اللہ
رسول
محمد
بے شک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، لیکن یہ اس طرح کیوں لکھا ہوتا ہے، کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
خضر حیات
شاکر
یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا 'عکس' ہے، جسے بطور مہر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (”اسٹیمپ فرام پرافیٹ آفس“) استعمال کیا جاتا تھا۔ یعنی جو مکتوبات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لکھوائے جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان خطوط پر اس انگوٹھی کی مدد سے اسٹیمپ لگاکر اسے ”آفیشل“ کردیا کرتے تھے۔
واللہ اعلم
’’مہر نبوی ‘‘ کے بارے میں احادیث صحیحہ کے اندر اس قدر صراحت ہے کہ اس پر یہ عبارت نقش تھی :
’’محمد رسول اللہ ‘‘
اور یہ عبارت تین سطروں میں نقش تھی ۔
جیساکہ صحیح بخاری میں موجود ہے :
عَنْ أَنَسٍ: «أَنَّ أَبَا بَكْرٍ [ص:83] رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا اسْتُخْلِفَ بَعَثَهُ إِلَى البَحْرَيْنِ وَكَتَبَ لَهُ هَذَا الكِتَابَ وَخَتَمَهُ بِخَاتَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ نَقْشُ الخَاتَمِ ثَلاَثَةَ أَسْطُرٍ مُحَمَّدٌ سَطْرٌ، وَرَسُولُ سَطْرٌ، وَاللَّهِ سَطْرٌ» ( صحیح بخاری رقم 3106 )
اب اگلی تفصیلات کہ ترتیب اوپر سے نیچے یعنی
محمد
رسول
اللہ
تھی یا نیچے سے اوپر یعنی :
اللہ
رسول
محمد
تھی ۔ اس چیز کی صراحت صحیح احادیث کے اندر موجود نہیں ۔ جیساکہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری وغیرہ میں اس طرف اشارہ کیا ہے ۔
جو لوگ پہلی ترتیب کو درست سمجھتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ احادیث کے یہ الفاظ اسی ترتیب سے ہیں ( محمد رسول اللہ ) جیساکہ بخاری کےحوالے سے گزرا ۔
جو لوگ دوسری ترتیب کے قائل ہیں ان کے نزدیک یہ توجیہ ہے کہ اس طرح خالق و مخلوق میں فرق ملحوظ خاطر رہتا ہے ۔ یعنی اللہ کا نام اوپر آتا ہے ۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیں ( فتح الباری ج 10 ص 329 ط دار المعرفۃ ) اور( التجرید لنفع العبید لسلیمان البجیرمی ج2 ص 32 )
ایک بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ دونوں اقوال کے قائلین کے نزدیک پڑھنے کی ترتیب یہی رہے گی :
’’محمدرسول اللہ ‘‘ ۔
’’ اللہ رسول محمد ‘‘ اس طرح کوئی بھی نہیں پڑھتا اور نہ ہی یہ کوئی با معنی صحیح عبارت ہے ۔
اسی طرح ’’ مہر ‘‘ کےبارےمیں ظاہر یہی ہے کہ اس پر الفاظ الٹے نقش ہوتے ہیں تاکہ جب کسی چیز پر اس کو لگایا جائے تو الفاظ سیدھے نظر آئیں ۔ اس سلسلےمیں بھی مستند ذرائع سے کوئی بات مروی نہیں ۔ اکثر علماء کا خیال یہ ہےکہ مہر کے اندر الفاظ الٹے ہی نقش تھے جیساکہ عام مہروں ( خواتیم ) کے اندر ہوتا ہے ۔ البتہ بعض کا خیال یہ ہے کہ نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کوئی عام مہر نہ تھی ۔ اس میں الفاظ سیدھے ہی نقش تھے اور آپ کا معجزہ ہےکہ جب اس کو کسی چیز پر نقش کیا جاتا تو وہ پھر بھی سیدھے ہی رہتے تھے ۔
واللہ اعلم ۔