• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

126muhammad

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 26، 2022
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
21
ٹیکس اور ٹیکسیشن ایک ظالمانہ اور )

ٹیکس اور ٹیکسیشن ایک مطالعات اور غیر منطقی نظام

دین اسلام میں ٹیکس لگانا ایک کبیرہ گناہ حرام کام اور ظالمانہ نظام ہے۔

ارشاد باری تعالی بي يا أنها الذين آمنوا لا تأكلوا أمر الكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم ترجمہ اے ایل ایمان، ایس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے کہ کفار الیت اگر بایسی رضا مندی سے تجارت کی صورت ہے بو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ تو کسی شخص کی دلی رضامندی کے بغیر امر سے اس کا مال لینا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔

حدیث میں ٹیکس کے لیے "عکس" کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دور جاہلیت میں تاجروں سے کسی علاقے سے گزرنے پر یا بازار میں اپنا مال بیچنے پر دس فی صد لیا جاتا تھا ا اور اسے مکس یعنی محصول کہتے تھے۔ مسند احمد کی روایت میں ہے: لا يدخل الجنة صاحب مكس ايكس اور محصول عائد کرنے والا جنت من داخل نہیں ہو گا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ایک شادی شدہ عورت کو زنا کے جرم میں جب رجم کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمانی کو حضرت عمر نے کہا کہ آپ رانی عورت کے لیے دعا کر رہے اس؟ تو آپ نے فرمايا والذي نفسي بيده قد ثابت ثوية أو كانها صاحب مكس اغفر له.
ترجمہ: اللہ کی قسم اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ٹيكس لگانے والا بھی ایسی توبہ کرنا تو معاف کر دیا جاتا۔

یہ کو مسلمانوں پر ٹیکس لگانے کی بات بولی کہ ان پر ٹیکس لگانا حرام ہے البتہ وہ اپنے اموال کی زکوۃ ریاست کو ادا کریں گے تاکه ریاست اپنی ضروریات پوری کر سکے
رہی غیر مسلموں پر ٹیکس لگانے کی بات تو وہ جائز ہے کیونکہ ان کے لیے زکوة نہیں ہے۔ تو۔اسلامی ریاست کے تحت رہنے والے غیر مسلم خراج یا جزبہ کا ٹیکس ادا کریں گے
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ یہود و نصاری سے قتال کرو یہاں تک کہ وہ جزیہ ادا کریں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر کے یہودیوں سے خراج وصول کیا۔

اسی طرح وہ غیر ملکی اور غیر مسلم تاجر جو اسلامی ریاست میں کاروبار کرنے کے لیے آئیں تو ان پر بھی عشور نے بھی دس فی صد ٹيكس حضرت عمر رضی الد نے اپنے زمانہ خلافت میں مسلمان تاجروں سے پوچھا کہ جب وہ تجارت کے لیے حیثہ جاتے ہیں تو حیثہ کے لوگ ان سے کیا معاملہ کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ ہم سے دس في صد وصول کرتے ہیں تو حضرت عمر نے غیر ملکی اور غیر مسلم تاجروں پر دس فی صد ٹیکس عائد کر دیا۔
اسی طرح اگر ایمرجنسی کی کیفیت ہو جیسا کہ قحط پڑ جائے اور عوام بھوکی مر رہی ہو تو ریاست ایمی استثنائی صورت حال میں امراء پر اتنا ٹیکس عائد کر سکتی ہے کہ جس سے بھوکے کو کھانا مل جائے۔ بعد ٹیکس کا نظام ظالمانہ ہی نہیں بلکہ غیر منطقی (illogical) بھی ہے۔
مثال کے طور جب میں نے گاڑی خریدی تو اس پر تقریبا اڑھائی لاکھ سیلز ٹیکس ادا کیا۔ اس کے بعد مزید وہ ہولڈنگ ٹیکس ادا کیا۔ پھر اس گاڑی کی ڈاکومینٹیشن کی بات آئی تو اس کی رجسٹریشن کرواتے وقت توکن ٹیکس ادا کیا، پھر ہر سال اس گاڑی کا ٹوکن ٹیکس ادا کر رہا ہوں پھر اس گاڑی میں قبول دلوایا تو پٹرول کے اوپر چالیس روپے ٹیکس ادا کر رہا ہوں پھر گاڑی لے کر شہر سے باہر نکلا تو اب ٹول ٹیکس ادا کرنے لگ گیا تو یہاں اس نظام میں ٹیکسوں کی برمار ہے۔ اتنے کی چیز نہیں ہوتی، اس سے زیادہ آپ ٹیکس ادا کر دیتے ہیں۔ اسی طرح آپ اپنا بجلی کا بل اٹھا کر دیکھ لیں کہ آپ ایک سال میں کتنے ٹیکسز ادا کرتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریاست ٹیکس نہ لے گی تو اپنا نظام کیسے چلائے گی؟

تو بعض ریاستیں ٹیکس کے بغیر بھی اپنا نظام چلا رہیں ہیں جیسا کہ کویت، بحرین، متحده عرب امارات و غیره ریاست کو لیکس فری زون بنا دینے سے ریاست کی معاشی خوشحالی (economic growth) میں اضافہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ریاست کو چاہیے کہ لیکس کے علاوہ اپنے دیگر ذرائع آمدن (non-tax revenu Bources) بیشتر بنائے جیسا کہ اسلامی ریاست میں زکوة خراج
جزیہ عشور معدنیات دفینے تخالف و غیره ریاست کے مصادر اموال میں سے رہے ہیں۔ جدید اسلامی ریاست میں ان میں فیس، جرمانے کرایہ اور،)services(خدمات ) penalities ( مالی سزا ،)fines( سرمایہ کاری (investment) وغیرہ کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ ریاست کا ہاتھ نیچے نہیں ہونا چاہئے بلکہ دینے والا ہوتا چاہے اور یہ اس صورت ممکن ہے جبکہ ٹیکسیشن کے اس ظالمانہ نظام کو ختم کیا جائے
 
Top