ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 577
- ری ایکشن اسکور
- 185
- پوائنٹ
- 77
بسم اللہ الرحمن الرحیم
واضح رہے کہ اطاعت بالذات اور مستقل اطاعت صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے کیونکہ وہ معبود اور الٰہ ہونے کی بناء پر اس کا مستحق ہے اور وہ حق اور عدل کا ہی حکم دیتا ہے جبکہ اس کے سوا کی اطاعت بالذات اور مستقل نہیں خواہ وہ کوئی بھی ہو بلکہ اس کی اطاعت بالغیر (یعنی بغیر اللہ) اور غیر مستقل ہے اور ہر وہ مخلوق جس کی بالذات اور مستقل اطاعت کی جاتی ہے وہ الٰہ اور معبود کہلائے گا اور اس کی ایسی اطاعت بالذات اور مستقل اطاعت کرنے والا اس کا ہر اس معنی میں بندہ (عبد) کہلائے گا جو لفظ بندگی (عبودیت) سے مراد لیا جاسکتا ہو، اور لغت اور اصطلاح ہر اعتبار سے اس کے معنی میں داخل ہوگا۔
ایسے ہی ہر وہ مخلوق جو اس طور پر اپنی اطاعت کا حکم دے اس سے بھی مکمل طور پر اجتناب کیجئے کیونکہ وہ بہت بڑا طاغوت ہے اور اطاعت بالذات یا مستقل اطاعت کا یہ معنی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے گی کیونکہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اس کے لئے اس سے ظاہر ہونے والے احکامات کی کیفیت وصفت نہیں دیکھی جائے گی اور اگر اس طرح کی اطاعت کسی مخلوق کی جائے تو وہ عین شرک اور کفر بواح ہوگی اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَیْکُمْ یبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾ ’’اے آدم کی اولاد کیا میں نے تمہیں وعدہ نہیں دیا کہ تم شیطان کی عبادت (اطاعت) نہ کروگے کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ [یٰسٓ: ۶۰]
یہاں شیطان کی عبادت سے اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کی اطاعت مراد ہے شیطان نے لوگوں کے لئے شرک کو خوبصورت کرکے پیش کیا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی پس یہی ان کی جانب سے شیطان کی عبادت کرنا ہے۔ [تفسیر طبری۔ زاد المیسر]
ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِہِمْ مِّنْ م بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْہُدَی الشَّیْطٰنُ سَوَّلَ لَہُمْ وَ اَمْلٰی لَہُمْ، ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ کَرِہُوْا مَا نَزَّلَ اﷲُ سَنُطِیْعُکُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَمْرِ وَاﷲُ یَعْلَمُ اِسْرَارَہُمْ﴾
’’بے شک جو لوگ اپنی پشتوں کے بل مرتد ہوگئے جبکہ ان کے سامنے ہدایت واضح تھی شیطان نے انہیں خوبصورت کرکے پیش کیا اور انہیں امیدیں دلائیں یہ اس لئے کہ انہوں نے ان لوگوں سے جو اللہ کا نازل کردہ دین ناپسند کرتے تھے کہا کہ بعض باتوں میں ہم عنقریب تمہاری اطاعت کریں گے اور اللہ ان کے بھیدوں سے خوب واقف ہے‘‘۔ [محمد : ۲۸-۲۵]
ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’مرتد ہوگئے یعنی ایمان سے جدا ہوکر کفر کی طرف پلٹ آئے۔‘‘ [تفسیر ابن کثیر: ۱۹۳/۴]
اور ان کے مرتد ہوجانے کی وجہ یہ بنی کہ انہوں نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کو ناپسند کرنے والوں لوگوں سے یہ کہہ دیا کہ بعض معاملات میں ہم تمہاری اطاعت (جو کہ اس معنی میں اطاعت کا درجہ رکھتی ہے) کریں گے چنانچہ جب معاملہ اس خطرناک حد تک پہنچ گیا کہ اللہ کی شریعت کے مدمقابل کسی اور کی فقط چند باتوں کی اطاعت کرنا ارتداد کفر وشرک قرار پایا تو اللہ کی شریعت کی ناپسندیدگی کے مرحلے سے اللہ کی شریعت سے ظاہری دشمنی اور جنگ کے مرحلے کی طرف تجاوز کرنے والے کفار و مشرکین (صلیبی، یہودی، ہندو وغیرہ) سے اس طرح کہنے والے (نام نہاد مسلمان حکمران وغیرہ) کہ ہم ہرہر حکم میں تمہاری اطاعت کریں گے بلاشبہ یہ لوگ بالاولیٰ کافر، مرتد اور دین سے خارج ہوئے۔
ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ﴾ [الانعام: ۱۲۱] ’’اور بے شک شیاطین اپنے دوستوں کی طرف سے وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کرلی تو تم مشرک ہوگئے‘‘۔
(یعنی اگر مردار کھانے کو اللہ کے حرام کرنے کے باوجود حلال سمجھنے میں تم نے ان کی اطاعت کرلی تو تم بھی مومن رہنے کے بعد اب انہی کی طرح مشرک ہوجاؤ گے۔)
قاری کے لئے یہ جاننا مناسب ہوگا کہ مذموم اطاعت کی شرعاً دو قسمیں ہیں ایک صاحب اطاعت کو کافر قرار دیتی ہے اور دین سے خارج کر دیتی ہے۔ اور دوسری اسے دین سے خارج نہیں کرتی ۔
جو اطاعت مکفر یعنی کافر بنا دینے والی اور دین سے خارج کر دینے والی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ کسی مخلوق خواہ وہ کیسی ہی ہو اس کی ذات اور اس کے ذاتی مقام کی بناء پر اطاعت کا مستحق قرار دے اور اس کے حکم کی اس لئے اطاعت کی جائے کہ وہ حکم دینے اور منع کرنے کا مستحق ہو خواہ اس کا حکم یا نہی (روکنا، منع کرنا) حق کے مطابق ہو یا مخالف کو ایسی اطاعت اگر مخلوق کی جائے تو یہ مکفرہ ہے یعنی کافر بنا دیتی ہے کیونکہ اس سے مخلوق کو معبود کا درجہ دیا جارہا ہے۔
ایسے ہی کفر و شرک میں کفار اور مشرکین کی اطاعت کرنا بھی اطاعت مکفرہ یعنی کافر بنا دینے والی اطاعت ہے مثلاً اگر وہ مسلمانوں کے خلاف اپنے آپ سے دوستی کرنے کا حکم دیں یا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہو اسے حلال کرنے کا حکم دیں یا اس کے علاوہ دیگر امور مکفرہ یعنی کافر بنا دینے والے کاموں کا حکم دیں تو اس سلسلے میں ان کی اطاعت کرنا کفر وشرک ہے اور ایسی اطاعت کرنے والا محض کفر وشرک میں ہی واقع ہونے کی وجہ سے کافر ہوجاتا ہے نہ کہ فقط اطاعت کرنے سے
البتہ اگر وہ مطاع یعنی جس کی اطاعت کی جائے کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ وہ اپنی ذات کی وجہ سے اطاعت کا حق رکھتا ہے تو اس صورت میں وہ صرف اطاعت کی وجہ سے ہی اور اس کے لئے اس صفت اور خاصیت کا اقرار کرنے کی وجہ سے ہی کافر ہوجائے گا۔
اور جو اطاعت غیر مکفرہ ہے یعنی کافر نہیں بناتی نہ ہی دین سے خارج کرتی ہے بلکہ اس سے بندہ فاسق اور عاصی (نافرمان) بن جاتا ہے اس سے مراد وہ اطاعت ہے جو پہلی قسم کی اطاعت سے مختلف ہو مثلاً ان نافرمانیوں اور گناہوں میں اطاعت کرنا جو کفر سے کم ہوں بشرطیکہ اس اطاعت کو نہ تو صرف حلال اور جائز سمجھا جائے نہ ہی ان گناہوں اور نافرمانیوں کو اچھا سمجھا جائے بصورت دیگر یہ اطاعت بھی مکفرہ یعنی کافر بنادینے والی ہوگی۔
اس تفصیل کو جان لینے کے بعد غور کیجئے کہ ہمارے اس دور میں کتنے ہی ایسے لوگ ہی جو کفار ومشرکین (صلیبیوں، یہودیوں وغیرہ کفار) کی ذات کی اطاعت کرتے ہیں اور ان کی ذات کو ہی اطاعت کا مستحق قرار دیتے ہیں آپ دیکھیں گے کہ ہمارے معاشرے اسی طرح کے باطل معبودوں سے بھرے پڑے ہیں اور اکثر لوگ جانے انجانے میں اللہ کے سوا ان کی عبادت (اطاعت بالذات کر رہے ہیں)
اور کسی بھی شئے کو اس وقت تک شرک نہیں کہا جاسکتا جب تک اس میں عبادت کا کوئی پہلو اور مخلوق کو معبود قرار دینا نہ ہو چنانچہ جہاں بھی شرک یا کفر کا ذکر ہو تو آپ سمجھ جائیں کہ وہاں عبادت کی کوئی قسم ہوگی یا اللہ عزوجل کے سوا مخلوق کو معبود قرار دیا جارہا ہوگا۔
اور یہاں (یعنی گذشتہ آیات میں) عبادت کا پہلو اور مخلوق کو معبود قرار دینے کا پہلو اس طرح ہے کہ مشرکین کی اطاعت ایک ایسی خاصیت میں کی گئی جو کہ محض اللہ عزوجل کی خاصیت ہے یعنی حلال کرنا (تحلیل)، حرام کرنا (تحریم)، اچھا قرار دینا (تحسین) یا برا قرار دینا (قبیح) جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ﴾ [یوسف:۴۰] ’’نہیں ہے حکم کرنا مگر صرف اللہ کے لئے اس نے حکم نے دیا ہے کہ تم عبادت نہ کرو مگر صرف اسی کی۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿وَّ لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖ اَحَدًا﴾ [کہف:۲۶] ’’اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں بناتا۔‘‘
چنانچہ جو مخلوق (وہ کیسی ہی ہو اور جو بھی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا خواہ وہ کوئی شخص ہو یا کوئی نظام ہویا کوئی مجلس وغیرہ ہو) سے کہے کہ قانون سازی، حلال کرنا، حرام کرنا، اچھا قرار دینا، برا قرار دینا، آپ کی خاصیت ہے جسے آپ اچھا کہہ دیں وہ اچھا ہے اور جسے آپ برا کہہ دیں وہ برا ہے اور پہلے اور بعد میں حکم دینا آپ کی خاصیت ہے اور اس میں آپ کی اطاعت کرنا ہمارے ذمے آپ کا حق ہے!
تو اس نے اسی طرح کا معبود قرار دے دیا جس طرح کا معبود فرعون خود کو سمجھتا اور اس مخلوق کے لئے اس کی شخص کی بندگی (عبودیت) ثابت ہوجاتی ہے (اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو روزہ رکھتا ہو اور مسلمان ہونے کا دعویدار ہو) اور اس نے اسے اللہ کی خصوصیات میں سے سب سے خاص خصوصیت میں اس کا شریک بنادیا۔
ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’درحقیقت کوئی بھی شخص اسی کی عبادت کرتا ہے جس کے حکم کو وہ مانتا ہو اور جس کے لئے وہ جھکتا ہو اور جس کی وہ نافرمانی یا مخالفت کرتا ہو وہ اس کا عبادت کرنے والا شمار نہیں ہوتا اور اگر وہ اس کا عبادت گزار ہونے کا دعویٰ کرے تو اپنے دعوے میں جھوٹا شمار ہوتا ہے۔‘‘
[الاحکام : ۹۳/۱]
میں کہتا ہوں: کہ اس کلام کو اطاعت مکفرہ اور اطاعت غیر مکفرہ کی اس تفصیل پر محمول کیا جائے جو ہم بیان کرآئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس موقف کو بہت ہی زیادہ اجاگر کررہا ہے فرمایا:
﴿اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوْآ اِلَہًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ [توبۃ: ۳۱]
’’انہوں (یہود ونصاریٰ) نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا اور مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا مگر صرف اس بات کا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ ان سے پاک ہے جنہیں وہ اس کا شریک بناتے ہیں۔‘‘
امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’اگر کہا جائے کہ انہوں نے تو اپنے عالموں اور درویشوں کی عبادت نہیں کی تھی (یعنی ان کے لئے رکوع اور سجود نہیں کرتے تھے) تو ہم کہیں گے اس کا معنی ہے کہ انہوں نے اللہ کی نافرمانی میں ان کی اطاعت کی اور جو کچھ انہوں نے حلال کیا انہوں نے حلال کرلیا اور جسے انہوں نے حرام کہا اسے انہوں نے حرام کرلیا اس طرح انہوں نے ان عالموں اور درویشوں کو رب بنالیا۔‘‘
نیز عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور میرے گلے میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی پس آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’یا عدی اطرح ھذا الوثن من عنقک۔ اے عدی اپنی گردن سے اس بت کو اتار دے‘‘ میں نے اسے پھینک دیا پھر جب آپ سے نزدیک ہوا تو آپ پڑھ رہے تھے ﴿اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ﴾ ’’انہوں نے اپنے علماء اور اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا‘‘یہاں تک کہ اسکو پڑھ کر فارغ ہوئے تو میں نے کہا ہم ان کی عبادت نہیں کرتے تھے تو آپ نے فرمایا:’’ ألیس یحرمون ما احل اﷲ فتحرمونہ ویحلون ما حرم اﷲ فتستحلونہ۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ جسے اللہ نے حلال کہا ہو اسے حرام کہتے تو تم اسے حرام کرلیتے اور وہ جسے اللہ نے حرام کہا اسے حلال کہتے تو تم اسے حلال کرلیتے؟‘‘ انہوں نے کہا :ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’فتلک عبادتھم۔ یہی تو ان کی عبادت تھی‘‘۔
[تفسیر بغوی: ۲۸۵/۳]
اور اگر وہ انہیں حکم دیتے کہ وہ ان کے لئے نمازیں پڑھیں اور روزہ رکھیں تو وہ کبھی بھی ان کی اطاعت نہ کرتے بلکہ انہیں سنگسار کر دیتے کیونکہ اس طرح کے طریقے تو ظاہری عبادات ہیں عام لوگ بھی یہ جانتے ہیں چہ جائیکہ خاص لوگ نہ جانتے ہوں لیکن انہوں نے ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی اور اکثر لوگ اس طرح کی اطاعت میں موجود صفت عبودیت (بندگی) سے ناواقف ہوتے ہیں لہٰذا انہوں نے ان کی حرج نکالے بغیر اس طرح کی اطاعت کرکے ان کی عبادت شروع کردی۔
ابو البختری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
’’وہ ان کے لئے نمازیں نہیں پڑھتے تھے اور اگر وہ انہیں حکم دیتے کہ وہ ان کی عبادت کریں (یعنی ان کے لئے رکوع وسجود کریں) تو وہ ان کی اطاعت نہ کرتے لیکن انہوں نے انہیں حکم دیئے اور جسے اللہ نے حلال کیا اسے انہوں نے اس کا حرام کردہ کہا اور جسے اللہ نے حرام کہا اسے انہوں نے اس کا حلال کردہ کہا تو انہوں نے ان کی اطاعت کی پس یہ ربوبیت (رب بنانا) ہوئی اور یہ ان کی عبادت ہوئی ۔‘‘
[الفتاویٰ :۷۶/۷]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’جو شخص بھی رسول کے سوا کسی اور کی اطاعت کو اس کے ہر حکم اور ہر نہی (منع کردہ کاموں) میں واجب قرار دے اگرچہ اس کا حکم یا نہی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہو تو اس نے اسے شریک بنالیا اور ایسا ہی کام کیا جو عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا لہٰذ یہی وہ شرک ہے جو اللہ کے اس فرمان میں ہے فرمایا:
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَندَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اﷲِ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ﴾ [البقرہ: ۱۶۵]
’’بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا شرکاء بناتے ہیں وہ ان سے اللہ کی محبت جیسی محبت کرتے ہیں جبکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کی محبت میں زیادہ ہوتے ہیں۔‘‘
[الفتاویٰ لابن تیمیہ : ۲۶۷/۱۰]
واضح رہے کہ رسول کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت بالذات ہے کیونکہ انبیاء ورسل علیہ السلام اسی بات کا حکم دیتے ہیں جس کا حکم اللہ نے دیا ہو چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا:
(من اطاعنی فقد اطاع اﷲ)
’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ‘‘۔
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :
﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ﴾
’’اور جس نے رسول کی اطاعت کی پس تحقیق اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی ‘‘۔
اس کے علاوہ قرآن کریم میں تیس سے زیادہ مقامات پر رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا حکم آیا ہے۔
نیز فرمایا:
جو مطالبہ کرے کہ اللہ کے سوا اس کی اطاعت کی جائے تو یہ فرعون کا حال تھا (یعنی ایسا شخص فرعون جیسا ہے کیونکہ اس نے مطالبہ کیا تھا کہ اللہ کے سوا اس اکیلے کی اطاعت کی جائے اور ہمارے زمانے میں اس طرح کے دعوے کرنے والے بہت سے فرعون ہیں) اور جو یہ مطالبہ کرے کہ اللہ کے ساتھ اس کی بھی اطاعت کی جائے تو یہ شخص لوگوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اللہ کے سوا ایسے شرکاء بنالیں جن سے وہ اللہ کے محبت جیسی محبت کریں جبکہ اللہ سبحانہ نے حکم دیا ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور دین بھی فقط اسی کا ہو اور اسی کی خاطر دوستی ہو اور اسی کی خاطر دشمنی ہو ۔
[فتاویٰ ابن تیمیہ:۳۲۸/۱۴]
سید قطب نے کہا:
’’بندوں میں سے جب کوئی بندہ یہ دعویٰ کرے کہ لوگوں کے ذمے اس کی ذات کی اطاعت کرنا اس کا حق ہے اور اسے ان کے متعلق شریعت سازی کرنے کا ذاتی حق ہے اور ایسے ہی اسے اقدار اور پیمانے مقرر کرنے کا ذاتی حق ہے تو یہ الوہیت کا دعویٰ ہے اگرچہ زبانی ایسا نہ کہے جس طرح فرعون نے کہا تھا کہ :﴿اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی﴾ [النازعات: ۲۴] ’’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘ اور اس کا اقرار کرنا اللہ کے ساتھ شرک وکفر اور زمین پر خطرناک ترین فساد مچانا ہے۔‘‘
جو حلال کرنے یا حرام کرنے کاحق رکھتا ہے وہ صرف اللہ وحدہ ہے۔ کسی بشر کے لئے یہ حق نہیں ہے، نہ کسی فرد کے لئے، نہ کسی طبقے کے لئے، نہ کسی امت کے لئے، نہ ہی تمام انسانوں کے لئے، الایہ کہ اللہ کی شریعت کے مطابق اللہ کی جانب سے اس کی کوئی دلیل موجود ہو۔
اور حلال کرنا یا حرام کرنا (یعنی منع نہ کرنا یا منع کرنا) ہی شریعت ہے، دین ہے تو جب حلال کرنے والا اللہ ہو تو لوگ اللہ کے دین میں ہیں اور اگر حرام کرنے والا یا حلال کرنے والا اللہ کے سوا اور کوئی بھی ہو تو لوگ اس صورت میں اس کا دین بنا رہے ہیں (یعنی اس کے دین پر ہیں اگر اسے اللہ کے علاوہ یا اللہ کے ساتھ قانون ساز کی حیثیت سے قبول کر رہے ہوں یا اس کے حلال کردہ یا حرام کردہ میں اس کی اتباع کرتے ہوں۔ سید کے اس کلام کا یہی معنی مراد لیا جاسکتا ہے)
اور اس صورت میں وہ اس کے دین میں ہوں گے نہ کہ اللہ کے دین میں اور اس طور پر یہ مسئلہ الوہیت اور اس کی خصوصیات کا مسئلہ ہے، دین اور اس کے مفہوم کا مسئلہ ہے، ایمان اور اس کی حدود کا مسئلہ ہے، مسلمانوں کو دیکھنا چاہیئے کہ وہ زمین پر اس معاملہ میں کہاں ہیں؟ اس دین کے کس مقام پر ہیں؟ اسلام کے وہ کس مقام پر ہیں؟ اگرچہ وہ اپنے مسلمان ہونے کے دعوے پر ہمیشہ ہی مصر رہیں۔
[طریق الدعوۃ فی ظلال القرآن: ۱۷۹-۱۷۰/۲]
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اطاعت کے معنی میں ایسی بہترین راہنمائی کی ہے جو بیمار نفوس کو خیانت کا موقع نہیں دیتی کہ وہ معنی اطاعت میں خیانت کرکے اپنے ظلم و سرکشی میں بڑھتے ہی چلے جائیں لہٰذا اسلام نے خالق سبحانہ وتعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت سے منع کیا ہے خواہ وہ مخلوق کیسی ہی ہو اور فقط معروف اور اللہ عزوجل کی اطاعت میں ہی اس کی اطاعت کو برقرار رکھا ہے
بصورت دیگر نہ ہی اس کی بات سنی جائے گی نہ ہی اس کی اطاعت ہوگی جیسا کہ حدیث میں ہے فرمایا:
(السمع والطاعۃ علی المرء المسلم فیما احب وکرہ مالم یومر بمعصیتہ فاذا امر بمعصیتہ فلا سمع ولا طاعۃ)
"مسلمان شخص پر سننا اور اطاعت کرنا خواہ پسند کرے یا ناپسند اس وقت تک ہے جب تک اسے نافرمانی کاحکم نہ دیا جائے تو جب اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے تو نہ سننا ہے نہ ہی اطاعت کرنا ہے۔ " [بخاری۔مسلم]
نیز فرمایا:
(طاعۃ الامام حق علی المرء المسلم مالم یومر بمعصیتہ اللّٰہ عزوجل فاذا امر بمعصیتۃ اﷲ فلا طاعۃ لہ)
’’مسلمان شخص پر امام کی اطاعت کرنا واجب ہے جب تک اسے اللہ عزوجل کی نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے پھر جب اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے پھر کوئی اطاعت نہیں ہے ۔‘‘ [مسند احمد]
نیز فرمایا:
(سیلي امورکم بعدی رجال یطفئون السنۃ ویعلمون بالبدعۃ ویؤخرون الصلاۃ عن مواقیتھا ۔فقلت:وھو عبداﷲ بن مسعود۔ یارسول اﷲ ان ادرکتھم کیف افعل قال:تسألنی یا ابن ام عبد کیف تفعل لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ اﷲ)
’’عنقریب میرے بعد تمہارے معاملات کے ذمہ دار ایسے مرد بنیں گے جو سنت کو مٹائیں گے اور بدعت پر عمل کریں گے اور نماز دیر سے پڑھائیں گے (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں نے کہا : یا رسول اللہ اگر میں ان کا زمانہ پالوں تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: اسے ام عبد کے بیٹے تو مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ تو کیا کرے ؟ اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہوتی۔‘‘ [مسند احمد، جامع عبدالرزاق، صحیح]
نیز فرمایا :
(من امرکم من الولاۃ بمعصیۃ فلا تطیعوہ)
’’حکام میں سے جو تمہیں نافرمانی کا حکم دے تو تم اس کی اطاعت نہ کرو۔‘‘ [مسند احمد وغیرہ]
میں کہتا ہوں کہ: مندرجہ بالا احادیث میں امام کی اطاعت سے منع کرنے کا یہ معنی نہیں ہے کہ اس کے خلاف بغاوت کی جائے یا اس کی بالکل ہی اطاعت نہ کی جائے بلکہ فقط نافرمانی میں اس کی اطاعت نہ کی جائے البتہ اگر وہ ایسی نافرمانی کا حکم دے جو کافر بنا دیتی ہے اور دین سے خارج کر دیتی ہے تو اس صورت میں اس کی اطاعت کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے خلاف بغاوت کرنا اور جنگ کرنا واجب ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ لَنْ یَّجْعَلَ اﷲُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا﴾ [النساء: ۱۴۱]
’’اور اللہ ہرگز کافروں کے لئے مومنوں پر کوئی راہ نہیں رکھے گا ۔‘‘
نیز نبی ﷺ نے فرمایا:
(الا ان تروا کفرا بواحاً عندکم من اﷲ فیہ برھان)
’’(امام کی اطاعت ہر حال میں کرتے رہو) الَّا یہ کہ تم ایسا واضح کفر دیکھو جس کے متعلق تمہارے پاس اللہ کی جانب سے کوئی دلیل ہو‘‘۔
نیز فرمایا:
(من ارتد عن دینہ فاقتلوہ)
’’جو اپنے دین سے مرتد ہوجائے تم اسے قتل کردو۔‘‘ [صحیح بخاری۔ ابوداؤد۔ ترمذی]
حتی کہ ماں باپ کی بھی اطاعت جائز نہیں ہے جبکہ وہ اپنے اولاد کو اللہ عزوجل کی نافرمانی کا حکم دیں حالانکہ ان کا مقام ومرتبہ بہت ہی عظیم ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ اِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا﴾ [لقمان: ۱۵]
’’اور اگر وہ تجھے اس بات پر بالجبر آمادہ کریں کہ تو میرے ساتھ اس شئے کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کر۔‘‘