• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں حفظ مراتب

فہد حارث

مبتدی
شمولیت
جولائی 14، 2013
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
10
اسلام میں حفظ مراتب


انسانوں کے درمیان جو رشتے اور مرتبے قائم ہوئے وہ اللہ کے بنائے ہوئے ہیں۔ ان مرتبوں کے حساب سے اللہ نے ہر رشتہ کو ایک نام دیا۔ حتیٰ کے ہماری عبادات، شخصیات، مناصب ہر ایک کے لئے نام مقرر کئے۔ بعض تفاسیر میں آتا ہے کہ ان مرتبوں کا علم ان علوم میں سے تھا جو کہ اللہ نے آدم علیہ السلام کو خلق کرنے کے بعد سکھائے اور جن کی طرف قرآن کی مندرجہ ذیل آیت اشارہ کرتی ہے:

وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلۡأَسۡمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ عَلَى ٱلۡمَلَـٰٓٮِٕكَةِ فَقَالَ أَنۢبِـُٔونِى بِأَسۡمَآءِ هَـٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمۡ صَـٰدِقِينَ (سورۃ البقرۃ: ۳۱)
اور اس نے آدم کو سب (چیزوں کے) نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔

اللہ ہر چیز کی بہترین تخلیق کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز کے بہترین نام رکھنے والا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اللہ نے جن چیزوں کے جو نام مقرر کر دیئے انکو انہی ناموں سے پکارا جائے اور جن چیزوں کے نام اللہ کی طرف سے ودیعت نہیں ہوئے انکو اللہ کےمقرر کئے ہوئے ضابطوں کے تحت نام دیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ نبی ﷺ کے دور میں جب کوئی شخص ایمان لیکر آتا اور اسکے نام یا اسکی کسی نسبت میں کوئی چیز خلاف شریعت ہوتی تو آپ ﷺ اسکو تبدیل کروا دیتے۔ کتب حدیث میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن میں آپﷺ نے اسلام لانے کے بعد کسی صحابی کا نام یا کنیت مشرکانہ یا نامناسب ہونے کی وجہ سے بدلوادی ۔ نبی ﷺ کے اس عمل سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں حفظ مراتب کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔

اسی مناسبت سے ہم اپنے اس مضمون میں کچھ ایسی اصطلاحات کا جائزہ لینگے جو کہ زبان کے غلط استعمال کی وجہ سے ہمارے یہاں زبان زد عام ہو چکی ہیں اور جنکا استعمال اللہ کے مقرر کئے ہوئے حفظ مراتب کے مطابق بالکل غلط اور بعض دفعہ مشرکانہ حد تک چلا جاتا ہے۔

اللہ یا خدا

یہاں تمہید کے طور پر ہم علامہ مودودی کی تفہیم القرآن سے سورۃ الاعلیٰ کی تفسیر کے کچھ اقتباسات پیش کر رہے ہیں ۔ مودودی سورۃالاعلیٰ کے ابتدائیہ میں موضوع اور مضمون کی سرخی کے تحت لکھتے ہیں:

پہلی آیت میں توحید کی تعلیم کو اِس ایک فقرے میں سمیٹ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی تسبیح کی جائے، یعنی اُس کو کسی ایسے نام سے یا د نہ کیا جائے جو اپنے اندر کسی قسم کے نقص، عیب، کمزوری یا مخلوقات سے تشبیہ کا کوئی پہلو رکھتا ہو۔ کیونکہ دنیا میں جتنے بھی فاسد عقائد پیدا ہوئے ہیں اُن سب کی جڑ اللہ تعالیٰ کے متعلق کوئی نہ کوئی غلط تصور ہے جس نے اُس ذاتِ پاک کے لیے کسی غلط نام کی شکل اختیار کی ہے۔ لہٰذا عقیدے کی تصحیح کے لیے سب سے مقدم یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کو صرف اُن اسماء حسنیٰ ہی سے یا د کیا جائے جو اُس کے لیے موزوں اور مناسب ہیں۔
(تفہیم القرآن جلد ششم، سورۃ الاعلیٰ ، ابتدایئہ)

اسی طرح سورۃ الاعلیٰ کی پہلی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مودودی لکھتے ہیں:

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَىۙ
اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح بیان کرو
لفظی ترجمہ ہو گا"اپنے ربّ ِ برتر کے نام کو پاک کرو۔" اِس کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں اور وہ سب ہی مراد ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ کو اُن ناموں سے یا د کیا جائے جو اُس کے لائق ہیں اور ایسے نام اُسکی ذات ِ برتر کے لیے استعمال نہ کیے جائیں جو اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اُس کے لیے موزوں نہیں ہیں، یا جن میں اس کے لیے نقص یا گستاخی یا شرک کا کوئی پہلو نکلتا ہے، یا جن میں اُس کی ذات یا صفات یا افعال کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ پایا جاتا ہے۔ اِس غرض کے لیے محفوظ ترین صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے وہی نام استعمال کیے جائیں جو اس نے خود قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں ، یا جو دوسری زبان میں اُن کا صحیح ترجمہ ہوں۔(۲) اللہ کے لیے مخلوقات کے سے نام، یا مخلوقات کے لیے اللہ کے ناموں جیسے نام استعمال نہ کیے جائیں۔ اور اگر کچھ صفاتی نام ایسے ہوں جو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ بندوں کے لیے بھی ان کا استعمال جائز ہے، مثلاً رؤف، رحیم، کریم، سمیع، بصیر وغیرہ ، تو ان میں یہ احتیاط ملحوظ رہنی چاہیے کہ بندے کے لیے ان کا استعمال اُس طریقے پر نہ ہو جس طرح اللہ کے لیے ہوتا ہے۔(۳) اللہ کا نام ادب اور احترام کے ساتھ لیا جائے کسی ایسے طریقے پر یا ایسی حالت میں نہ لیا جائے جو اس کے احترام کے منافی ہو، مثلاً ہنسی مذاق میں یا بیت الخلاء میں یا کوئی گناہ کرتے ہوئے اس کا نام لینا، یا ایسے لوگوں کے سامنے اس کا ذکر کرنا جو اسے سن کر گستاخی پر اُتر آئیں، یا ایسی مجلسوں میں اُ س کا نام لینا جہاں لوگ بیہودگیوں میں مشغول ہوں اور اس کا ذکر سن کر مذاق میں اڑا دیں، یا ایسے موقع پر اس کا نام پاک زبان پر لانا جہاں اندیشہ ہو کہ سننے والا اسے ناگواری کے ساتھ سنے گا۔ امام مالک کے حالات میں منقول ہے کہ جب کوئی سائل ان سے کچھ مانگتا اور وہ اس وقت اُسے کچھ نہ دے سکتے تو عام لوگوں کی طرح اللہ دے گا نہ کہتے بلکہ کسی اور طرح معذرت کر دیتے تھے۔ لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ سائل کو جب کچھ نہ دیا جائے اور اس سے معذرت کر دی جائے تو لامحالہ اسے ناگوار ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر میں اللہ کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص اسے ناگواری کے ساتھ سُنے۔
احادیث میں حضرت عقبہ بن عامر جُہَنِی سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ پڑھنے کا حکم اِسی آیت کی بنا پر دیا تھا، اور رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھنے کا جو طریقہ حضور ؐ نے مقرر فرمایا تھا وہ سورۂ واقعہ کی آخری آیت فَسَبِّحْ بِا سْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ پر مبنی تھا( مسند احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، ابن حِبّان، حاکم، ابن المنذِر)
(تفہیم القرآن جلد ششم، سورۃ الاعلیٰ ، حاشیہ نمبر ۱)

یعنی ان اقتباسات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے لئے ایسے نام نہ لیےجائیں جو کہ اسکی شخصیت کا بنیادی احاطہ نہ کر سکتے ہوں یا پھر انکے استعمال سے شرک کا پہلو نکلتا ہو۔ اور ایسا ہی ایک نام لفظ خدا ہے۔اردو ادب اور مذہب کی کوئی کتاب ایسی نہ ہوگی جس میں اللہ کے لئے یہ نام نہ استعمال کیا گیا ہو۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس نام کی تحقیق کرلی جائے کہ کیا یہ نام اللہ کے لئے واقعی استعمال ہو سکتا ہے یا نہیں۔کہیں اس میں شرک کا کوئی پہلو تونہیں یا کہیں اس کے استعمال میں اللہ کی کوئی ہتک تو نہیں۔لفظ خدا فارسی زبان کا لفظ ہے، جسکو انگریزی میں گاڈ ترجمہ کیا جاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہیئے کہ خدا تذکیر کا صیغہ ہے جسکی تانیث خدائن ہوتی ہے۔ اسی طرح فارسی میں خدا کی جمع خدائیگان ہوتی ہے جبکہ لفظ اللہ کے لئے جمع اور تانیث بھی نہیں بنائی جا سکتی ہے۔ اس لحاظ سے تو یہ لفظ خدا اپنے اندر شرک کا پہلو رکھتا ہے۔ حقیقت میں یہ لفظ خدا فارسی لفظ ہے جو ہر بڑے کیلئے بولا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے مغل بادشاہ اپنے لئے خداوند کا لفظ استعمال کرتے تھے یعنی خداؤں کا خدا۔ اسی طرح سے فارسی میں جو آدمی سڑکوں کی صفائی کرتا ہے اسکو خدائے صفائی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اردو میں ہر بڑے کو خدا بولا جاتا ہے، جیسے میر تقی میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔یعنی جو الفاظ مخلوقات کے لئے استعمال ہوتے ہیں وہ اللہ کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں جو کہ مودودی صاحب کے تحت سخت غلط اور شرکیہ پہلو رکھتا ہے اپنے اندر، لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ خودمودودی صاحب اپنی تحریروں میں جا بجا لفظ خدا کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں حتیٰ کہ انکی تفہیم بھی اس غلطی سے مبرا نہیں۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیسے مفسر قرآن ہوتے ہیں جو خود قرآن کی ایسی تفاسیر بیان کرتے ہیں لیکن خود ان پر عمل کرتے کبھی نظر نہیں آتے۔یہی مودودی صاحب سورۃالاحزاب حاشیہ نمبر ۴۸ میں عورتوں کے سیاست میں حصہ لینے اور پارلیمنٹوں اور کونسلوں کی ممبر بننے پر تنقید کرتے ہیں حتیٰ کہ جنگ جمل میں حصہ لینے پر عائشہ ؓ کو بھی غلط ٹھہرادیتے ہیں لیکن خود ایوب خانی آمریت کے خلاف فاطمہ جناح کا نہ صرف ساتھ دیتے ہیں بلکہ عوام سے التماس بھی کرتے ہیں اس دفعہ خدارا پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے فاطمہ جناح کو ووٹ ڈالیں اور پھر انہی مودودی صاحب کی پارٹی جماعت اسلامی کی خواتین جمہوری الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ اور کونسلوں میں ممبر بن کر بھی بیٹھتی ہیں۔ یہ قول و فعل کا تضاد ہی اس امت کو لے ڈوبا ہے شاید۔ اسی طرح سے ایک اور مفسر قرآن ڈاکٹر اسرار احمد تھے جنکے لیکچر اور تحیریرات میں یہ لفظ خدا کافی نظر آتا ہے اور جو کہ قرآن کے درس دیتے دیتے اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ اپنے ایک لیکچر عظمت مصطفیٰ ریکورڈڈ ۱۹۹۹ میں یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ نبی ﷺ کی مثال ملنا محال قطعی ہے، آپ ﷺ جیسا دوسرا کوئی پیدا نہیں ہو سکتا، حتیٰ کہ بعض علماء اور مسالک تو اس عقیدے کےقائل ہیں کہ خود اللہ بھی اس چیز پر قادر نہیں کہ محمد ﷺ جیسا کوئی دوسرا پیدا کر سکے، اگرچہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے لیکن نتیجے کی حد تک تو یہ بات ثابت ہے۔(استغفراللہ) لیجیئے ہوئی چھٹی۔جس امت کے مفسر قرآن کا یہ حال ہو تو پھر اسکی عوام کیوں نہ گمراہیوں کے اندھیرے میں بھٹکتی پھرے۔ یہ زلزلے یہ تباہکاریاں کچھ یونہی بے سبب تو نہیں۔

خیر یہ تو ایک ضمنی بحث تھی۔بات لفظ خدا کے اللہ کے لئے استعمال کی ہو رہی تھی۔ اس سلسلے میں بہتر ہوگا کہ اس واقعہ کی طرف بھی اشارہ کر دیا جائے کہ مارماڈیوک پکتھال نے عیسائی مذہب چھوڑ کر جب اسلام قبول کیا تو قرآن کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا اور پہلی ہی آیت بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ کا ترجمہ کرتے ہوئے لفظ اللہ کا ترجمہ گاڈ نہیں کیا بلکہ اللہ کیا اور حاشیہ میں اسکی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:



I have retained the word Allah throughout, because there is no corresponding word in English. The word Allah (the stress is on the last syllable) has neither feminine nor plural, and has never been applied to anything other than the unimaginable Supreme Being. I use the word "God" only where the corresponding word Ilah is found in the Arabic. (Holy Quran English translation by Marmaduke Pickthal)



المختصر مندرجہ بالا مبحث سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ اللہ کے لئے لفظ خدا کا استعمال قطعی غیر مناسب اور غیر شرعی معلوم ہوتا ہے۔ اللہ کے لئے لفظ خدا کا استعمال اللہ کی صریح توہین ہے اور اس سے اللہ کا ایک ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ ایک مسلم کو چاہیئے کہ وہ اللہ کے لئے وہ لفظ استعمال کرے جو اسکی صفات سے لگا کھاتا ہو۔ جیسا کہ اللہ قرآن میں فرماتا ہے:

وَلِلَّهِ ٱلۡأَسۡمَآءُ ٱلۡحُسۡنَىٰ فَٱدۡعُوهُ بِہَا‌ۖ وَذَرُواْ ٱلَّذِينَ يُلۡحِدُونَ فِىٓ أَسۡمَـٰٓٮِٕهِۦ‌ۚ سَيُجۡزَوۡنَ مَا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ (سورۃ الاعراف:۱۸۰)

اور اللہ کے سب نام اچھے ہی اچھے ہیں۔ تو اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو اور جو لوگ اس کے ناموں میں کجی اختیار کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں عنقریب اس کی سزا پائیں گے۔

لا حول ولا قوۃ الا باللہ

ہمارے معاشرے میں ایک انتہائی غلط طریقہ جو رائج چلا آرہا ہے وہ اس مقدس کلمے کا غلط استعمال ہے۔ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ اس غلطی کے مرتکب صرف بر صغیر پاک و ہند کے علماء اور عوام ہیں لیکن بعد میں پتہ چلا کہ نہیں جی اہل عرب اہل زبان ہوتے ہوئے بھی اس غلطی میں مبتلا ہیں اور وہ غلطی کیا ہے کہ جہاں کوئی شیطان یا شیطانی کام ہوتا دیکھا فوراٌ لاحول ولا قوۃ الا با للہ پڑھنا شروع کر دیا۔ حیرت تو یہ ہوتی ہے کہ اس چیز کی تنبیہ علماء سے ملتی ہیں اور علماء خود یہ کام کرتے نظر آتے ہیں۔جب علماء کا یہ حال ہو تو پھر بیچارے عوام کو کیوں رونا۔

حالانکہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ ایک تسبیح ہے جس میں اس امر کا اقرار ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی میں طاقت و قوت نہیں۔ حتیٰ کہ نبی ﷺ نے اس جملہ کو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ اسے کثرت سے پڑھو۔

بات اگر صرف اسی حد تک رہتی تو وہ عین شریعت کا تقاضہ ہوتا لیکن اب بات یہ بنی کہ ہر شیطان یا شیطانی کام کو دیکھ کر لاحول پڑھا جاتا ہے یعنی جس پر لاحول پڑھی جائے اسکا شیطان ہونا ثابت ہوگیا۔ حلانکہ اللہ تعالیٰ سورۃالاعراف آیت ۲۰۰ میں فرماتا ہے:

وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ ٱلشَّيۡطَـٰنِ نَزۡغٌ۬ فَٱسۡتَعِذۡ بِٱللَّهِ‌ۚ إِنَّهُ ۥ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اور اگر تجھے کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آئے تو الله کی پناہ مانگ لیا کر بے شک وہ سننے والا جاننے والا ہے

اسی بات کو نبی ﷺ نے حدیث میں اس طرح بیان فرمایا:

ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا کہ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں کو کس نے پیدا کیا اور فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا حتیٰ کہ یہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا پس جب ایسی سوچ آئے تو اعوذباللہ من الشیطان الرجیم (میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں) کہے اور (آئندہ ایسی سوچ سے )باز رہے۔(بخاری: کتاب بد اءالخلق، باب صفۃ ابلیس و جنودہ)

یعنی اللہ اور اسکے نبی ﷺ نے شیطان رجیم سے پناہ مانگنے کیلئے اعوذباللہ پڑھنے کا حکم دیا تھا لیکن ہمارے بڑوں نے یہ پسند نہ کیا اور لا حول کا مذاق بنا دیا۔ پس اللہ ہمیں ان خرافات سے محفوظ رکھے اور صحیح دین سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 
Top