مسجدوں میں ’ امام و خطیب ‘ اور عدالتوں میں ’ قاضی ’
’’عدالت میں جج کی بجائے انہیں کسی مسجد کا امام ہونا چاہیے ۔ ‘‘
اس طرح کا بیان داغنے والی ایک موصوفہ ہیں ، جو وطن عزیز پاکستان میں ’ بدنام زمانہ ‘ عورتوں میں سے ایک ہیں ۔ جن کی حرکات کے ساتھ بطور تعارف ان کا نام یا نام کے ساتھ ان کی حرکات کا ذکر تکرار شمار ہوگا ۔
موصوفہ کی دلچسپیوں کا مرکز و محور وہ ’ تہذیب و تمدن ‘ ہے ، جس کا ظفر علی خاں کے مطابق تھپڑ مار کے حلیہ بگاڑ دینا چاہیے ۔ یہاں میں ذرا وضاحت کرنے کی جسارت کروں گا کہ ’ تہذیب ‘ کا حلیہ بگڑا تو اسے ’ تہذیب نو ‘ کہنا پڑا ، اب اسے تھپڑوں کی ضرورت ہے ، تاکہ یہ اپنی ’ اوقات ‘ میں آجائے ۔
تہذیب نو کے منہ پر وہ تھپڑ رسید کر
جو اس حرامزادی کا حلیہ بگاڑ دے
ظفر علی نے تو ’ حرامزادی ‘ بھی کہا ، جو ظاہر ہے تہذیب کو کہا ہے ، اس تہذیب کی کسی پیروکار کو نہیں ، ویسے بھی ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے اگر کسی ’پیروکار ‘ کو حرامزادی کہنا ہے اس کے لیے چار گواہ پیش کرنے پڑیں گے ، ورنہ حد قذف لگ سکتی ہے ۔
میں عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ موصوفہ نے جس انداز سے طنز کیا ، اس سے ان کے اسلامی شعائر سے لگاؤ کا پول تو کھلا ہے ( جو وقتا فوقتا کھلتا ہی رہتا ہے ) ساتھ ساتھ اسلام اور اہل اسلام سے ناوافقیت بھی آشکار ہوئی ہے ، نہیں تو بطور ایک وکیل ہونے کے انہیں یہ علم ہونا چاہیے تھا کہ آج بھی بہت سارے ممالک میں امام و قاضی ایک ہی شخصیت ہوتے ہیں ، موصوفہ کا کبھی ارض حرمین میں آنا نہیں ہوا ہوگا ( کیونکہ سنا ہے قادیانیوں کا داخلہ ممنوع ہے ) ، اگر یہ خاتون سعودی نظام کے متعلق جاننے میں دلچسپی رکھتی ہوں ، تو انہیں بہت زیادہ حیرانی ہوگی ، یہاں مسجد کے ساتھ ہی عدالت ہوتی ہے ، جو شخص عدالت میں قاضی کے فرائض سر انجام دیتا ہے ، وہی مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دیتا ہے ۔
اور حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام جب شروع ہوا تھا تو تمام اداروں کا ہیڈ کوارٹر یہی مسجد ہی ہوا کرتی تھی ، بلکہ عدالتیں بھی مساجد میں ہی یا ان کے گردو پیش لگا کرتی تھیں ، اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھیے ، کون سا جج ہے ، جو عالم دین نہ تھا ؟ قرن اول کے قاضی شریح سے لیکر آخری دور کے ابن حجر تک آجائیں ، یہ جید اور کبار علماء کرام وقت کے قاضی القضاۃ میں بھی شمار ہوتے تھے ۔
بلکہ گاہے تو ایسا بھی ہوا کہ حکمران محدثین و فقہاء کی منت سماجت کیا کرتے تھے ، کہ آپ کچھ وقت نکال کر منصب قضاء کو بھی سنبھالیں ۔
چودہ صدیوں کے اہم فیصلے ، نامور ججز کی سیرتیں ، عدل و انصاف کے قوانین و ضابطے انہیں ’ مولویوں ‘ نے ہی مرتب کیے ہیں ، برصغیر پاک و ہند میں انگریز کا نظام رائج ہے ، ورنہ اگر عدالتیں اسلامی قوانین و ضابطوں کے مطابق ہوں تو آج بھی ان مولویوں کے سوا ان کی کوئی اہلیت نہیں رکھتا ۔
ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں ، ذیل میں دنیا کے افضل ترین دو شہروں کی افضل ترین دو مسجدوں کے امام و خطباء میں سے چند نام گنواتا ہوں ، جو شخصیات بیک وقت ’ جج ‘ بھی ہیں ، اور ’ امام و خطیب ‘ بھی ہیں ۔
1۔ شیخ سعود الشریم برسوں سے حرم مکی میں امام و خطیب بھی ہیں ، اور مکہ مکرمہ کی اعلی عدالت کے جج ہی نہیں ، بلکہ قضاء کے بہترین پروفیسر بھی ہیں اور ام القری یونیورسٹی میں کلیۃ القضا انہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔
2۔ شیخ صالح بن عبد اللہ بن حمید ، مسجد حرام کے امام و خطیب ہیں ، اسی طرح ججز کی مجلس اعلی کے رئیس رہ چکے ہیں ۔
3۔ شیخ صالح آل طالب بھی مسجد حرام کے امام و خطیب ہیں ، مکہ مکرمہ میں جج کے فراض سر انجام دیتے ہیں ، اس کے علاوہ بھی سعودی عرب کے بہت سارے شہروں میں ان کی بطور جج خدمات مشہور ہیں ۔
4۔ شیخ صلاح البدیر 1419 سے مسجد نبوی میں امام و خطیب مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ مسجد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں ہی قائم عدالت میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
5۔ شیخ حسین بن عبد العزیز آل شیخ ( شیخ محمد بن عبد الوہاب کی اولاد ) ایک طویل عرصہ سے مسجد نبوی میں امامت و خطابت کے فرائض کے ساتھ ساتھ بطور قاضی بھی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
6۔ شیخ عبد المحسن القاسم ، کئی ایک اعتبارات سے اہل مدینہ میں بہت مشہورہیں ، کئی سالوں سے مسجد نبوی میں امامت و خطابت کے علاوہ عدالت میں بطور قاضی بھی مقرر ہیں ۔
یہ چند ایک نام میں نے بطور مثال پیش کیے ، ورنہ سعودیہ کی کسی عدالت کا کوئی جج ہی ہوگا ، جو کسی مسجد میں امام اور خطیب نہ ہو ۔
اللہ سے دعا ہے ، اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے وطن عزیز پاکستان میں اسلامی نظام کا کما حقہ نفاذ ہو، اور اس کی بھاگ دوڑ مکمل طور پر وہی سنبھالیں ، جو اس کے اہل ہیں ۔ جو دین کو سیاست سے جدا کرکے چنگیزی نظام کے دلدادہ نہیں ، بلکہ دین و دنیا کے تمام مسائل کے حل پر مشتمل مکمل اسلامی ضابطہ حیات کی حمایت کرنے والے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان ائمہ کرام و ججز عظام کی تصاویر دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔