اس موضوع کی اور بھی آیاتِ مبارکہ ہیں مگر یہاں استیعاب مقصود نہیں۔ اس اہم حکم نافرمانی کے نتیجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ
{وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ إلَّا تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِیْ الْاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ} (الانفال:۷۳)
’’اور جو لوگ کافر ہیں (وہ بھی) ایک دوسرے کے رفیق ہیں تو (مومنو!) اگر تم یہ(کام) نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ برپا ہو جائے گا اور بڑا فساد برپا ہو گا۔‘‘
اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو’اُسوۂ حسنہ‘ قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
٭
{قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِبْرَاھِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ إِنَّا بُرَئٰ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْـضَائُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤمِنُوْا بِاﷲِ وَحْدَہُ اِلَّا قَوْلَ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ وَمَا اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اﷲِ مِنْ شَيْئٍ} (المُمتحنۃ:۴)
’’تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان (بتوں) سے جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو بے تعلق ہیں۔تمہارے (معبودوں کے کبھی) قائل نہیں (ہو سکتے)اور جب تک خدائے واحد پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلی عداوت اور دشمنی رہے گی۔ہاں ابراہیم نے اپنے باپ سے یہ (ضرور) کہا کہ میں آپ کے لیے مغفرت مانگوں گا اور میں خدا کے سامنے آپ کے بارے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔‘‘
مگر ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعابھی باپ کی صرف زندگی میں کی کہ اسے ہدایت مل جائے:
{وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ إلَّا عَنْ مَوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَا اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ أنَّہُ عَدُوٌّ ﷲِ تَبَرَّاَ مِنْہُ إِنَّ اِبْرَاہِیْمَ لَحَلِیْمٌ أَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ } (التوبہ:۱۱۴)
’’اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا تو ایک وعدے کے سبب تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے،لیکن جب ان کو معلوم ہو گیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے بے شک ابراہیم بڑے نرم دل اور متحمل مزاج تھے۔‘‘
اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو اور تمام ایمانداروں کو مشرکین کے لئے بخشش و مغفرت کی دعا سے روک دیا۔فرمایا:
{وَمَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ یَسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْا أوْلِی قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحَابُ الْجَحِیْمِ} (التوبہ:۱۱۳)
’’نبی اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں۔‘‘
کافر اور مسلم کے بارے نبی ؐ نے میں فرمایا:
’’ لایرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم ‘‘ (سنن ابوداؤد:۲۹۰۹ اور شیخ البانی ؒنے اس کو صحیح کہا ہے)
’’مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے۔‘‘
علی بن حسین کہتے ہیں کہ
’’حضرت علیؓ اور جعفر طیارؓ نے اسی لئے عم رسول ابوطالب کی وراثت وصول کرنے سے انکار کردیا اور ابوطالب کے وارث عقیل اور طالب ہی بنے تھے۔ ‘‘ (موطأ:۱۴۷۰)
کفارومشرکین سے براء ت کی بنا پر ہی ابو طالب کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا گیا۔
بدر کے قیدیوں میں جن میں حضرت ابوبکرصدیق کا بیٹا عبدالرحمن بھی تھا، حضرت عمرؓ نے مشورہ دیتے ہوئے کہا:
یا رسول اﷲ ﷺ! کذّبوک وأخرجوک، قاتلوک فاضرب أعناقھم (مختصر ابن کثیر،ص۴۲۹)
’’ یا رسول اللہ! اُنہوں نے آپ کو جھٹلایا،مکہ سے نکال دیا، آپ سے لڑائی کی، آپ انکی گردنیں اڑا دیں۔‘‘
معصب بن عمیرؓ کا بھائی عبید بن عمیر قیدی ہوا تو انہوں نے کہا:
اسے ذرا مضبوطی سے باندھو اس کی ماں بہت مالدار ہے۔(قرطبی:۸؍۴۸)
قرآن کریم نے صحابہ کرام کے بارے میں
{اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ} فرما کر ان کے اس ولاء وبراء کے عملی کردار کی تحسین فرمائی۔
جہاد بھی کفار سے براء ت ہی کااظہار ہے کہ جواللہ اور اس کے رسولؐ کا دشمن ہے، ہمارااس کے خلاف علیٰ اعلانِ جنگ ہے :
قال معاویۃ: واﷲ لئن لم تنـتہ وترجع إلی بلادک یا لعین لأصطلحن أنا وابن عمي علیک ولأخرجنک من جمیع بلادک
’’ سیدنا معاویہ ؓنے (رومی بادشاہ کو جواب دیتے ہوئے) کہا: اے لعین! اگر تو باز نہ آیا اور اپنے ملک واپس نہ لوٹ گیا تو میں اور میرے چچاکا بیٹا (علیؓ)تیرے خلاف صلح کر لیں گے اور تجھے تیری ساری حکومت سے نکال دیں گے۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ:۸؍۵۱۴)