• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصل الدین کے حوالے سے منہجی مسائل

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
"سِلْسِلَةٌ عِلْمِيَّةٌ فِيْ بَيَانِ مَسَائِلَ مَنْهَجِيَّةٍ"
منہجی مسائل کے بیان میں علمی سلسلہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدُ للهِ ربِّ العالمين، وَ لَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ، وَ اَشْهَدُ اَنْ لاَاِلهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْكَ لَهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ اْلمُبِيْنَ، وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ إِمَامُ الْأَوَّلِيْنَ وَ الْآٰخِرِيْنَ، أَمَّا بَعْدُ:

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لیے ہے، اور ظالموں کے سوا کسی سے کوئی دشمنی نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور وہی بادشاہ، حق اور مبین ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، جو کہ پہلوں اور بعد والوں کے امام ہیں، اما بعد:


اس حصے میں ہم اصل الدین کے حوالے سے بات کریں گے، اور یہ بہت ہی اہمیت کا حامل موضوع ہے، کیونکہ اسے بجا لائے بغیر کسی بھی شخص کا ایمان درست نہیں ہوتا۔

پس اصل الدین کیا ہے؟

اصل الدین کل چار امور ہیں، وہ یہ کہ:

(۱) اللہ تعالیٰ کا اقرار کرنا
(۲) اس پاک ذات کی عبادت کرنا
(۳) اس کے ماسوا کی عبادت کو چھوڑ دینا
(۴) اس کے ساتھ شرک کرنے والوں سےبرأت اختیار کرنا


شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

ابراہیم اور موسیٰ علیہما السلام نے اصل الدین کو قائم کیا تھا، جو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اقرار کرنا، اس اکیلے کی عبادت کرنا جس کا کوئی شریک نہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے دشمنی رکھنا۔

[مجموع الفتاوى: (۱۶/۲۰۳)]

"اس پاک ذات کے ساتھ شرک کرنے والوں سےبرأت اختیار کرنا" اس کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے قول "اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے دشمنی رکھنا" کے ساتھ ہی تعبیر کیاہے، لہٰذا دونوں عبارتوں کا ایک ہی معنیٰ ہے کہ مشرکین سے دشمنی رکھنا اور ان سےبرأت اختیار کرنا۔

چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

اصل الدین یہ ہے کہ اللہ کے لیے ہی محبت ہو، اللہ کے لیے ہی نفرت ہو، اللہ کے لیے ہی دوستی ہو، اور اللہ کے لیے ہی دشمنی ہو اور اللہ کے لیے ہی عبادت ہو۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی

[منهاج السنة النبوية: (۵/۲۵۵)]

بس ہم درج بالا کلام کی بناء پر کہتے ہیں :

اگر کوئی شخص اصل الدین میں سے تین امور کو بجا لائے اور چوتھے پر عمل پیرا نہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ماسوا کی عبادت کو ترک کرنا، یا اس پاک ذات کے ساتھ شرک کرنے والوں سےبرأت کو ترک کرنا، تو کیا ایسے شخص کا اسلام صحیح ہوگا؟

تو جواب ہے : نہیں!


تو پھر اسے کیا نام دیا جائے گا؟

اسے مشرک کافر کہا جائے گا۔

اور یہی وہ اصل الدین ہے کہ جو کوئی مکلف فرد اس پر عمل پیرا نہ ہو تو اسے کوئی عذر حاصل نہیں ہوگا، اگرچہ وہ جاہل ہی ہو، برابر ہے کہ اس کے پاس حجتِ رسالیت پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو، بہ الفاظِ دیگر کہ اس کے پاس کوئی رسول آیا ہو یا نہ آیا ہو۔

امام المفسرین ابنِ جریر طبری رحمہ اللہ نے اصل الدین میں سے کچھ چیزوں کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا :

کسی بھی مکلف فرد کو اس میں جہالت کا عذر حاصل نہیں ہو گا، چاہے اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی رسول آیا ہو یا کوئی رسول بھی نہ آیا ہو، چاہے اس نے اپنے علاوہ لوگوں کا مشاہدہ کیا ہو یا اس نے اپنےعلاوہ کسی کا بھی مشاہدہ نہ کیا ہو۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی

[التبصیر في معالم الدين: (۱۲۶-۱۳۲)]

"اس نے اپنے علاوہ کسی کا مشاہدہ نہ کیاہو" کا مطلب یہ ہے کہ اس نے صرف اپنے آپ کو ہی دیکھا ہو، یعنی کسی ایسے شخص کی طرح کہ جو کسی دور دراز جزیرے میں ہو، اور اس نے اپنے علاوہ لوگوں میں سے کسی کو نہ دیکھا ہو۔

چنانچہ ہم کہتے ہیں:

جب اس کے پاس رسول آجائے تو اس پر اور اس کی لائی ہوئی تمام چیزوں پر اجمالی طور پر ایمان لانا بھی اصل الدین میں شامل ہو جائے گا، چنانچہ محمد ﷺ پر آپ کی بعثت سے لے کر اب تک، اور جو کچھ آپ لے کر آئے ہیں، اس سب پر اجمالی طور پر ایمان لانا اصل الدین میں شامل ہے، اس لیے کہ اصل الدین دو گواہیاں (شہادتین) ہیں۔

شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :

اصل الدین یہ ہے کہ گواہی دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور یہ گواہی دی جائے کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی

[مجموع الفتاوى: (۱/۱۰)]

بہت خوب!

اللہ تعالیٰ کے اقرار کا کیا معنی ہے؟

اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان لانا، اور یہ کہ وہ اعلیٰ ترین صفات سے متصف ہے اور یہ کہ وہ تمام خامیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے اور یہ کہ وہ پاک ذات تخلیق اور حکمرانی میں یکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ
ترجمہ: آگاہ رہو! اسی کے لیے تخلیق اور حکمرانی ہے۔


[الأعراف: ۵۴]

حکم میں سے کچھ حصہ وہ ہے کہ جو کائناتی ہے یعنی وہ پاک ذات کسی چیز سے فرما دیتی ہے کہ "ہو جا" تو وہ ہو جاتی ہے، اور حکم میں سے کچھ حصہ وہ ہے جو کہ شرعی ہے، کہ کسی چیز کو حلال کرنے یا حرام کرنے میں وہ پاک ذات اکیلی اور یکتا ہے۔

شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :

بے شک اصل الدین یہ ہے کہ حرام وہی ہے جسے اللہ نے حرام کیا ہے اور دین وہی ہے جسے اللہ نے دین قرار دیا ہے، بے شک اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف میں مشرکین کا عیب بیان فرمایا ہے کہ انہوں نے اس چیز کو حرام کر ڈالا کہ جسے اللہ نے حرام بھی نہیں کیا تھا، اور انہوں نے اس چیز کو دین میں سے قرار دے دیا کہ جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی تھی۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی

[مجموع الفتاوى: (۲۰/۳۵۷)]

  • ہم اس ساری تفصیل کو ازِ سرِ نو دہراتے ہیں:
اصل الدین کیا ہے؟

اصل الدین یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اقرار کرنا، اس پاک ذات کی عبادت کرنا ، اس کے ماسوا کی عبادت کو چھوڑ دینا اور جو اس پاک ذات کے ساتھ شرک کرے اس سے برأت اختیار کرنا، ہم اللہ تعالیٰ کے اقرار کی وضاحت پہلے کر چکےہیں۔

بہت خوب!

تو اس یکتا پاک ذات کی عبادت کرنا ، اس کے ماسوا کی عبادت کو چھوڑ دینا اور اس پاک ذات کے ساتھ جو شرک کرے اس سے برأت اختیار کرنا، اس سب کا کیا معنی ہے؟

اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یکتائی یعنی اس کی توحید کو قائم کیا جائے، اس کی توحید سے محبت کی جائے اور اسے بہترین درجے تک پہنچایا جائے، اہلِ توحید سے دوستی کی جائے، شرک کو برا جانا جائے اور اس سے دوری اختیار کی جائے اور اہلِ شرک سے دشمنی کی جائے۔

ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:

جان لو! اگر توحید کی اچھائی اور شرک کی برائی عقل سے معلوم نہ ہو، اور فطرت میں موجود نہ ہو تو پھر عقل کے قضیوں میں سے کسی چیز کا کوئی بھروسہ نہیں، بےشک یہ قضیہ بغیر دلیل کے سمجھ آنے والے قضیوں میں سے اہم ترین قضیہ ہے، اور یہ عقل و فطرت میں رکھی گئی چیزوں میں سب سے واضح ترین چیز ہے۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[مدارج السالكین: (۳/۴۵۵)]

"اہل توحید سے موالات" یہ وہی ولاء ہے یعنی اہلِ ایمان سے دوستی رکھنا اور اہلِ شرک سے دشمنی رکھنا یعنی مشرکین سےطبرأت اختیار کرنا۔

پس یہاں پر واضح ہو گیا کہ الولاء والبراء اصل الدین میں شامل ہے۔

لیکن یہاں پر ایک مسئلہ قابلِ ذکر ہے:

وہ یہ کہ کافروں سے دشمنی کے وجود اور دشمنی کے اظہار کے درمیان فرق ہے، پہلی چیز دشمنی کا وجود ہے، جو کہ اصل الدین میں سے ہے اور دوسری چیز دشمنی کا اظہار ہے جو کہ واجباتِ دین میں سے ہے ناکہ اصل الدین میں سے۔

شیخ عبد الطیف بن عبد الرحمن آل شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا:

دشمنی کے اظہار کا مسئلہ، دشمنی کے وجود کے مسئلے سے ہٹ کر ہے۔ بس جو پہلی چیز ہے تو اس میں کمزوری اور خوف کے ساتھ عذر حاصل ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

إِلا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً
ترجمہ: مگر یہ کہ تم ان سے بچو، جیسا کہ بچنے کا حق ہے۔


[ آل عمران: ۲۸]

اور جو دوسری چیز ہے تو اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں، اس لیے کہ یہ کفر بالطاغوت میں شامل ہے، اور اس کے اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے درمیان تلازم میں ضروری ہے کہ جس سے مومن کبھی جدا نہیں ہو سکتا۔

[الدرر السنية: (۸/۳۵۹)]

پس ہم بتا چکے کہ:

اصل الدین میں کسی کو بھی جہالت کا عذر حاصل نہیں ہوگا، یعنی جس شخص نے بھی اس کو توڑا تو اس کا اسلام صحیح نہیں ہوگا اور نہ ہی اس سے کفر کا نام اٹھے گا۔

اصل الدین میں صاحب عقل مرد اور صاحب عقل عورت کے لیے جہالت کیوں معتبر نہیں؟

اس لیے کہ یہ ان چیزوں میں سے ہے، جو بہر صورت معلوم ہیں، عہدِ الست کے ساتھ ثابت ہیں اور فطرت و عقل کی ضرورت ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :

اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی تو اصل الدین ہے کہ جس کی اساس محبت، عنابت اور اس کے ماسوا سے کنارہ کشی پر ہے۔ اور یہی وہ فطرت ہے کہ جس کے اوپر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ ( آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[مجموع الفتاوى: (۱۵/۴۳۸)]

ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:

اگر عقل میں شرک کی برائی کا ازخود ہی علم موجود نہ ہو تو پھر عقل میں سے کیا چیز صحیح بچتی ہے؟ اور اس کی برائی کا علم تو بغیر دلیل کے سمجھ میں آنے والا ہے اور بہرصورت عقل کے ساتھ معلوم ہو کر رہنے والا ہے۔ اور بےشک رسولوں نے اپنی قوموں کو اس شعور کی بنیاد پر ہی خبردار کیا تھا کہ جو اس کی برائی کے حوالے سے ان کی عقلوں اور فطرتوں میں موجود تھا۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[مدارج السالکين: (۱/۲۵۳)]

اور یہاں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اصل الدین کی بجا آوری نہ کرے تو اس پر کفر کا حکم لگانے کے لیے اقامتِ حجت کی شرط نہیں لگائی جائے گی۔ یعنی جو بھی اصل الدین کی بجا آوری نہیں کرے گا تو ہم اس پر کفر کا حکم لگائیں گے چاہے اس پرحجت قائم ہو چکی ہو یا ابھی نہ ہوئی ہو، اور ہم یہاں تاکید کرتے چلیں کہ ان مسائل میں جو کہ اصل الدین میں سے ہیں کسی کے لیے بھی جہالت کا کوئی عذر نہیں اس لیے کہ یہ تمام عقلوں اور فطرتوں میں موجود ہوتے ہیں، اور ان کا علم بہرصورت حاصل ہو کر ہی رہتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ جس نے اصل الدین کو توڑا تو وہ مشرک ہے، لیکن دنیا و آخرت میں اس کا عذاب اس تک حجتِ رسالیت کے پہنچ جانے پر موقوف ہے۔

علامہ ابنِ قیم رحمہ اللہ نے فرمایا :

حجت کو قائم کیے بغیر اور اس کی پہچان کی صلاحیت کے حاصل ہوئے بغیر جو کفر ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس پر عذاب کی نفی فرمائی ہے یہاں تک کہ وہ رسولوں کی حجت کو قائم کر دے۔

سوال: کیا چیز اصل الدین کو توڑ دیتی ہے؟

تو جواب ہے: شرک

جیسا کہ ہم اصل الدین کی تعریف میں یہ کہہ چکے ہیں:

اصل الدین یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اقرار کرنا، اس پاک ذات کی عبادت کرنا، اس کے ماسوا کی عبادت کو چھوڑ دینا اور اس پاک ذات کے ساتھ جو شرک کرے اس سے برأت اختیار کرنا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا اصل الدین کو توڑ دیتا ہے اور یہ اس کے منافی ہے۔

• شرک کے شرعی معنی:

شرک کے شرعی معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اس کی ربوبیت میں ، اس کی الوہیت میں، یا اس کے ناموں اور صفات میں کسی کو شریک یا ہمسر ٹھہرانا۔

ربوبیت میں شرک کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو خالق، داتا ،تدبیرکار، حاکم یا شریعت ساز ٹھہرا دیا جائے۔

الوہیت میں شرک کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے غیر کے لیے سجدہ کیا جائے یا اس سے دعا مانگی جائے یا اس سے نذر مانی جائے یا اس کے لیے ذبح کیا جائے۔

ناموں اور صفات میں شرک کی مثال یہ ہے کہ انہیں معطل کر دیا جائے ،
مثلاً: اللہ تعالیٰ سے جاننے کی، سننے کی اور دیکھنے کی نفی کر دی جائے، یا یہ کہ اس پاک ذات کو اس کی مخلوق کے ساتھ تشبیہ دے دی جائے۔

لہذا یہ سب ایسے شرک ہیں کہ جن میں کسی مشرک کو اس کی جہالت کا عذر حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ یہ شرک اصل الدین کو توڑ دیتا ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآنِ کریم میں محض کفر کے پیروکاروں اور مقلدوں پر بھی کفر کا حکم لگایا ہے، اور اہلِ کتاب میں سے ان پڑھوں پر ان کی جہالت کے باوجود کفر کا حکم لگایا ہے اور نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل کے عرب مشرک جاہلوں پر بھی کفر کا حکم لگایا ہے۔

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:

جو شرک کی حالت میں مرا، وہ آگ میں ہے، اگرچہ وہ بعثت سے پہلے ہی مرا، اس لیے کہ مشرکین نے دینِ ابراہیمؑ کی حنیفیت کو تبدیل کر دیا تھا اور اسے شرک کے ساتھ بدل ڈالا تھا اور اس کا ارتکاب کیا تھا، اور ان کے پاس اللہ کی طرف سے اس پر کوئی حجت نہیں تھی، جبکہ اس کی برائی اور اس پر آگ کی وعید شروع سے لے کر آخر تک تمام رسولوں کے دین میں ہمیشہ جانی پہچانی رہی ہے، اور اہلِ شرک کے لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب کی خبریں ہر زمانے میں ایک دوسرے کے درمیان گردش کرتی رہی ہیں، اور ہر وقت مشرکین پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم رہی ہے، اور اگر یہ نا بھی ہو تو (کم از کم) یہ تو ہے ہی کہ اس نے اپنے بندے کو توحیدِ ربوبیت کی فطرت پر پیدا کیا ہے، جو کہ توحیدِ الوہیت کے ساتھ لازم و ملزوم ہے، اور یہ ہر عقل اور فطرت کے لیے محال ہے کہ وہ اس کے ساتھ کسی اور کو معبود ٹھہرائے، اور اگر وہ پاک ذات انہیں فطرت کے اس ایک تقاضے کی وجہ سے عذاب نہ بھی دے تو اہلِ زمین کے لیے کرہِ ارض پر رسولوں کی توحید کی طرف دعوت تو بہرحال موجود ہے ہی، پس ہر مشرک رسولوں کی دعوت کے انکار کی وجہ سے ہی عذاب کا مستحق ٹھہرے گا، واللہ اعلم۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

اور جہاں تک نبی کریم ﷺ کی بعثت کے بعد اسلام سے نسبت رکھنے والے یا ان کے علاوہ دیگر جاہل مشرکین کی بات ہے تو ان میں یہ معاملہ زیادہ سخت ہے، کیونکہ ان میں سے زیادہ تر کی جہالت آپ ﷺ کی رسالت سے رو گردانی کی وجہ سے ہے اور رو گردانی تو بذاتِ خود ایک کفر ہے اور اگر اس کے ساتھ شرک بھی شامل ہو جائے تو پھر اس کی سختی کا کیا عالم ہوگا؟!

شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا:

جو کوئی جہالت کے ساتھ شرک میں پڑ گیا تو اسے عذر نہیں دیا جائے گا اس لیے کہ محمد ﷺ کی بعثت کے ساتھ تمام مخلوق پر حجت قائم ہو چکی ہے، پس جو کوئی بھی جاہل رہا تو وہ کتاب و سنت سے روگردانی کے سبب خود آپ ہی جاہل رہا، وگرنہ ان میں تو پوری وضاحت کے ساتھ ہر چیز کو بیان کر دیا گیا ہے۔

جیسا کہ اس پاک ذات نے قرآن کریم میں فرمایا ہے:

تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً
ترجمہ: ہر چیز کا کھلا کھلا بیان ہے، اور ہدایت و رحمت ہے۔


[النحل : ۸۹]

اور اسی طرح سے حدیث میں ہے کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

تُوُفِّيَ مُحَمَّد صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا تَرَكَ طَائِراً يُقَلِّبُ جَنَاحَيْهِ بَينَ السَمَاءِ والأَرضِ إِلاَّ ذَكَرَ لَنَا مِنهُ عِلماً


ترجمہ: جب محمد ﷺ فوت ہوئے تو زمین و آسمان کے درمیان اڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہیں تھا جس کے بارے میں آپ ﷺ نے ہمیں علم نہ دیا ہو۔


[رواه الطبراني]

اور جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

فَمَن جَهِلَ فَبِسَبَبِ إِعراَضِهِ، وَلَا ىُعذَرُ أحَد بِالأِعرَاضِ
ترجمہ: پس جو جاہل رہا وہ اپنی رو گردانی کے سبب رہا اور رو گردانی کے ساتھ کسی کے لیے کوئی عذر نہیں ہے۔

(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

بہرحال، اس بات پر کثیر تعداد میں دلائل موجود ہیں کہ شرک میں جہالت کا عذر حاصل نہیں ہوتا اور یہ اصل الدین کو توڑ دیتا ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ۔

ترجمہ: بعض لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی ہے اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی ہے، ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا اور خیال کرتے ہیں کہ وہ راست پر ہیں ۔


[الأعراف : ۳۰]

طبری رحمہ اللہ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بےشک ایک فریق وہ ہے کہ جس کے اوپر گمراہی ثابت ہو چکی ہے اور بہرحال یہ اللہ کے رستے سے گمراہ ہو گئے اور جان بوجھ کر سیدھے رستے سے دور ہوگئے، اللہ کے ماسوا شیاطین کو اپنا یارو مددگار بنانے کی وجہ سے، جس چیز پر وہ قائم تھے انہیں اس کے غلط ہونے کا علم تک نہ تھا بلکہ وہ یہ سب کچھ اس گمان کے ساتھ کر رہے تھے کہ وہ ہدایت اور حق پر ہیں اور جس چیز کو انہوں نے پا لیا ہے اور اختیار کر لیا ہے وہی درست ہے۔

اور یہ اس شخص کے غلط ہونے پر واضح ترین دلیل ہے کہ جو یہ گمان کرتا ہے کہ کوئی بھی شخص اگر کسی گناہ کا ارتکاب کرے یا کوئی گمراہ عقیدہ اختیار کر لے تو اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہیں دے گا، مگر یہ کہ اس کے پاس اس حوالے سے صحیح علم آ جانے کے بعد وہ اس کا ارتکاب کرے تو تب وہ اپنے رب سے دشمنی کرتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے گا، اس لیے کہ اگر یہ بات صحیح ہو تو ہدایت والے فریق کے درمیان اور اس گمراہی والے فریق کے درمیان کوئی فرق ہی نہ رہے کہ جو یہ گمان کیے بیٹھا ہے کہ وہ ہدایت یافتہ ہے، سو تحقیق اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے ناموں اور حکموں کے درمیان فرق کیا ہے۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[تفسير الطبري: (۱۲/۳۸۸)]

شرک میں جہالت کا عذر حاصل نہ ہونے کے دلائل میں سے ایک دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے:

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالأخْسَرِينَ أَعْمَالاً* الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ في الْحَياةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا

ترجمہ: کہہ دو کہ کیا ہم تمہیں بتائیں کہ کون لوگ ہیں جو اپنے اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں؟یہ وہ لوگ ہیں کہ دنیاوی زندگی میں ان کی ساری دوڑ دھوپ گمراہی میں چلی گئی ، اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔


[الكهف: (۱۰۳-۱۰۴)]

امام طبری رحمہ اللہ نے فرمایا:

یہ اس شخص کے غلط ہونے پر مضبوط ترین دلیل ہے کہ جو یہ گمان کرتا ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کے بعد اس وقت تک کافر نہیں ہوگا، جب تک کہ وہ اس کی وحدانیت کا علم حاصل ہونے کے بعد اس کے ساتھ کفر کا ارادہ نہ کرے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں خبر دی ہے کہ جن کی خصلتوں کو اس آیت میں اس نے بیان فرمایا ہے، کہ انہوں نے دنیا میں جو کچھ بھی کوشش کی تھی وہ سب گمراہی ہی تھی، جبکہ وہ حساب لگائے بیٹھے تھے کہ وہ اپنے کارناموں میں بڑی نیکی کر رہے ہیں، اور اس نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنے رب کی آیات کے ساتھ کفر کیا ہے، اور اگر ان لوگوں کی بات کو صحیح مان لیا جائے جو یہ گمان کرتے ہیں کہ کسی کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اس وقت تک معتبر نہیں ہوگا جب تک اسے علم نہ ہوجائے، تو جس قوم کے اعمال کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ اسے نیکی سمجھتے ہوئے کر رہے تھے تو ضروری ہونا چاہیے کہ انہیں اس پر اجر و ثواب ملے، لیکن صحیح بات تو ان کی بات کے خلاف ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے بارے میں خبر دے دی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کفر کرنے والے ہیں اور ان کے اعمال اکارت ہیں۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[تفسير الطبري: (۱۸/۱۲۸)]

بہت خوب!

جب ہم نے کسی شخص پر کفر یا شرک کا حکم لگا دیا تو اس سے کیا لازم آئے گا؟

کسی شخص پر ہمارے کفر یا شرک کا حکم لگا دینے سے خواہ وہ جاہل ہی کیوں نہ ہو، لازم یہ آئے گا کہ ہمارے اور اس کے درمیان ایمانی دوستی کٹ جائے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کر لے اور یہ کہ اس کے ساتھ نکاح نہ کیا جائے اور اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے ، نیز اگر وہ اسی پر مر جائے تو اس کے لئے توبہ اور استغفار نہ کی جائے، اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے جو حقوق لازم فرمائے ہیں تو اس میں سے اسے کوئی حصہ نہ دیا جائے، اور اسی طریقے سے دیگر احکام میں بھی عمل کیا جائے، جبکہ دنیا و آخرت میں اس کا عذاب اس پر حجتِ رسالیت کے قائم ہو جانے پر موقوف ہے، اور اس کی اساس علماء کے صحیح ترین اقوال پر ہے۔

اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حتى نَبْعَثَ رَسُولاً
ترجمہ: اور ہم عذاب نہیں دینے والے یہاں تک کہ ہم کسی رسول کو بھیج دیں۔


[الأسراء: ۱۵]

اور اس کا یہ فرمان بھی ہے:

وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُم بِعَذَابٍ مِّن قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِن قَبْلِ أَن نَّذِلَّ وَنَخْزَىٰ

ترجمہ: اور ہم اگر اس سے پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے، تو یقیناً وہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہمارے پاس اپنا رسول کیوں نہ بھیجا؟ کہ ہم تیری آیتوں کی تابعداری کرتے اس سے پہلے کہ ہم ذلیل و رسوا ہوتے۔


[طه: ۱۳۴]

اور ہم یہ تاکید کرتے چلیں کہ اس امت میں سے جو کوئی بھی شرک کا شکار ہو گیا تو وہ بھی مشرک اور کافر ہے، اگرچہ وہ اسلام کا دعویٰ کرنے والا اور شہادتین کو پڑھنے والا ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ترجمہ: یقیناً تمہاری طرف بھی اور تم سے پہلوں کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو بلاشبہ تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا، اور بالیقین تم زیاں کاروں میں سے ہو جاؤ گے۔


[الزمر: ۶۵]

اور انبیاء علیہم السلام کے کچھ ذکر کے بعد ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ: اللہ کی ہدایت ہی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے ہدایت دیتا ہے، اور اگر وہ شرک کرتے تو جو کچھ وہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے۔


[الأنعام: ۸۸]

اور یہ آیات اس بات کے مضبوط ترین دلائل میں سے ہیں کہ اسلام شرک کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے اور اس امت میں سے جس کسی نے بھی شرک کیا تو وہ کافر ہے اگرچہ وہ شہادتین کو پڑھنے والا ہو اور اسلام کے دیگر شعائر پر عمل کرنے والا ہو۔

⊱•┈┈•┈┈• اختتام •┈┈•┈┈•⊰

ہم دو مسئلوں پر اپنی بات کا اختتام کرتے ہیں۔

پہلا مسئلہ:

اگر کوئی شخص اصل الدین پر عمل پیرا ہو، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہو، لیکن وہ اصل الدین کی اصطلاح سے ناواقف ہو، بایں طور کہ اگر آپ اس سے پوچھیں کہ اصل الدین کیا ہے؟ تو وہ بوکھلا جائے یا اس سے کوئی جواب نہ بن پائے، تو یہ بات اسے کوئی نقصان نہ پہنچائے گی اس لیے کہ وہ اصل الدین پر قائم ہے۔ جبکہ ان مسائل و معنی میں سے کسی اصطلاح کا علم نہ ہونا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔

ہماری ذکر کردہ بات پر دلیل وہ ہے جو صحیحین میں وارد ہوئی ہے جبکہ بخاری کے الفاظ یہ ہیں:

معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے :

قَال أَنَا رِدْيفُ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يا مُعاذُ !، قُلتُ : لبَّيكَ وسَعديْكَ ، ثمَّ قالَ مِثلَه ثلاثًا : هل تَدري ما حقُّ اللهِ علَى العِبادِ ؟ قُلتُ : لا، قالَ : حقُّ اللهِ على العِبادِ: أن يعبُدوه ولا يُشرِكوا بهِ شيئًا

ترجمہ: وہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے پیچھے بیٹھا تھا تو آپ نے ارشاد فرمایا: اے معاذ! ، میں نے عرض کیا: لبیک و سعدیک (یعنی میری سعادت مندی یا خوش بختی، میں حاضر ہوں)، تو پھر آپ ﷺ نے تین مرتبہ یہ فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا :نہیں!، تو آپ ﷺ نے فرمایا: بندوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔


[رواه البخاري]

یہاں معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کہنا کہ وہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کے حق کو نہیں جانتے یہ انہیں کفر یا شرک میں واقع نہیں کر دیتا، اس لیے کہ وہ اس حق کو بجا لانے والے تھے، اگرچہ اس معنی پر دلالت کرنے والی شرعی اصطلاح کو نہیں جانتے تھے۔

دوسرا مسئلہ:

اصل الدین میں سے ذکر کیے گئے مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے کہ جس کے حوالے سے ممکن ہے کہ کسی طالب علم سے یہ بات پوشیدہ ہو کہ یہ اصل الدین میں سے ہے، وہ مسئلہ ہے: مشرکین سے عداوت اور مومنین سے موالات، پس اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ واجباتِ دین میں سے ہے نہ کہ اس کے اصل میں سے، یا وہ اس میں توقف کرتا ہے، تو اس کی وجہ سے وہ اصل الدین کو توڑنے والا شمار نہیں ہوگا، جب تک وہ مشرکین سے برأت اور مؤمنین سے موالات پر عمل پیرا رہے۔

شیخ سلیمان بن عبداللہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

ایک مسلمان کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر مشرکین سے دشمنی اور ان سے موالات نہ کرنے کو فرض فرمایا ہے اور اس پر مومنین سے محبت اور ان سے موالات کو واجب فرمایا ہے، اور اس نے بتلایا ہے کہ یہ ایمان کی شروط میں سے ہے اور ان سے محبت رکھنے والے سے اس نے ایمان کی نفی کی ہے۔

مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ

ترجمہ: جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ، چاہے وہ ان کے باپ ہوں ، یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے۔

اور جہاں تک یہ بات ہے کہ یہ چیز لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهَ کے معنی میں سے ہے یا اس کے لوازمات میں سے ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی تحقیق کا مکلف نہیں فرمایا ہے، ہم تو بس اس بات کے مکلف ہیں کہ یہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو فرض فرمایا ہے اور اس کو واجب کیا ہے، اور اس پر عمل کو واجب قرار دیا ہے، پس یہی وہ فرض ہے اور یہی وہ حتمی چیز ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں۔ اور جو یہ بھی جان لے کہ یہ چیز اس کے معنی میں سے ہے یا اس کے لوازمات میں سے ہے تو یہ اچھی چیز ہے، اور زیادہ بہتر بات ہے، اور جو کوئی اسے نہ جانے تو وہ اس کی معرفت کا مکلف نہیں، بالخصوص اس وقت جب اس میں جھگڑا اور اختلاف ہو، جس سے شر، اختلاف اور مومنین کے درمیان فرقہ بندی کا دروازے کھلتا ہو (وہ مؤمنین) کہ جو واجباتِ دین کو قائم کر چکے ہوں، اللہ کے رستے میں جہاد کرتے ہوں، مشرکین سے دشمنی کرتے ہوں اور مسلمانوں سے دوستی کرتے ہوں ۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

فلحال ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ اس نے جو کچھ ہمیں سکھایا اس سے ہمیں نفع پہنچائے اور ہمارے کلمے کو حق پر جمع فرما دے اور ہمیں ہدایت یافتہ اور ہدایت پھیلانے والا بنا دے۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
 
Top