کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
الحدیث واصحاب الحدیث
عزیز زبیدی
جہاں کچھ دوستوں کے لیے گالی بن گیا ہے وہاں وہ پوری ملّت اسلامیہ کے لیےاپنے اندربلا کی کشش بھی رکھتا ہے کیونکہ یہ وہ مبارک لاہوتی کیمرہ ہے جس میں حاہل قرآنﷺ کی ہو بہو تصویر دیکھی جاسکتی ہے او روہ مبارک آئینہ ہے جس میں قرآن پاک ’’مرئی‘‘ شکل میں مشہود اور موجود کیا جاسکتاہے، اگر کوئی دیکھنا چاہے کہ اپنے دور کے عصر مسائل اور تقاضوں سے کیسے عہدہ برآ ہوا جاسکتا ہے تو ان کو چاہیے کہ وہ اس ’’نبوی عہد مبارک‘‘ کے 23 سال کا مطالعہ کیجئے جو رسول کریم ﷺ کے شب و روز کا امین ہے۔جماعت اہل حدیث نے کتاب و سنت کے تحفظ، نشرواشاعت اور اتمام کے لیے ماضی میں جتنی اور جیسی کچھ روایات چھوڑی ہیں، وہ ان کی خدمات کا ایک سنہری باب ہے جسے اقوام و ملل کی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل رہے گا۔ تاریخ اسلام میں قرآن حکیم کے بعد جس موضوع کی تدوین، تہذیب اور تعلیم کی طرف سب سے پہلے توجہ دی گئی وہ علم حدیث کا موضوع ہے اور اس کی طرف سب سے پہلے جس گروہ نے توجہ دی وہ بھی طائفہ منصورہ یعنی اصحاب الحدیث تھے او ریہ وہ مبارک کارواں ہے جس نے احادیث کی تلاش میں روئے زمین کی خاک چھان ماری اور صفحہ ارضی پر پھیل کر چشم فلک کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔اصحاب الحدیث (اہل حدیث) یہ وہ تحریک ہے جس نے قرآن و حدیث کو ایک ساتھ لے کر چلنے پر خصوصی اصرار کیا او ران لوگوں کی سخت مزاحمت کی جنہوں نے کتاب و سنت کی موجودگی میں اپنے گردوپیش میں بھی کشش محسوس کی۔ خاص کر یہ دیکھ کر کہ کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی عظیم شخصیت کےہوتے ہوئے دوسری غیر سرکاری شخصیتوں کے افکار او راعمال کے مطالعہ میں کیوں کھو کر رہ گئے ہیں۔جیسے وہ بھی ’’فرستادہ خدا‘‘ ہوں تو ان کو خدا کا واسطہ دے کر ان سے اپنےتعامل پر نظر ثانی کی اپیلیں کیں او رکیے جارہے ہیں او رہر دور میں آگے بڑھ کر دنیا کے درپیش مسائل کے سلسلے میں کتاب و سنت کی روشنی مہیا کرکے مایوسی سے بچایا ہے۔
نہ جانے کس کو دیکھ ہے کہ اب تک
نگاہ آسماں سوئے زمین ہے
حدیث کے سلسلے میں اصحاب الحدیث نے پیدل جو سفر کیے ان میں صحرا اور دریا، پہاڑ اور سمندر، سردی اور گرمی ، غرض کوئی بھی جاں گسل مرحلہ ان کا راستہ نہ روک سکا ، اور ان کے ان ’’رحلات‘‘ کواس قدر مبارک تصور کیاگیا کہ ان کو دیکھ کر ہر شخص کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ انہی دیوانوں کے الٰہی اسفار میں دنیا کے دکھوں کی دوابھی ہے۔
نگاہ آسماں سوئے زمین ہے
اللہ تعالیٰ اصحاب الحدیث کے سفر کی برکت سے اس امت کی بلاؤں کو دور کرتا رہتا ہے۔ ایک تو اس کامفہوم یہی ہے کہ جن لوگوبں کے شب و روز کتاب اللہ کے بعد ’’حدیث پاک سیرت طیبہ‘‘ کے مطالعہ کے لیے وقف ہیں واقعی اللہ تعالیٰ ان کی برکت سے، ان کو مختلف مصائب اور ابتلاء سے بچا لیتا ہے:سرخیل اولیاء حضرات امام اعمش کے تلمیذ رشید اور حضرت امام ابوسفیان ثوری اور حضرت امام اوزاعی کے شیخ حضرت ابراہیم ابن اوہم متوفی 61 ھ اصحاب الحدیث کے ان کاروانوں کا نظارہ کرکےبول اٹھے کہ:
ان اللہ تعالیٰ یدفع البلاء عن ھذہ الامۃ برحلۃ اصحاب الحدیث (مقدمہ ابن الصلاح)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:حضرت امام ترمذی نے اپنی سنن کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’یہ ترمذی شریف (حدیث کی کتاب) جس گھر میں ہوگی اس میں گویا اللہ کے نبی بیٹھے باتیں کررہے ہیں۔
من کان فی بیتہ ھذا الکتاب فکانما بنی یتکلم (تذکرۃ الحفاظ)
اصحاب الحدیث کو شرف بھی حاصل ہے کہ یہ خوش نصیب لوگ ساری امت سے زیادہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود پڑھتے رہتے ہیں حضورﷺ کاارشاد ہے کہوما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم (پ9۔ سورہ انفال ع4)
’’اور (اے پیغمبر) خدا ایسا (بے مروّت) نہیں ہے کہ آپ ان (لوگوں)میں (موجود) ہوں اور (پھر) وہ (آپ کے ہوتے) ان کو عذاب دے۔‘‘
دوسرا اس کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا جب کبھی بظاہر لاینحل مسائل سے دوچار ہوئی ہے ۔ اصحاب الحدیث ہی نے کتاب و سنت کی روشنی مہیا کرکے ہمیشہ ان کی دستگیری کی ہے اور قرآن و حدیث کی مشعلیں روشن کرکے خلق خدا کو جہل و سرکشی کے مہلک اندھیروں سے نکالا ہے۔کیونکہ اصحاب الحدیث کا وجود دراصل وقت اور حالات کے دواعی اور مقتضیات کا جواب ہے۔ چنانچہ جن حضرات نے کتب احادیث کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور کے مسائل کو سامنے رکھ کر بتویب (عنان) مقرر کی اور لوگوں کونبوی حل مہیا کیے ہیں اور یہی ذمہ داری اب اس مبارک طاوفہ کے جانشین موجودہ اہلحدیثوں پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ چنانچہ ماضی قریب میں اس جماعت کے رہنماؤں نے احادیث پر کام کرکے جو نمونے پیش کیے وہ اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا ہے۔ ہاں یہ بھی ایک سانحہ ہے کہ اس میدان میں جو کام انفرادی طور پر افراد نےکیاہے جماعت کی تنظیموں نے نہیں کیا۔’’تو پھر (یہ درود) تیری دنیوی فکروں اور بے چینیوں کو کافی رہے گا۔‘‘
اذا یکفی ھمک و یکفر لک ذنبک (رواہ الترمذی وقال حدیث حسن)
بہرحال جماعت میں اب بھی زرخیز ذہن، علم و حکمت کے حامل اور عصری ضرورتوں سے آگاہ اہل دل علماء اور فضلاء موجود ہیں۔ ان سے کام لیا جاسکتا ہے ، اگر ان افاضل او راکابر کو موقعہ دیا جائے تو انداز ہے کہ ہم عصر حاضر کی لن ترانیوں کے سامنے شرمسار نہیں ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اصحاب الحدیث پہلے اپنی منزلیں متعین کریں پھر اس کے مطابق وسائل فراہم کیے جائیں او راللہ پر بھروسہ کرکے ملک و ملت کو جودارو چاہیے وہ پڑیہ شفا ان کو مہیا کردی جائے۔اب وقت ہے کہ اصحاب الحدیث میدان میں آگے آئین اور ’’شائیں بائیں‘‘ کے خول سے نکل کر ملک و ملت کو درپیش مسائل کے سلسلے میں کتاب وسنت کے حل پیش کریں، تحریر اور تقریر کے ذریعے جہل او ربے خبری کے اندھیروں اور ظلمات کے پردوں کوچاک کریں او رانی تحریر اور تقریروں کے دائروں کو وسیع کریں۔ جدید ضرورتوں کے مطابق حسب حال کتابیں تدوین کرکے خلق خدا کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔ بالخصوص معاملات کے بارے میں ملک و ملت بلکہ نوع انسانی کو جو جدید الجھنیں درپیش ہیں، ان کو حل کرنے کی کوشش کی جائے، بخدا ہمیں یہ دیکھ کر سخت اذیت ہوتی ہے کہ ہر منکر او رمدعی سنڈھ کی گندی لے کر میدان میں اتر آیا ہے او رکتاب و سنت کے بجائے ’’کہیں کی اینٹ او رکہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ کے مصداق اپنی پنی دکانیں سجا کر خلق خدا کو اسلام کے نام پر نجی اغراض کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور جو اس کے بجا وارث ہیں یعنی اصحاب الحدیث وہ اپنی سرکاری حیثیت کا احساس کرکے دنیا کو ہمہ گیر دعوت دینے کے بجائے چند سطحی امور کو اپنی مساعی جمیلہ کا ہدف بنا کر بیٹھ گئے ہیں بلکہ اس بحر بے کراں کو جوئے تنگ داماں میں محدود کرکے رکھ دیا ہے۔ یا للعجب!
۔۔۔۔۔:::::۔۔۔۔۔۔