• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام اور مدر ڈے !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
« میرا بچپن اور میری ماں جی

مدر ڈے اور ہمارے خیالات:


۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مدر ڈے وغیرہ ڈھکوسلے ہیں جی
سرمایہ داری نظام کے
وہ ہر دن کو پیسوں کے پیمانے پر تولتے ہیں
یہ مختلف قسم کے دن بھی بلین ڈالر انڈسٹری ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واقعی دن کی اہمیت نہیں ہے جس کے نام دن ہے اس کی اہمیت ہے ۔ ہم پاکستانی ہیں کچھ چیزیں ہم جلدی ہضم نہیں کرتے اور کچھ بغیر ڈکار کے ہضم کر جاتے ہیں ۔ میرا کہنے کا مطلب ہے کہ کل کو کہا جائے گا یہ اسلام میں نہی ہے ۔یہ انگریزوں کا دن ہے مجھے یہ بتائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔شب بارات ۔۔۔ ( ہندوں کا دیوالی کا دن ) مگر ہم بطور دیوالی بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو اس کی باقاعدہ عادت ڈالتے ہیں ۔اپنی محنت کی کمائی سےبارود جیسی خطر ناک چیز خرید کر ہم اپنے بچوں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں ۔ قتلموں کی بڑی بڑی دکانیں سجائی جاتی ہیں بڑے بڑے قتلمے مہنگے داموں خریدے جاتے ہیں جن کو کھا کر بڑے بڑے ڈکار مارے جاتے ہیں حالاں کے یہ صحت کے لیے بہت مضر ہیں ۔ اس قتلمے کی ایک کہانی بہت جلد آ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔صرف بلاگ اے کامی پر۔۔۔۔

۔۔۔ شادی بیاہ ۔۔۔ میں تیل ، مھندی ، لڑکی کی رخصتی کے وقت چاول پیچھے گرانا ، جب بہو بیٹا گھر آتے ہیں تو دروازے کے کونوں میں تیل ڈالا جاتا ہے ( تاکہ لڑکی اور لڑکے کی زندگی پھنس کر نہ چلے )
کیا یہ ایک دن میں نہیں‌ہوتے کہ پانچ سالہ منصوبہ ہیں ۔۔۔۔

۔۔۔پتنگ بازی ۔۔۔( ایک ہندو شخص کی یاد میں ) ہر سال باقاعدہ سرکاری سر پرستی میں منائی جاتی ہے یہ بھی ایک دن کا فنکشن ہے رات کا تو ذکر نہ ہی کیا جائے تو اچھا ہے ( اگر رات کا لکھوں گا تو واقعی رات ہو جائے گی ویسے سب خواتین و حضرات کو معلوم ہے )۔ سارا سال اس دن کا ذکر اور انتظار کیا جاتا ہے ۔مہنگے داموں دھاگا ، پتنگیں ، چستی ، مستی وغیرہ خریدی جاتی ہیں سارا دن پاگلوں کی طرح چھت پر بکڑ بکواس کی جاتی ہے ڈھول پیٹے جاتے ہیں نہ مسجد نہ نمازی کا احترام نہ اپنے بوڑھے والدین کے آرام کا خیال نہ محلے میں کسی بیمار کا خیال نہ کسی طالب علم کا خیال ۔۔۔۔۔اگلے دن ایک سے ایک رام کہانیاں بڑے فخر سے سنائی جاتیں ہیں ۔

میرا مقصد آپ کا دھیان اس طرف بھی دلانا تھا جس کو ہم اپنی ثقافت کہتے ہیں مگر میں زیادہ طوالت میں نہیں جانا چاہتا ویسے بھی مجھے لگ رہا ہے کہ مجھ پر گوندل صاحب کا اثر ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔یہ سب کیا ہے ۔۔۔۔۔۔

نوٹ۔یہ پوسٹ جلدی میں لکھی گئی ہے اس لیے غلطی کی پیشگی معزرت اگر کوئی موضوع رہ گیا تو آپ ضرور اجاگر کریں۔۔شکریہ

https://kamisf.wordpress.com/2009/05/13/مدر-ڈے-اور-ہمارے-خیالات/
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
@اسحاق سلفی بھائی کیا یہ حدیث صحیح ہے
آپ کی پیش کردہ حدیث امام بیہقی ؒ نے ’’ شعب الایمان ‘‘ میں درج ،نقل فرمائی ہے ،اس کا متن درج ذیل ہے :

(( أَخْبَرَنَا أَبُو مَنْصُورٍ أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الدَّامِغَانِيُّ، وَأَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَيْهَقِيُّ قَالَا: نا أَبُو بَكْرٍ الْإِسْمَاعِيلِيُّ، نا أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْحَذَّاءُ، نا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، نا زَافِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، نا الْمُسْتَسْلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ وَلَدٍ بَارٍّ يَنْظُرُ نَظْرَةَ رَحْمَةٍ إِلَّا كَتَبَ اللهُ بِكُلِّ نَظْرَةٍ حَجَّةً مَبْرُورَةً "، قَالُوا: وَإِنْ نَظَرَ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ؟ قَالَ: " نَعَمْ، اللهُ أَكْبَرُ وَأَطْيَبُ "))۔۔۔اس کا ترجمہ اوپر آپکی پوسٹ میں موجود ہے ۔
یہ حدیث انتہائی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے ،
اور علامہ البانی کے بقول یہ موضوع ۔۔یعنی ۔۔من گھڑت ۔۔ہے


بر الوالدين.gif
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
کیا معناً بھی صحیح نہیں ہے ؟
کیونکہ والدین کا درجہ بے حد زیادہ بتایا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ متصل والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر کیا ہے ۔
وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
کیا معناً بھی صحیح نہیں ہے ؟
کیونکہ والدین کا درجہ بے حد زیادہ بتایا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ متصل والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر کیا ہے ۔
وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ضعیف حدیث کا معنی بھی صحیح نہیں ۔۔۔۔۔تاہم بے شمار صحیح احادیث میں والدین سے حسن سلوک کا حکم اور ترغیب اور فضیلت موجود ہے ؛
آپ نے بجا فرمایا ۔۔والدین کا اولاد پر بڑا حق ہے :
سنن نسائی ،
کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل۔۔۔۔۔باب : الرخصة في التخلف لمن له والدان
باب: ماں باپ کی موجودگی میں جہاد میں نہ نکلنے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3105
اخبرنا محمد بن المثنى عن يحيى بن سعيد عن سفيان وشعبة قالا:‏‏‏‏ حدثنا حبيب بن ابي ثابت عن ابي العباس عن عبد الله بن عمرو قال:‏‏‏‏ جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يستاذنه في الجهاد فقال:‏‏‏‏ " احي والداك؟ " قال:‏‏‏‏ نعم قال:‏‏‏‏ " ففيهما فجاهد ".

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جہاد میں شرکت کی اجازت لینے کے لیے آیا۔ آپ نے اس سے پوچھا: ”کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں، تو آپ نے فرمایا: ”پھر تو تم انہیں دونوں کی خدمت کا ثواب حاصل کرو“ ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۱۳۸ (۳۰۰۴)، الأدب ۳ (۵۹۷۲)، صحیح مسلم/البر ۱ (۲۵۴۹)، سنن ابی داود/الجہاد ۳۳ (۲۵۲۹)، سنن الترمذی/الجہاد ۲ (۱۶۷۱)، (تحفة الأشراف: ۸۶۳۴)، مسند احمد (۲/۱۶۵، ۱۷۲، ۱۸۸، ۱۹۷، ۲۲۱) (صحیح)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح
وضاحت: ۱؎ : یعنی ان دونوں کی خدمت کر کے ان کی رضا مندی اور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرو تمہارے لیے یہی جہاد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن نسائی
کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل

باب : الرخصة في التخلف لمن له والدة
باب: ماں کی موجودگی میں جہاد میں نہ نکلنے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3106
اخبرنا عبد الوهاب بن عبد الحكم الوراق قال:‏‏‏‏ حدثنا حجاج عن ابن جريج قال:‏‏‏‏ اخبرني محمد بن طلحة وهو ابن عبد الله بن عبد الرحمن عن ابيه طلحة عن معاوية بن جاهمة السلمي ان جاهمة جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال:‏‏‏‏ يا رسول الله اردت ان اغزو وقد جئت استشيرك فقال:‏‏‏‏ " هل لك من ام؟ " قال:‏‏‏‏ نعم قال:‏‏‏‏ " فالزمها فإن الجنة تحت رجليها ".

معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت ہے کہ جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں جہاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اور آپ کے پاس آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے) پوچھا: کیا تمہاری ماں موجود ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”انہیں کی خدمت میں لگے رہو، کیونکہ جنت ان کے دونوں قدموں کے نیچے ہے“ ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجہاد ۱۲ (۲۷۸۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۷۵)، مسند احمد (۳/۴۲۹) (حسن صحیح)۔۔۔۔۔قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
وضاحت: ۱؎ : یعنی جنت کی حصول یابی ماں کی رضا مندی اور خوشنودی کے بغیر ممکن نہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
سنن ابن ماجہ۔۔۔كتاب الطلاق
باب : الرجل يأمره أبوه بطلاق امرأته
باب: اگر باپ بیٹے کو کہے کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دیدو تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2089
حدثنا محمد بن بشار حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن عطاء بن السائب عن ابي عبد الرحمن ان رجلا امره ابوه او امه شك شعبة ان يطلق امراته فجعل عليه مائة محرر فاتى ابا الدرداء فإذا هو يصلي الضحى ويطيلها وصلى ما بين الظهر والعصر فساله فقال ابو الدرداء:‏‏‏‏ اوف بنذرك وبر والديك وقال ابو الدرداء :‏‏‏‏ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:‏‏‏‏"الوالد اوسط ابواب الجنة فحافظ على والديك او اترك".

ابوعبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک شخص کو اس کی ماں نے یا باپ نے (یہ شک شعبہ کو ہوا ہے) حکم دیا کہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے، اس نے نذر مان لی کہ اگر اپنی بیوی کو طلاق دیدے تو اسے سو غلام آزاد کرنا ہوں گے، پھر وہ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، وہ صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) پڑھ رہے تھے، اور اسے خوب لمبی کر رہے تھے، اور انہوں نے نماز پڑھی ظہر و عصر کے درمیان، بالآخر اس شخص نے ان سے پوچھا، تو ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنی نذر پوری کرو، اور اپنے ماں باپ کی اطاعت کرو۔ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”باپ جنت میں جانے کا بہترین دروازہ ہے، اب تم اپنے والدین کے حکم کی پابندی کرو، یا اسے نظر انداز کر دو“ ۱؎۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/البر و الصلة ۳ (۱۹۰۰)، (تحفة الأشراف : ۱۰۹۴۸)، وقد أخرجہ : مسند احمد (۵/۱۹۶، ۱۹۷، ۶/۴۴۵، ۴۴۷، ۴۵۱)

(صحیح) وضاحت: ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ ماں باپ کی اطاعت ایسی عمدہ چیز ہے، جن کی اطاعت سے جنت ملتی ہے، اور ظاہر ہے کہ جنت کی آدمی کو کتنی فکر ہونی چاہئے، پس ویسے ہی ماں باپ کی اطاعت کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
جناب امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے مسند میں حدیث بیان فرمائی کہ :
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نِمْتُ، فَرَأَيْتُنِي فِي الْجَنَّةِ، فَسَمِعْتُ صَوْتَ قَارِئٍ يَقْرَأُ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا حَارِثَةُ بْنُ النُّعْمَانِ " فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَذَاكَ الْبِرُّ، كَذَاكَ الْبِرُّ " وَكَانَ أَبَرَّ النَّاسِ بِأُمِّهِ (2)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں ،کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
میں نے خواب میں اپنے آپ کو جنت میں پایا ۔۔وہاں میں نے ایک قاری کی قراءت کی آواز سنی ، میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟
تو مجھے بتایا گیا کہ یہ حارثہ بن نعمان ؓ ہے۔۔پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :نیکی اسی طرح ہے،یہ ہے نیکی کہ (جنت میں لے جاتی ہے ) اور حارثہ بن نعمان ؓ
سب سے بڑھ کر اپنی والدہ سے حسن سلوک کرتے تھے ؛
اس کی سند بالکل صحیح ہے ،جس کے راوی شیخین کے راوی ہیں ؛
__________

(2) إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين، وقد سلف برقم (240801) .
وهو عند الإمام أحمد في "فضائل الصحابة) (1507) .
وهو عند عبد الرزاق في "مصنفه" (20119) ، ومن طريقه أخرجه إسحاق ابن راهويه في، "مسنده" (1005) ، والنسائي في "الكبرى" (82331) ، وابن حبان (7015) ، وأبو نعيم في "الحلية" 1/356، والبغوي في "شرح السنة" (3419) ،
 
Top