• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس مضمون كى كيا حقيقت ہے

شمولیت
اپریل 10، 2015
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
17
(اس مضمون کو اپنے مطالعہ کا حصہ ضرور بنائے)

کیا معرکہ حق و باطل قریب ہے

✒اوریا مقبول جان

ملکہ سباء کی سرزمین اور عرب دنیا کا غریب ترین ملک ’’یمن‘‘ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ اہم رہا ہے۔ عاشقِ رسولﷺ حضرت اویس قرنی کا مسکن اور وہ خطہ جس کے بارے میں سید الانبیاء ﷺ نے فرمایا ’’بہترین ایمان یمن میں ملے گا اور شاندار حکمت بھی وہاں کی‘‘۔ احادیث کی تمام کتب میں جہاں کہیں قیامت کے قرب میں دور فتن کا تذکرہ ہے وہاں ہادی برحق ﷺ نے دو خطوں کو بہت اہمیت دی ہے، ایک شام اور دوسرا یمن۔
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اے اللہ ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ہمارے نجد میں بھی، آپ نے فرمایا، اے اللہ ہمارے شام میں برکت عطا فرما اور ہمارے یمن میں بھی۔ لوگوں نے پھر کہا ہمارے نجد میں بھی، راوی کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے تیسری بار رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہاں زلزلے آئیں گے اور فتنے ہوں گے اور وہاں شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا۔ (بخاری، مسند احمد)۔
شام تو گزشتہ تین سالوں سے اس جنگ میں داخل ہو چکا ہے جس کا تذکرہ کتب احادیث میں ملتا ہے اور اب یمن نے انگڑائی لے لی ہے۔ ایک حیران کن ترتیب زمانی ہے جو ہو بہو ویسی ہی ظہور پذیر ہوتی جا رہی ہے جیسی کتب احادیث میں بتائی گئی ہے۔ سب سے پہلے عراق کی جنگ ہے اور اس کے نتائج سے دوسری جنگیں نکل رہی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب بنو قنطورا یعنی اہل مغرب تمہیں عراق سے نکال دیں گے، میں نے پوچھا ہم دوبارہ واپس آ سکیں گے، حضرت عبداللہ نے فرمایا، آپ ایسا چاہتے ہیں، میں نے کہا ضرور، انھوں نے فرمایا ہاں عراق واپس لوٹ آئیں گے اور ان کے لیے خوشحال اور آسودگی کی زندگی ہوگی (الفتن۔ نعیم بن حماد)۔ اسی جنگ کے بارے میں ایک اور روایت، آپ ﷺ نے فرمایا، قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکلے، لوگ اس پر جنگ کریں گے اور ہرسو میں سے ننانوے مارے جائیں گے۔ ہر بچنے والا سمجھے گا کہ شاید میں ہی اکیلا بچا ہوں (مسلم)۔
عراق پر جنگ جس طرح مسلط کی گئی اور جس طرح تمام اہل مغرب نے مل کر وہاں کی ہر بستی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور انھیں ہجرت پر مجبور کیا، اس کی کہانی بار بار بیان ہو چکی۔ اس کے بعد کی ترتیب کے مطابق، مصر میں انتشار اور خرابی کا ذکر ہے اور ٹھیک اسی ترتیب سے یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ حضرت وہب ابن منبہ فرماتے ہیں کہ جزیرۃ العرب اس وقت تک خراب نہ ہو گا جب تک مصر خراب نہ ہو جائے (السنن الواردہ فی الفتن)۔ حضرت اسحٰق ابن ابی یحییٰ الکعبی حضرت اوزاعی سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے فرمایا کہ جب پیلے جھنڈوں والے مصر میں داخل ہو جائیں تو اہل شام کو زمین دوز سرنگیں کھود لینی چاہئیں (السنن الواردۃ فی الفتن)۔
مصر ہی عرب بہار میں سب سے پہلے متحرک ہونے والے ملکوں میں سے تھا۔ وہاں سے حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ التحریر اسکوائر کے اجتماعات کے بعد ہوا۔ پیلے جھنڈے وجود میں آئے جن پر چار انگلیوں کے نشان تھے، اخوان المسلمون کی حکومت بنی اور پھر دوبارہ وہاں جنرل سیسی کے ذریعے آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی۔ یہی دور تھا جب شام کے صدر بشار الاسد نے اپنے خلاف بغاوت کو کچلنے کے لیے بے دریغ قتل عام شروع کیا اور طیاروں سے بمباری شروع کی جس سے اس وقت تک اندازاً چار لاکھ کے قریب لوگ داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں۔
کس قدر اہم ہدایت دی گئی تھی اس حدیث میں کہ شام کے لوگوں کو زمین دوز سرنگیں کھود لینی چاہئیں۔ شام آخری جنگ میں جسے رسول اللہ ﷺ نے ملحمۃ الکبریٰ کہا ہے مسلمانوں کا ہیڈ کوارٹر ہو گا اور اسی جگہ مغرب سے جنگ برپا ہو گی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی نصرت یمن سے کی جائے گی۔ حضرت کعب سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا ،،جب رومی جنگ عظیم (ملاحم) میں اہل شام سے جنگ کریں گے تو اللہ تعالیٰ دو لشکروں کے ذریعے اہل شام کی مدد کرے گا۔
ایک مرتبہ ستر ہزار سے اور دوسری مرتبہ اسی ہزار ،اہل یمن کے ذریعے، جو اپنی بند تلواریں لٹکائے ہوئے آئیں گے۔ وہ کہتے ہوں گے کہ ہم پکے سچے اللہ کے بندے ہیں۔ ہم اللہ کے دشمنوں سے جنگ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے طاعون، ہر قسم کی تکلیف اور تھکاوٹ اٹھا لیں گے( الفتن، نعیم بن حماد)۔ مغرب کی طاقتوں سے یہ جنگ اعماق اور دابق کے مقام پر لڑی جائے گی۔ یہ دونوں قصبے شام کے شہر حلب سے پنتالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ترکی کے قریب ہیں۔
رسول اکرمﷺ نے فرمایا ہے ’’اہل روم اعماق اور دابق کے مقام پر پہنچ جائیں گے۔ ان کی طرف ایک لشکر مدینہ سے پیش قدمی کرے گا جو اس زمانے کے بہترین لوگوں میں سے ہو گا۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوں گے تو رومی کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائو جو ہمارے لوگوں کو قید کر کے لائے ہو، ہم انھی لوگوں سے جنگ کریں گے، مسلمان کہیں گے نہیں اللہ کی قسم ہم ہر گز تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔
اس پر تم ان سے جنگ کرو گے۔ اب ایک تہائی مسلمان بھاگ کھڑے ہوں گے جن کی توبہ اللہ کبھی قبول نہیں کرے گا، ایک تہائی شہید کر دیے جائیں گے، باقی ایک تہائی فتح حاصل کرینگے (مسلم، ابن حبان) سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیش گوئی کے پورا ہونے کے آثار کس قدر واضح نظر آرہے ہیں۔ پورا مغرب شام میں جنگ کرنے کے لیے متحد ہورہا ہے اور بہانہ وہی لگایا جارہا ہے کہ ہمارے یورپ کے لوگ قید کرکے لائے گئے ہیں۔ ہم ان لوگوں سے لڑیں گے، لیکن اگر جنگ شروع ہوگئی تو پھر اہل مغرب کے مقابلے میں سب مسلمان متحد ہوجائیں گے۔
یہی وجہ تھی کہ میں انتظار میں تھا کہ کب یمن میں امریکا کی قائم کردہ پٹھو حکومت ختم ہوتی ہے۔ کیونکہ اس آخری جنگ میں شام کی نصرت میں یمن سے بھی لوگ جائیں گے اور خراسان کے سیاہ جھنڈوں والے تو پہلے ہی افغانستان میں امریکا کو شکست فاش دے چکے۔ اب تو بس اتحادی فوجیوں کی جانب سے جنگ کا نقارہ بجنے کی دیر ہے۔ پھر دیکھیں امت کس طرح ایک جگہ اکٹھی ہوگی اور اس کا ذکر ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضاحت سے کردیا ہے۔
یمن وہ سرزمین ہے جہاں سیدنا علی بن حسینؓ جنھیں امام زین العابدین کہا جاتا ہے ان کے فرزند ارجمند حضرت زید بن علیؒ کے ماننے والے زیدیہ فرقے کے افراد مقیم ہیں۔ حضرت زید بن علیؒ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اموی حکمران کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا۔ وہ کوفہ پہنچے تو کوفہ والوں نے ان کے ساتھ وہی کیا جو ان کے دادا سیدنا امام حسینؓ اور مسلم بن عقیلؓ کے ساتھ کیا تھا۔ چالیس ہزار افراد نے ان کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کی بیعت کی، لیکن جب وقت آیا تو وہ سب اکٹھے ہوکر آئے اور پوچھا، تم کس چیز کی دعوت دیتے ہو، فرمایا اللہ کے رسول کی سنت کو زندہ کیا جائے۔
اس پر ان لوگوں نے سوال اٹھایا ابو بکرؓ اور عمرؓ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں انھوں نے زندگی گزاری اور میں نے اپنے گھر والوں سے ان کا ذکر ہمیشہ خیر اور بھلائی سے سنا۔ یہ سننا تھا کہ وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ جب زید بن علیؒ جہاد کے لیے علم بلند کررہے تھے تو امام ابو حنیفہؒ نے ان کے بارے میں کہا تھا ،،زید کا اس وقت اٹھ کھڑا ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدر میں تشریف آوری کے مشابہ ہے‘‘۔
امام ابو حنیفہؒ کا یہ قول کس قدر درست ثابت ہوا کہ زید بن علیؒ جب خروج کے لیے نکلے تو ان کے ساتھ بھی تین سو تیرہ افراد تھے۔ وہی تعداد جتنی بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھی۔ حضرت زید بن علی کے ماننے والے زیدیہ کہلاتے ہیں۔ وہ اپنے عقائد کو حضرت زید کے اس خطبے سے اخذ کرتے ہیں۔‘‘میں ان لوگوں سے بری ہوں جو اللہ کو مخلوق جیسی ہستی سمجھتے ہیں اور ان جبریوں سے بھی بری جو اپنی ساری بداعمالیوں کی گٹھری اللہ پر لاد کر کہتے ہیں کہ سب اللہ کرتا اور کراتا ہے اور ان لوگوں سے بھی بری جنہوں نے بدکاروں کے دلوں میں یہ امید پیدا کردی ہے کہ خدا انھیں یوں ہی چھوڑ دے گا اور میں ان دین باختوں سے بھی بری جو حضرت علیؓ کو دین سے خارج اور ان رافضیوں سے بھی جدا جو ابوبکرؓ اور عمرؓ کی تکفیر کرتے ہیں۔‘‘
یہی ہے ایک امت کا عقیدہ، اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بہترین ایمان یمن میں ملے گا۔‘‘ یہ لوگ اس طوق غلامی کو اتار پھینکیں گے جو امریکا اور اس کے حواریوں نے انھیں پہنایا تھا۔ حالات کی ترتیب تو ویسی ہی ہے جیسی احادیث میں رقم ہے لیکن دیکھنا صرف یہ ہے کہ کب مغرب یلغار کرتا ہے اور پھر کب یہ امت ایک ہوجاتی ہے۔
 
شمولیت
اپریل 10، 2015
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
17
یہ whatsapp پر آيا ہے اور ایک بھائى نے اسکی حقيقت پوچھی ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اس مضمون میں موجود چند احادیث :

سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ ،جو مخلص محب رسول ﷺ تھے (انہیں عاشق کہنا انکی توہین ہے )
صحیح مسلم
باب: اویس قرنی (تابعی) کا ذکر اور ان کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1747
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ، وَلَهُ وَالِدَةٌ وَكَانَ بِهِ بَيَاضٌ فَمُرُوهُ فَلْيَسْتَغْفِرْ لَكُمْ»
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تابعین میں ایک بہترین شخص ہے جس کو اویس کہتے ہیں، اس کی ایک ماں ہے (یعنی رشتہ داروں میں سے صرف ماں زندہ ہو گی) اور اس کو ایک سفیدی ہو گی۔ تم اس سے کہنا کہ تمہارے لئے دعا کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل یمن کی فضیلت
صحیح البخاری
باب قدوم الأشعريين وأهل اليمن:
باب: قبیلہ اشعر اور اہل یمن کی آمد کا بیان
حدیث نمبر: 4388
عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " اتاكم اهل اليمن هم ارق افئدة والين قلوبا الإيمان يمان والحكمة يمانية والفخر والخيلاء في اصحاب الإبل والسكينة والوقار في اهل الغنم " وقال غندر عن شعبة عن سليمان:‏‏‏‏ سمعت ذكوان عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا :: کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے یہاں اہل یمن آ گئے ہیں، ان کے دل کے پردے باریک، دل نرم ہوتے ہیں، ایمان یمن والوں کا ہے اور حکمت بھی یمن کی اچھی ہے اور فخر و تکبر اونٹ والوں میں ہوتا ہے اور اطمینان اور سہولت بکری والوں میں۔ اور غندر نے بیان کیا اس حدیث کو شعبہ سے، ان سے سلیمان نے، انہوں نے ذکوان سے سنا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح البخاری ۔۔حدیث نمبر: 1037
عن ابن عمر قال:‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ " اللهم بارك لنا في شامنا وفي يمننا قال:‏‏‏‏ قالوا:‏‏‏‏ وفي نجدنا قال:‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ اللهم بارك لنا في شامنا وفي يمننا قال:‏‏‏‏ قالوا:‏‏‏‏ وفي نجدنا قال:‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان ".

نافع نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔ اس پر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد کے لیے بھی برکت کی دعا کیجئے لیکن آپ نے پھر وہی کہا ”اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما“ پھر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد میں؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہی سے طلوع ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: «أَوْشَكَ بَنُو قَنْطُورَاءَ أَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ أَرْضِ الْعِرَاقِ» قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ نَعُودُ؟ قَالَ: «وَذَلِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ، ثُمَّ تَعُودُونَ وَيَكُونُ لَكُمْ بِهَا سَلْوَةٌ مِنْ عَيْشٍ» الجامع لمعمر بن راشد ومصنف ابن ابي شيبة
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب بنو قنطورا یعنی اہل مغرب تمہیں عراق سے نکال دیں گے، میں نے پوچھا ہم دوبارہ واپس آ سکیں گے، حضرت عبداللہ نے فرمایا، آپ ایسا چاہتے ہیں، میں نے کہا ضرور، انھوں نے فرمایا ہاں عراق واپس لوٹ آئیں گے اور ان کے لیے خوشحال اور آسودگی کی زندگی ہوگی (الفتن۔ نعیم بن حماد)۔
------------------------------------------
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَحْسِرَ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ، يَقْتَتِلُ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَيُقْتَلُ مِنْ كُلِّ مِائَةٍ، تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ، وَيَقُولُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ: لَعَلِّي أَكُونُ أَنَا الَّذِي أَنْجُو "،
صحيح مسلم
ابو ہریرہ سے روایت، آپ ﷺ نے فرمایا، قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکلے، لوگ اس پر جنگ کریں گے اور ہرسو میں سے ننانوے مارے جائیں گے۔ ہر بچنے والا سمجھے گا کہ شاید میں ہی اکیلا بچا ہوں (مسلم)۔
-----------------------------------------------------
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ مِنَ الْمَدِينَةِ، مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ، فَإِذَا تَصَافُّوا، قَالَتِ الرُّومُ: خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ، فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ: لَا، وَاللهِ لَا نُخَلِّي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا، فَيُقَاتِلُونَهُمْ، فَيَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا يَتُوبُ اللهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا، وَيُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ، أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللهِ، وَيَفْتَتِحُ الثُّلُثُ، لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ، فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْغَنَائِمَ، قَدْ عَلَّقُوا سُيُوفَهُمْ بِالزَّيْتُونِ، إِذْ صَاحَ فِيهِمِ الشَّيْطَانُ: إِنَّ الْمَسِيحَ قَدْ خَلَفَكُمْ فِي أَهْلِيكُمْ، فَيَخْرُجُونَ، وَذَلِكَ بَاطِلٌ، فَإِذَا جَاءُوا الشَّأْمَ خَرَجَ، فَبَيْنَمَا هُمْ يُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ، يُسَوُّونَ الصُّفُوفَ، إِذْ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَّهُمْ، فَإِذَا رَآهُ عَدُوُّ اللهِ، ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ، فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى يَهْلِكَ، وَلَكِنْ يَقْتُلُهُ اللهُ بِيَدِهِ، فَيُرِيهِمْ دَمَهُ فِي حَرْبَتِهِ " صحيح مسلم (2897)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ روم کے نصاریٰ کا لشکر اعماق میں یا دابق میں اترے گا (یہ دونوں مقام شام میں ہیں حلب کے قریب)۔ پھر مدینہ سے ایک لشکر ان کی طرف نکلے گا، جو ان دنوں تمام زمین والوں میں بہتر ہو گا۔ جب دونوں لشکر صف باندھیں گے تو نصاریٰ کہیں گے کہ تم ان لوگوں (یعنی مسلمانوں) سے الگ ہو جاؤ جنہوں نے ہماری بیویاں اور لڑکے پکڑے اور لونڈی غلام بنائے ہیں ہم ان سے لڑیں گے۔ مسلمان کہیں گے کہ نہیں اللہ کی قسم! ہم کبھی اپنے بھائیوں سے نہ الگ ہوں گے۔ پھر لڑائی ہو گی تو مسلمانوں کا ایک تہائی لشکر بھاگ نکلے گا۔ ان کی توبہ اللہ تعالیٰ کبھی قبول نہ کرے گا اور تہائی لشکر مارا جائے گا، وہ اللہ کے پاس سب شہیدوں میں افضل ہوں گے اور تہائی لشکر کی فتح ہو گی، وہ عمر بھر کبھی فتنے اور بلا میں نہ پڑیں گے۔ پھر وہ قسطنطنیہ (استنبول) کو فتح کریں گے (جو نصاریٰ کے قبضہ میں آ گیا ہو گا۔ اب تک یہ شہر مسلمانوں کے قبضہ میں ہے) وہ اپنی تلواریں زیتون کے درختوں سے لٹکا کر مال غنیمت بانٹ رہے ہوں گے کہ شیطان یہ پکار لگائے گا کہ تمہارے پیچھے تمہارے گھروں میں دجال کا ظہور ہو چکا ہے۔ پس مسلمان وہاں سے نکلیں گے حالانکہ یہ خبر جھوٹ ہو گی۔ جب شام کے ملک میں پہنچیں گے تو تب دجال نکلے گا۔ پس جس وقت مسلمان لڑائی کے لئے مستعد ہو کر صفیں باندھتے ہوں گے کہ نماز کا وقت ہو گا اسی وقت سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما الصلٰوۃ والسلام اتریں گے اور امام بن کر نماز پڑھائیں گے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کا دشمن دجال، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھے گا تو اس طرح ڈر سے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے اور جو عیسیٰ علیہ السلام اس کو یونہی چھوڑ دیں تب بھی وہ خودبخود گھل کر ہلاک ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں سے قتل کرائے گا اور لوگوں کو اس کا خون عیسیٰ علیہ السلام کی برچھی میں دکھلائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ذہبی سیر اعلام النبلاء (5/390 ) میں لکھتے ہیں :
قَالَ عِيْسَى بنُ يُوْنُسَ: جَاءتِ الرَّافِضَّةُ زَيْداً، فَقَالُوا: تَبَرَّأْ مِنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ حَتَّى نَنْصُرَكَ.
قَالَ: بَلْ أَتَوَلاَّهُمَا. ۔۔قَالُوا: إِذاً نَرفُضُكَ، فَمِنْ ثَمَّ قِيْلَ لَهُمُ: الرَّافِضَّةُ.

رافضی جناب زید بن علی کے پاس آئے ،اور انسے مطالبہ کیا کہ : ابو بکرؓ اور عمرؓ سے براءت کا اعلان کیجئے ،ہم ( اموی حکومت کے خلاف )آپ کا ساتھ دیں گے ،انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں تو انکی ولایت کا قائل ہوں ۔۔تو روافض کہنے لگے ا کہ اس صورت میں ہم آپ کو تنہا چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ان روایات و احادیث کی نصوص ہیں جو اوریا مقبول کے مضمون میں مذکور ہیں
لیکن ان احادیث کو موجودہ حالات پر منطبق کرکے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ موجودہ حالات و واقعات وہی ہیں جو ان احادیث میں بیان کیئے گئے ہیں ،
یہ ٹھیک نہیں ،
یہ کام پہلے ہمارے عسکریت پسند مذہبی حضرات کر رہے تھے ،اپنی اپنی ٹیم کو ’‘ غزوہ ہند ’‘ اور غزوہ سندھ ’‘ کی بنیاد پر چلا رہے تھے ،اور مذہبی مصادر سے کچھ جان پہچان کے سبب ان کا کچھ نہ کچھ بھرم رہ جاتا تھا
لیکن اب خیرسے صحافی اور ادیب اوریا مقبول و دیگر لوگ جو ان احادیث و روایات کے اصلی مصادر کو پڑھنا تو درکنار ،ان کتب کے نام بھی صحیح نہیں جانتے ،
انہوں نے اس میدان میں قدم رکھا ہے ، اس لئے عجوبہ قسم کی چیزیں سامنے آنے کا امکان ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب اویس قرنی ؒ کی فضیلت اور اہل یمن کے ایمان و اصلاح پر شاہد احادیث کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ موجود یمن کے زیدی اور دشمن آل سعود ۔۔پکے مومن و مجاہد ہیں ۔۔اور مہدی زماں ہیں ،
ہرگز نہیں !
یہ محض دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں!
جن کی پشت پناہی ایران کے غالی رافضی ،دامے درمے ،سخنے ،،کرتے ہوں ،انکی ایمانی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوریا مقبول جان ،کے مضمون کا آخری حصہ جو یمنی زیدیوں کے قصیدے پر مشتمل ہے ،وہ سراسر غلط ہے ۔
کہاں زید بن علی زین العابدین ،اور کہاں غالی ایرانیوں کے ٹٹو ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سطور میں
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
امام ابو حنیفہؒ کا یہ قول کس قدر درست ثابت ہوا کہ زید بن علیؒ جب خروج کے لیے نکلے تو ان کے ساتھ بھی تین سو تیرہ افراد تھے۔ وہی تعداد جتنی بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھی۔ حضرت زید بن علی کے ماننے والے زیدیہ کہلاتے ہیں۔
علامہ شبلی نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہ امام صاحب نے زید کی بغاوت میں کسی قسم کی مدد کی تھی لکھا ہے:
"جس قدر تاریخیں اور رجال کی کتابیں ہمارے سامنے ہیں ان میں کہیں اس کا ذکر نہیں حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو ایک قابلِ ذکر واقعہ تھا۔ زید بن علی نے ۱۲۱ھ میں بغاوت کی تھی اس وقت ہشام بن عبدالملک تختِ خلافت پر متمکن تھا۔ ہشام اگرچہ کفایت شعار اور بعض امور میں نہایت جزرس تھا لیکن اس کی سلطنت نہایت امن و امان کی سلطنت تھی۔ ملک میں ہر طرف امن و امان کا سکہ بیٹھا ہوا تھا رعایا عموماً رضامند تھی۔ بیت المال میں ناجائز آمدنیاں نہیں داخل ہو سکتی تھیں اس حالت میں امام ابو حنیفہ کو مخالفت کی کوئی وجہ نہ تھی (سیرة النعمان، ص۴۰، طبع دیوبند)
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ان روایات و احادیث کی نصوص ہیں جو اوریا مقبول کے مضمون میں مذکور ہیں
لیکن ان احادیث کو موجودہ حالات پر منطبق کرکے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ موجودہ حالات و واقعات وہی ہیں جو ان احادیث میں بیان کیئے گئے ہیں ،
یہ ٹھیک نہیں ،
یہ کام پہلے ہمارے عسکریت پسند مذہبی حضرات کر رہے تھے ،اپنی اپنی ٹیم کو ’‘ غزوہ ہند ’‘ اور غزوہ سندھ ’‘ کی بنیاد پر چلا رہے تھے ،اور مذہبی مصادر سے کچھ جان پہچان کے سبب ان کا کچھ نہ کچھ بھرم رہ جاتا تھا
لیکن اب خیرسے صحافی اور ادیب اوریا مقبول و دیگر لوگ جو ان احادیث و روایات کے اصلی مصادر کو پڑھنا تو درکنار ،ان کتب کے نام بھی صحیح نہیں جانتے ،
انہوں نے اس میدان میں قدم رکھا ہے ، اس لئے عجوبہ قسم کی چیزیں سامنے آنے کا امکان ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب اویس قرنی ؒ کی فضیلت اور اہل یمن کے ایمان و اصلاح پر شاہد احادیث کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ موجود یمن کے زیدی اور دشمن آل سعود ۔۔پکے مومن و مجاہد ہیں ۔۔اور مہدی زماں ہیں ،
ہرگز نہیں !
یہ محض دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں!
جن کی پشت پناہی ایران کے غالی رافضی ،دامے درمے ،سخنے ،،کرتے ہوں ،انکی ایمانی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوریا مقبول جان ،کے مضمون کا آخری حصہ جو یمنی زیدیوں کے قصیدے پر مشتمل ہے ،وہ سراسر غلط ہے ۔
کہاں زید بن علی زین العابدین ،اور کہاں غالی ایرانیوں کے ٹٹو ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سطور میں
جزاک الله -

بلکل صحیح -
 
Top