو تم ہماری نافرمانی کے مرتکب ہوئے ہو۔ لہٰذا تم منہج سے ہٹ چکے ہو لہٰذا اب تمہاری حکومت اسلامی نہیں رہی اور تم مسلمانوں کی امامت سے معزول ہوچکے ہو۔ تو کیا اس طرح کے طرز استدلال کی کوئی شرعی حیثیت ہے ؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی عالم یا مجاہد جوکہ ایک حکومت کو خالص اسلامی اصولوں پر پرکھتے ہوئے "اسلامی حکومت" یا "اسلامی ریاست" (جس کو عربی میں "امارت" یا "الدولۃ" کہتے ہیں) قرار دے چکا ہوتو پھر وہ اس حکومت کے حاکم کو کسی بھی معاملے میں مشورہ تو دے سکتا ہے لیکن کسی مشورے کو بطور حکم کے منوا نہیں سکتا اور اگر کسی انتظامی معاملے پر اس حاکم کو اپنے حکم کا پابند سمجھتا ہے تو اس کا علم وفضل اور مجاہدہ اپنی جگہ مبارک لیکن اس کا یہ فلسفہ یا منہج شرعی طور پر کسی صورت قابل قبول نہیں۔
اور جو کوئی بھی اس فلسفے یا منہج کو لوگوں پر لازم قرار دے چاہے، وہ کتنے ہی بڑے علم و فضل والا ہوا اور کتنا ہی بڑا جہادی کمانڈر ہی کیوں نہ ہو، (اس کا مقام اپنی جگہ مبارک لیکن) شرعی طور پر اس عالم یا جہادی کمانڈر کی اس بات کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اس کا یہ استدلال قابل قبول ہوگا۔
استاذ الحدیث مولانا فضل محمد حفظہ اللہ (جامعہ بنوری ٹاؤن۔ کراچی) اپنی کتاب "اسلامی خلافت" میں اسی مثال کو سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہی وجہ ہے کہ مشورہ میں یہ ضروری نہیں ہے کہ جس نے مشورہ دیا تو اس کی بات ضرور مانی جائے گی، یہ تو مشورہ نہیں بلکہ حکم ہے۔ مشورہ تو صرف رائے معلوم کرنے کا نام ہے، آگے خلیفہ خود مختار ہے کہ وہ ان مشوروں کی روشنی میں کوئی فیصلہ اپنی صوابدید پر کرے۔ آج کل بد قسمتی سے ہر جگہ یہی ہورہا ہے کہ مشورہ دینے والا اپنا مشورہ مسلط کرنا چاہتا ہے، جس سے افتراق و انتشار پیدا ہوجاتا ہے تو جس مشورہ کو اللہ تعالیٰ نے اتحاد واتفاق کا ذریعہ بنایا، اس کو ہم نے افتراق کا ذریعہ بناکر رکھ دیا۔ قرآن کا اعلان ہے؛ (وَشَاوِرۡهُمۡ فِى ٱلۡأَمۡرِ*ۖ فَإِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِ*ۚ) آپ ان سے مشورہ لیں لیکن جب آپ فیصلہ کا عزم کرلیں تو پھر صرف اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ معلوم ہوا کہ عزم اور فیصلہ کرنے میں امیر اکیلا ہی خودمختار ہوتا ہے ورنہ یہاں عزمتم اور توکلوا جمع کے صیغے می آتے۔ (اسلامی خلافت، ص ۱۱۵)
یہ چند امور ہیں جن کو سامنے نہ رکھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ نادانی میں اور بہت سے بغض علی یا بغض معاویہ میں آج الدولۃ الاسلامیۃ العراق والشام، جس کے قیام کے وقت القاعدۃ الجہاد کی اس وقت کی قیادت مثلاً: شیخ اسامہ، شیخ ایمن الظواہری، شیخ ابو یحییٰ اللیبی، امام انور العولقی نے اس کو بطور "الدولۃ" یعنی اسلامی ریاست یا حکومت کے بطور قبول کیا تھا بلکہ مستقبل کے لئے اس کو خلافت علٰی منہاج النبوۃ کا پیش خیمہ اور اس کی طرف پہلا قدم قرار دیا تھا، آج اسی الدولۃ الاسلامیۃ پر طرح طرح کے الزامات لگارہے ہیں۔ کہیں بناء ثبوت کے اس پر خوارج ہونے کا فتاویٰ جاری کررہے ہیں، کہیں انتظامی معاملات پر اختلاف کی بناء پر کچھ لوگ اپنا الگ جتھہ اور گروہ بناکر اسی کے خلاف نبرد آزما ہیں اور کہیں الدولۃ کے وہ اقدامات جن کا تعلق قطعی طور پر انتظامی معاملات سے تھا اور ہے (جیسے الدولۃ کی شام کی جانب وسعت) اس پر الدولۃ کو ایسے امر سے باندھنے کی کوشش کررہے ہیں جس کا شرعی طور پر دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے۔
اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ الدولۃ کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور کوئی بھی تبصرہ کرنے سے پہلے درجہ بالا شرعی امور جوکہ اسلامی حکومت سے متعلق فقہاء نے بیان کئے ہیں ان کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ مبادا کہ وہ ایسے فعل میں مبتلا ہوجائیں جس پر عند اللہ مجرم ٹہریں اور نادانی اور افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔ العیاذ باللہ
آپ کا مخلص بھائی
ابو زبیدہ الشامی عفی اللہ عنہ
http://justpaste.it/sharaihkm
پہلا امر:
فقہاء کرام کے ہاں یہ مسئلہ معروف اور متفقہ ہے کہ جب کوئی حکومت، خالص شرعی بنیادوں پر اسلامی حکومت قرار دے دی جائے تو اس کے بعد اس حکومت کو اس وقت تک معزول نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کی اطاعت سے راہِ فرار اختیار کی جاسکتی ہے جب تک کہ اس حکومت کے حاکم کی جانب سے کسی کفر بواح کا ظہور نہ ہوجائے! صرف فسق وفجور کی بنیاد پر یا پھر مسلمانوں پر ظلم و ستم کی بنیاد پر اس حکومت کے خلاف خروج نہیں کیا جاسکتا۔ جیساکہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے
أَلَا مَنْ وَلِیَ عَلَیْہِ وَالٍ فَرَآہُ یَأْتِی شیئاً مِنْ مَعْصِیَةِ اللَّہِ فَلْیَکْرَہْ مَا یَأْتِی مِنْ مَعْصِیَةِ اللَّہِ وَلَا یَنْزِعَنَّ یَدًا مِنْ طَاعَةٍ (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، رقم: ۴۷۶۸)
جان لو کہ جس شخص پر کوئی حکمران بنا ہو، پھر وہ اس کو کسی ’’معصیت‘‘ کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھے تو جس معصیت کا وہ ارتکاب کررہا ہے، اُسے برا سمجھے لیکن اطاعت سے ہرگز ہاتھ نہ کھینچے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛
لا ینخلع إلا بالکفر أو بترک إقامۃ الصلاۃ أو الترک إلی دعا أو شیئاً من الشریعة، لقولہ علیہ السلام فی حدیث عبادۃ:(وألا ننازع الامر أہلہ إلا أن تروا کفرا بواحا عندکم من اللہ فیہ برہان (تفسیر القرطبی ج ۱ ص ۲۷۱)
کچھ لوگ کہتے ہیں جب تک امام کفر نہ کرے اسے ہٹایا نہیں جائے گا یا نماز ترک نہ کرے یا اور کوئی شریعت کا کام ترک نہ کردے جیسا کہ عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے: الا یہ کہ تم امام میں واضح کفر دیکھ لو جس پر تمہارے پاس دلیل ہو۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَنَقَلَ اِبْن التِّین عَنْ الدَّاوُدِیِّ قَال:الَّذِی عَلَیْہِ الْعُلَمَاء فِی أُمَرَاء الْجَوْر أَنَّہُ إِنْ قَدَرَ عَلَی خَلْعہ بِغَیْرِ فِتْنَۃ وَلَا ظُلْم وَجَبَ ، وَإِلَّا فَالْوَاجِب الصَّبْر۔ وَعَنْ بَعْضہمْ لَا یَجُوز عَقْد الْوِلَایَۃ لِفَاسِقٍ اِبْتِدَاء ، فَإِنْ أَحْدَثَ جَوْرًا بَعْدَ أَنْ کَانَ عَدْلًا فَاخْتَلَفُوا فِی جَوَاز الْخُرُوج عَلَیْہِ ، وَالصَّحِیح الْمَنْع إِلَّا أَنْ یُکَفِّر فَیُجِبْ الْخُرُوج عَلَیْہِ (فتح الباری لابن حجر، ج۲۰ص ۵۹ رقم: ۶۵۳۲)
ابن التین نے داؤدی سے نقل کیا ہے کہ امراءِ ظلم کے بارے میں علماء کی رائے یہ ہے کہ اگر بغیر فتنہ اور ظلم کے اس کو ہٹانا ممکن ہوتو ضروری اور واجب ہے ورنہ صبر واجب ہے۔ بعض نے کہا کہ فاسق کو حکومتی عہدہ دینا ہی جائز نہیں ہے اگر عہدہ حاصل کرنے کے بعد ظلم کیا تو اس کے ہٹانے میں اختلاف ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ بغاوت سے منع ہے جب تک کہ اس سے واضح کفر صادر نہ ہو۔
امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں:
وَأَمَّا قَوْلہ:(أَفَلَا نُقَاتِلہُمْ ؟ قَالَ :لَا ، مَا صَلَّوْا ) فَفِیہِ مَعْنَی مَا سَبَقَ أَنَّہُ لَا یَجُوز الْخُرُوج عَلَی الْخُلَفَاء بِمُجَرَّدِ الظُّلْم أَوْ الْفِسْق مَا لَمْ یُغَیِّرُوا شیئاً مِنْ قَوَاعِد الْإِسْلَام (شرح النووی علی مسلم، ج: ۶، ص: ۳۲۷)
پوچھا گیا کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ خلفاء کے خلاف خروج جائز نہیں صرف ظلم و فسق کی وجہ سے جب تک کہ وہ قواعد اسلام میں سے کسی چیزکو نہ بدل دیں۔
یہاں تک فقہاء کرام کی اس حاکم کے بارے میں بھی یہی رائے ہے جس نے بزور طاقت زبردستی مسلمانوں پر اقتدار حاصل کرلیا ہو مگر وہ ان میں شریعت کے مطابق حکومت کررہا ہو۔
علامہ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛
فِی الْحَدِیث حُجَّۃ فِی تَرْک الْخُرُوج عَلَی السُّلْطَان وَلَوْ جَارَ ، وَقَدْ أَجْمَعَ الْفُقَہَاء عَلَی وُجُوب طَاعَۃ السُّلْطَان الْمُتَغَلِّب وَالْجِہَاد مَعَہُ وَأَنَّ طَاعَتہ خَیْر مِنْ الْخُرُوج عَلَیْہِ لِمَا فِی ذَلِکَ مِنْ حَقْن الدِّمَاء وَتَسْکِین الدَّہْمَاء (فتح الباری، ج ۲۰ ص ۵۸ رقم: ۶۵۳۰)
سلطان چاہے ظالم ہی کیوں نہ ہو، اس کے خلاف مسلح بغاوت نہ کی جائے اور فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو سلطان زبردستی حاکم بن بیٹھا ہو تو (صحیح احادیث کے مطابق شرعی امور میں) اس کی اطاعت واجب ہے، اور اس کے ساتھ مل کر جہاد بھی مشروع ہے، اور یہ کہ اس کی اطاعت مسلح بغاوت سے بہتر ہے کیونکہ اسی طریقے میں خونریزی سے بچاؤ اور مصیبتوں کا ازالہ ہے۔
امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأجمعوا علی السمع والطاعة لأمة المسلمین وعلی ان کل من ولی شیئاً من امورھم عن رضی أو غلبۃ وامتدت طاعة من بر أو فاجر لایلزم الخروج علیہ بالسیف جار او عدل
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے امام کی سمع وطاعت فرض ہے۔ اور جو شخص بھی مسلمانوں کی رضا مندی یا بزور طاقت ان کا حکمران بن گیا ہو اور اس کی اطاعت نیک و بد تک پھیل گئی ہوتو ایسے حکمران کے خلاف تلوار سے خروج جائز نہیں ہے، چاہے وہ ظلم کرے یا عدل۔
البتہ اگر کسی حاکم کی ذات میں کسی کفر بواح کا ظہور ہوجائے تو اس کے خلاف خروج کرنا واجب ہوجاتا ہے اور اس کے خلاف قتال جہاد فی سبیل اللہ قرار پاتا ہے۔ ہر صاحب استطاعت پر اس کے خلاف کھڑا ہونا واجب ہوجاتا ہے اور اگر استطاعت نہ ہوتو پھر ہجرت لازم ہوجاتی ہے۔
دوسرا امر:
اسی طرح شریعت میں یہ مسئلہ بھی متفقہ ہے کہ جو کوئی بھی بلا عذر شرعی یعنی کفر بواح کے ظہور کے بغیر کسی اسلامی حکومت سے بغاوت کرے تو وہ متفقہ طور پر "باغی" تصور کیا جاتا ہے اور (باوجود اس کے کہ وہ مسلمان ہوتا ہے) اس کے خلاف قتال جائز ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ شخص یا فرد اسلامی حکومت کی اطاعت نہ قبول کرلے۔
علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والباغی فی عرف الفقہاء:الخارج عن طاعة امام الحق (فتح القدیر، ج ۵ ص ۳۳۴)
فقہاء کے ہاں عرف عام میں باغی اس گروہ کو کہتے ہیں جوکہ حق کے ساتھ حکومت کرنے والے حاکم کے خلاف خروج کرے۔
علامہ زین الدین نجیم حنفی رحمہ اللہ باغی کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وأما البغاۃ: فقوم مسلمو ن خرجوا علی الامام العدل (البحر الرائق فی شرح الکنز الدقائق جلد ۵ ص ۱۵۱)
جہاں تک باغیوں کا تعلق ہے تو یہ مسلمانوں میں سے وہ لوگ ہیں جو کہ عدل کے ساتھ حکومت کرنے والے حاکم کے خلاف مسلح ہوکر مقابلے پر نکل آئیں۔
یہاں تک کہ فقہاء نے اس حاکم کے خلاف بھی خروج کرنے والوں کو باغی قرار دیا ہے جوکہ معصیت کا مرتکب ہو یا پھر وہ ظلم وزیادتی کا مرتکب ہوا ہو۔
امام شربینی رحمہ اللہ باغی کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
والبغی :الظلم ومجاوزۃ الحد۔ سموا بذلک لظلمھم وعدولھم عن الحق والأصل فیہ آیة؛(وَإِن طَآٮِٕفَتَانِ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ٱقۡتَتَلُواْ) ولیس فیھا ذکر الخروج علی الامام صریحا لکنھا تشملہ بعمومھا أو تقتضیہ ،لأنہ اذا طلب القتال لبغی طائفة علی طائفة فللبغی علی الامام أولیٰ۔ وھم مسلمون مخالفو امام ولو جائرا،بأن خرجوا عن طاعتہ بعدم انقیادھم لہ أو منع حق توجہ علیھم کزکاۃ بالشروط الآتیة۔ ویقاتل أھل البغی وجوبا کما استفید من الآیة المتقدمة (الاقناع، ج ۲ ص ۵۴۷)
بغیٰ کے معنی ظلم ہے اور حد سے تجاوز کرنا بھی۔ باغیوں کو باغی اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ ظلم بھی کرتے ہیں اور حق سے بھی ہٹ جاتے ہیں۔ اس میں اصل یہ آیت مبارکہ ہے:(اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں)۔ اس آیت میں صراحتاً مسلمانوں کے امام کے خلاف خروج کا ذکر تو نہیں ہے لیکن یہ آیت مبارکہ اپنے عموم کی وجہ سے ایسے خروج کے متعلق بھی ہے۔ اس لئے کہ جب ایک گروہ کا دوسرے گروہ کے خلاف ظلم و زیادتی کے سبب جنگ کرنا واجب ہے تو مسلمانوں کےامام کے خلاف بغاوت کرنے والے گروہ کے خلاف قتال تو بدرجہ اولیٰ واجب ہوگا چاہے وہ امام ظالم ہی کیوں نہ ہو اور یہ باغی مسلمان ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کے امام کی اطاعت کو تسلیم نہ کرکےاس کے خلاف خروج کیا ہے یا اس کے حقوق کی ادائیگی سے انکار کیا ہے جیسے زکوۃ۔ اہل بغاوت کے ساتھ (ان کے مسلمان ہونے کے باوجود) وجوبی طور پر ان سے جنگ کی جائے گی جیساکہ مذکورہ آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے۔
امام ابن ہبیرۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واتفقوا علی أنہ اذا خرج علی امام المسلمین طائفۃ ذات شوکة بتأویل مشتبہ، فانہ یباح قتالھم حتی یفیئوا (الافصاح، ص ۴۰۲)
تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں جب طاقت و قوت والا کوئی گروہ کسی مشتبہ تاویل کی بناء پر مسلمانوں کے امام کی اطاعت سے نکل جائے تو اس کے خلاف قتال مباح ہے یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے امام کی اطاعت میں واپس آجائے۔
تیسرا امر:
اسی طرح جو بھی اسلامی حکومت ہو اس پر لازم ہے کہ وہ سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنی حدودو اربعہ میں توسیع کے لئے اپنی سرحدوں پر واقع دار الحرب پر مہم جوئی کرے تاکہ مزید علاقوں پر شریعت کا نفاذ ہوسکے، اگر تو یہ کام بناء تلوار چلے ہوجائے تو فبہا ورنہ اگر تلوار کا بھی استعمال کرنا پڑے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔
علامہ ابن عابدین شامی الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فیجب علی الامام ان یبعث سریة الی دار الحرب کل سنة أو مرتین (الرد المختار، ج ۳ ص ۲۳۹)
مسلمانوں کے امام پر لازم ہے کہ ہر سال میں ایک دفعہ یا دو دفعہ ایک لشکر دار الحرب پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کرے۔
امام ابن قدامہ الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واقل مایفعل مرۃ فی کل عام (المغنی، ج ۹ ص ۱۶۴)
(اسلامی حکومت پر) جہاد فرض کفایہ کی اقل مقدار ہر سال میں ایک مرتبہ ہے۔
امام احمد بن غنیم المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الجہاد فرض کفایة فی کل سنة (الفواکہ الدوانی، ج ۱ ص ۳۹۸)
(اسلامی حکومت پر) جہاد ہر سال فرض کفایہ ہے۔
فقہاء نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر ایک سال یہ کام نہ ہوسکے تو پھر امام سمیت سب لوگ گنہگار ہوں گے۔
علامہ ابن عابدین شامی الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
انہ یجب علی الامام فی کل سنة مرۃ أو مرتین وحینئذ فلا یکفی فعلہ فی سنةعن سنة اخریٰ (الرد المختار، ج ۳ ص ۲۴۰)
مسلمانوں کے امام کے لئے ضرور ی ہے کہ ہر سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ (دار الحرب کی جانب) لشکر روانہ کرے۔ لہٰذا اس کا ایک سال کا جہاد دوسرے سال کے جہاد کے لئے کافی نہ ہوگا۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ عمومی حالات میں جبکہ دار الحرب کی جانب سے مسلمانوں پر کسی بھی قسم کے حملہ کا ڈر بھی نہ ہوتو اس وقت بھی مسلمانو ں کے امام پر لازم ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ وہ اسلامی حکومت کے سرحدات میں توسیع کے لئے دار الحرب پر لشکر کشی کرے تاکہ اس علاقے پر بھی اللہ کی شریعت نافذ کی جاسکے۔
تو ذرا تصور کیجئےان حالات کے بارے میں جبکہ اسلامی سرحدوں کے قریب یا کسی دوسرےعلاقے میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں اور ان کی عزتوں کو تار تار کیا جارہا ہو تو اس وقت مسلمانوں کے امام پر کتنا بڑا فرض عائد ہوجائے گا کہ وہ ان کی مددو نصرت کے لئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاکر جلد از جلد اسلامی لشکروں کو روانہ کریں۔ جبکہ اس وقت ایک عام مسلمان پر بھی انفرادی طور پر ان کی مدد ونصرت کے لئے جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔ اور اگر مسلمانوں کا امام اس سے غفلت برتے تو وہ کتنے بڑے جرم کا مرتکب ٹہرے گا۔ فقہاء کرام تو صرف اس بناء پر مسلمانوں کے تحفظ کے لئے لشکروں کے بھیجے جانے کو ضروری قرار دیتے ہیں جبکہ مسلمانوں کو ابھی صرف اس بات کا خوف ہی لاحق ہوا ہو کہ دشمن ان پر حملہ آور ہونے والا ہے۔
امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَمَعْلُومٌ فِي اعْتِقَادِ جَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ أَنَّهُ إذَا خَافَ أَهْلُ الثُّغُورِ مِنْ الْعَدُوِّ ، وَلَمْ تَكُنْ فِيهِمْ مُقَاوِمَةٌ لَهُمْ فَخَافُوا عَلَى بِلَادِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَذَرَارِيِّهِمْ أَنَّ الْفَرْضَ عَلَى كَافَّةِ الْأُمَّةِ أَنْ يَنْفِرُ إلَيْهِمْ مَنْ يَكُفُّ عَادِيَتَهُمْ عَنْ الْمُسْلِمِينَ .وَهَذَا لَا خِلَافَ فِيهِ بَيْنَ الْأُمَّةِ ، إذْ لَيْسَ مِنْ قَوْلِ أَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ إبَاحَةُ الْقُعُودِ عَنْهُمْ حَتَّى يَسْتَبِيحُوا دِمَاءَ الْمُسْلِمِينَ وَسَبْيَ ذَرَارِيِّهِمْ (احکام القرآن: ج ۷ ص ۳۷)
اور تمام مسلمانوں کے اعتقاد میں یقینی طور پر یہ بات ہے کہ ’’دارالاسلام‘‘ کی سرحدوں پر رہنے والے جب دشمن سے خوف زدہ ہوں اور دشمن کے مقابلے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور اپنے شہروں، جانوں اور اہل خانہ کے بارے میں خوف کا شکار ہوں تو تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ ان کی مدد کے لئے اتنے لوگ نکلیں کہ جو دشمن سے دفاع کے لئے کافی ہوں اور یہ ایسی بات ہے جس کے بارے میں امت میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس لئے کہ اس وقت کسی بھی مسلمان کا یہ قول نہیں ہوتا کہ ان کی مدد سے کنارہ کشی حلال ہے تاکہ کفار مسلمانوں کے خون اور ان کے بچوں کو قید کرنے کو حلال سمجھنے لگیں۔
ایک بات ذہن میں مستحضر رہے کہ جہاد کی ادائیگی چاہے فرض کفایہ کی صورت میں ہو یا پھر فرض عین کی صورت میں، علاقوں کا فتح ہونا اور مال غنیمت کے طور پر اموال اور زمین کا مسلمانوں کے پاس آجانا یہ تو جہاد کا ثمرہ ہے جو کہ اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے انعام ہوتا ہے اور جس کو رسول اللہﷺ نے احل الحلال قرار دیا ہے۔
چوتھا امر:
یہ بات فقہاء کرام کے نزدیک متفقہ ہے کہ اسلامی حکومت کا حاکم ان تمام کاموں کی انجام دہی کے لئےجوکہ حکومت سے متعلق ہوں تو وہ اس پر شریعت کے مطابق اپنی شوریٰ کے مشورے سے عمل کرتا ہے۔ وہ معاملات جن میں شریعت کی واضح نصوص موجود ہیں ان کے عملی نفاذ کے لئے مشورہ کرتا ہے اور اس حکم کو نافذ کرتا ہے اور اگر وہ معاملہ انتظامی حوالے سے ہے تو اس معاملے میں وہ اپنی شوریٰ یا شوریٰ سے باہر مشورہ تو لیتا ہے لیکن اصل صوابدیدی اختیار اس انتظامی معاملات میں اس اسلامی حکومت کے حاکم کا ہوتا ہے کہ آیا وہ اس معاملے میں اپنی شوریٰ یا کسی اور کا مشورہ قبول کرے یا اپنی رائے کے مطابق اس پر حکم جاری کرے۔
مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اپنی کتاب "خلافت و جمہوریت" میں لکھتے ہیں:
حتی کہ اگر ساری شوریٰ بھی ایک طرف ہو اور امیر کو یہ وثوق ہو کہ اس کی رائے اقرب الی الحق ہے تو ساری شوریٰ کے خلاف بھی فیصلہ دے سکتا ہے۔ جیساکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوۃ سے جنگ کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا۔ (خلافت و جمہوریت، ص ۱۲۷)
حال ہی میں اس کی مثال امارت اسلامی افغانستان کی ہے کہ جب ملاعمر حفظہ اللہ نے علماء کی شوریٰ بلاکر ان سے شیخ اسامہ کی بابت مشورہ مانگا تو انہوں نے ان کو افغانستان سے باہر چلے جانے کو کہا جس کو ملاعمر حفظہ اللہ مکمل طور پر رد کردیا۔
ایک عملی مثال:
ایک عالم یا مجاہد کمانڈر جس نے ایک حکومت کو اسلامی حکومت تسلیم کیا پھر وہ عالم یا جہادی کمانڈر صرف اس بنیاد پر کہ فلاں فلاں انتظامی معاملات میں چونکہ تم نے ہمارے حکم کو نہیں مانا تو تم ہماری نافرمانی کے مرتکب ہوئے ہو۔ لہٰذا تم منہج سے ہٹ چکے ہو لہٰذا اب تمہاری حکومت اسلامی نہیں رہی اور تم مسلمانوں کی امامت سے معزول ہوچکے ہو۔ تو کیا اس طرح کے طرز استدلال کی کوئی شرعی حیثیت ہے ؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی عالم یا مجاہد جوکہ ایک حکومت کو خالص اسلامی اصولوں پر پرکھتے ہوئے "اسلامی حکومت" یا "اسلامی ریاست" (جس کو عربی میں "امارت" یا "الدولۃ" کہتے ہیں) قرار دے چکا ہوتو پھر وہ اس حکومت کے حاکم کو کسی بھی معاملے میں مشورہ تو دے سکتا ہے لیکن کسی مشورے کو بطور حکم کے منوا نہیں سکتا اور اگر کسی انتظامی معاملے پر اس حاکم کو اپنے حکم کا پابند سمجھتا ہے تو اس کا علم وفضل اور مجاہدہ اپنی جگہ مبارک لیکن اس کا یہ فلسفہ یا منہج شرعی طور پر کسی صورت قابل قبول نہیں۔
اور جو کوئی بھی اس فلسفے یا منہج کو لوگوں پر لازم قرار دے چاہے، وہ کتنے ہی بڑے علم و فضل والا ہوا اور کتنا ہی بڑا جہادی کمانڈر ہی کیوں نہ ہو، (اس کا مقام اپنی جگہ مبارک لیکن) شرعی طور پر اس عالم یا جہادی کمانڈر کی اس بات کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اس کا یہ استدلال قابل قبول ہوگا۔
استاذ الحدیث مولانا فضل محمد حفظہ اللہ (جامعہ بنوری ٹاؤن۔ کراچی) اپنی کتاب "اسلامی خلافت" میں اسی مثال کو سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہی وجہ ہے کہ مشورہ میں یہ ضروری نہیں ہے کہ جس نے مشورہ دیا تو اس کی بات ضرور مانی جائے گی، یہ تو مشورہ نہیں بلکہ حکم ہے۔ مشورہ تو صرف رائے معلوم کرنے کا نام ہے، آگے خلیفہ خود مختار ہے کہ وہ ان مشوروں کی روشنی میں کوئی فیصلہ اپنی صوابدید پر کرے۔ آج کل بد قسمتی سے ہر جگہ یہی ہورہا ہے کہ مشورہ دینے والا اپنا مشورہ مسلط کرنا چاہتا ہے، جس سے افتراق و انتشار پیدا ہوجاتا ہے تو جس مشورہ کو اللہ تعالیٰ نے اتحاد واتفاق کا ذریعہ بنایا، اس کو ہم نے افتراق کا ذریعہ بناکر رکھ دیا۔ قرآن کا اعلان ہے؛ (وَشَاوِرۡهُمۡ فِى ٱلۡأَمۡرِ*ۖ فَإِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِ*ۚ) آپ ان سے مشورہ لیں لیکن جب آپ فیصلہ کا عزم کرلیں تو پھر صرف اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ معلوم ہوا کہ عزم اور فیصلہ کرنے میں امیر اکیلا ہی خودمختار ہوتا ہے ورنہ یہاں عزمتم اور توکلوا جمع کے صیغے می آتے۔ (اسلامی خلافت، ص ۱۱۵)
یہ چند امور ہیں جن کو سامنے نہ رکھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ نادانی میں اور بہت سے بغض علی یا بغض معاویہ میں آج الدولۃ الاسلامیۃ العراق والشام، جس کے قیام کے وقت القاعدۃ الجہاد کی اس وقت کی قیادت مثلاً: شیخ اسامہ، شیخ ایمن الظواہری، شیخ ابو یحییٰ اللیبی، امام انور العولقی نے اس کو بطور "الدولۃ" یعنی اسلامی ریاست یا حکومت کے بطور قبول کیا تھا بلکہ مستقبل کے لئے اس کو خلافت علٰی منہاج النبوۃ کا پیش خیمہ اور اس کی طرف پہلا قدم قرار دیا تھا، آج اسی الدولۃ الاسلامیۃ پر طرح طرح کے الزامات لگارہے ہیں۔ کہیں بناء ثبوت کے اس پر خوارج ہونے کا فتاویٰ جاری کررہے ہیں، کہیں انتظامی معاملات پر اختلاف کی بناء پر کچھ لوگ اپنا الگ جتھہ اور گروہ بناکر اسی کے خلاف نبرد آزما ہیں اور کہیں الدولۃ کے وہ اقدامات جن کا تعلق قطعی طور پر انتظامی معاملات سے تھا اور ہے (جیسے الدولۃ کی شام کی جانب وسعت) اس پر الدولۃ کو ایسے امر سے باندھنے کی کوشش کررہے ہیں جس کا شرعی طور پر دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے۔
اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ الدولۃ کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور کوئی بھی تبصرہ کرنے سے پہلے درجہ بالا شرعی امور جوکہ اسلامی حکومت سے متعلق فقہاء نے بیان کئے ہیں ان کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ مبادا کہ وہ ایسے فعل میں مبتلا ہوجائیں جس پر عند اللہ مجرم ٹہریں اور نادانی اور افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔ العیاذ باللہ
آپ کا مخلص بھائی
ابو زبیدہ الشامی عفی اللہ عنہ
http://justpaste.it/sharaihkm