کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
اسلامی ریاست کیا ہے؟
[SUP]اصل تحریر مولانہ سید احمد کی ھے جسے کسی نے ضرورت کے مطابق بہت سے حصے نکال کر اسے الگ سے تیار کیا ھے میں نے اسے مسلم العالمین ممبر کے دھاگہ سے نقل کیا ھے[/SUP]
اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکم رانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے، اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہے [SUP]بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی کے:[/SUP]
"اسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چناںچہ ماوردی نے یہ بات لکھی ہے کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔
[SUP](محاضراتِ شریعت :ص287)[/SUP]"
اسلام میں سیاست شجرِ ممنوعہ نہیں ہے، یہ ایسا کامل ضابطہٴ حیات ہے جو نہ صرف انسان کو معیشت ومعاشرت کے اصول وآداب سے آگاہ کرتا ہے، بلکہ زمین کے کسی حصہ میں اگر اس کے پیرو کاروں کواقتدار حاصل ہو جائے تو وہ انہیں شفاف حکم رانی کے گر بھی سکھاتا ہے، عیسائیت کی طرح اسلام "کلیسا" اور "ریاست" کی تفریق کا کوئی تصور پیش نہیں کرتا۔
ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حکومت جس کو ہم اسلامی حکومت کہتے ہیں ، اس کی نوعیت کیا ہے۔اس سلسلہ میں سب سے پہلی خصوصیت جو اسلامی حکومت کو تمام دوسری حکومتوں سے ممتا زکرتی ہے وہ یہ ہے کہ قومیت کا عنصر اس میں قطعی نا پید ہے۔ اسلامی مملکت کے اجزائے ترکیبی یا اس کے بنیادی اصول کو درجِ ذیل نکات میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ عقیدہٴ توحید ۔ عبدیت۔ خلافت ونیابتِ الہی۔
عقیدہٴ توحید
عقیدہٴ توحید مملکتِ اسلامی یا سیاست شرعیہ کی سب سے اہم بنیاد ہے یعنی صرف اللہ تعالیٰ سارے انسانو ں کا معبود حقیقی ہے انسان کو چاہیے کہ وہ اسی کے آگے سر جھکائے، اسی سے مانگے ، اُسے کار ساز جانے، قرآن مجید میں عقیدہٴ توحید کو مختلف انداز سے باربار واضح کیا گیا ہے، ارشادِ باری ہے
ذلکم اللہ ربکم لا الہ الا ھوخالق کل شيء فاعبدوہ وھوعلی کل شيء وکیل
وہی ایک اللہ تمہارا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں [SUP](وہی)[/SUP] ہر چیز کا خالق ہے، پس تم اس کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز کا نگہبان ہے۔
[SUP](الانعام: 102)[/SUP]
عقیدہٴ توحید کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان غیراللہ کی غلامی سے نکل کر صرف ایک اللہ کی غلامی میں آ جاتا ہے؛ چناںچہ، ایک مسلمان صرف خدا ہی کے احکام پرچلتا ہے اور جب وہ کسی غیرمسلم کواسلام کی دعوت دیتا ہے تو دراصل اسے غیراللہ کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں لاتا ہے، جب رستم کے دربار میں صحابیٴ رسول رِبعی بن عامر رضی اللہ تعالی سے ان کی آمد کا مقصد پوچھا گیا تو انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اللہ نے ہمیں بھیجا ہے، تاکہ ہم، جسے اللہ نے چاہا اسے بندوں کی بندگی سے نکال کراللہ کی بندگی کی طرف لے آئیں۔
عبدیت
عقیدہٴ توحید جب کسی کے اندرون میں راسخ ہو جاتا ہے تو اس میں عبدیت کی روح پیدا ہو جاتی ہے اورعبدیت وہ عظیم جوہر ہے جس کے حاصل ہونے سے بندہ کو ہر قسم کی ذہنی و مادی قوتوں سے نجات حاصل ہو جاتی ہے اورانسان ساری جکڑ بندیوں سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے اور غیراللہ کی غلامی کا بوجھ اتار پھینکتا ہے اور اسے ان مختلف دنیوی خداوٴں سے نجات حاصل ہو جاتی ہے جن کی وجہ سے ظلم وستم کا بازار گرم ہوتا ہے اور ایک انسان دوسرے انسان کا دشمن اورایک جماعت دوسری جماعت سے نفرت کرتی ہے۔ اللہ کی غلامی انسان میں خودغرضی اورتنگ نظری کو جڑ سے اکھیڑ دیتی ہے، اس کی جگہ خدا کے دوسرے بندوں کے ساتھ ہمدردی اورخیرخواہی کے جذبات کو پروان چڑھاتی ہے۔
خلافت ونیابتِ الہٰی
مملکتِ اسلامی یا اسلامی سیاست کا تیسرا عنصر خلافت ونیابت الہی ہے، یعنی انسان خدا کا بندہ ہونے کے ساتھ دنیا میں اس کا خلیفہ اور نائب ہے، یعنی اللہ کی زمین میں اللہ کے احکام کا نفاذ کرکے نیابتِ الہی کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے اپنا خلیفہ اور نائب ہونے کی حیثیت سے حضرتِ انسان کو کچھ قوتیں اور محدود قدرتیں عطا کی ہیں، تاکہ انہیں استعمال میں لا کر وہ زمین پر اللہ کے احکام نافذ کرے، قرآنِ مجید میں اللہ تعالی نے اس خلافت و نیابت الہی کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا:
انی جاعل فی الارض خلیفة
میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔
[SUP](البقرة:32)[/SUP]
خلافت کسے کہتے ہیں؟
”اسلام اور فلسفہٴ سیاسیات“ کے مولف اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”خلافت کے لغوی معنی جانشینی کے ہیں اور خلیفہ اس کو کہتے ہیں جو کسی کی مِلک میں اس کے سونپے ہوئے اختیارات کو بحیثیتِ نائب استعمال کرے۔ خلافت میں اختیارات تفویض کردہ ہوتے ہیں، خلیفہ اس مِلک کا بذاتِ خود مالک نہیں ہوتا، بلکہ مالکِ حقیقی کا نائب ہوتا ہے،اس وجہ سے اس کے اختیارات ذاتی نہیں ہوتے، بلکہ عطا کردہ ہوتے ہیں، وہ اپنے منشا ٴ اورمرضی کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا، بلکہ اس کا مقصد مالک کی منشا اور مرضی کو سامنے رکھ کر ان اختیارات کو استعمال کرنا ہوتا ہے“۔
[SUP](اسلام کا فلفسہٴ سیاسیات :80)[/SUP]
چوںکہ کائنات کا مالک ِ حقیقی اللہ تبارک وتعالی ہے، اس لیے کائنات میں اسی کا منشا چلے گا۔ اور حکومتِ اسلامی میں اصل اقتدار اعلیٰ اسی ربِ کائنات کو حاصل ہے، مملکتِ اسلامی میں خلیفہ حقیقی مقتدرِ اعلیٰ کا نائب اور اس کے تفویض کردہ اختیارات کے صحیح استعمال کا پابند ہوتا ہے، سیاستِ شرعیہ اورمملکتِ اسلامی کے مذکورہ بالا تینوں تشکیلی عناصر کے مطالعہ سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں ان میں اولین نتیجہ یہ ہے کہ مملکتِ اسلامی دراصل ایک نیابتی حکومت ہے، جسے حکومتِ الہی کی شکل میں اللہ تعالی اپنے بندوں کے سپرد کرتا ہے۔
علامہ ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں:
”سنتِ رسول اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ولایت و حکومت ایک امانتِ الہی ہے ، جس کا ادا کرنا اس کے موقع ومحل میں واجب ہے۔“
[SUP](سیاستِ الہیہ:ص20)[/SUP]
مدینہ منور کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کر کے ایک عظیم اسلامی ریاست بن گئی ، جس کے حدودِ حکمرانی شمال میں عراق وشام کی سرحدوں سے لے کر جنوب میں یمن وحضر موت تک ، اور مغرب میں بحرِ قلزم سے لے کر مشرق میں خلیج فارس و سلطنتِ ایران تک وسیع ہو گئیں اور علمی طور سے پورے جزیزہ نمائے عرب پر اسلام کی حکمرانی قائم ہو گئی۔
اگرچہ شروع میں اسلامی ریاست کا نظم ونسق عرب قبائلی روایات پر قائم واستوار تھا تا ہم جلد ہی وہ ایک ملک گیر ریاست اور مرکزی حکومت میں تبدیل ہو گئی ، یہ عربوں کے لیے ایک بالکل نیا سیاسی تجربہ تھا؛ کیونکہ قبائلی روایات اور بدوی فطرت کے مطابق وہ مختلف قبائلی ، سیاسی اکائیوں میں منقسم رہنے کے عادی تھے ، یہ سیاسی اکائیاں آزاد وخود مختار ہوتی تھیں، جو ایک طرف قبائلی آزادی کے تصور کی علمبرداری تھیں تو دوسری طرف سیاسی افراتفری اور اس کے نتیجہ میں تسلسل سیاسی چپقلش ، فوجی تصادم اور علاقائی منافرت کی بھی ذمہ دار تھیں ، عربوں میں ناصرف مرکزیت کا فقدان تھا؛ بلکہ وہ مرکزی اور قومی حکومت کے تصور سے بھی عاری تھے کہ یہ نظریات ان کی من مانی قبائلی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے ، وہ کسی ”غیر“ کی حکمرانی تسلیم ہی نہیں کرسکتے تھے ، یہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کا سیاسی معجزہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے دشمن قبائل عرب کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوم میں تبدیل کر دیا اور ان کی ان گنت سیاسی اکائیوں کی جگہ ایک مرکزی حکومت قائم فرما دی، جس کی اطاعت بدوی اورشہری تمام عرب باشندے کرتے تھے ، اس کا سب سے بڑا؛ بلکہ واحد سبب یہ تھا کہ اب ”قبیلہ یا خون “ کے بجائے ”اسلام یا دین “معاشرہ وحکومت کی اساس تھا، اسلامی حکومت کی سیاسی آئیڈیالوجی اب اسلام اور صرف اسلام تھا، جن کو اس سیاسی نصب العین سے مکمل اتفاق نہیں تھا ان کے لیے بھی بعض اسباب سے اس ریاست کی سیاسی بالادستی تسلیم کرنی ضروری تھی ۔
اللہ کے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جب راہِ ہجرت میں قدم رکھا تو آپ صلى الله عليه وسلم کی زبان مبارک پرسورہ ٴ اسرائیل کی ایک آیت کثرت سے رہتی تھی :
اے اللہ ! [SUP](نئی منزل میں )[/SUP] صدق وصفا سے داخل کر اور جہاں سے نکالا ہے وہاں کا نکلنا بھی صدق وصفا پر مبنی ہو [SUP](نئی جگہ دین پھیلانے کے لیے )[/SUP] غلبہ عطا فرما۔
[SUP](سورہ بنی اسرائیل : ٨٠)[/SUP]
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلى الله عليه وسلم کی دعا قبول فرمائی ، اسلامی مملکت کے قیام کے لیے آپ صلى الله عليه وسلم کوغلبہ عطا فرمایا ۔ ابھی آپ صلى الله عليه وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضى الله عنه کے مکان میں قیام فرما تھے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے میثاق ِمدینہ کا اہتمام کیا ، اس مقصد کے لیے آپ صلى الله عليه وسلم نے مہاجرین ، انصار ، یہود ، عیسائی اور دیگر قبائل کو جمع کیا ، آپ صلى الله عليه وسلم نے کچھ گفتگو فرمائی، اس کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم نے اس موقع پر ایک تحریر لکھوائی ، ابتدائی موٴرخین نے اسی کو صحیفہ کا نام دیا ہے ، یہ حکمرانِ وقت کا ایک فرمان تھا ، ساتھ ہی تمام لوگوں کا اقرار نامہ بھی تھا ، جس پر ان لوگوں کے دستخط تھے ، اس میں مسلمان اور مشرکین دونوں شریک تھے ، ڈاکٹر حمید اللہ نے اسے پہلا تحریری دستور قرار دیا ہے ، وہ لکھتے ہیں :
”مدینہ میں ابھی نِراج کی کیفیت تھی اور قبائلی دور دورہ تھا ، عرب اوس اور خزرج کے بارہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے اور یہود بنو النضیر و بنو قریظہ وغیرہ کے دس قبائل میں تھے، ان میں باہم کئی کئی نسلوں سے لڑائی جھگڑے چلے آ رہے تھے ، اور کچھ عرب کچھ یہودیوں کے ساتھ حلیف ہو کر باقی عربوں اور ان کے حلیف یہودیوں کے حریف بنے ہوئے تھے ۔ ان میں مسلسل جنگوں سے اب دونوں تنگ آ چکے تھے اور وہاں کے کچھ لوگ غیر قبائل خاص کر قریش کی جنگی امداد کی تلاش میں تھے ؛ لیکن شہر میں امن پسند طبقات کو غلبہ ہو رہا تھا اور ایک بڑی جماعت اس بات کی تیاری کر رہی تھی کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول کو بادشاہ بنا دیں ؛ حتی کہ بخاری اورابن ہشام وغیرہ کے مطابق اس کے تاج شہر یاری کی تیاری بھی کاریگروں کے سپر د ہو چکی تھی ، بلاشبہ حضور صلى الله عليه وسلم نے بیعة عقبہ میں بارہ قبائل میں بارہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے نقیب مقرر کر کے مرکزیت پیدا کرنے کی کوشش فرمائی تھی ، مگر اس سے قطع نظر وہاں کے ہر قبیلے کا الگ راج تھا ، اور وہ اپنے اپنے سائبان میں اپنے معاملات طے کیا کرتا تھا ، کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا ، تربیت یافتہ مبلغوں کی کوششوں سے تین سال کے اندر شہر میں کچھ لوگ مسلمان ہو چکے تھے ؛ مگر مذہب ابھی تک خانگی ادارہ تھا ، اس کی سیاسی حیثیت وہاں کچھ نہ تھی ، اور ایک ہی گھر میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے ، ان حالات میں حضور صلى الله عليه وسلم مدینہ آتے ہیں، جہاں اس وقت اور متعدد فور ی ضرورتیں تھیں :
۱- اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا تعین ۔
۲- مہاجرینِ مکہ کے قیام اور گزربسر کا انتظام ۔
۳- شہر کے غیر مسلم عربوں اور خاص کر یہودیوں سے سمجھوتہ ۔
۴ - شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کا اہتمام ۔
۵- قریشِ مکہ سے مہاجرین کو پہنچے ہوئے جانی و مالی نقصانات کا بدلہ ۔
ان ہی اغراض کے مدنظر حضور صلى الله عليه وسلم نے ہجرت کر کے مدینہ آنے کے چند مہینہ بعد ہی ایک دستاویز مرتب فرمائی، جسے اسی دستاویز میں کتاب و صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے ، جس کے معنی دستور العمل اور فرائض نامہ کے ہیں ، اصل میں یہ شہر مدینہ کو پہلی دفعہ شہری ملکیت قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا “
[SUP](ڈاکٹر حمید اللہ کی بہترین تحریریں : مرتب قاسم محمود،ص :۲۵۳)[/SUP]
اس میثاق کے بنیادی نکات یہ تھے :
۱- آبادیوں میں امن و امامن قائم رہے گا؛ تاکہ سکون سے نئی نسل کی تربیت کی جا سکے۔
۲- مذہب اور معاش کی آزادی ہو گی ۔
۳- فتنہ وفساد کو قوت سے ختم کیا جائے گا ۔
۴- بیرو نی حملوں کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا ۔
۵- حضورِ اکرم صلى الله عليه وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی جنگ کے لیے نہیں نکلے گا ۔
۶- میثاق کے احکام کے بارے میں اختلاف پیدا ہو تو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم سے رجوع کیا جائے گا۔
اس معاہدے میں مسلمانوں ، یہودیوں اور مختلف قبیلوں کے لیے ، الگ الگ دفعات مرقوم ہیں، یہ اصل میں مدینہ کی شہری مملکت کے نظم و نسق کا ابتدائی ڈھانچہ تھا، یہاں واضح طور پر یہ بات ذہن میں رہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم یونان کی شہری ریاستوں کی طرح کوئی محدود ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے تھے؛ بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک عالمگیر مملکت کی بنیاد ڈالی تھی، جو مدینہ کی چند گلیوں سے شروع ہوئی اور روزانہ ۹۰۰ کلومیٹر کی رفتار سے پھیلتی رہی ، اس وقت دس لاکھ مربع میل کی مملکت تھی جب اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا
[SUP](محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم : ڈاکٹر حمید اللہ )[/SUP]
اس عالمگیر مملکت کے تصور کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھایا اور سو برس کے اندر اندر یہ تین براعظموں میں پھیل گئی ۔
اس میثاق یعنی صحیفہ میں بلدیاتی نظام کے تعلق سے حسب ذیل امور سامنے آتے ہیں :
۱- امن و امان کاقیام ۔
۲- تعلیم و تربیت کی سہولتیں ۔
۳- روزگار ، سکونت اور ضروریات زندگی کی فراہمی ۔
قرآن حکیم نے بار بار نشاندہی کی ہے کہ انسان آدم وحوا کی اولاد ہیں اور زمین پر اللہ کا کنبہ ہیں ، انسان فطر تاًمل جل کر رہنا چاہتا ہے اور دنیا کے تمام وسائل ہمارے فائدے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ، اس لیے صاف اورسیدھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ، فرائض اور حقوق کی ایک بڑی تفصیل ہمارے سامنے ہے ، معلم کتاب و حکمت صلى الله عليه وسلم ان کی تشریح اور ان کی تفصیل فرما چکے ہیں ۔
ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کا سیلاب امڈ پڑا تھا اور آخر کار مدینہ میں مقامی باشندوں کے مقابلہ میں مہاجرین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ۔
[SUP](صحیح بخاری )[/SUP]
ان نوواردوں کی آباد کاری کے متعلق حضور پاک صلى الله عليه وسلم نے شروع دن ہی سے ایک جامع منصوبہ تیار کر لیا تھا ، اس منصوبہ کی جزئیات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے نوآبادی (کالونائزیشن ) اور شہری منصوبہ بندی (ٹاوٴن پلاننگ ) میں عظیم انقلاب برپا کر دیا تھا ، نئے بسنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کو اتنے محدود وسائل میں رہائش اور کا م کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا، پھر مختلف نسلوں ، طبقوں ، علاقوں اور مختلف معاشرتی و تمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آ آ کر جمع ہو رہے تھے ، ان سب کو سماجی لحاظ سے اس طرح جذب کرلینا کہ نہ ان میں غریب الدیاری اور بیگانگی کا احساس ابھرے ، نہ مدینہ کے ماحول میں کوئی خرابی پیدا ہو اور نہ قانون شکنی اور اخلاقی بے راہ روی کے رجحانات جنم لیں ... جیساکہ عام طور پر ایسے حالات میں ہوتا ہے ...... رسول کریم صلى الله عليه وسلم کا ایسا زندہ جاوید کارنامہ ہے، جو ماہرینِ عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعہ کا مستحق ہے ، جدید شہروں میں آبادی کے دباوٴ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ تمدنی ، سیاسی اور اخلاقی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیرت النبی صلى الله عليه وسلم سے، ماہرین آج بھی بلاشبہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ دنیا کو سب سے پہلے رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے اس راز سے آگاہ کیا کہ محض سنگ و خِشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ و بازار بنا دینے کا نام شہری منصوبہ نہیں؛ بلکہ ایسا ہم آہنگ اورصحت مند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی ، روحانی بالیدگی ، دینی اطمینان اور قلبی سکون عطا کرکے اعلی انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیبِ انسانی کے نشو ونما کا سبب بنے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دار الخلافہ کی تعمیر کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب اور اس غرض کے لیے وسیع قطعہ اراضی پہلے ہی حاصل کرلیا گیا تھا، مسجد اور ازواجِ مطہرات کے لیے مکانات بن جانے کے ساتھ دار الخلافہ کی تعمیر کا پہلا مرحلہ تکمیل کو پہنچا ، دوسرے مرحلہ کا آغاز نووارد مہاجرین کی اقامت اور سکونت کے مختصر مکانات [SUP](کوارٹرز)[/SUP] کی تعمیر سے کیا گیا ؛ یہی وجہ تھی کہ تعمیرات کے اس دو مرحلے ومنصوبے پر ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ لگ گیا ۔
مدینة الرسول ، ایک لحاظ سے ”مہاجر بستی “ تھی ، گو سارے مہاجر وہاں اقامت نہ رکھتے تھے۔ [SUP](طبقات ابن سعد )[/SUP] ہوسکتا ہے جب مدینہ کی آبادی بڑھی ہو تو مکانات اور تعمیرات کا سلسلہ پھیل کر عہدِ رسالت مآب صلى الله عليه وسلم ہی میں قریب کی آبادیوں بنی ساعدہ ، بنی النجار وغیرہ سے مل گیا ہو، ورنہ ریاست کی پالیسی یہ تھی کہ مدینہ کی کالونی میں صرف مہاجرین کو بسایا جائے ، عوالی میں رہنے والے بنوسلمہ نے جب مدینہ آ کر آباد ہونے کی درخواست کی تو آپ نے اسے نامنظور کر دیا اور انھیں اپنے قریہ ہی میں رہنے کی ہدایت کی ، ریاست کی نوآبادی اسکیم کا یہ بھی ایک اہم حصہ تھا کہ اللہ کی راہ میں وطن چھوڑ کر مدینہ آنے والے لٹے پٹے ، بے سروسامان اور بے یارو مدد گار مہاجروں کے قافلوں کو جائے رہائش سرکاری طور پر فراہم کی جائے ؛ بلکہ ان نوواردوں کو سرکاری مہمان خانہ میں ٹھہرایا جاتا اور ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا انتظا م بھی سرکار ی طور پر کیا جا تا، بعد میں ان لوگوں کو مستقل رہائش کے لیے جگہ یامکان مہیا کرنا بھی حکومت کا فرض تھا گویا مہاجرین کے لیے روٹی ، کپڑا اور مکان کی فراہمی اسلامی حکومت کی ذمہ داری تھی ۔
مہاجرین کی عارضی رہائش کا انتظام مسجد کے اندر کیمپ لگا کر یا صفہ میں کیا جاتا، اگر مہاجرین کی تعداد زیادہ ہوتی یا قافلہ پورے قبیلہ پرمشتمل ہوتا تو انھیں عموماً شہر کے باہر خیموں میں ٹھہرایا جاتا؛ تاآںکہ مستقل رہائش کا معقول انتظام نہ ہوجاتا ، آباد کاری کے دو طریقے اختیار کیے گئے اولا ً یا تو کسی ذی ثروت انصاری مسلمان کو کہہ دیا جاتا کہ وہ ایک مہاجر کی رہائش کا اپنے ہاں انتظام کر لیں؛ مگرخیال رہے کہ صرف شروع کے ایام میں ایسا کیا گیا جبکہ اسلامی ریاست صحیح طرح صورت پذیر نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی منظم تھی ۔
مہاجروں کو ٹھہرانے کے لیے عموما ً بڑے بڑے مکانات تعمیر کیے گئے تھے ۔ یہ مکانات کئی کمروں پر مشتمل تھے ، ایک کمرہ ایک خاندان کو دیا جاتا؛ البتہ ایسے مکانات میں باورچی خانہ وغیرہ مشترکہ ہوتا، اندازہ ہوتا ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے مدینہ کی کالونی میں سرکاری طور پر علٰحدہ رہائش کے لیے جو مکانات بنوائے وہ تین کمروں کے تھے ،
[SUP](ماخوذ از ادب المفرد :امام بخاری )[/SUP]
[SUP]جاری ھے[/SUP]