یہ روایت قطعا صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے۔
سند میں موجود احوص بن حکیم ضعیف ہے۔
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
الأحوص بن حكيم ليس بقوي منكر الحديث
احوص بن حکیم یہ غیرقوی اور منکرالحدیث[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 327]
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
لا شيء
اس کی کوئی حیثیت نہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 327]
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
منكر الحديث
یہ منکرالحدیث ہے[كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني: ص: 6]
اس روایت کے دیگر جتنے بھی طرق ہیں وہ سب کے سب ضعیف ہیں۔
اوراس روایت کے کثیر الطرق ہونے کے باوجود بھی اس کے ہرطریق میں کوئی نہ کوئی ضعف ہونا اس بات کا قوی قرینہ ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
اگر اس کے صرف دو تین طریق ہوتے اوران میں معمولی ضعف ہوتا تو اس کے حسن لغیرہ کے بارے میں سوچا جاسکتا تھا لیکن اس کے اس قدر طرق ہونے کے باوجود بھی کسی بھی طریق کا علت سے خالی نہ ہونا یہی اشارہ کرتا ہے کہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔
۔