• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی لباس اور غیروں کی مشابہت

شمولیت
فروری 19، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
40

لباس
ارشاد باری تعا لی ہے۔اے آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوےٰ کا لباس یہ اس سے بڑھ کر یہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔(الاعرافآیت نمبر: 26
اس آیت مبارک میں تین چیزیں بیان کی گئی ہیں:1۔لباس کا مقصد:اور وہ یہ ہے کہ انسان اس کے زریعے سےوہ چیزیں دھانک کر رکھے جن کو ڈھانک
کر رکھنے کاحکم اللہ نے دیا ہے۔2۔زیب و زینت کا جواز:ریش اردو میں پرندے کے پر کوکہتے ہیں یہ پر اس کی خوبصورتی کا باعث بھی ہے اور موسم کی سختی کا بچاو بھی۔اس طرح انسانی لباس سے بھی یہ دونوں مقصد حاصل ہو تے ہیں۔3۔ایک دوسرے مکام پر اللہ نے لباس کا ایک اور مقصد بھی بتایا
ہے۔اور وہ یہ ہے کے موسم کی شدت اور اس کے اثرات سے بچاو اور جنگ میں دشمن کے وار سے بچاو۔

غیروں سے مشابہت
لیکن اس سے بھی قبل ایک اور نکتے کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ لباس کا سارا معاملہ اس کے گرد گھومتا ہے۔گویا اس نکتے کو لباس کمعاملےمیں
محورومرکز کی حیثیت حاصل ہے۔اور وہ نکتہ ہے ۔غیروں کی مشابہت کا۔چنانچہ لباس ایسا ہو جس میں غیروں کی مشابہت نہ ہو۔اس لیے کے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے“۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۸۵۹۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۵۰، ۹۲) قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
اس حدیث میں غیروں کی مشابہت اختیار کر نے کی ممانعت وا ضح ہے۔

جب اسلام اس چھوٹی سی چیز لباس میں مشابہت سے منا کرتا ہے۔تو رسم رواج میں غیروں کی مشابہت کی کیا حیثیت رہ جاتی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
پینٹ شرٹ پہننا
شروع از بتاریخ : 25 March 2013 02:30 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک اسلامی مدرسہ میں زیر تعلیم ہوں ۔ یہاں کے بیشتر اساتذہ پینٹ شرٹ پہننے کو ناپسند کرتے ہیں بلکہ وہ اس کو اسلامی رو سے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں آنجناب کا کیا موقف ہے۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد

پینٹ شرٹ پہننااس وقت پوری دنیا میں عام ہو چکا ہے، جسے مسلمان اور کافر سب پہنتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی رو سے لباس کی جو تعریف کی گئی ہے اور جیسا لباس زیب تن کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایسا مہذب، خوبصورت، کشادہ اور کھلا لباس جس سے انسان کا ستر ڈھانپا جا سکے۔ لہذا ایسا لباس پہنا جائے جو مہذب اور کشادہ ہو۔ جو نہ تو باریک ہو جس سے جسم نظر آئے اور نہ اتنا تنگ کہ جس سے اعضاء کی بناوٹ واضح ہوتی ہو۔ لباس کا مقصد ہی یہی ہے کہ انسانی اعضاء نظر نہ آئیں، اور یہ صرف عورتوں کے لیے نہیں بلکہ، مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے۔
اسلام میں چونکہ لباس کی تخصیص نہیں ہے کہ وہ کونسا لباس پہنیں؟ البتہ لباس کی شکل، ہئیت اور خدوخال بتا دیئے گئے کہ وہ کشادہ، کھلا اور ستر کو ڈھانپنے والا ہو۔ اب چاہے کوئی جینز، پتلون یا شلوار پہن کر اپنے ستر کو ڈھانپ لے یا پاجامہ وغیرہ ہے۔ مقصود ستر ڈھانپنا ہے۔ مگر شرط یہی ہے کہ وہ لباس کھلا ہو، تنگ نہ ہو، جس سے جسم کے اعضاء کی بناوٹ واضح ہو۔ جینز اور پتلون پر شرٹ اتنی لمبی ہونی چاہیے جو ستر کو اچھی طرح سے ڈھانپ دے۔ تنگ لباس، چاہے وہ جینز ہو، شلوار ہو یا کوئی اور چیز جس سے مقصود حاصل نہ ہو وہ حرام ہے، اور اس کا پہننا جائز نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
سلام میں کفار سے مشابہت کیوں حرام قرار دی گئی ہے؟
اسلام نے مسلمانوں پر دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی مشابہت کو حرام کیوں قرار دیا ہے؟
Published Date: 2014-02-09
الحمد للہ:

مشابہت ایک حالت کا نام ہے جو انسان پر طاری ہوتی ہے، مشابہت کرنے سے جس کی مشابہت کی جائے اُسکی تعظیم ہوتی ہے، عمومی طور پر یہ نا مناسب عادت ہے، اسی لئے شریعت نے کفار سے مشابہت کے مسئلے کو کافی اہمیت دی ، اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی طور پر حرام قرار دیا، اور فرمایا: (جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اُنہی میں سے ہے) ابو داود، (4031) اور البانی رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس حدیث کا کم از کم یہ تقاضا ہے کہ کفار سے مشابہت حرام ہے، اگرچہ ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان سے مشابہت رکھنے والا شخص کافر ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی میں ہے:

(وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) المائدة/51

ترجمہ: جو تم میں سے انکے ساتھ دوستی رکھے گا تو وہ اُنہی میں سے ہوگا۔

تو اس حدیث کو مطلق تشبیہ پر محمول کیا جاسکتا ہے، جو کہ کفر کا موجِب ہے، اور کم از کم اس تشبیہ کے کچھ اجزا کے حرام ہونے کا تقاضا کرتا ہے، یا اسکا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح کی مشابہت ہوگی اسی طرح کا حکم ہوگا، کفریہ کام میں مشابہت ہوگی تو کفر، گناہ کے کام میں مشابہت ہوگی تو گناہ، اور اگر ان کفار کے کسی خاص کام میں مشابہت ہوئی تو اسکا بھی حکم اُسی کام کے مطابق لگے گا، بہر حال اس حدیث کا تقاضا ہے کہ مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔ انتہی مختصراً از کتاب "اقتضاء الصراط المستقيم" (1/270، 271)

مسلمانوں کیلئے کفار سے مشابہت کی ممانعت کیلئے کیا حکمت ہے ؟ مشابہت کے نقصانات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ بھی جانی جا سکتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:

1- اگر کوئی مسلمان کافر کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ کافر کی شکل وصورت مسلمان سے افضل ہے، اور اس کی بنا پر اللہ کی شریعت اور اسکی مشیئت پر اعتراض آتا ہے۔

چنانچہ جو خاتون مرد کی مشابہت اختیار کرتی ہے گویا کہ وہ اللہ تعالی کی خلقت پر اعتراض کرتی ہے، اور اسے تخلیقِ الہی پسند نہیں ہے۔

2- کسی کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا نفسیاتی طور پر کمزور ہونے کی دلیل ہے، جس سے لگتا ہے کہ یہ شخص اندر سے شکست خوردہ ہے، جبکہ شریعت کبھی بھی مسلمانوں سے اس بات کو قبول نہیں کرے گی کہ وہ اپنی شکست خوردہ حالت کا اعلان کرتے پھریں، چاہے حقیقت میں وہ شکست خوردہ ہی کیوں نہ ہوں۔

اس لئے کہ شکست تسلیم کر لینا مزید کمزوری کا باعث بنتا ہے، جس کے باعث فاتح مزید طاقتور بن جاتا ہے، اور یہ کمزور کے طاقتور بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔

اسی لئے کسی بھی قوم کے عقل مند حضرات کبھی بھی اپنے معاشروں کو دشمنوں کے پیچھے لگ کر انکی مشابہت اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتے، بلکہ وہ اپنی پہچان اور شخصیت باقی رکھتے ہوئےاپنی میراث ، لباس، اور رسوم و رواج کی حفاظت کرتے ہیں، چاہے دشمنوں کے رسم و رواج ان سے افضل ہی کیوں نہ ہوں؛ یہ سب کچھ اس لئے کہ وہ معاشرتی اور نفسیاتی اقدار کو جانتے ہیں۔

3- ظاہری منظر میں کسی کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے دل میں اس کیلئے محبت کے اسباب پیدا کرتی ہے، اسی لئے انسان اُسی کی مشابہت اختیار کرتا ہے جس سے محبت بھی کرے، جبکہ مسلمانوں کو کفار سے تمام وسائل کے ذریعے اعلانِ براءت کا حکم ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

(لَا يَتَّخِذْ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنْ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمْ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ) آل عمران/28 .


ترجمہ: مؤمنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو ہرگز دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اسے اللہ سے کوئی واسطہ نہیں اِلاّ کہ تمہیں ان کافروں سے بچاؤ کے لیے کسی قسم کا طرز عمل اختیار کرنا پڑے، اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

ایک اور مقام پر فرمایا:
(لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ) المجادلة/22
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا: (مضبوط ترین ایمان کا کڑا: اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے آپس میں ایک دوسرے سے میل جول رکھنا اور دشمنوں سے دشمنی رکھنا اور اللہ کی خوشنودی کے لیے کسی سے دوستی رکھنا اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے کسی سے بغض و نفرت رکھنا ہے) طبرانی اور البانی نے السلسلة الصحيحة (998) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب: "اقتضاء الصراط المستقيم" (1/549) میں کہتے ہیں:

"ظاہری طور پر کسی کے ساتھ مشابہت اپنانا دل میں اسکے بارے میں محبت پیدا کردیتا ہے، جس طرح دل میں موجود محبت ظاہری مشابہت پر ابھارتی ہے، یہ ایک ایسی بات ہے جو عام مشاہدے میں پائی جاتی ہےاور اسکا تجربہ بھی کیا گیا ہے" انتہی

4- ظاہری طور پر کفار کی مشابہت سے انسان اس سے بھی خطرناک مرحلے کی طرف بڑھتا ہے اور وہ ہے کہ اندر سے بھی انسان اِنہی کفار جیسا بن جاتا ہے، چنانچہ اِنہی جیسے اعتقادات رکھتا ہے، اور انکے افکار و نظریات کو صحیح سمجھنے لگتا ہے، اس لئے کہ انسان کی ظاہری اور باطنی حالت میں شدید تعلق پایا جاتا ہے، اور یہ دونوں ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اقتضاء الصراط المستقيم (1/548) میں کہتے ہیں:

"ظاہری طور پر مشابہت باطنی طور پر مشابہت کا باعث بنتے ہیں، اور یہ سب کچھ اتنا مخفی اور سلسلہ وار ہوتا ہے کہ احساس نہیں ہوپاتا، جیسے کہ ہم نے ان یہودو نصاری کو دیکھا ہے جو مسلم معاشرے میں رہتے تھے، ان میں دیگر یہود ونصاریٰ سے کم کفریہ نظریات پائے جاتے تھے، بعینہ ایسے وہ مسلمان جو یہود ونصاریٰ کے معاشرے میں رہتے ہیں ، وہ لوگ دیگر مسلمانوں سے کم ایمان رکھتے ہیں" انتہی

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ظاہری لباس میں مشابہت باطنی افکار میں موافقت کا باعث بنتا ہے، جیسا کہ اس کے متعلق شرعی، عقلی اور واقعی دلائل موجود ہیں، اسی لئے شریعتِ مطہرہ نے کفار ، حیوانات، شیاطین، خواتین، اور دیہاتی لوگوں سے مشابہت منع قرار دی ہے" انتہی

الفروسية ص(122)

یہ چند ظاہری حکمتیں ہیں جن کی وجہ سے شریعت نے مسلمانوں کو مشرکین کی مشابہت سے روکا ہے، اس لئے ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ اللہ تعالی کے تمام احکامات کی پیروی کرے، اور یہ بات دل میں بیٹھا لے کہ اللہ تعالی اسے کوئی بھی حکم بغیر کسی حکمت، فائدے اور مصلحت اور دنیا و آخرت میں کامیابی کے نہیں دیگا ۔

واللہ اعلم .

اسلام سوال و جواب
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محتر م اسحاق صاحب

لباس اور اس جیسی دوسری چیزیں کیسے اسلامی ہوسکتی ہیں ۔ لبا س کا مقصد ستر پوشی ہے ۔ یہ تو مکمل کلچر(ثقافت ) سے تعلق رکھتاہے ۔ اگر ہم سردی سے بچنے کیلئے کوٹ یا جیکٹ کا استعمال کریں یا تو کیا یہ غلط ہوگا کیونکہ یہ کفار کا شعار ہے ۔ گرمی میں شاور سے نہائیں تو کیا یہ بھی غلط ہوگا کہ سنت نہیں ہوگا۔ کیونکہ سنت تو بیٹھ کر نہانا ہے۔اور نہانے کے بعد جگہ تبدیل کرنے کے پاؤں دھوناہے تو کیا اب ایسا ہوتا ہے۔ غسل میں زمین پر ہاتھ رگڑ کر صاف کر نا سنت ہے کیا ہم ایسا ہی کرتے ہیں یا انگریزوں کے بنائے ہوئے صابن اور شیمپو استعمال کرتےہیں۔؟
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کجھوروں کی پیوند کاری نہ کرنے پر فصل نہ ہونے پر یہ نہیں فرمایا تھا کہ تم اپنے معاملات زیادہ بہتر جانتے ہو۔ اب بیٹھ کر کھانا سنت ہے تو کیا صرف زمین پر بیٹھ کر کھا نا ہی سنت ہوگا۔ اس دور میں تو میز کرسیاں نہیں تھیں ۔کیا کرسیوں پر بیٹھ کر کھانا سنت میں داخل نہیں ہوگا۔ مسواک کرنا سنت ہے یہ دانتوں کی صفائی کا اس دور میں بہترین ذریعہ تھا ۔ اب برش اور مسواک ٹوتھ پیسٹ اگر یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے تو کیا یہ بھی غلط ہے۔
میرے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دور کے تمام جائز اور بہترین طریقے زندگی گذرانے کیلئے استعمال کیے ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی لبا س کفار ہی استعمال کر تے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو قمیض کے ساتھ تہبند کا استعمال کر تے تھے ۔ عرب میں جبہ کا استعمال معمول ہے ۔ یہ ان کا کلچر ہے تو شلوار قمیض کیسے اسلامی ہوگیا ۔
جامعتہ الازہر کے علماء بھی پینٹ شرٹ پہنتے ہیں۔
خوشی کے موقع پر کیک بنا نا یا کھانا کفار کا شعار ہے ۔کیا ہم اپنی دونوں عیدوں پر کسی کو نہ کیک دے سکتے ہیں نہ کھا سکتے ہیں کیونکہ یہ تو وہیں سے آیا ہے ۔جب آپ کہتے ہیں ان کے جیسی ٹوپی یا کیپ بھی غلط ہوگا تو سن گلاسز(دھوپ کے چشمے) بھی غلط ہوئے ۔مشابہت تو پھر ہر چیز میں ہے ۔
دلہن کا شادی میں غرارہ اور شرارہ پہننا ہندوؤں سے آیا ہے تو اس کی بھی معانعت ہونی چاہیے ۔کیونکہ یہ ان کا مخصوص شعار ہے۔
ہمارے ملک کی فوج کا لبا س بلکہ تمام اسلامی ممالک کی فوج کا لبا س بعینہی وہی ہے جو کفا ر کی فوج کا ہے کیا یہ بھی مشابہت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔
صرف اتنی بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر ہم اس نیت سے پہنیں کہ کفار جیسے لگیں تو پھر یہ مشابہت والی حدیث ہم پر چسپاں ہوسکتی ہے ورنہ نہیں۔
چمچے اور کانٹوں سے کھا نا بھی کفار کا شعار ہے یہ بھی سنت نہیں ہے۔ فوم کے تکیوں اور گدوں کا استعمال،بیڈ کا استعمال بھی کفار کا شعار ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر کجھور کی چھال کا تھا۔
کیا ہمیں زندگی گزارنے کیلئے بعینہی وہی کر نا چاہیے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا یا پھر یہ دیکھنا چاہیے کہ اس عمل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد کیا تھااور اگر وہ مقصد کسی جائز طریقے جو شریعت سے متصادم نہ ہو اختیار کر نا بھی سنت ہی ہوگا۔جیسے میں نے مسواک کی مثال دی ہے ۔ (عبادات الگ چیز ہیں )
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156

لباس
ارشاد باری تعا لی ہے۔اے آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوےٰ کا لباس یہ اس سے بڑھ کر یہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔(الاعرافآیت نمبر: 26
اس آیت مبارک میں تین چیزیں بیان کی گئی ہیں:1۔لباس کا مقصد:اور وہ یہ ہے کہ انسان اس کے زریعے سےوہ چیزیں دھانک کر رکھے جن کو ڈھانک
کر رکھنے کاحکم اللہ نے دیا ہے۔2۔زیب و زینت کا جواز:ریش اردو میں پرندے کے پر کوکہتے ہیں یہ پر اس کی خوبصورتی کا باعث بھی ہے اور موسم کی سختی کا بچاو بھی۔اس طرح انسانی لباس سے بھی یہ دونوں مقصد حاصل ہو تے ہیں۔3۔ایک دوسرے مکام پر اللہ نے لباس کا ایک اور مقصد بھی بتایا
ہے۔اور وہ یہ ہے کے موسم کی شدت اور اس کے اثرات سے بچاو اور جنگ میں دشمن کے وار سے بچاو۔

غیروں سے مشابہت
لیکن اس سے بھی قبل ایک اور نکتے کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ لباس کا سارا معاملہ اس کے گرد گھومتا ہے۔گویا اس نکتے کو لباس کمعاملےمیں
محورومرکز کی حیثیت حاصل ہے۔اور وہ نکتہ ہے ۔غیروں کی مشابہت کا۔چنانچہ لباس ایسا ہو جس میں غیروں کی مشابہت نہ ہو۔اس لیے کے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے“۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۸۵۹۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۵۰، ۹۲) قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
اس حدیث میں غیروں کی مشابہت اختیار کر نے کی ممانعت وا ضح ہے۔

جب اسلام اس چھوٹی سی چیز لباس میں مشابہت سے منا کرتا ہے۔تو رسم رواج میں غیروں کی مشابہت کی کیا حیثیت رہ جاتی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
اگر ہم اس روایت کو عام کریں گے تو مسلمان نہ انگریزی زبان بول سکیں گے، نہ پینٹ شرٹ پہن سکیں گے اور نہ ان کے جيسے گھروں میں رہ سکیں گے کیوں کہ ایسا کرنے کے بعد اس حدیث کی رو سے وہ یہود و نصاریٰ میں شامل سمجھے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ دین اس طرح کی کوئی بات نہیں کہتا۔
 
Top