- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
اصحاب ِ صُفہّ کے متعلق غلط فہمیاں
ان میں سے بعض لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ اہل صفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مستغنی تھے اور ان کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے ہی نہیں گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے باطنی طور پر اہل صُفہّ کو وہ سب کچھ وحی کے ذریعے سے بتا دیا تھا جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی رات کو وحی کے ذریعے سے بتایا گیا تھا۔ اس لیے اہل صُفہّ ان کے ہم رتبہ ہوگئے۔ان لوگوں کو فرطِ جہالت سے یہ سمجھنے کی بھی توفیق نہ ہوئی کہ واقعہ اسراء تو مکہ میں ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ِ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ ۔۔۔' ﴿١﴾ِبنی اسرائیل
اور صُفہّ مدینے میں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے شمال کی طرف تھا۔ اس میں وہ مسافر اترا کرتے جن کا نہ کوئی گھر ہوتا تھا اور نہ کوئی دوست ہوتے تھے، جن کے ہاں وہ مہمان ٹھہریں۔ مومنین ہجرت کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آیا کرتے تھے۔ جو شخص کسی مکان میں فروکش ہوسکتا، ہوجاتا اور جس کی کوئی جگہ نہ ہوئی تھی وہ مسجد میں ٹھہرتا تھا اور جب تک اسے کوئی جگہ نہ ملتی تھی، وہیں ٹھہرا رہتا تھا۔ اہل صفہ کوئی معین آدمی نہ تھے، جو ہمیشہ صفہ ہی پر رہتے ہوں بلکہ وہ کبھی تھوڑے ہوجاتے تھے، کبھی زیادہ ہوجاتے تھے۔ ایک شخص کچھ مدت کے لیے وہاں رہتا تھا پھر وہاں سے چلا جاتا تھا اور جو لوگ صُفہّ میں اترتے تھے، وہ عام مسلمانوں کی مانند ہوتے تھے۔ انہیں علم یا دین میں کوئی امتیازی حیثیت حاصل نہیں ہوتی تھی بلکہ ان میں تو ایسے لوگ بھی تھے جو بعد میں اسلام سے مرتد ہو گئے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل کیا تھا۔ عرینہ قبیلہ کے آدمی مدینہ میں اترے آب و ہوا ناموافق آئی اور بیمار ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دودھ دینے والی اونٹنیاں منگوائیں اور فرمایا کہ’’(عجز و درماندگی کے عیب سے) پاک ہے وہ جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے اس مسجد اقصیٰ تک لے گیا، جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کر رکھی تھیں۔‘‘
اور اسی حدیث میں ہے کہ وہ صُفّہ میں آکر ٹھہرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صُفہّ میں ان کی طرح کے لوگ بھی اترتے تھے اور ان میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جیسے اچھے مسلمان بھی ٹھہرے تھے۔ سعد بن ابی وقاص صُفّہ میں اترنے والوں میں سب سے زیادہ افضل تھے، بعد ازاں وہ چلے گئے تھے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات علیہم الرضوان بھی اترے تھے۔ ابوعبدالرحمن سلمی نے اصحاب صُفہّ کی تاریخ مرتب کی ہے، جس میں اس موضوع پر تفصیلی بحث موجود ہے۔’’ان کا دودھ اور پیشاب پیا کرو‘‘ (چنانچہ اس علاج سے وہ تندرست ہوگئے) اور جب تندرست ہوگئے تو چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹنیوں کو ہانک لے گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش کے لیے آدمی بھیجے چنانچہ وہ لائے گئے، ان کے ہاتھ پائوں کاٹ دئیے گئے، ان کی آنکھوں میں لوہے کی دہکتی ہوئی سلاخیں پھیری گئیں اور انہیں تپتے ہوئے ریگستان میں چھوڑ دیا گیا، پانی مانگتے تھے تو نہیں دیاجاتا تھا، ان کا قصہ صحیحین میں سیدناانس رضی اللہ عنہ کی روایت سے موجود ہے
(بخاری کتاب الوضوء ، باب ابوال الابل رقم: ۲۳۲ مسلم کتاب القسامۃ باب حکم المحاربین والمرتدین رقم: ۴۳۵۳، ترمذی کتاب الطہارۃ باب ماجاء فی بول مایوکل لحمہ رقم: ۷۲۔)
حوالہ