کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
افغانستان 1747ء سے 1978 ء تک تاریخ کی نظر سے
[SUP]دی نیوز ٹرائب: ١٩ اپریل ٢٠١٣، asif yaseen langy[/SUP]
افغانستان میں پچاس ہزار سال پہلے بھی آبادی موجود تھی اور اس کے زراعت بھی دنیا کی اولین زراعت میں شامل ہے۔
2000 قبل مسیح میں آریاؤں نے افغانستان کو تاراج کیا اور جسے ایرانیوں نے ان سے چھین لیا ، اس کے بعد یہ عصہ تک سلطنت فارس کا حصہ رہا ۔
329 قبل مسیح میں اس کے کئی حصے ایرانیوں سے سکند ر اعظم نے چھین لیے جس میں بلخ شامل ہے مگر یونانیوں کا یہ قبضہ زیادہ دیر نہ رہا۔
642 عیسوی تک یہ علاقہ وقتاَ فوقتا َ ہنو، منگولوں ، ساسانیوں اور ایرانیوں کے پاس رہا جس کے بعد اس علاقے کو مسلمانوں نے فتح کرلیا۔ مسلمانوں کی اس فتح کو تاریخ میں عربوں کی فتح سمجھا جاتا ہے جو سراسر غلط اور ایک جھوٹی تاریخ ہے کیونکہ مسلمانوں میں کئی اقوام کے لوگ شامل ہیں اسلام سے پہلے لوگ یہاں بدھ مت اور قبائلی مذہب کے پیروکار تھے۔
اسلامی دور احمد شاہ درانی ( ابدالی) تک (642ء سے1747ء) ۔۔۔۔۔۔۔۔
642ء میں مسلمانوں نے اس علاقے کو فتح کیا مگر یہاں کے حکمران علاقائی لوگوں کو ہی بنایا، پہلے یہ حکمرانی خراسانی عربوں کے پاس رہی ۔
998ء میں محمود غزنوی نے ان سے اقتدار چھین لیا۔
غوریوں نے 1146ء میں غزنویوں کو شکست دی اور انہیں غزنی کے علاقے تک محدود کردیا ۔ یہ سب مسلمان تھے
مگر 1219ء میں چنگیزخان (منگولوں) نے افغانستان کو تاراج کر دیا۔ ہرات ، غزنی اور بلخ مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ منگول بعد میں خود مسلمان ہو گئے حتیٰ کہ تیمور نے چودھویں صدی میں ایک عظیم سلطنت قائم کر لی۔ اسی کی اولاد سے شہنشاہ بابر نے کابل کو سولویں صدی کے شروع میں کابل کو اپنا دارالحکومت قرار دیا ۔
سولہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک افغانستان کئی حصوں میں تقسیم رہا۔ شمالی حصہ پر ازبک ، ہرات سمیت مغربی حصے پر ایرانی صفوی جبکہ مشرقی حصہ پر مغل اور پشتون قابض رہے۔
1709ء میں پشتونوں نے صفویوں کے خلاف جنگ لڑی اور 1719ء سے 1729ء تک افغانستان بلکہ ایرانی شہر اصفہا ن پر بھی قبضہ کرلیا۔
1729ء ایرانی بادشاہ نادرشاہ نے انہیں واپس دھکیلا اوران کے قبضے سے تمام علاقے چھڑائے
حتٰی کہ 1738ء میں قندھار اور غزنی پر بھی قبضہ کرلیا جو 1747 ء تک قائم رہا ۔ پشتواور فارسی بولنے والوں کی یہ کشمکش آج بھی جاری ہے حالانکہ یہ دونوں مسلمان ہیں۔
درانی سلطنت (1747ء سے 1823ء)۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد شاہ درانی کو بجا طور پر افغانستان کا بانی کہا جاتا ہے۔ احمد شاہ درانی کو احمد شاہ ابدالی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
جون 1747ء میں نادر شاہ قتل ہو گیا جس کے بعد لویہ جرگہ نے ابدالی قبیلہ کے احمد شاہ ابدالی کو سربراہ چن لیا۔ پہلے قندھار میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد احمد شاہ درانی نے تما م تر قوت افغانستان کو ایک ملک بنانے میں صرف کی ۔ درانی سلطنت میں موجود ایران ، افغانستان ، پاکستان اور بھارت کے کچھ علاقے شامل تھے۔ ان کی سلطنت میں ایران کے مشہور شہر مشہد سے لے کر کشمیر اور موجودہ بھارت کے شہر دہلی تک کے علاقے شامل تھے۔
احمد شا ہ درانی کا ایک اہم کارنامہ جنوری 1761ء میں ” پانی پت کی تیسری جنگ” میں مرہٹوں کو شکست دینا شامل تھا لیکن اس جنگ کے بعد سکھوں نے پنجاب میں اثر بڑھانا شروع کیا اور آہستہ آہستہ پنجاب کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا لیکن اس وقت تک افغانستان کو ایک مضبوط ملک کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔
1772ء تک احمد شاہ درانی اوراس کے بعد اس کی اولاد کی حکومت رہی۔
اس کی اولاد میں ایوب شاہ کو 1823 ء میں قتل کر دیا گیا
بعد میں کابل کی حکومت محمد شاہ اور پھر 1826ء میں دوست محمد خان کے پاس چلی گئی۔
یورپی اثر (1823ء 1919) ۔۔۔۔۔۔۔۔
امیر دوست محمد خان جس نے کابل کی حکومت 1826ء میں سنبھال لی تھی روس اور ایران سے تعلقات بڑھانا شروع کیے کیونکہ سکھوں نے پنجاب پر قبضہ کرلیا تھا اور انگریزوں نے اپنی روایتی چالاکی کا ثبوت دیتے ہوئے سکھوں اور دہلی کے شاہ شجاع کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنا اثربڑھانا شروع کیا حالانکہ دونوں انگریزوں کے بظاہر دشمن تھے۔ شاہ شجاع کو انگریزوں نے کابل کے تخت کے سبز باغ دکھائے، اس زمانے میں روس اور برطانیہ ہند کے درمیان کئی ہزار میل کا فاصلہ تھا اور وسطی ایشیاء کے شہروں مدو، خیوا، بخارا، اور تاشقند کو مغرب میں زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے مگر انگریز یہ جانتے تھے کہ روسی ان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو روکنے اور افغانستان میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے انگریزوں کی مکارانہ جدوجہد کو عظیم چال بازی [SUP](The Great Game)[/SUP] کے نا م کے سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں انگریزوں نے دو جنگیں لڑیں۔
پہلی جنگ (1839ء سے 1842 ) کے درمیان ہوئی، اس وقت ایرانیوں نے ہرات کے لوگوں کے ساتھ مل کر انگریزوں اور روسیوں کو افغانستان سے بے دخل کرنے کے لیے افواج پورے ملک میں روانہ کیں۔ انگریزوں نے کابل پرقبضہ کر کے دوست محمد خان کو گرفتار کر لیا۔ افغانستان نے برطانوی فوج کے ایک حصے کو مکمل طور پر قتل کردیا جو سولہ ہزار افراد پر مشتمل تھی۔
صرف ایک شخص زندہ بچا۔ انگریز مدتوں اپنے زخم چاٹتے رہے اسی وجہ سے مجبوراَ انگریزوں نے دوست محمد خان کو رہا کر دیا۔ بعد میں دوست محمد نے ہرات کو بھی فتح کر لیا
دوسری جنگ (1878ء سے 1880 ا) کے درمیان ہوئی اس وقت امیر شیرعلی نے برطانوی سفارت کاروں کو کابل میں رہنے کی اجازت نہیں دی ۔
اس جنگ کے بعد انگریزوں کی ایماء پر 1880ء میں امیر عبدالرحمن نے افغانستان کا اقتدار حاصل کیا مگر عملاً کابل کے خارجی معاملات انگریزوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔
اثر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے افغانستان میں سرحدوں کے تعین کا معاہدہ بھی کیا۔ امیر عبدالرحمن کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان بعد میں افغانستان کے بادشاہ بنے۔ ان کے دور میں افغانستان میں مغربی مدرسے کھلے اور انگریزوں کا اثر مزید بڑھ گیا۔ اگرچہ بظاہرانگریزوں نے افغانستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا ۔
1907ء میں امیر حبیب اللہ خان نے انگریزوں کی دعوت پر برطانوی ھند کا دورہ بھی کیا۔
اسی مغربی دوستی اور اثر کی وجہ سے امیر حبیب اللہ خان کو اس کے رشتہ داروں نے 20 فروری 1919ء قتل کر دیا۔
اس کے بعد ان کا بیٹا امان اللہ خان بادشاہ بن گیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی
مگر 19 اگست 1919ء کو ان کے اور انگریزوں کے درمیان راولپنڈی میں ایک معاہدہ ہوا جس میں انگریزوں نے افغانستان پر اپنا کنٹرول ختم کیا۔
19 اگست 1919ء اسی وجہ سے افغانستان کی یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔
آزادی کے بعد (1919ء سے 1978) ۔۔۔۔۔۔۔
امان اللہ خان نے 1919ء میں اقتدار سنبھالا اور وہ 1929ء تک افغانستان کا اقتدار سنبھالا۔ انہوں نے کئی اصلاحات کیں اور مغربی دنیاسے تعلقات قائم کیے۔ اصلاحات میں بنیادی تعلیم کا لازمی قرار دینا اور مغربی طرز کی دیگر اصلاحات شامل تھیں ۔
انہوں نے 1921ء میں افغانستان میں ہوائی فوج بھی بنائی جس کے جہاز روس سے آئے لیکن افواج کی تربیت ترکی اور فرانس نے کی ۔
1927ء میں امان اللہ خان نے یورپ اور ترکی کا دورہ بھی کیا جس میں انہوں نے مغربی مادی ترقی کا جائزہ لیا اور افغانستان میں ویسی ترقی کی خواہش ظاہر کی مگر جب انہوں نے کمال اتاترک کی طرز پر خواتین کے پردے پر پابندی لگانے کی کوشش کی تو قبائل میں بغاوت پھوٹ پڑی اور تمام افغان اس کے سخت خلاف ہو گئے۔
شینواری قبائل نے نومبر 1928ء میں جلال آباد سے بغاوت شروع کی اور دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ شمال سے تاجک کابل کی طرف بڑھنے لگے۔
امان اللہ خان پہلے قندھار بھاگا اور فوج تیار کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوا جس کے بعد وہ بھارت فرار ہو گیا۔
وہاں سے پہلے اٹلی اور بعد میں سوئزرلینڈ میں پناہ لی جہاں 1960ء میں ان کا انتقال ہوا۔
اس بغاوت کے دوران جنوری 1929ء میں حبیب اللہ کلاکانی نے کابل پر قبضہ کیا اور حبیب اللہ شاہ غازی کے نام سے حکومت قائم کی
مگر اکتوبر 1929ء میں جنرل نادر خان کی فوج نے کابل کو گھیر لیا جس پر حبیب اللہ کلاکانی فرار ہو کر اپنے گاؤں چلا گیا۔ جنرل نادر خان کو انگریزوں کی مکمل حمایت حاصل تھی، انہوں نے جنرل نادر خان کو ہتھیار اور رقم دی، اس کے علاوہ انگریزوں نے جنرل نادرخان کو ایک ہزار نفری کی فوج بھی تیار کرا دی تھی جو وزیر قبائل پر مشتمل تھی۔
جنرل نادر خان کو 1933ء میں کابل کے ایک طالب علم نے قتل کر دیا جس کے بعد اس کے 19 سالہ بیٹے ظاہر شاہ بادشاہ بن گئے۔
ظاہر شاہ 1933ء سے 1973ء تک افغانستان پر حکومت کی، وہ افغانستان کا آخری بادشاہ بھی تھا۔ اس نے کئی وزیر اعظم تبدیل کئے جن کی مد د سے اس نے حکومت کی۔
ان میں سے ایک سردار محمد داؤد خان ( المعروف سردار داؤد) جو ان کے کزن بھی تھے۔ سردار داؤد نے روس اور بھارت سے تعلقات بڑھائے۔ اسے پاکستان سے نفرت تھی، پاکستان سے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے افغانستان کو اقتصادی مشکلات کا سامنا رہا اور سردار داؤد کو 1963ء میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔
سردار داؤد نے دس سال بعد 17 جولائی 1973ء کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ اس بغاوت میں سوویت یونین کی انہیں مدد حاصل تھی۔
ظاہر شاہ فرار ہو کراٹلی چلے گئے ۔
27اپریل 1978ء کو سردار داؤد کو ایک بغاوت کے نتیجے میں قتل کر دیا گیا
اور نور محمد ترہ کئی صدر بن گئے۔ اس بغاوت کو بھی روس کی مدد سے ممکن بنا دیا گیا۔
اس حکومت نے کمیونزم کو رائج کرنے کی کوشش کی اور روس کی ہر میدان میں مدد لی جن میں سڑکوں کی تعمیرسے لے کر فوجی مدد تک سب کچھ شامل تھا۔ روس کی یہ کامیابی امریکہ کو پسند نہیں آئی۔ چنانچہ سی آئی اے نے افغانستان میں اسلامی قوتوں کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ جس سے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے۔
نتیجاً 1979ء میں روس نے ترہ کئی کی دعوت پرافغانستان میں اپنی فوجی اتار دی اور عملاً افغانستان پراسی طرح روس کا قبضہ ہو گیا جس طرح آج کل امریکہ کا قبضہ ہے۔