کیا معناً بھی صحیح نہیں ہے ؟
کیونکہ والدین کا درجہ بے حد زیادہ بتایا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ متصل والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر کیا ہے ۔
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ضعیف حدیث کا معنی بھی صحیح نہیں ۔۔۔۔۔تاہم بے شمار صحیح احادیث میں والدین سے حسن سلوک کا حکم اور ترغیب اور فضیلت موجود ہے ؛
آپ نے بجا فرمایا ۔۔والدین کا اولاد پر بڑا حق ہے :
سنن نسائی ،
کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل۔۔۔۔۔باب : الرخصة في التخلف لمن له والدان
باب: ماں باپ کی موجودگی میں جہاد میں نہ نکلنے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3105
اخبرنا محمد بن المثنى عن يحيى بن سعيد عن سفيان وشعبة قالا: حدثنا حبيب بن ابي ثابت عن ابي العباس عن عبد الله بن عمرو قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يستاذنه في الجهاد فقال: " احي والداك؟ " قال: نعم قال: " ففيهما فجاهد ".
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جہاد میں شرکت کی اجازت لینے کے لیے آیا۔ آپ نے اس سے پوچھا: ”کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں، تو آپ نے فرمایا: ”پھر تو تم انہیں دونوں کی خدمت کا ثواب حاصل کرو“ ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۱۳۸ (۳۰۰۴)، الأدب ۳ (۵۹۷۲)، صحیح مسلم/البر ۱ (۲۵۴۹)، سنن ابی داود/الجہاد ۳۳ (۲۵۲۹)، سنن الترمذی/الجہاد ۲ (۱۶۷۱)، (تحفة الأشراف: ۸۶۳۴)، مسند احمد (۲/۱۶۵، ۱۷۲، ۱۸۸، ۱۹۷، ۲۲۱) (صحیح)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح
وضاحت: ۱؎ : یعنی ان دونوں کی خدمت کر کے ان کی رضا مندی اور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرو تمہارے لیے یہی جہاد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن نسائی
کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
باب : الرخصة في التخلف لمن له والدة
باب: ماں کی موجودگی میں جہاد میں نہ نکلنے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3106
اخبرنا عبد الوهاب بن عبد الحكم الوراق قال: حدثنا حجاج عن ابن جريج قال: اخبرني محمد بن طلحة وهو ابن عبد الله بن عبد الرحمن عن ابيه طلحة عن معاوية بن جاهمة السلمي ان جاهمة جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله اردت ان اغزو وقد جئت استشيرك فقال: " هل لك من ام؟ " قال: نعم قال: " فالزمها فإن الجنة تحت رجليها ".
معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت ہے کہ جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں جہاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اور آپ کے پاس آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے) پوچھا: کیا تمہاری ماں موجود ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”انہیں کی خدمت میں لگے رہو، کیونکہ جنت ان کے دونوں قدموں کے نیچے ہے“ ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجہاد ۱۲ (۲۷۸۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۷۵)، مسند احمد (۳/۴۲۹) (حسن صحیح)۔۔۔۔۔قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
وضاحت: ۱؎ : یعنی جنت کی حصول یابی ماں کی رضا مندی اور خوشنودی کے بغیر ممکن نہیں۔