• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اطاعت رسول اورصحابہ

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
56
بسم اللہ الرحمن الرحیم

اطاعت رسول اورصحابہ​

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امابعد:

برادران اسلام!

قرآن مجید کے اندرجابجا اللہ رب العزت نے اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ مومن کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ ہرحال میں آپﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہیں جیسا کہ اللہ رب العزت نے سورہ نور آیت نمبر51 میں مومن کی سب سے بڑی عادت وخصلت یہ بیان کی ہے کہ مومن آنکھ بند کرکے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے ہیں ،فرمایا’’ إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‘‘ایمان لانے والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کردے تووہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا،یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں،کسی شاعر نے کیا ہی خوب نقشہ کھینچاہے:

مومن کامل کی دنیا میں یہی پہچان ہے

جیتے جی چھوڑے نہ دامن احمد مختار کا​

دیکھا اور سنا آپ نے کہ مومن کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ فوراً یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنااورمان لیا،بہت افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے اندریہی چیز نہیں ہے ،ہم فرمان رسول توسنتےہیں مگر ہم اس پر عمل نہیں کرتے ہیں ، حدیث رسول تو ہم بڑے ذوق وشوق سے سنتے اورپڑھتے ہیں مگر عمل نام کی کوئی چیز ہمارے اندر نہیں ہے،ہم ایک بار نہیں باربار اور ہرجمعہ کوئی نہ کوئی ایسی حدیث سنتے ہیں جس کے خلاف ہم عمل کررہے ہوتے ہیں مگرفرمان رسولﷺ سننے کے بعد ہم یہ کہتے ہیں کہ دیکھیں گے،سوچیں گے الغرض طرح طرح کے حیلوں وبہانوں سے ہم اس کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں اور ہم ہمیشہ فرمان رسول کے سامنے میں اپنے مفاد اور اپنی خواہشات کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ یہ ایک مومن کی پہچان نہیں ہے اور نہ ہی اسے اطاعت رسول کہتے ہیں،اطاعت رسول کسے کہتے ہیں آئیے ہم آپ کو صحابۂ کرام کے کرداروعمل سے بتاتے ہیں:

میرے دوستو! اگر آپ کو اطاعت رسول کو سمجھنا ہےاور یہ جاننا ہے کہ اطاعت رسول کسے کہتے ہیں تو پھر ذرا صحابۂ کرام کے کردار واعمال کا جائزہ لیجئے کہ جب آپﷺ ان کو کوئی حکم دیتے تھےتو وہ کیا رویہ اپناتے تھے،ایک طرف ہماری یہ حالت ہے کہ ہم فرمان رسول سننے کے بعد بھی ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں اور دوسری طرف صحابۂ کرم کا طرز عمل کہ وہ فرمان رسول سنتے ہی عمل کرنے کے لئے دوڑپڑتے تھے،بس آپ ﷺ کو حکم دینے کی دیری رہتی تھی اور یہ صحابہ ٔ کرام اس پر عمل کرنے کے لئے ٹوٹ پڑتے تھے، وہ لوگ یہ نہیں سوچتے تھے کہ یہ حکم رسول ہمارے مفاد کے خلاف ہے ،وہ لوگ یہ نہیں دیکھتے تھےیہ ہماری اپنی خواہشات کے خلاف ہے،بس وہ لوگ یہی سمجھتے تھے یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم وفرمان ہے اور اسے فوراً من وعن تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا ہےاور یہی وجہ ہے کہ رب العزت نے انہیں کامل مومن قراردیااور ان پر اپنی رحمتوں اوربرکتوں کا دروازہ کھول دیا اور ان سے اپنی رضامندی کا اعلان کرتے ہوئے ان سب کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی،اور دنیا والوں کو یہ پیغام دے دیا کہ جب تک تمہارا ایمان ان صحابۂ کرام کےایمان جیسا نہ ہوگا تب تک تم ہدایت پر نہیں سمجھے جاؤگے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا ‘‘اگروہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں ۔(البقرة:137)اب سوال يه پیداہوتاہے کہ کیا ہمارا ایمان صحابہ ٔ کرام کے ایمان جیسا ہے؟کیا ہمارے اندر اطاعت رسول کا وہ جذبہ ہے جو ان صحابۂ کرام کے اندر تھا؟ اگر ہے تو الحمدللہ ہم ہدایت پر ہیں اور اگر نہیں ہیں تو پھر ہم گمراہ ہیں اسی لئے آج ہی ہم اپنے ایمان کی اصلاح کرلیں او راپنے اندر وہی صفت پیداکرلیں جو ان صحابۂ کرام کے اندر تھی کہ اِدھر فرمان رسول سنتے اوراُدھر فورا ًعمل کرلیتے تھے،آئیے میں اپنے ایمان اور آپ کے ایمان کو تروتازہ کرنے کے لئے صحابۂ کرام کے کردار واعمال سے اس اطاعت رسول کی چند ایمان افروز مثالیں پیش کردیتاہوں اور اگر آپ کو مزیداس اطاعت رسول پر صحابۂ کرام کے کردار واعمال سے اپنے ایمان کو منور کرناچاہتے ہیں تو میری کتاب’’ اطاعت رسول کے عملی مظاہرکردارصحابہ کے آئینے میں ‘‘ کا ضرورمطالعہ کریں۔

برادران اسلام!

آپ نے سیدناابن عمرؓ کا نام ضرورسنا ہوگایہ توآپﷺ کی ہربات پرمن وعن عمل کیاکرتے تھےاور آپﷺ کے ہرقول وعمل پریہ اتنی شدت سے عمل کیا کرتےتھے کہ ان کے بارے میں حضرت نافعؒ نے کہا کہ ’’ لَوْ رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَتْبَعُ آثَارَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقُلْتُ هَذَا مَجْنُونٌ ‘‘ اگر تم ابن عمرؓ کو آثاررسولﷺ کی پیروی کرتے ہوئے دیکھ لیتے تو کہتے کہ یہ دیوانہ ہوگیا ہے۔(مستدرک حاکم:6376)اللہ اکبر!سناآپ نے کہ ابن عمرؓ کس قدر آپﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری کیاکرتے تھے کہ لوگ اگر ان کے اس اطاعت رسول کے جذبے کو دیکھ لیتے تو ضرور یہ کہتے کہ یہ تو دیوانہ ہے، مگروہ دیوانے نہیں تھےبلکہ وہ اس بات کو اچھی طرح سے جانتے تھے کہ اس اطاعت رسول کے بغیر نہ تو کسی کا ایمان مکمل ہوسکتاہےاور نہ ہی کوئی اس کے بغیر جنت میں جا سکتاہے اسی لئے وہ ہرکام میں آپﷺ کی اطاعت کیاکرتے تھے،اب ذراان کی اطاعت رسول کے عملی مظاہر کو دیکھئے، سیدنامجاہد ؒبیان کرتے ہیں کہ ہم ابن عمرؓ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ایک جگہ سے ہمارا گذرہواتو ابن عمر راستے سے دور ہٹ گئے تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو ابن عمرؓ جواب دیا کہ ’’ رَأَیْتُ رَسُوْل َ اللہِﷺ فَعَلَ ھٰذَا فَفَعَلْتُ ‘‘ میں نے آپﷺ کو اس جگہ پر ایسے ہی کرتے دیکھا ہے اس لئے میں نے ایسا کیا۔(صحیح الترغیب والترہیب للألبانیؒ:44)اسی طرح سے نافعؒ بیان کرتے ہیں کہ جب ابن عمرؓ حج یاعمرہ کرکے مدینہ واپس ہوتے تو ذوالحلیفہ کے میدان میں وہیں پر اپنی سواری کو بٹھاتے جہاں نبیﷺ بھی اپنی سواری کو بٹھایا کرتے تھے،صرف یہی نہیں بلکہ ابن عمرؓہرکام میں آپﷺ کی نقالی کیا کرتے تھے ،دوران حج اگر آپﷺ کسی وادی سے گذرے تھے تو یہ بھی اسی وادی سے گذرا کرتے تھے،دوران حج آپﷺ نے جس جگہ اور جس مقام پر کھڑے ہوکر جمرات کو کنکری ماری تھی تو یہ بھی اسی جگہ پر کھڑے ہوکر کنکریاں مارا کرتے تھے،اسی طرح سے دوران حج ابن عمرؓ ٹھیک اسی جگہ پر راتیں گذارا کرتے تھے جس جگہ پرآپ ﷺ نے راتیں گذاریں تھیں،ٹھیک اسی جگہ پرابن عمرؓ سوتے تھے جس جگہ پر آپﷺ سوئے تھے،خود ان کے بیٹے سالم کہتے ہیں کہ میرے والدمحترم ابن عمرؓ مدینہ اور مکہ کے درمیان راستے میں کئی جگہوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہاں نماز پڑھتے،قیام کرتے،راتیں گذارتے اسی طرح سےایک بڑے درخت کے سامنے بھی نماز پڑھتے پھر اس کے نیچے قیلولہ کرتے اورکہتے کہ میں نے آپﷺ کو ان تمام مقامات پر ایسے ہی نماز پڑھتے اورقیام کرتے ہوئے دیکھا ہے اسی لئے میں بھی ایسا کررہاہوں،صرف یہی نہیں بلکہ ان کے بارے میں تو یہاں تک احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے کہ جس جگہ پر آپﷺ حاجت ضروریہ سے فارغ ہوئے تھے تو ابن عمرؓ بھی اسی جگہ پر حاجت ضروریہ سے فارغ ہوتے اور کہتے کہ میرے محبوبﷺ نے یہاں پر یہ کام کیاتھا اسی لئے میں نے بھی یہاں پر یہ کام کیا ہے،صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بخاری ومسلم کے اندریہ بھی موجود ہے کہ یہ ابن عمرؓ ٹھیک ویسے ہی جوتے پہنا کرتے تھے جیسے کہ آپﷺ پہنا کرتے تھے،اسی طرح سے خانۂ کعبہ کے اندر ٹھیک اسی جگہ پر نماز پڑھتے جہاں آپﷺ نے نماز ادا کی تھی اور پھر فرماتے کہ کعبہ کے اندر کہیں بھی نماز اداکرسکتے ہیں مگر مجھے اس جگہ پرنماز پڑھنی پسند ہے جہاں میرے محبوب نے نماز ادا کی تھی،ابن عمرؓ کی عادت تھی کہ دوران سفر نماز قصر کیا کرتے تھے توایک بار ایک شخص عبداللہ بن خالدؒ نے ان سے کہا کہ سفر کے دوران نمازوں کا قصر کرنے کابیان قرآن میں موجود نہیں ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اے میرے بھتیجے سن! ’’ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ إِلَيْنَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَعْلَمُ شَيْئًا فَإِنَّمَا نَفْعَلُ كَمَا رَأَيْنَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ ‘‘ بے شک اللہ تعالی نے ہمارے لئے محمدﷺ کو اس وقت مبعوث کیا جب ہم کچھ نہ جانتے تھے،لہذا اب ہم وہی کرتے ہیں جو ہم نے آپﷺکو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔(ابن ماجہ:1066 صححہ الالبانیؒ)اطاعت رسول کسے کہتے ہیں ان سے سیکھئے کہ ایک بارآپﷺ نے اپنی مسجد نبوی کے ایک دروازے کے بارے میں فرمایا کہ اگر ہم اس دروازے کو عورتوں کے لئے چھوڑدیتے تھے کیا ہی اچھا ہوتا ،جب آپﷺ نے یہ حکم دیا تو ابن عمرؓ نے سنا اب ان کا عمل دیکھئےنافعؒ کہتے ہیں کہ ’’ فَلَمْ یَدْخُلْ مِنْہُ ابْنُ عُمَرَ حَتَّی مَاتَ ‘‘ ابن عمرؓ یہ فرمان رسولﷺ سننے کے بعدمرتے دم تک پھر اس دروازے سے کبھی داخل نہیں ہوئے۔(صحیح ابوداؤد للألبانی:483 بحوالہ اطاعت رسول کے عملی مظاہرکردارصحابہ کے آئینے میں،ص:52 تا 72)

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اوربہنو!

یہ تو صرف ابن عمرؓ کی بات ہے ورنہ ہرصحابی ٔ رسول کا طرز عمل یہی تھا کہ اِدھر فرمان رسول صادر ہوتا اور اُدھر عمل پیرائی ہوتی اب ذرا دیکھئے کہ ایک بارآپﷺ نے فرمایا کہ اگر خریم بن فاتک اسدیؓ کے بال لمبے نہ ہوتے اور تہبند ٹخنے سے نیچے لٹکانہ ہوتاتو بہت اچھے آدمی تھے،راویٔ حدیث بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ کی یہ بات خریم اسدی تک پہنچی تو خود ہی سے چھری لے کر کانوں تک اپنے بال کاٹ لئے اور اپنے تہبند کو نصف پنڈلی تک اونچا کرلیا،(صحیح ابوداؤد للألبانیؒ:4461)اللہ اکبر ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے اور خود فیصلہ کیجئے کہ کیا ہم ایسے ہیں ؟ آج ہم باربار یہ فرمان مصطفی ﷺ سنتے ہیں کہ مردوں کے لئے ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا حرام ہے،ٹخنے سے نیچے جو حصہ ہوگا وہ جہنم میں جلے گا اور جوبھی شخص ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکائے گاایسے انسان سے نہ تو اللہ بات کرے گا اور نہ ہی رحمت کی نظر سے دیکھے گا بلکہ ایسے انسان کو اللہ سخت سے سخت سزا بھی دے گا،ہم اس طرح کی حدیثیں بار بار پڑھتے ہیں اور سنتےبھی ہیں مگر ہم عمل نہیں کرتے ہیں اور ایک یہ خریم اسدیؓ ہیں جو سنتے ہی فوراً عمل کرلیا ،اسے کہتے ہیں اطاعت رسول اور اسے کہتے ہیں ایمان!اوریہ تو منافقانہ روش ہے کہ انسان سنے اور پھر ان سنا کردےجيسا كه فرمان باري تعالي ’’ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا ‘‘ ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ کے نازل کردہ کلام کی اور رسول کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے منہ پھیر کررکے جاتے ہیں۔(النساء:61)اللہ کی پناہ!اسی لئے میرے دوستو فرمان مصطفیﷺ جب آجائے تو فوراً تسلیم کرلیا کرو،ورنہ تمہارا دین وایمان خطرے میں ہے،آج ہماری حالت یہ ہے کہ کسی مسئلے پر حدیث سننے کے بعد بھی ہم اسے معمولی سمجھتے ہوئے اسے چھوڑ دیتے ہیں اور عمل نہیں کرتے ہیں اور ایک وہ لوگ تھے کہ فرمان مصطفیﷺ سنتے ہی عمل کرنے دوڑ پڑتے تھےاورمعمولی معمولی باتوں پربھی اطاعت رسول بجالاتے تھے اب ذرا دیکھئے کہ ایک بار سیدنا عرباض بن ساریہؓ نے آپﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا سَقَى امْرَأَتَهُ الْمَاءَ أُجِرَ ‘‘ جب آدمی اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اسے اجر دیا جاتاہے ،عرباض بن ساریہ کہتے ہیں کہ ادھر میں نے اپنی کانوں سے فرمان مصطفی ﷺسنا اور ’’ فَقُمْتُ إِلَيْهَا فَسَقَيْتُهَا مِنَ الْمَاءِ ‘‘سیدھا اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے گھر آکر اپنی بیوی کو پانی پلایا اور اسے یہ حدیث سنائی۔ (الصحیحۃ:2736بحوالہ اطاعت رسولﷺ کے عملی مظاہر کردار صحابہ کے آئینے میں،ص:107)دیکھا اور سنا آپ نے کہ فرمان رسول ﷺ سنتے ہی عرباض بن ساریہؓ نے کیا کیا؟اسی کو کہتے ہیں اطاعت رسول کہ انسان سنے اور فورا ًعمل کرلیں۔

اطاعت رسول کسے کہتے ہیں اور رسول کی پیروی واتباع کرنا کسے کہتے ہیں ذرا سیدنا ابوبکر ؓ اور سیدنا عمرؓ کے اس طرز عمل کو دیکھئے اور اپنے ایمان کو ٹٹولئے کہ کیاہمارے پاس اتباع رسول کا ایسا جذبہ ہے؟سیدنا ابوموسی اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک مرتبہ آپﷺ قبا کے قریب اَرِیْس باغ کے کنویں کے منڈیر پر اس طرح سے بیٹھے تھے کہ آپﷺ نے اپنی پنڈلیاں کھول رکھی تھی اور کنویں میں اپنے دونوں پاؤں کو لٹکائے بیٹھے تھےاورمیں اس وقت آپﷺ کا دربان ومحافظ تھا اتنے میں سیدنا ابوبکرؓ آئےچنانچہ جنت کی بشارت اورباغ کے اندر آنے کی اجازت ملنے پر سیدھے آپﷺ کے پاس گئے اور پھر ’’ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ فِي الْقُفِّ وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ كَمَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ ‘‘ اسی کنویں کے منڈیر پر آپﷺ کی داہنی جانب بیٹھ گئے اور ٹھیک اسی طرح سے اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکالئے جس طرح سے آپﷺ لٹکائے بیٹھے تھے اور جس طرح سے آپﷺ نے اپنی پنڈلیاں کھول رکھی تھی اسی طرح سے انہوں نے بھی کھول لیا ،سیدنا ابوموسی اشعریؓ کہتے ہیں کہ کچھ دیر کے بعد سیدنا عمر بن خطابؓ بھی اسی باغ کے پاس حاضر ہوئے چنانچہ ان کو بھی جنت کی بشارت دی گئی اور جب یہ بھی اس باغ کے اندر گئے تو اسی کنویں کے منڈیرپر آپﷺ کے بائیں جانب ٹھیک ویسے ہی بیٹھ گئے جس طرح سے آپﷺ بیٹھے ہوئے تھے۔(بخاری:3674،مسلم:2403)اللہ!اللہ! کائنات کے رب کی قسم!اتباع واطاعت رسول کی ایسی نقالی نہ تو کبھی زمین نے دیکھاہوگا اور نہ ہی آسمان نے۔

میرے پیارے پیارے میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اور بہنو!

آئیے میں آپ کے ایمان کوایک اورواقعہ سنا کر تازہ وزندہ کردیتاہوں اور اس واقعے سے ایک اہم پیغام بھی دے کر جاتاہوں ، ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ فِي يَدِ رَجُلٍ ‘‘ آپﷺ نے ایک صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی توآپﷺ نے’’ فَنَزَعَهُ فَطَرَحَهُ ‘‘ اسے اس کےہاتھ سے اتار پھینک دیا اور فرمایا کہ ’’ يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ إِلَى جَمْرَةٍ مِنْ نَارٍ فَيَجْعَلُهَا فِي يَدِهِ ‘‘ کیا تم میں سے کوئی شخص جہنم کی ایک آگ اورچنگاری کو اٹھاکر اپنے ہاتھ میں رکھ لینا پسند کرتاہے؟ یہ کہہ کرآپﷺ وہاں سے چلے گئے تو دوسرے صحابۂ کرام نے ان سے کہا کہ ’’ خُذْ خَاتِمَكَ انْتَفِعْ بِهِ ‘‘اپنی انگوٹھی اٹھالو اور اس سےفائدہ اٹھالو تو اس صحابیٔ رسول نے یہ سن کر کیا ایمانی بھرا جملہ کہا سنئے اور ایک پیغام لے کر جائیے،انہوں نے کہا کہ ’’ لَا وَاللهِ لَا آخُذُهُ أَبَدًا وَقَدْ طَرَحَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘‘ اللہ کی قسم! میں اس انگوٹھی کو ہرگز ہرگز نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ آپﷺ نے اسے میرے ہاتھ سے نکال کر پھینک دیا ہے۔(مسلم:2090)سبحان اللہ!اسے کہتے ہیں اطاعت رسول اور اتباع رسول کہ آپﷺ کے جانے بعد بھی اس قیمتی چیز کو نہ اٹھایا جس کو آپﷺ نے پھینک دیا تھا ،میرے بھائیو!ذرا سوچو کہ کیا ہمارے پاس بھی اطاعت رسول کا ایسا جذبہ ہے؟کیا ہم بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کےحکموں پر حرام چیزوں کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں؟کیا ہم بھی شریعت کے خلاف اور ناجائز امور کواللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکموں پر چھوڑنے کے لئے تیار ہیں؟اگر تیار ہیں تو الحمدللہ ہم مومن ہیں اور اگر تیار نہیں ہیں تو پھر یاد رکھ لیجئے کہ ہمارے اندر نفاق ہے،آئیے اسی بات پر ایک قیمتی نصیحت بھی ذرا سن لیجئے کہ آج کل سماج ومعاشرے کے اندر بہت سارے مرد حضرات سونے کی انگوٹھی پہنتے ہیں اوراسی طرح سے عورتوں کی طرح گلے میں سونے وچاندی کی چین ڈال لیتے ہیں اور جب انہیں اس بات سے روکا جاتاہے اور یہ فرمان رسول سنایا جاتاہے کہ یہ سونا مردوں کے لئے جائز نہیں ہے تو لوگ مسکراتے ہوئےیہ کہتے ہیں کہ یہ میری ساس کا گفٹ ہے،کوئی کہتاہے کہ مجھے یہ گفٹ سسرال سے ملا ہے،کیاکروں؟نہیں پہنوں گا تو سسرال والے ناراض ہوجائیں گے اسی لئے مجبوری میں پہن لیا،۔استغفراللہ۔ذراسوچئے کہ اللہ اس انسان سے ناراض ہے اس کو اس بات کی فکر نہیں ہے مگر اپنے ساس وسسر کی ناراضگی کا اس کو کتنا فکر ہے تو جو لوگ بھی اس طرح کے حیلوں وبہانوں سے یہ سونا استعمال کرتے ہیں ایسے لوگ سن لیں کہ یہ سونا مردوں کے لئے حرام ہے اور جو بھی مرد یہ سونا استعمال کرے گاوہ اپنے جسم پر جہنم کے آگ کی چنگاری رکھے گا اور مزید یہ کہ یہ سونا پہننا تو عورتوں کی مشابہت بھی اختیار کرناہے اورایسے لوگوں پر آپﷺ نےلعنت بھیجی ہےجو عورتوں کی مشابہت اختیار کرے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ لَعَنَ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ وَلَعَنَ الْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ ‘‘اللہ کی لعنت ہو ایسے مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرے اور ایسی عورتوں پر بھی اللہ کی لعنت ہو جو مردوں کی مشابہت اختیار کرے۔(ابن ماجہ:1904حسنہ الالبانیؒ)اللہ کی پناہ! کیا یہ عورتوں کی مشابہت نہیں ہے کہ انسان سونے کی انگوٹھی پہنے،کیا یہ عورتوں کی مشابہت نہیں ہے کہ انسان گلے میں سونے وچاندی کا ہار ڈال لے،کیا یہ عورتوں کی مشابہت نہیں ہے کہ ایک انسان اپنے ہاتھ میں سونے وچاندی کا کڑا ڈال لےاورآج کل تو بہت سارے لوگ عورتوں کی طرح اپنا کان بھی چھیدوا لیتے ہیں یاد رکھ لیجئے یہ سب کام ملعون ہے،اس لئے میرے بھائیو! اگر آپ کے اندر ذرہ برابر بھی ایمان ہے تو اس طرح کے تمام کاموں سے اپنے آپ کو دور رکھواور ہرناجائز وحرام کام کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکموں پر فورا ًچھوڑ دو جیسا کہ اس صحابیٔ رسول نے فورا ًچھوڑ دیاتھا تبھی مومن کہلاؤگے۔

بردران اسلام!

جب اطاعت رسول کے سلسلے میں بات ہورہی ہے تو آئیے ایک دوباتیں خواتین کے تعلق سے بھی بیان کردیتاہوں تاکہ آج کل کے دور کی خواتین کے اندر بھی اطاعت رسول کا ویسا ہی جذبہ پیداہوسکے جو ان خواتین کے اندر تھا ،اگر خواتین میری آواز کو سن رہی ہیں تو وہ یہ جان لیں اور سن لیں کہ اطاعت رسول کو اپنانے میں دوررسالت کی خواتین بھی مردوں سےکچھ پیچھے نہیں رہتی تھیں بلکہ وہ بھی آپﷺ کے حکموں کو بجالانے میں ہمیشہ پیش پیش رہا کرتی تھیں جیسا کہ سیدناابواسید انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپﷺ مسجد سے نکل رہے تھے کہ آپﷺ نے دیکھا کہ مرد وخواتین سڑکوں پر ایک ساتھ گھل مل کر چل رہے ہیں توآپﷺ نے خواتین سے فرمایا کہ اے عورتوں کی جماعت!’’ إِسْتَأْخِرْنَ فَإِنَّهُ لَيْسَ لَكُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِيقَ عَلَيْكُنَّ بِحَافَّاتِ الطَّرِيقِ ‘‘تم سب پیچھے پیچھے رہو،تمہارے لئے یہ جائز ومناسب نہیں ہے کہ تم بیچ راستوں میں چلو بلکہ تم سب راستوں کے کناروں سے چلا کرو،راویٔ حدیث بیان کرتے ہیں کہ پھر کیا تھا یہ فرمان رسولﷺ سننے کے بعد ’’ فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ تَلْتَصِقُ بِالْجِدَارِ حَتَّى إِنَّ ثَوْبَهَا لَيَتَعَلَّقُ بِالْجِدَارِ مِنْ لُصُوقِهَا بِهِ ‘‘ عورتیں راستوں کے کنارے دیواروں کے اتنا قریب لگ لگ کر چلاکرتی تھیں کہ ان کے کپڑے دیواروں کے ساتھ اٹک اٹک جایا کرتے تھے۔(ابوداؤد:5272،الصحیحۃ:721)سبحان اللہ!اسے کہتے ہیں اطاعت رسول اور اتباع رسول کہ فرمان رسول سنتے ہی فوراً عمل کرلیا اور ايك هم اورآپ ہیں جو باربارفرمان رسولﷺ سنتے رہتے ہیں مگرعمل سے کوسوں دور رہتے ہیں ،کیا یہ منافقانہ روش نہیں ہے کہ ہم فرمان خدا اور فرمان رسول سنتے ہیں مگر ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔

اطاعت رسول کی ایک دوسری مثال بھی ذرا غور سے سنئےاور خواتین بھی ذرا میری آواز پر کان لگا لیں اوراپنے اپنے ایمان وعمل کا جائزہ لے لیں کہ کیا ان کے اندر بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرامین کو سننے کے بعد ایسا جذبہ پیدا ہوتاہے ،اماں عائشہؓ کہتی ہیں کہ اللہ ان عورتوں پر رحم کرے جنہوں نے پہلے پہل ہجرت کی تھی کیونکہ جب اللہ رب العزت نےیہ آیت نازل کی کہ عورتیں ’’ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ ‘‘ اپنے اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بُکل مارے رہیں ۔(النور:31) توجیسے ہی یہ آیت نازل ہوئی ’’ أَخَذْنَ أُزْرَهُنَّ فَشَقَّقْنَهَا مِنْ قِبَلِ الحَوَاشِي فَاخْتَمَرْنَ بِهَا ‘‘عورتوں نے اپنے اپنے تہبندوں اور چادروں کو دونوں کناروں سے پھاڑ کر ان کی اوڑھنیاں بنالیں۔(بخاری:4758)سبحان اللہ!میری ماں اور بہنو!ذرا غور کروکہ ان کے پاس کپڑے اور لباسوں کی تنگی تھی مگر انہوں نے رب کے حکم کے سامنے میں کوئی حیلہ وبہانہ پیش نہ کیا بلکہ اپنے پاس موجود کپڑوں کو ہی پھاڑ کر رب کے حکم پر عمل کرلیا،اسے کہتے ہیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کے آگے اپنے آپ کو جھکا دینا اور یہی تو ایک مومن کی پہچان ہے اوراسی کے برعکس ایک آج کل کی اکثرخواتین ہیں جن کے پاس کپڑوں کی بھرمار ہے ،کئی کئی جوڑے تو صندوق والماری میں سڑ رہے ہیں مگر پھر بھی وہ پردہ نہیں کرتی ہیں ،صرف پردہ ہی نہیں بلکہ آج کل کی اکثرخواتین اپنے زندگی کے ہرمعاملات میں اللہ اور اس کےرسولﷺ کے حکموں کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔اعاذنا اللہ۔

برادران اسلام اور میری ماں اور بہنو!

دیکھا اور سنا آپ نے کہ ایک نہیں بلکہ تمام صحابہ وصحابیات کا یہی طرز عمل تھا کہ اِدھر اللہ رب العزت وحی نازل کرتا یا پھر آپﷺ کوئی حکم صادر کرتے اور اُدھر وہ لوگ فوراً عمل کرلیتےاور یہی تو ایک مومن کی پہچان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کو سنتے ہی عمل کرلےجیسا کہ رب کا یہ اعلان ہے’’ إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‘‘ كه ايمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتاہے کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ ان میں فیصلہ کردے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا ،یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔(النور:51)

اب آخر میں رب العزت سے دعاگوہوں کہ اے الہ العالمین تو ہم سب کو ان صحابۂ کرام جیسا اطاعت رسول کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

کتبہ

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

 
Top