• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اعادہ روح اور عذاب قبر

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
پیش لفظ

الحمد لله رب العالمين , والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين , وعلى اصحابه أجمعين , ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين ؛ وبعد !
آخرت کا عقیدہ ہی وہ عقیدہ ہے جو اہل اسلام کو اللہ کی بغاوت سے روکتا ہے , کہ دنیا کے قوانین اور دنیا کی سزاؤں سے تو انسان کسی نہ کسی حیلہ سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے لیکن آخرت میں اللہ تعالى کی پکڑ سے بچنا محال ہے ۔ لہذا اہل ایمان آخرت پر یقین رکھنے اور اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو کر حساب دینے سے خائف ہونے کی بناء پر شریعت کی پابندی کرتے ہیں اور اگر کبھی ان سے کوئی خلاف ورزی ہو بھی جاتی ہے تو دنیا کے عذاب کو آخرت کے عذاب سے کم تر خیال کرتے ہوئے خود کو سزا (قصاص یا حد یا تعزیر) کے لیے پیش کر دیتے ہیں ۔ الغرض ایمان بالآخرت ہی وہ مضبوط عقیدہ ہے کہ جس کی بناء پر اہل ایمان اپنے رب کی طرف رجوع کرتے , اوامر کو بجالاتے , اور نواہی سے اجتناب کرتے ہیں ۔ سو اسی حصار کو توڑنے کے لیے آخرت کے بارہ میں شکوک پیدا کرنے کی مذموم سعی شروع ہوئی اور اخروی زندگی کے پہلے مرحلہ یعنی قبر وبرزخ کو اسکا ہدف اولیں قرار دیا گیا ۔ کہ اگر آخرت کامعاملہ ہی مشکوک ہو گیا تو مسلمان پھر مسلمان نہیں رہیں گے ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ مسلمانوں میں یہ تشکیک پیدا کرنے بھی نام نہاد مسلمان ہی ہیں اور وہ اپنے سوا سب کو کافر سمجھتے ہیں , جو انکا ہمنوا و ہم خیال ہوا وہ جماعت المسلمین میں شامل , اور جس نے ان سے اختلاف کیا وہ جماعت المسلمین سے نکل کر جماعت الکافرین میں داخل ! (والعیاذ باللہ)
زیر نظر کتابچہ میں اسی موضوع پر ہم مختصر ا کتاب وسنت کے دلائل سے اہل السنہ والجماعہ کا موقف بھی واضح کریں گے اور ا س پر وارد اشکالات اور شبہات کا علمی محاکمہ بھی پیش کریں گے ۔ ان شاء اللہ ۔
اور ہم اللہ تعالى سے دعاء گو ہیں کہ اللہ اس کاوش کو اہل اسلام کے لیے نفع بخش بنا دے اور ہمارے لیے اسے توشہء آخرت کر دے ۔ اور اگر اس میں کوئی لغزش یا کمی رہ جائے تو اپنی رحمت سے اس پر ہمیں معاف فرما دے ۔

وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب
أبو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر
مدرس جامعہ دار الحدیث محمدیہ ملتان​

 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
اعادہ روح و عذاب قبر وبرزخ سے متعلق حدیث

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری شخص کے جنازہ میں گئے اور قبر تک پہنچے ,لیکن قبر ابھی تک کھودی نہیں گئی تھی ۔ تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد ایسے بیٹھ گئے کہ گویا ہمارے سروں پر پرندے ہیں , اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جسکے ساتھ آپ صلى اللہ علیہ وسلم زمین کرید رہے تھے , آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور دو یا تین مرتبہ فرمایا "قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو" پھر فرمایا "جب مؤمن دنیا سے رخصت اور آخرت کے سفر پر گامزن ہوتا ہے تو اسکے پاس ایسے سفید چہروں والے فرشتے آسمان سے اترتے ہیں گویا کہ انکے چہرے سورج ہیں , انکے پاس جنت کے کفنوں میں سے ایک کفن ہوتا ہے اور جنت کی خوشبو میں سے ایک خوشبو ہوتی ہے , حتى کہ وہ اسکی تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں , پھر ملک الموت آتا ہے اور اسکے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے " اے پاک جان اللہ کی مغفرت اور رضا مندی کی طرف نکل چل " آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تو وہ ایسے بہہ کر نکلتی ہے جیسے مشکیزے کے منہ سے قطرہ بہتا ہے , تو وہ اسے پکڑ لیتا ہے , اور جونہی وہ اسے پکڑتا وہ (دیگر فرشتے) پل بھر بھی اسکے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے بلکہ اسے لے لیتے ہیں اور اس کفن اور خوشبو میں ڈال دیتے ہیں۔ اور روئے ارض کی بہترین کستوری کی خوشبو کی طرح اس میں سے (مہک) نکلتی ہے ۔ تو وہ اسے لے کر اوپر کی جانت چڑھتے ہیں تو فرشتوں کے جس کسی گروہ کے پاس سے بھی گزرتے ہیں تو وہ لوگ یہ ضرور پوچھتے ہیں یہ پاکیزہ روح کیا ہے ؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے , دنیا میں جن اچھے اچھے ناموں سے اسے پکارا جاتا تھا (وہ نام یہ ذکر کرتے ہیں) حتى کہ آسمان دنیا تک اسے لے کر پہنچ جاتے ہیں تو دستک دیتے ہیں تو انکے لیے دروازہ کھول دیا جاتا ہے پھر ہر آسمان کے مقرب فرشتے اگلے آسمان تک انکے ہمنوا ہوجاتے ہیں حتى کہ اسے ساتویں آسمان تک لے جایا جاتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتے ہیں "میرے بندے کا اندراج علیین میں کر دو, اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو ,یقینا میں نے اسی سے انکو پیدا کیا ہے , اور اسی میں انکو لوٹاؤں گا , اور اسی سے انہیں دوسری مرتبہ نکالوں گا" آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " پھر اسکی روح اسکے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے ,تواسکے پاس دو فرشتے آتے ہیں , اسے بیٹھاتے ہیں ,اور پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ تو یہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ۔ تو وہ کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ جواب دیتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے ۔ تو وہ اسے کہتے ہیں یہ شخص جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے وہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ وہ اسے کہتے ہیں تیرا علم کیا ہے ؟ (یعنی تجھے یہ سب کیسے معلوم ہوا ) تو وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب کو پڑھا , اس پر ایمان لایا , اور تصدیق کی ۔ تو آسمان میں ایک منادی آواز لگاتا ہے : میرے بندے نے سچ کہا , لہذا اسکے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو , اور اسے خلعت جنت پہنا دو , اور اسکے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو ۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اسکے پاس جنت کی ہوا اور خوشبو آتی ہے , اور اسکے لیے اسکی قبر میں تا حد نگاہ وسعت کر دی جاتی ہے ۔ اور اسکے پاس خوبصورت چہرے والا , عمدہ لباس والا , اور اچھی خوشبو والا ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے
تمہیں خوشخبری مبارک ہو یہ وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا وہ اس سے پوچھتاے کہ تم کون ہو؟ کہ تمہارا چہرہ ہی خیر کا پتہ دیتا ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تمہارا نیک عمل ہوں اس پر وہ کہتا ہے کہ پروردگار! قیامت ابھی قائم کردے تاکہ میں اپنے اہل خانہ اور مال میں واپس لوٹ جاؤں ۔ اور جب کوئی کافر شخص دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اتر کر آتے ہیں جن کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں وہ تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت يآکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے اور اس ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار کی بدبوجیسا ایک ناخوشگوار اور بدبودار جھونکا آتا ہے۔ پھر وہ اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے ان کا گذر ہوتا ہے وہی گروہ کہتا ہے کہ یہ کیسی خبیث روح ہے؟ وہ اس کا دنیا میں لیا جانے والا بدترین نام بتاتے ہیں یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔ در کھلواتے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھولاجاتا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے " اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کانامہ اعمال " سجین " میں سے نچلی زمین میں لکھ دو چنانچہ اس کی روح کو پھینک دیا جاتا ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرپڑا پھر اسے پرندے اچک لیں یا ہوا اسے دوردراز کی جگہ میں لے جاڈالے ۔ " پھر اس کی روح جسم میں لوٹادی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے ہائے افسوس ! مجھے کچھ پتہ نہیں ، وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ پھر وہی جواب دیتا ہے وہ پوچھتے ہیں کہ وہ کون شخص تھا جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا؟ وہ پھر وہی جواب دیتا ہے اور آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ، اس کے لئے آگ کا بستر بچھادو اور جہنم کا ایک دروازہ اس کے لئے کھول دو چنانچہ وہاں کی گرمی اور لو اسے پہنچنے لگتی ہے اور اس پر قبر تنگ ہوجاتی ہے حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں پھر اس کے پاس ایک بدصورت آدمی گندے کپڑے پہن کر آتا ہے جس سے بدبو آرہی ہوتی ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تجھے خوشخبری مبارک ہویہ وہی دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ پوچھتا ہے کہ تو کون ہے ؟ کہ تیرے چہرے ہی سے شر کی خبر معلوم ہوتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیراگندہ عمل ہوں تو اللہ کی اطاعت کے کاموں میں سست اور اس کی نافرمانی کے کاموں میں چست تھا لہٰذا اللہ نے تجھے برا بدلہ دیاہے پھر اس پرا ایک ایسے فرشتے کو مسلط کردیا جاتا ہے جواندھا، گونگا اور بہرا ہو اس کے ہاتھ میں اتنا بڑا گرز ہوتا ہے کہ اگر کسی پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہوجائے اور وہ اس گرز سے اسے ایک ضرب لگاتا ہے اور وہ ریزہ ریزہ جاتا ہے پھر اللہ اسے پہلے والی حالت پر لوٹادیتا ہے پھر وہ اسے ایک اور ضرب لگاتا ہے جس سے وہ اتنی زور سے چیخ مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ ساری مخلوق اسے سنتی ہے پھر اس کے لئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور آگ کا فرش بچھادیا جاتاہے۔
اس ایک ہی صحیح حدیث میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اخروی زندگی کے پہلے مرحلہ یعنی قبروبرزخ کی زندگی کے بارہ میں تقریبا تمام اہم باتیں بیان فرما دی ہیں ۔ اور اس پر اہل السنہ والجماعہ کا ایمان ہے , اور یہ سب انکے عقائد میں شامل ہے ۔ لیکن کچھ لوگ اس عقیدہ پر اشکالات وارد کرتے ہیں اور انہیں غلط باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آئند سطور میں ہم ان شکوک وشبہات کا تذکرہ کرکے انکا علمی محاکمہ پیش کرتے ہیں ۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
اعادہ روح
اشکال :
اعادہ روح کا عقیدہ قرآن کے خلاف ہے , کیونکہ اللہ تعالى نے فرمایا ہے :

"حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100)" {المؤمنون} ۔
حتى کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے اے میرے رب مجھے لوٹا دو ۔ تاکہ میں نیک اعمال کروں اس میں کہ جسے میں چھوڑ آیا ہوں , ہر گز نہیں , یہ بات وہ کہنے والا ہے , اور انکے پیچھے انکے اس دن تک جس دن وہ اٹھیں گے برزخ ہے ۔
اس آیت میں بھی اللہ نے روح کے جسم میں واپس لوٹنے کے مطالبہ کو رد کر دیا ہے ۔ کہ روح جسم میں لوٹنے کا مطالبہ کرے گی لیکن اللہ تعالى اسکا مطالبہ نہیں مانیں گے بلکہ فرمایا ہے کہ روح اور جسم کے درمیان قیامت تک آڑ ہے ۔

جواب :
یہ بات ذہن میں رہے کہ "نام نہاد مسلمین" بھی اعادہء روح کے قائل ہیں , گوکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ مرنے والے کے جسم میں روح قیامت سے پہلے نہیں لوٹتی بلکہ قیامت کے دن ہی لوٹتی ہے ۔ اور لطف یہ کہ قیامت سے پہلے وہ بھی روح کو جسم پہنائے بغیر نہیں رہ سکے بالآخر انہوں نے ایک خیالی جسم کا عقیدہ وضع کیا کہ روح کوآسمانوں میں ایک برزخی جسم دیا جاتا ہے , اور اسی میں اسے عذاب یا راحت دی جاتی ہے ۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
دو زندگیاں دو موتیں
اشکال : اعادہء روح والی حدیث قرآن کے خلاف ہے ! ۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ قبر میں روح لوٹتی ہے تو پھر ایک تیسری زندگی ثابت ہو جاتی ہے ۔ جبکہ قرآن میں اللہ تعالى نے صرف دو زندگیوں اور دو موتوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ مثلا :
۱۔ "قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ" (غافر:۱۱) وہ کہیں گے اے اللہ تو نے ہمیں دو بار موت دی اور دو بار زندگی دی ہے ۔
۲۔ نیز فرمایا :
" كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (البقرۃ :28)" تم کیسے اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے تو اس نے تمہیں زندہ کیا , پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا , پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔
اس آیت میں بھی اللہ نے دو زندگیوں اور دو موتوں کا تذکرہ کیا ہے ۔

جواب :
اعادہ روح کا عقیدہ دو زندگیوں اور دو موتوں والے عقیدہ کے خلاف نہیں ہے , بلکہ اسکے موافق و مطابق ہے ۔
جس طرح دنیاوی زندگی کے دو مراحل ہیں ایک ماں کے پیٹ میں اور دوسرا مرحلہ ماں کے پیٹ سے باہر , ایسے ہی اخروی زندگی کے بھی دو مراحل ہیں ایک قبر وبرزخ میں اور ایک روزمحشر قبر وبرزخ سے باہر ۔ یعنی زندگیاں
دو ہیں ایک دنیوی اور ایک اخروی ۔ دنیاوی زندگی کے بارہ میں بھی اللہ تعالى نے فرمایا ہے :
"يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا"

(الحج :۵)
اے لوگو !اگر تم دوبارہ جی اٹھنے کے بارہ میں شک میں مبتلا ہو تو ہم نے ہی تمہیں مٹی سے پھر نطفہ سے , پھر جمے ہوئے خون سے , پھر تخلیق شدہ اور غیر تخلیق شدہ لوتھڑے سے پیدا کیا ہے تاکہ ہم تمہیں وضاحت کر دیں , اور ہم جس مقررہ وقت تک چاہیں رحموں میں ٹھہراتے ہیں , پھر تمکو بچہ بنا کر نکالتے ہیں , پھر (تمہیں مزید زندگی عطاء کرتے ہیں )تاکہ تم اپنی قوت(جوانی) کو پہنچو , اور تم میں سے کچھ فوت ہو جاتے ہیں اور کچھ گھٹیا عمر تک پہنچا دیے جاتے ہیں تاکہ وہ جاننے کے بعد پھر سے انجان ہو جائیں ۔
یعنی رحموں میں ہی دنیاوی زندگی کا آغاز ہو چکا ہوتا ہے اور جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس وقت وہ زندہ ہی ہوتا ہے , زندگی اسے رحم سے نکلتے وقت نہیں بلکہ پہلے سے ہی مل چکی ہوتی ہے ۔اور یہی حال اخروی زندگی کا ہے , کہ جب قیامت قائم ہوگی تو اس وقت اخروی زندگی کا آغاز نہیں ہوگا بلکہ زندگی کا آغاز میدان محشر میں اکٹھے ہونے سے پہلے ہی ہو چکا ہوگا ۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
برزخی جزاء وسزا کا مقام
اشکال :
برزخ آسمانوں میں ہے اور نیک لوگوں کی روحیں علیین میں رہتی ہیں اور جزاء پاتی ہیں اسی طرح بد لوگوں کی روحیں سجین میں رہتی ہیں اور وہیں انہیں سزا ملتی ہے ۔
جواب :
۱۔ برزخ آسمانوں میں نہیں بلکہ زمین میں ہے , جیسا کہ سورۃ المؤمنون کی آیت نمبر۱۰۰ کے حوالہ سے گزشتہ سطور میں ثابت کیا جاچکا ہے کہ روح وجسد کے مجموعہ اور رجوع الى الدنیا کے مابین آڑ ہے ۔ اور مرنے والا کا جسد زمیں پر ہی ہوتا ہے ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top