ناظم شهزاد٢٠١٢
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 07، 2012
- پیغامات
- 258
- ری ایکشن اسکور
- 1,533
- پوائنٹ
- 120
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہر معاشرے کے اپنے کچھ مخصوص معاملات اور رسوم ورواج ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض کا اپنانا اتنا ضروری ہوتاہے کہ آپ اس سے بغاوت کر ہی نہیں سکتے ۔ اور اگر ان میں کوئی خامی بھی ہے تو اسے ایک لمحے میں ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسکے خاتمے کے لیے تدریجی لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں تشریف لائے اس معاشرے میں بھی کچھ ایسے رسوم ورواج تھے جن کو ایک ہی لمحے ختم کرنا ناممکن تھا مثلا
غلامی کا رواج
شراب نوشی
جوا
سود
جو انتہا درجہ ظلم وستم پر مبنی رسم ورواج تھے۔ جو اسلام کو کسی صورت گوارا نہ تھے ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خاتمے کے لیے تدریجی عمل اپنایا اور آہستہ آہستہ ان کو ختم کر ڈالا۔
سوال یہ ہے کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے سارے معاشرے اور کلچر کو تبدیل کر دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بالکل نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کلچر سے صرف وہی چیزیں ختم کی کو اسلامی روح کے منافی تھی۔ ان کا کھانا،پینا،رہنا،میل جول کے آداب،مہمان نوازی اور اس طرح کی دوسری رسموںمیں بھی تبدیلی کی بجائے اصلاح کر دی۔
بعنیہ پوری دنیا کلچر کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہے ہر قوم کا اپنا لباس،اپنی زبان،اپنی رسمیں جن کا تعلق دین سے نہیں بلکہ ان کے معاشرتی کلچر سے ہوتا ہے۔ ان رسموں میں شرکت اور ان کو منانے میں کوئی حرج نہیں ،ہاں البتہ ایک قابل غور بات یہ ہے یہ رسمیں صرف معاشرتی رسمیں ہی رہیں جب یہ رسمیں مذہبی رنگ اختیار کر لیں یا دین اور مذہب کا حصہ سمجھی جانے لگیں تو یہ اس وقت بدعت بن کر سامنے آئیں گی۔
لہذا اسلام کسی معاشرے کی رسموں کے خلاف نہیں بلکہ ان رسموں میں پائی جانے والی برائیوں اور اس طرح کے دیگر خلاف اسلام واقعات کے خلاف ہے۔ اگر کوئی رسم اچھائی پر مبنی ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں تو اسلام اس پر پابندی نہیں لگاتا ۔
آج ہم خود کئی ایسے کاموں کو نہیں کرتے یعنی وہ ہمارے کلچر کا حصہ نہیں ہیں جو عرب کلچر کا حصہ تھے۔مثلا اس دور میں عورتیں تہبند باندھا کرتی تھی ہمارے کلچر میں یہ چیز معیوب سمجھی جائے گی۔
ہر معاشرے کے اپنے کچھ مخصوص معاملات اور رسوم ورواج ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض کا اپنانا اتنا ضروری ہوتاہے کہ آپ اس سے بغاوت کر ہی نہیں سکتے ۔ اور اگر ان میں کوئی خامی بھی ہے تو اسے ایک لمحے میں ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسکے خاتمے کے لیے تدریجی لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں تشریف لائے اس معاشرے میں بھی کچھ ایسے رسوم ورواج تھے جن کو ایک ہی لمحے ختم کرنا ناممکن تھا مثلا
غلامی کا رواج
شراب نوشی
جوا
سود
جو انتہا درجہ ظلم وستم پر مبنی رسم ورواج تھے۔ جو اسلام کو کسی صورت گوارا نہ تھے ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خاتمے کے لیے تدریجی عمل اپنایا اور آہستہ آہستہ ان کو ختم کر ڈالا۔
سوال یہ ہے کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے سارے معاشرے اور کلچر کو تبدیل کر دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بالکل نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کلچر سے صرف وہی چیزیں ختم کی کو اسلامی روح کے منافی تھی۔ ان کا کھانا،پینا،رہنا،میل جول کے آداب،مہمان نوازی اور اس طرح کی دوسری رسموںمیں بھی تبدیلی کی بجائے اصلاح کر دی۔
بعنیہ پوری دنیا کلچر کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہے ہر قوم کا اپنا لباس،اپنی زبان،اپنی رسمیں جن کا تعلق دین سے نہیں بلکہ ان کے معاشرتی کلچر سے ہوتا ہے۔ ان رسموں میں شرکت اور ان کو منانے میں کوئی حرج نہیں ،ہاں البتہ ایک قابل غور بات یہ ہے یہ رسمیں صرف معاشرتی رسمیں ہی رہیں جب یہ رسمیں مذہبی رنگ اختیار کر لیں یا دین اور مذہب کا حصہ سمجھی جانے لگیں تو یہ اس وقت بدعت بن کر سامنے آئیں گی۔
لہذا اسلام کسی معاشرے کی رسموں کے خلاف نہیں بلکہ ان رسموں میں پائی جانے والی برائیوں اور اس طرح کے دیگر خلاف اسلام واقعات کے خلاف ہے۔ اگر کوئی رسم اچھائی پر مبنی ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں تو اسلام اس پر پابندی نہیں لگاتا ۔
آج ہم خود کئی ایسے کاموں کو نہیں کرتے یعنی وہ ہمارے کلچر کا حصہ نہیں ہیں جو عرب کلچر کا حصہ تھے۔مثلا اس دور میں عورتیں تہبند باندھا کرتی تھی ہمارے کلچر میں یہ چیز معیوب سمجھی جائے گی۔
آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔سنت اور کلچر میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ
سنت وہ کا م ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور شریعت منقول ہو۔جبکہ کلچر میں ایسا کچھ نہیں۔ ہمیں سنت رسول اپنانے کا حکم کے نہ عرب کلچر ۔