ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
دخل الأب منزله كعادته في ساعة متقدمة من الليل وإذ به يسمع بكاءً صادراً من غرفة ولده ،
باپ اپنی عادت کے مطا بق رات کو جلدی گھر واپس آتا ہے
اور اپنے بیٹے کے کمرے سے رونے کی آواز سنتا ہے
دخل عليه فزعاً متسائلاً عن سبب بكائه ، فرد الابن بصعوبة : لقد مات جارنا فلان
( جد صديقي أحمد ) ،
باپ گھبرا کر اُس کے کمرے میں جا تا ہے اور اُس کے رونے کا سبب پوچھتا ہے
بیٹا بڑے دکھ کے ساتھ جواب دیتا ہے
ہمارا فلاں پڑوسی فوت ہو گیا ہے (میرے دوست احمد کا دادا )
فقال الأب متعجباً !!!!!:
باپ متعجب ہو کر :
ماذا ! مات فلان ! فليمت عجوز عاش دهراً وهو ليس في سنك .. وتبكي عليه يا لك من ولد أحمق لقد أفزعتني .. ظننت أن كارثة قد حلت بالبيت ، كل هذا البكاء لأجل ذاك العجوز ، ربما لو أني متُ لما بكيت عليَّ هكذا !
کیا وہ بوڑھا مر گیا ہے وہ تمہارا ہم عمر تو نہیں تھا،تم اُس کے لیے رو رہے ہو تم نے تو مجھے
ڈرا ہی دیا،میں سمجھا گھر میں کوئی حادثہ ہو گیا ہے
یہ تمہارا سارا رونا دھونا اُس بوڑھے کے لیے ہے۔۔اگر میں مر گیا ہوتا تو تم میرے لیے اسطرح نہ روتے
نظر الابن إلى أبيه بعيون دامعة كسيرة قائلاً : نعم لن أبكيك مثله ! هو من أخذ بيدي إلى الجمع والجماعة في صلاة الفجر ، هو من حذرني من رفاق السوء ودلني على رفقاء الصلاح والتقوى ، هو من شجعني على حفظ القرآن وترديد الأذكار .
بیٹا آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ کہتا ہے : جی ہاں میں آپ کے لیے اس طرح نہ روتا !
اُسی بوڑھے نے مجھے نماز فجر اور باجماعت نماز کا عادی بنایا
وہ مجھے بُرے دوستوں سے بچنے اور اچھے دوستوں اور تقویٰ کی تلقین کرتا تھا
اُس نے قرآن کریم کے حفظ کرنے اور اذکار کرنے پر میری حوصلہ افزائی کی
أنت ماذا فعلت لي ؟ كنت لي أباً بالاسم ، كنت أباً لجسدي ، أما هو فقد كان أباً لروحي ، اليوم أبكيه وسأظل أبكيه لأنه هو الأب الحقيقي ، ونشج بالبكاء ..
آپ نے میرے لیے کیا کیا؟ آپ میرے نام کے باپ ہیں، میرے جسمانی باپ ، لیکن وہ ، وہ میرا روحانی باپ تھا
آج میں روؤں کا اور روتا رہوں گا کیونکہ وہ میرا حقیقی باپ تھا ،اور اونچی رونا شروع کردیا
عندئذ تنبه الأب من غلته وتأثر بكلامه واقشعر جلده وكادت دموعه أن تسقط .. فاحتضن ابنه ومنذ ذلك اليوم لم يترك أي صلاة في المسجد .
اُس وقت باپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے وہ اپنے بیٹے کی باتوں سے متاثر ہوتا ہے
اُس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں قریب تھا کہ وہ رو پڑتا ۔۔ وہ اپنے بیٹے کو گلے لگاتا ہے
اُس دن سے اُس کی کوئی نماز باجماعت نہیں چھوٹتی۔
باپ اپنی عادت کے مطا بق رات کو جلدی گھر واپس آتا ہے
اور اپنے بیٹے کے کمرے سے رونے کی آواز سنتا ہے
دخل عليه فزعاً متسائلاً عن سبب بكائه ، فرد الابن بصعوبة : لقد مات جارنا فلان
( جد صديقي أحمد ) ،
باپ گھبرا کر اُس کے کمرے میں جا تا ہے اور اُس کے رونے کا سبب پوچھتا ہے
بیٹا بڑے دکھ کے ساتھ جواب دیتا ہے
ہمارا فلاں پڑوسی فوت ہو گیا ہے (میرے دوست احمد کا دادا )
فقال الأب متعجباً !!!!!:
باپ متعجب ہو کر :
ماذا ! مات فلان ! فليمت عجوز عاش دهراً وهو ليس في سنك .. وتبكي عليه يا لك من ولد أحمق لقد أفزعتني .. ظننت أن كارثة قد حلت بالبيت ، كل هذا البكاء لأجل ذاك العجوز ، ربما لو أني متُ لما بكيت عليَّ هكذا !
کیا وہ بوڑھا مر گیا ہے وہ تمہارا ہم عمر تو نہیں تھا،تم اُس کے لیے رو رہے ہو تم نے تو مجھے
ڈرا ہی دیا،میں سمجھا گھر میں کوئی حادثہ ہو گیا ہے
یہ تمہارا سارا رونا دھونا اُس بوڑھے کے لیے ہے۔۔اگر میں مر گیا ہوتا تو تم میرے لیے اسطرح نہ روتے
نظر الابن إلى أبيه بعيون دامعة كسيرة قائلاً : نعم لن أبكيك مثله ! هو من أخذ بيدي إلى الجمع والجماعة في صلاة الفجر ، هو من حذرني من رفاق السوء ودلني على رفقاء الصلاح والتقوى ، هو من شجعني على حفظ القرآن وترديد الأذكار .
بیٹا آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ کہتا ہے : جی ہاں میں آپ کے لیے اس طرح نہ روتا !
اُسی بوڑھے نے مجھے نماز فجر اور باجماعت نماز کا عادی بنایا
وہ مجھے بُرے دوستوں سے بچنے اور اچھے دوستوں اور تقویٰ کی تلقین کرتا تھا
اُس نے قرآن کریم کے حفظ کرنے اور اذکار کرنے پر میری حوصلہ افزائی کی
أنت ماذا فعلت لي ؟ كنت لي أباً بالاسم ، كنت أباً لجسدي ، أما هو فقد كان أباً لروحي ، اليوم أبكيه وسأظل أبكيه لأنه هو الأب الحقيقي ، ونشج بالبكاء ..
آپ نے میرے لیے کیا کیا؟ آپ میرے نام کے باپ ہیں، میرے جسمانی باپ ، لیکن وہ ، وہ میرا روحانی باپ تھا
آج میں روؤں کا اور روتا رہوں گا کیونکہ وہ میرا حقیقی باپ تھا ،اور اونچی رونا شروع کردیا
عندئذ تنبه الأب من غلته وتأثر بكلامه واقشعر جلده وكادت دموعه أن تسقط .. فاحتضن ابنه ومنذ ذلك اليوم لم يترك أي صلاة في المسجد .
اُس وقت باپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے وہ اپنے بیٹے کی باتوں سے متاثر ہوتا ہے
اُس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں قریب تھا کہ وہ رو پڑتا ۔۔ وہ اپنے بیٹے کو گلے لگاتا ہے
اُس دن سے اُس کی کوئی نماز باجماعت نہیں چھوٹتی۔