• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"الحاد کا معنی و مفہوم (دور حاضر میں جدید الحاد کی تقسیم) "

شمولیت
فروری 27، 2025
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
5
الحاد عربی زبان کا لفظ ہے ۔ جو لحد سے اسم صفت ہے ، لحد اس قبر کو کہا جاتا ہے جس کو کھودائی کے ایک طرف بنایا جاتا ہے ۔ اس کا ایک معنی " ٹیڑھے پن " کا بھی بیان ہوا ہے اس کو کج روی اور تنگی کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ اصطلاحی اعتبار سے ایسا شخص جو دین حنیف دین حق سے کجی روی اختیار کر لے ، دین میں ٹیڑھ پن اختیار کرے ، سیدھے راستے سے ہٹ کر باطل راستوں کو اختیار کرکے جو راستہ اختیار کرے اسے الحاد کہتے ہیں ۔ اور الحاد اختیار کرنے والے شخص کو ملحد کہا جاتا ہے ۔
ملحد Atheist ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی بھی دین کو نہ ماننے والا ہو ۔ خدا کے وجود کا انکار کرے اور تمام مذاہب کی تعلیمات کے خلاف ایک الگ رائے اختیار کرے ۔ تمام مذاہب کو انسانی دماغ کی اختراع قرار دے۔
آپ کے سامنے ہم کچھ ایسی تعریفات رکھیں گے جس سے مضمون کو سمجھنے میں مزید آسانی ہو جائے گی ۔
وقال ابن فارس-رحمه الله تعالى- في معناها:(لحد: اللام والحاء والدال أصل يدل على ميل عن استقامة, يقال: ألحد الرجل، إذ مال عن طريقة الحق والإيمان), وبمعنى آخر:(الملحدُ: العادل عن الحق المُدخل فيه ما ليس منه)
ابن فارس-رحمت اللہ علیہ- نے اس کے معنی میں فرمایا: (لحد: لام، حاء اور دال کی اصل ایک ایسی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے جو سیدھے راستے سے انحراف کرتی ہے، کہا جاتا ہے: ألحد الرجل، جب وہ حق اور ایمان کے راستے سے مڑ جاتا ہے) اور ایک اور معنی میں: (ملحد: وہ ہے جو حق سے منحرف ہو کر اس میں وہ چیزیں داخل کرتا ہے جو اس کا حصہ نہیں ہیں)
أصول الفرق والأديان والمذاهب الفكرية: الدكتور: سفر الحوالي, ص110
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف ۔۔
وبيَّن الإمام ابن تيمية -رحمه الله تعالى-معنى الإلحاد بمثل معناه المعاصر, فقال:(فإنَّ الإلحاد المحض، نفي الصانع بالكلية, وأنَّ هذا العالم الموجود ليس له صانع)
امام ابن تیمیہ -رحمت اللہ علیہ- نے الحاد کا معنی معاصر معنی کے مطابق بیان کیا، فرمایا: (پس حقیقی الحاد یہ ہے کہ صانع کا بالکل انکار کیا جائے، اور یہ کہ یہ موجودہ عالم بغیر کسی صانع کے ہے)
جامع المسائل-المجموعة الرابعة: شيخ الإسلام ابن تيمية, 1/425
امام شھرستانی رحمہ اللہ کا موقف ۔
قال الشهرستاني -رحمه الله تعالى-: ( أمَّا تعطيل العالم عن الصانع العظيم، القادر الحكيم، فلست أراها مقالة، ولا أعرف عليه صاحب مقالة، إلا ما نقل عن شرذمة قليلة من الدهرية
الشہرستانی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا: (جہاں تک دنیا کو عظیم صانع، قادر اور حکیم سے معطل کرنے کا تعلق ہے، میں اسے کوئی بات نہیں سمجھتا، اور نہ ہی میں نے اس پر کسی کا قول سنا ہے، سوائے اس کے کہ کچھ کمزور دہریوں کی طرف سے نقل کیا گیا ہے۔)
صالح بن حسین الجعفری لفظ دھریہ کی تعریف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔
الدهریہ: وہ لوگ ہیں جو دنیا کی قدیمیت، اور وقت کی قدیمیت کا دعویٰ کرتے ہیں، اور ربوبیت، عذاب و ثواب، اور دوبارہ پیدا ہونے کا انکار کرتے ہیں، اور نہ تو حدود و احکام کو مانتے ہیں، اور نہ ہی اللہ کی طرف سے بھیجی گئی رسالتوں کو مانتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ظنون پر مبنی ہے، جیسے کہ ہر دور کے ملحدین کا حال ہے۔ وہ اس قدرت کا ذکر کرتے ہیں جو کائنات کو زندہ رکھتی ہے اور اس میں تصرف کرتی ہے، اور وقت کا جو فنا کرتا ہے، انہیں ملحدین کہا جاتا ہے۔ خالق نے ان کے الحاد کے بارے میں خبر دی، فرمایا : ((وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْر)) الجاثیہ: ٢٤، دیکھیں: الحور العین: نشوان بن سعید الحمیری یمنی، ص143؛ اور تورات و انجیل میں تحریف کرنے والوں کی تخجیل: صالح بن حسین الجعفری،
1/278
ڈاکٹر سعید القحطانی کا موقف
بيَّن الدكتور سعيد القحطاني أنَّ المراد بالملحدين في هذا العصر: (من أنكروا وجود رب خالق لهذا الكون، متصرف فيه، يدبر أمره بعلمه وحكمته، ويجري أحداثه بإرادته وقدرته واعتبار الكون أو مادته الأولى أزلية، واعتبار تغيراته قد تمت بالمصادفة، أو بمقتضى طبيعة المادة وقوانينها واعتبار الحياة ... من أثر التطور الذاتي للمادة )
كيفية دعوة الملحدين إلى اللَّه تعالى في ضوء الكتاب والسنة: د. سعيد بن علي بن وهف القحطاني, ص8 ؛ ومقالة بعنوان: الواقع الإلحادي المعاصر: إيمان بنت إبراهيم الرشيد شبكة الألوكة: الرابط الإلكتروني:(www.alukah.net), ص3.
ڈاکٹر سعید القحطانی نے وضاحت کی کہ اس دور میں ملحدین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس کائنات کے لیے ایک خالق رب کے وجود کا انکار کرتے ہیں، جو اس میں تصرف کرتے ہیں، اپنے علم اور حکمت سے اس کا انتظام کرتے ہیں، اور اپنی مرضی اور قدرت سے اس کے واقعات کو جاری رکھتے ہیں، اور کائنات یا اس کے ابتدائی مادہ کو ازلی سمجھتے ہیں، اور اس کی تبدیلیوں کو اتفاقی یا مادہ کی فطرت اور قوانین کے مطابق سمجھتے ہیں، اور زندگی کو ... مادہ کی خود بخود ترقی کا اثر سمجھتے ہیں)
مندرجہ بالا تمام تر تعریفات سے چند نقات سمجھ میں آتے ہیں ۔ ملحد یا دھریہ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو مادہ کی قدیمیت اور ازلی ہونے کا قائل ہو ۔ اس کائنات کو مصنوع نہ سمجھتا ہو ، صانع اور خالق کا انکار کرتا ہو ، شریعت ، دین یا مذاہب کے مقابلے میں اپنی عقل کو بلا دلیل مقدم اور حق پر سمجھتا ہو ، یہ قیامت ، علم غیب ، جنوں ، فرشتوں اور سزا وجزاء کا انکار کرتا ہے ۔ غرض یہ ملحدین سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات خود بخود ارتقاء پذیر ہے ۔ جس کا کسی خدائی نظام سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
ھشام عزمی رقمطراز ہیں ۔
(الملحدهو المنكر لوجود الله تعالى, سواء لاعتقاده الجازمِ باستحالة وجود خالق (Strong Atheist), أو أنَّ وجودهُ أمرٌ ضعيف الاحتمال جدًا (Defacto Atheist)
ملحد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرتا ہے، چاہے اس کے پاس خالق کے وجود کی ناممکنیت کا پختہ عقیدہ ہو (Strong Atheist)، یا یہ کہ وہ وجود پر بہت کمزور احتمال رکھتا ہو (Defacto Atheist)۔
الإلحاد للمبتدئين دليلك المختصر في الحوار بين الإيمان والإلحاد: د. هشام عزمي
ھشام عزمی بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ملحدین کی بھی دو اقسام ایسی ہیں جن میں ایسے ملحدین ہیں جو خدا کے وجود کی نا ممکنیت کا پختہ ایمان رکھتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو الحاد اختیار کرنے میں کمزوریاں رکھتے ہیں اور الحاد کو کسی فیشن کے طور پر یا الحاد کو لا علمی میں اختیار کئے ہوئےہیں ۔
ڈاکٹر عبدالرحمٰن بدوی نے اس تعریف کو مزید آسان کیا ہے۔
على الرغم من أنَّ الإلحاد الجديد صناعة أوربية بامتياز, إلا أنَّه لیس هناك إجماع بين الغربيين المتأخرين والمعاصرين على تعريف الإلحاد, ولكنَّهم عبروا عن الإلحاد بكلمات متشابهة مشتقة من اللفظ اليوناني(ATHEOS), وتتكون هذه الكلمة من مقطعين(A), بمعنى فقدان أو غياب و(THEOS), بمعنى الإله, ويكون معنى الكلمة (ATHEOS), بمعنى نفي الإله أو نفي الله وتطلق على الشخص الذي لا يعتقد بالإيمان بالله, سواء نفى وجوده, أم لا
موسوعة الفلسفة: د. عبد الرحمن بدوي, 1/219.
اگرچہ جدید الحاد ایک خاص طور پر یورپی مظہر ہے، لیکن مغربی لوگوں کے درمیان الحاد کی تعریف پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ تاہم، انہوں نے الحاد کو ایسے الفاظ کے ذریعے بیان کیا ہے جو یونانی لفظ (ATHEOS) سے ماخوذ ہیں۔ یہ لفظ دو حصوں پر مشتمل ہے: (A) جس کا مطلب ہے فقدان یا عدم، اور (THEOS) جس کا مطلب ہے خدا۔ اس طرح، (ATHEOS) کا مطلب ہے خدا کا انکار یا خدا کی نفی، اور یہ اس شخص پر اطلاق ہوتا ہے جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا، چاہے وہ اس کے وجود کا انکار کرے یا نہ کرے۔
موسوعۃ الفلسفہ کی اس عبارت سے یہ بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ ملحد یا Atheist بالواسطہ یا بلا واسطہ ایک ایسے ہی شخص کو کہا جاتا ہے جو خدا کا انکار کرتا ہے ۔ خدا کے انکار کے بعد وحی الٰہی کا انکار لازمی ہے ۔ وحی الٰہی کا انکار ہوا تو تقدیر الٰہی کا انکار ہو گیا ۔ اللہ کے فرشتوں اور مبعوث کئے گئے رسولوں اور نبیوں کا انکار ہو گیا ، اور پھر ان تمام تر آسمانی کتب اور صحائف کا انکار ہو گیا ۔
اگر ہم اپنے معاشرے اور دنیا کی تاریخ کا اندازہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ گزشتہ تین دہائیوں میں دنیا میں ایسے غیر معمولی واقعات رونما ہوئے جس کی وجہ سے دنیا کا امن دائو پر لگ گیا ، دوسری جنگ عظیم ، روس کا افغانستان پر حملہ ، پھر 11 ستمبر 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹا گون پر حملے کا واقعہ ، نیٹو افواج کا افغانستان میں تقریبا 20 سال سے زائد قیام اور اسی دوران ، شام ، عراق ، لیبیا ، تیونس ، مصر ، کشمیر اور فلسطین کی خونریز جنگوں کے غیر معمولی واقعات ۔ جس میں صلیبی اور سیکولر ممالک کی افواج نے 10 لاکھ سے زائد مسلمانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا ۔ اس دوران عالمی استعمار کو ضرورت تھی کہ وہ " سیکولرائزیشن " کے عمل کو عام کرتے ، مسلمانوں میں پائی جانے والی جہاد کی تعلیمات کو اسلام کی راہ سے ہٹا کر پیش کرتے ، خوارج پیدا کر کے مسلمانوں میں انتہاء پسندی اور دہشت گردی جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ، اور ان تمام تر برائیوں اور منفیات کا مظہر مذہب کو قرار دیتے ۔۔ لا مذہبیت کو پھیلانے میں مدد گار لٹریچر ، سوشل اور الیکٹرانگ میڈیا وار فئیر سے مدد لیتے اس لئے انہوں نے میڈیا وار سے فسرسودہ فلسفیانہ اور ملحدانہ تعلیمات کو عام کرنا شرو ع کیا اور پوری دنیا میں لبرل ازم اور سیکولر ازم کے فروغ کے لئے کام کرنے لگے ۔۔۔
ھشام عزمی نے اس پر بہترین تبصرہ کیا ہے ۔
الإلحاد الجديد شاع بعد أحداث الحادي عشر من سبتمبر, وما قبلها كان الملحدون لا سيما في أوروبا وأمريكيا منخرطون كثيرًا في الطعن في الأديان, أو بالدعوة إلى استئصال تلك الأديان ومحوها من المجتمعات البشرية, وممَّا زاد من النزعة العدائية بعد هذه الأحداث هو إعلان رئيس الولايات المتحدة الأمريكية جورج بوش (الابن) الحرب الصليبية على العالم الإسلامي, فقامت بغزو أفغانستان والعراق, فشعر الملحدون أنَّ حروب الأديان ستؤدي إلى قيام حرب عالمية ثالثة تبيد الجنس البشري بأكمله, وأنَّ الأديان بهذه الصورة أصبحت خطرًا على الحضارة, وأنَّه لا خلاص منها إلَّا بأن يصبح النَّاس والعالم بلا دين۔۔
الإلحاد للمبتدئين: د. هشام عزمي, ص15-16
"نیا الحاد" گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد عام ہوا، جبکہ اس سے پہلے ملحدین، خاص طور پر یورپ اور امریکہ میں، مذہبوں پر تنقید کرنے یا ان مذہبوں کو ختم کرنے اور انسانی معاشروں سے مٹانے کی دعوت دینے میں مصروف تھے۔ ان واقعات کے بعد بڑھتی ہوئی دشمنی کی ایک وجہ یہ تھی کہ امریکہ کے صدر جارج بش (بیٹے) نے اسلامی دنیا کے خلاف صلیبی جنگ کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں افغانستان اور عراق پر حملہ کیا گیا۔ ملحدین نے محسوس کیا کہ مذہبی جنگیں تیسری عالمی جنگ کا باعث بنیں گی جو انسانیت کو مکمل طور پر ختم کر دے گی، اور اس طرح مذہب اس صورت میں تہذیب کے لیے خطرہ بن گیا ہے، اور اس سے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ لوگ اور دنیا بے دین ہو جائیں۔
اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ عبداللہ بن صالح العجیری " سیکولرائزیشن " کے عمل کو کس طرح بیان کرتے ہیں ۔
فكان بعد هذه الأحداث تطور في وسائلِ الإعلام الغربي, وبحماسةٍ شديدة في الدعوة إلى الإلحاد فبدأ الإعلام في تناول مواضيع إلحادية نحو موضوع وجود الله (The God debate), بل واصبح للإلحاد الجديد رموزًا ونجومًا أمثال ريتشارد دوكنيز, تخاطب المجتمعات الغربية بوسائل متنوعة۔۔
مليشيا الإلحاد مدخل لفهم الإلحاد الجديد: عبد الله بن صالح العجيري, ص23.
ان واقعات کے بعد، مغربی میڈیا میں ایک تبدیلی آئی، اور بے حد جوش و خروش کے ساتھ الحاد کی تبلیغ کی جانے لگی۔ میڈیا نے خدا کے وجود کے موضوع (The God debate) جیسے الحادی موضوعات پر بات کرنا شروع کر دی، بلکہ نئے الحاد کے لیے رچرڈ ڈاکنز جیسے علامت اور ستارے بھی بن گئے، جو مختلف طریقوں سے مغربی معاشروں سے مخاطب ہوتے ہیں۔
دنیا میں globalization کے عمل کے بعد یہ کہنا تو اتنا درست نہ ہو گا کہ یہ الحادی نظریات صرف مغرب تک محدود رہے ۔ بلکہ سوشل میڈیا پر الحادی بحثوں کا وسیع پیمانے پر آغاز ہوا ۔ خیالات اور علم کی آزادانہ ترسیل ہونے لگی ۔ انٹرنیٹ کے بے لگامیت نے بہت سے نوخیز دماغوں پر اثر کیا ۔اور کروڑوں لوگ اس بے سند علم کے برے نتائج سے متاثر ہوئے ۔ جو لوگ ملحدین کا رد کر رہے ہیں وہ جانتے ہیں اس وقت عالمی سطح پر الحاد و دھریت پھیلانے کے لئے بہت سی تنظیمات کام کر رہی ہیں جو بہت پروفیشنل ہیں ، فنڈ ریزنگ کرتی ہیں اور الحاد کو بطور ایک عقیدہ کے سوشل میڈیا پر عام کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔
ڈاکٹر صابر عبدالرحمن طعیمۃ رقمطراز ہیں ۔
فالإلحاد المعاصر والجديد والمتمثل بإنكار وجود الله -I- وأنَّ المادة هي أصل الكون, والاعتقاد بالعلم التجريبي المبني على الفرضيات لا الحقائق, لم يعرف في تاريخ البشرية كظاهرة إلَّا في العصر الحديث في القرون الثلاثة الأخيرة, حيث ظهرت مذاهب وفلسفات تدعو إلى الإلحاد, وتجاهر في دعوتها بإنكار وجود الله -I- بل إنَّ الإلحاد الجديد برز كظاهرة معادية للدين, وبكل ما يحمل من تعاليم ومبادئ, وأخذ الأمر يتسع لا سيما في زمن انتشار وسائل التواصل الاجتماعي۔۔۔
الإلحاد الديني في مجتمعات المسلمين: د. صابر عبد الرحمن طعيمة, ص10-11
عصری اور جدید الحاد، جو خدا کے وجود کا انکار کرنے اور مادے کو کائنات کی اصل ماننے پر مبنی ہے، تاریخ انسانی میں ایک مظہر کے طور پر صرف جدید دور میں، پچھلی تین صدیوں میں سامنے آیا ہے۔ اس دوران مختلف مذاہب اور فلسفے الحاد کی دعوت دیتے ہیں اور خدا کے وجود کا انکار کرنے میں کھل کر پیش قدمی کرتے ہیں۔ جدید الحاد ایک مذہب مخالف مظہر کے طور پر ابھرا ہے، جو تمام تعلیمات اور اصولوں کے ساتھ ہے، اور یہ معاملہ خاص طور پر سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے دور میں بڑھتا جا رہا ہے۔
عمرو شریف رقمطراز ہیں ،
يرى البعض أنَّ بداية الإلحاد الجديد كانت في العام: (2006م), ففي هذا العام, ظهر في الغرب تغيرًا جديدًا في مفهوم الإلحاد أطلق عليه مصطلح: (الإلحاد الجديد), الذي لم يكتفِ بالأسلوب الفلسفي المنطقي, ونظرته للأمور نظرة ماديَّة, بل إنَّه رُفِض رفضًا شديدًا التعايش بين الإلحاد والدين, فضلًا عن ذلك لم يكتف بإنكاره للألوهية والمفاهيم الدينية, وطرحها للعلم التجريبي والتحليل العلمي, بل زاد على ذلك بتبني أسلوب الهجوم والسخرية من الدين والإيمان بالخالق --
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نئے الحاد کی شروعات 2006 میں ہوئی، اس سال مغرب میں الحاد کے تصور میں ایک نئی تبدیلی آئی جسے "نیا الحاد" کا نام دیا گیا۔ یہ صرف منطقی فلسفیانہ انداز تک محدود نہیں رہا، اور نہ ہی اس نے چیزوں کو مادی نقطہ نظر سے دیکھا، بلکہ اس نے مذہب اور الحاد کے درمیان کسی قسم کی ہم آہنگی کو سختی سے مسترد کر دیا۔ اس کے علاوہ، یہ صرف خدا کی ذات اور مذہبی تصورات کا انکار نہیں کرتا، بلکہ تجرباتی سائنس اور سائنسی تجزیے کے سامنے انہیں پیش کرتا ہے، اور اس سے آگے بڑھ کر مذہب اور خالق پر حملہ کرنے اور مذاق اڑانے کا طریقہ بھی اپناتا ہے۔
وهم الإلحاد: د. عمرو شريف, ص16 ؛ ومحاضرة بعنوان:( نشأة الإلحاد المعاصر):
ملحدین کی اقسام جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں ۔
٭ اللہ تعالیٰ کے اسماء صفات میں الحاد اختیار کرنا ۔
1: وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪-وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖؕ-سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(180)
اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں تو اسے ان ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں ، عنقریب اُنہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ (سورہ الاعراف )
بہت سے ملحدین ایسے ہیں جو اللہ کی صفات میں الحاد اختیار کرتے ہیں ۔امام ابن تیمیہ ، امام ابن قیم رحمھم اللہ و دیگر محدثین نے ان کی بہت سی اقسام بیان کی ہیں ، جیسے جہمیہ ، قدریہ ، جبریہ ، معتزلہ وغیرہ ۔
2: ایسے ملحدین جو الحاد پھیلانے کے لئے دینی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور ایسی نئی اصطلاحات پیش کرتے ہیں جو دینی اصولوں سےانحراف کے لئے انسانی دماغ ایجاد کرتے ہیں ۔۔
قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ ۖ أَتُجَادِلُونَنِي فِي أَسْمَاءٍ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا نَزَّلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ
اس نے کہا یقیناً تم پر تمھارے رب کی طرف سے ایک عذاب اور غضب آپڑا ہے، کیا تم مجھ سے ان ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نازل نہیں فرمائی۔ تو انتظار کرو، بے شک میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔
سورہ الاعراف :71
3: اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد اختیار کرنے والے ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَاؕ-اَفَمَنْ یُّلْقٰى فِی النَّارِ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ یَّاْتِیْۤ اٰمِنًا یَّوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْۙ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(40)
بیشک جو لوگ ہماری آیتوں میں سیدھی راہ سے ہٹتے ہیں وہ ہم پر پوشیدہ نہیں ہیں تو کیا جسے آ گ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت میں امان سے آئے گا۔ تم جو چاہو کرتے رہو،بیشک اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (سورہ حم سجدہ )
اسکی بہت سی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں ۔
4: فتنہ پیدا کرنے کے لئے ایسے لوگوں کا الحاد اختیار کرنا جو سبیل المومنین سے ہٹ کر قرآنی آیات کی تشریح و تاویل کرتے ہیں جن کے دل میں اللہ کی آیات کے بارے میں کج روی ہوتی ہے ۔
{هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللّٰهۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ 7}
''وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور تاویل کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر امان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں۔'' (آل عمران:7)
ایسے لوگوں کا اللہ کی آیات میں الحاد اختیار کرنا جو اللہ کی آیات پر مسلمانوں سے بلا دلیل جگھڑا کرتے ہیں ۔ ظاہری مفہوم کو بیان کر کے قرآنی آیات کا استھزاء کرتے ہیں ۔ سیاق و سباق اور حوالہ متن کے مطابق قرآنی آیات کا معنی و مقصود بیان نہیں کرتے تاکہ لوگ گمراہ ہو جائیں اور اللہ کے راستے سے ہٹ جائیں ۔
5: قرآن اور باقی آسمانی کتب کو انسانوں کی بنائی ہوئی کہانیاں کہنے والے:
وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ ۖ وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ وَإِن يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوا بِهَا ۚ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو تیری طرف کان لگاتے ہیں اور ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں، اس سے کہ وہ اسے سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ (رکھ دیا ہے) اور اگر وہ ہر نشانی دیکھ لیں، اس پر ایمان نہیں لائیں گے، یہاں تک کہ جب تیرے پاس جھگڑتے ہوئے آتے ہیں تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کہتے ہیں یہ پہلے لوگوں کی فرضی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں۔
سورہ الانعام: 25
6: ایسے ملحدین جو اللہ کی آیات کا مذاق بناتے استھزاء کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو حق سے پھسلا دیں ، گمراہ کر دیں الحاد اختیار کرنے پر مجبور کر دیں۔

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ ۚ وَيُجَادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ ۖ وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَمَا أُنذِرُوا هُزُوًا
اور ہم رسولوں کو نہیں بھیجتے مگر خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، باطل کو لے کر جھگڑا کرتے ہیں، تاکہ اس کے ساتھ حق کو پھسلا دیں اور انھوں نے میری آیات کو اور ان چیزوں کو جن سے انھیں ڈرایا گیا، مذاق بنا لیا۔ سورہ الکہف : 56
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں :’’ اگر کسی نام کی لغتِ عرب میں تعریف موجود نہ ہو جیسا زمین ، آسمان ، بحر ، شمس ، قمر کے نام ہیں ، اور نہ ہی اس کی تعریف شرعی اصطلاح میں موجود ہو جیسے صلوٰۃ ، زکاۃ ، حج ، ایمان ، کفر کے الفاظ ہیں تو ایسے لفظ کی تعریف متعین کرنے کیلئے عرف کو مدّ نظر رکھا جاتاہے ۔ جیسے قبض( کسی چیز کو قبضہ میں لینا ، حرز ، بیع ، رھن ، کِری (کرایہ )، وغیرہ کے الفاظ ہیں ( جن کی تعریف عرف کی رو سے متعین ہوتی ہے ) ۔ اسی طرح تکلیف ، گالم گلوچ ، سب وشتم میں عرف کی طرف رجوع کیا جائے گا ،لہٰذا جن الفاظ وکنایات وافعال کو اہل عرف گالی ، عیب جوئی ، اور طعنہ زنی شمار کرتے ہیں تو وہ استہزا شمار ہوگا وگرنہ نہیں ۔ لہٰذا اسی طرح اگر کوئی لفظ یا گالی غیر نبی کو دی گئی جس کی بنا پرکسی نہ کسی رو سے دینے والے پر کوئی حد یا تعزیر متعین ہوتی ہو وہ الفاظ اگر نبی کیلئے الفاظ استعمال کئے جائیں تو سب وشتم شمار ہوں گے ‘‘ الصارم المسلول ص ؍ 532

7: اللہ کی آیات اور اس سے ملاقات یعنی روز آخرت کا انکار کرنے والےملحد:

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا
یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے، سو ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ سورہ الکہف : 105
8: زندگی کو بغیر خالق کے ماننے والے ملحدین ، صانع کا انکار کرنے والے۔
فطرت کو خدا ماننے والے ملحدین ۔
وَ قَالُوْا مَا هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَ مَا یُهْلِكُنَاۤ اِلَّا الدَّهْرُۚ-وَ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍۚ-اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ(24)
اور بولے وہ تو نہیں مگر یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں زمانے کے علاوہ کوئی ہلاک نہیں کرتا اور اُنہیں اس کا علم نہیں وہ تو نِرے گمان دوڑاتے ہیں سورہ جاثیہ : 24
9: حرمین شریفین میں الحاد پھیلانے والے ۔۔۔
(إنه سيلحد فيه رجل من قريش، لو وزنت ذنوبه بذنوب الثقلين لرجحت. يعني: الحرم).
اسحاق بن سعید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: ابن زبیر! اللہ تعالیٰ کے حرم میں الحاد سے اجتناب کر، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”عنقریب ایک قریشی آدمی بیت اللہ کی بےحرمتی کرے گا، اگر (‏‏‏‏ کسی ترازو پر) اس کے گناہوں کا، جن و انس کے گناہوں کے ساتھ وزن کیا جائے، تو اس کا پلڑا بھاری ہو گا۔“ (‏‏‏‏اپنے کئے پر) غور و فکر کر لو، کہیں وہ تم ہی نہ ہو۔
10: اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو تکلیف دینے والے اور توھین کرنے والے ملحد:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(57)
بےشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے اُن کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے
سورہ الاحزاب : 73
ان شاء اللہ آئندہ تحریروں میں ہم اسی عنوان پر مزید تحریر کریں گے اور ملحدین کے اعتراضات کی روشنی میں ہی ملحدین کی تمام اقسام کا رد کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ازقلم : عبدالسلام فیصل
 
Top